سزائے موت ضرورت و اہمیت

کسی بھی ریاست کی رکنیت، ریاست اور رکن کے مابین ایک قانونی معاہدہ ہے۔ جس کے مطابق بحیثیت رکنِ ریاست،ا فراد کے لیے ریاست کے قانون کا احترام کرنا اور اُس پر عمل پیرا ہونا لازم آتاہے۔ اور بدلے میں ریاست پہ یہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ اپنے ارکان کی جان، مال اور عزت کا تحفظ فراہم کرے اور اُنکے دیگر بنیادی حقو ق کی فراہمی یقینی بنائے ۔ اور اگر ایسی صورت جنم لیتی ہے کہ کوئی رکن ریاست کے قانون کے متفرق جزئیات میں سے کسی ایک یا اُس سے زائد کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا اور ریاست پر اپنے حقوق کھو دیتا ہے۔ یعنی ایسی صورت میں ریاست اورمتعلقہ رکن کے مابین قانونی معاہدہ ختم ہو جاتا ہے ۔ جس کے نتیجہ کے طور پر متعلقہ فرد کا قانونی احتساب کیا جائے گا اور وہ سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس تصور سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جہاں سزا کا تصور عمومی طور پر عبرت، اصلاح، اور مکافاتِ عمل کے معنوں موزوں تصور کیا جاتاہے، وہاں اس کا ایک اہم وظیفہ قانون کی بالا دستی کے قیام میں کردارادا کرنا، اور اُس کی بقا کی ضمانت بھی ہے۔

تاہم سزائے سنگین جو کہ مختلف ممالک میں سزائے موت کے طور پر رائج ہے، کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی حفاظت سے متعلق متفرق تنظیموں کی جانب سے بلخصوص ، اور مفکرین اور عام شہریوں کی جانب سے بلعموم تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وقتِ حاضر میں سزائے موت کا تصور ایک باقاعدہ اخلاقی تنازعہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

درج ذیل وجوہات کو بلعموم سزائے موت کے خلاف جواز کے طور پر پیش کیاجاتا ہے۔
اول: موت کی سزا مجرم کے خاندان کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔
دوم: انسانی زندگی قدرت کا بیش بہا تحفہ ہے اور اس کی قدر و قیمت بے انتہا ہے۔ اس کی قدرو قیمت کے پیشِ نظر سنگین سے سنگین جرم کے مرتکب افراد سے بھی اُنکی زندگی کا حق نہیں چھیننا چاہیے۔
ثالثاََ: اور جو کہ ا ہم جواز ہے کہ سزائے موت کے سزا یافتہ بے گناہ افراد کے لیے انصاف کی فراہمی ناممکن ہوجاتی ہے۔ یعنی اگر کسی بے گناہ فرد کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو قانون اس غلطی کا مداوا کرنے سے قاصر ہے: لہذاـ سزائے موت قابلِ ستائش نہیں اور اس پر پابندی عائد ہونی چاہیئے۔

ایمنسٹی انٹرنشنل کے مطابق سزائے موت کے معنی تشدد کے ماحول کو فروغ دینے کے ہیں۔ کیونکہ اُن کے مطابق پیشتر ممالک میں معصوم افراد غیر منصفانہ قانونی کاروائی کے نتیجہ میں سزائے موت کا شکار ہوتے ہیں۔نیز یہ کہ با اثر افراد کا طبقہ اپنے ا ثرو رسوخ کو قائم رکھنے کے لیے غریب اور نادار افراد کے خلاف سزائے موت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یا پھر سزائے موت کو مختلف مذہبی، لسانی،اور قومی تعصبات کے ضمن میں بے اثر اور امعصوم افراد کے خلاف ظلم اور بربریت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اس ضمن میں ایمنسٹی ایران اور سوڈان کی مثال پیش کرتا ہے، جہاں سزائے موت کو سیاسی حریفوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں سزائے موت کے نفاذ کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔

چہارم: سزائے موت کے خلاف ایک اہم دلیل اس کی افادیت سے متعلق ہے کہ سزائے موت جرائم کی کمی کا باعث نہیں بنتی، اور چونکہ یہ جرائم کی کمی میں فعال حیثیت نہیں رکھتی، لہذا یہ قابلِ ستائش نہیں۔

انہیں وجوہات کو جواز بنا کر مغربی یورپ کے کثیر ممالک اور شمالی و جنوبی امریکہ کی اکثریتِ اقوام نے سزائے موت کو قانوناَ کالعدم قرار دیا ہے، یوں اس کے عملدرامد پر مستقل پابندی عائد ہے۔

پاکستان میں سزائے موت کی حیثیت قانونی ہے، نیزپاکستان سزائے موت کے سب سے زیادہ کیