میرا بھارت مھان

’مہا بھارت‘ ایک دھارمک کتاب ہے جس میں بہت سی کتھاؤں کے ساتھ ساتھ ایک شروعاتی کتھا ہے کہ ’وشوا متر ‘ایک یوگی تھے جن کی تپسیا سے ’اندر دیو‘ بہت ڈر گئے تھے اور ان کا تخت (سنگھاسن) ’وشوا متر‘ کے پاس جاتا ہوا دکھنے لگا۔لہذا انھوں نے دیو لوک کی سب سے خوبصورت اپسرا ’مینکا ‘ کو ’وشوا متر‘ کی تپسیا میں اڑچن پیدا کرنے کے لیے زمین پر بھیجا۔مینکا نے ان کی’ تپسیا بھنگ‘ بھی کی اور بیوی بن کر ان کے ساتھ رہنے بھی لگیں۔اس طرح سے اند ر کا تخت ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔

اُدھر’ مینکا‘ کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام ’شکُنتلا‘ تھا۔یہ لڑکی بہت خوبصورت تھی۔اُس علاقہ کا راجا ’دُشینت‘ جنگل میں شکار کی غرض سے آیا تو اس کی نظر شکنتلا پرپڑی، پہلی ہی نظر میں اُسے اپنا دِل دے بیٹھا،دونوں کے دلوں میں پریم کا پودا اُپجا اور ان دونوں نے شادی کرلی۔ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام ’بھرت‘ تھا ۔بھرت پیدائش سے ہی بہت طاقتور، نڈر اور ہمت والا غیر معمولی بچہ تھا۔بھرت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنگل میں شیر کے بچوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔آگے چل کریہ بہت انصاف پسند چکرورتی راجہ ہوا۔ بھرت کے نام پرہی اس ملک کا نام ’بھارت ورش ‘یعنی ’بھرت کا ملک‘ پڑا اور یہی نام ملک کے آئین میں بھی درج ہوا۔

ان ’بھرت‘ سے پہلے بھی ایک بھرت ہوئے ہیں جو ’شری رام چندر جی‘ کے چھوٹے بھائی تھے۔ جنھوں نے تخت پر شری رام کی کھڑاؤں رکھ کر ۱۴؍سال حکومت کی اس کے بعدشری رام نے حکومت کی ذمہ داری نبھائی۔اس طرح سے اگر دیکھا جائے تو بھارت ورش پر حکومت کرنے والے بے شمار راجہ ہوئے ہیں جو بھارت کی شان رہے ہیں جیسیچندر گُپت موریہ،سمراٹ اشوک،سمندر گپت و چندر گپت ۔۲،ہرش وردھن،وکرما دتیہ ۔۲،راجہ بھوج،یشودھرمن،اموگھا ورشا،اندرا ۳،راجہ چھولا،راجندرا چھولا،وکرما دتیہ۔۶،رانا سانگا وغیرہ ۔’چارمینار‘،’ لال قلع‘، ’تاج محل‘، ’قطب مینار‘،’ جامع مسجد،’گرینڈ ٹرنک روڈ‘، ’مزائل‘ کی کھوج کرنے والے اور بنانے والے مسلم بادشاہوں کا نام تو لیا ہی نہیں گیا۔لیکن وہ’ بھرت ‘ جنکے نام پر اس ملک کانام بھارت ورش پڑا ان میں کون سی کمی تھی کہ ملک کے لیے ان کا نام مناسب نہیں سمجھا گیا لہذا ایک مردانا نام تبدیل کر کے زنانہ نام ’بھارت ماتا‘ کر دیا گیا؟

ماں کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے، قدرت نے اس کے برابر کچھ نہیں رکھا بلکہ ماں کی عزت بڑھانے کے لیے اس کے قدموں میں جنّت رکھ دی تاکہ اس متبرک شخصیت کی کوئی برابری نہ کر سکے۔لیکن کچھ لوگ اپنی کم عقلی سے ’چیچک‘ ایک موذی اور چھوت کا مرض ہے، اُسے بھی ’ماتا‘ کہتے ہیں۔ ندیوں میں مُردے پھینکے جاتے ہیں، ندیوں کے کنارے مردے جلائے جاتے ہیں اور ان کی ’اَستھیاں‘ ندیوں میں پھینکی جاتی ہے ، مِلوں و شہر کا فضلہ ندیوں میں ڈالا جاتا ہے، ان ندیوں کو بھی ’ ماتا‘کہا جاتا ہے۔گائے کو بھی ’ماتا‘ کہا جاتا ہے۔گائے اس وقت تک ’ماتا ‘ رہتی ہے جب تک دودھ دیتی ہے ، دودھ دینا بند تو کسائی سے سودا پکّا۔

’بھارت ورش‘کے ماتا بننے سے پہلے’یہ دیش ویر جوانوں کا، البیلوں کا مستانوں کا‘ ہوا کرتا تھا ۔ملک میں بھائی چارا تھا،گنگا جمنی تہذیب کا راج تھا،یہ ایسا چمن ہے جہا ں طرح طرح کے پھول کھلتے ہیں۔اسی سر زمیں پر کئی طرح کے مذہب کو ماننے والے آمنے سامنے اور ساتھ ساتھ صدیوں سے رہتے چلے آئے ہیں۔ یہاں کا آئین ایسا ہے کہ ہرکسی کو پوری آزادی ہے کہ وہ اپنے ڈھنگ سے اپنے مذہب کی پیروی کرے،اپنی عبادت گاہوں کو آباد کرے، اپنے رسم ورواج کے مطابق جلسے، جلوس نکالے۔یہاں کی ’انیکتا میں جو ایکتاہے ‘وہی بھارت کی مہانتا ہے۔

اچھے لوگ بھارت میں ہمیشہ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔وہ رات مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بابری مسجد شہید ہوئی، اندرا نگراے․بلاک، لکھنؤ میں میرا مکان ،کار سیوکوں کا جلوس، نعرے بازی، شور شرابا ، ڈر کا ماحول،میرا اکیلا مکان، بیوی اور دو چھوٹے بچوں کا ساتھ، کئی مسلم پریوار گھر چھوڑ کر جا چکے تھے، مجھے بھی چلے جانے کا مشورا دیاگیا لیکن میری حفاظت کے لیے اﷲ کافی تھا۔رات میں کچھ ہندو پڑوسی ہمارے پاس آئے اور بولے ’’دیکھئے خانصاحب! ہم لوگ چاہے جتنی تھالی اور شنکھ بجائیں لیکن آپ پر آنچ نہیں آنے دیں گے‘‘۔یہ تہذیب ہے مہان بھارت کی جو صدیوں سے قائم ہے اورسماجی رواداری، قومی یکجہتی کی بنیادوں کو مستحکم بناتی رہی ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دنگے ہم بھول جائیں، وہ نفرت کا ماحول بھی بھول جائیں جسمیں مسلمانوں کو جانی مالی نقصان پہنچایا گیا۔بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گھروں سے اٹھایا گیاکئی کئی سال تک جیلوں میں رکھا گیا اور ان کی جوانیاں بڑھاپے میں تبدیل کی گئیں۔مسلمانوں کے دلوں میں ڈر کا ماحول پیدا کیا گیا۔ یہ مظالم ہیں جو بھارت کی کی تہذیب کے خلاف ہیں۔انصاف کا خون اس طرح بھی کیا جاتا ہے بھگوا دہشت گردوں کو معصوم بتا کر ان کے خلاف مقدمے ختم کر دیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے کام وقت کے فرقہ پرست لوگ انجام دے رہے ہیں اور حکومت خاموش ہے۔یہ لوگ تاریخ بنا رہے ہیں اور آنے والے وقت میں’ہٹلر‘ جیسے ظالم لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔

اچھے اور بروں کا چولی دامن کا ساتھ ہمیشہ رہا ہے اور قیامت تک اسی طرح چلتے رہنا ہے اور اسی لیے رام کی تاریخ الگ رہی ہے اور راون الگ طرح سے پہچانا جاتا ہے، کرشن کی لیلائیں الگ ہیں وہیں کنس کی بدماشیاں الگ ہیں، ہریش چند کی اپنی پہچان ہے تو جے چند اپنے برے کاموں سے پہچانا جاتا ہے،نواب سراج الدولہ کی انگریزوں سے ہارکی وجہ میر جعفر اور میر صادق تھے۔گاندھی جی کو گوڈسے کی گولی نے ضرور ختم کر دیا ہو لیکن ان کی سچائی اور اچھائی ختم نہیں ہوئی۔مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف چل رہا یہ پر آشوب دوربھی ظالم اور مظلوم کی پہچان کراتا ہواایک دِن ضرور ختم ہوگا۔

اس کے باوجود ہندوستان کو مشرقی ممالک کا گوہر کہاجاتا ہے ۔دنیا کے بڑے ملکوں میں ہندوستان کاساتواں نمبر ہے سب سے بڑی جمہوریت والے ملک کی سب سے پرانی تہذیب بھی ہے۔لوگ دور دراز ملکوں سے اس کی تاریخ اور تہذیب جاننے اور سمجھنے کے لیے آتے رہے ہیں ۔اس کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنا ماضی ابھی تک بچا کر رکھا ہے۔یہی وجہ تھی جب چتّوڑ کی رانی ’کرماوتی‘کے راکھی بھیجنے پر مغل بادشاہ ’ہمایوں‘ نے اس کے دشمن ’بہادر شاہ‘پر فوج کشی کی اور رانی کرماوتی کی حکومت کی حفاظت کی۔حالانکہ ’ہمایوں‘ کے پہنچنے تک رانی اپنے کو ’جوہر‘ میں ختم کرچکی تھیں پھر بھی حکومت کی باگ ڈور ان کے وارثان کو سونپ دی تھی۔ہندوستان کے مغل بادشاہ ’بابر‘،’ ہمایوں‘، ’اکبر‘ ،’جہانگیر‘،’شاہجہاں‘ اور بہادر شاہ کے دورِ حکومت میں، ہندو بردرانِ وطن کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے، گائے کے ذبیحہ پر پابندی تھی۔ بلکہ شہنشاہ’ بابر‘ نے اپنے بیٹے ’ہمایوں‘ کو یہ وصےّت کی تھی کہ اگر ہندوستان پر حکومت کرنا ہوگا توگاؤکشی مت ہونے دینا۔میسور کا حکمراں حیدر علی نے گاؤ کشی کو جرم قرار دے رکھا تھا اور جرم کرنے والے کے ہاتھ کاٹنے کی سزا مقرر کر رکھی تھی۔

یہ تھی بھارت کی رواداری جسے مسلم حکمرانوں نے اپنے دور میں برقرار رکھاتھا۔ یہ دور غلامی کا نہیں تھا لیکن دو سو سال انگریزوں کی حکومت کے دور میں بھارت غلام رہاجس کی آزادی کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں کندھے سے کندھا ملاکر بھارت کی آزادی کے لیے جد جہد کرتے رہے۔جہاں تک جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری کا سوال ہے ۵۲ہزار علماء نے جام شہادت نوش کیا اور دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کوتختہ دار پر لٹکایا گا۔ یہ کہانی قصہ نہیں ہے، حقیقت ہے ۔لیکن حقیقت کووہ لوگ کیا جانیں جوپڑھے لکھے صوبہ ’کیرل‘ کی مثال ’سومالیہ‘سے دیتے ہیں اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ’سری لنکا‘ کے غذائی قلت سے متاثر ایک بچے کی تصویر ’کیرل‘ کی بتلاتے ہیں۔
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.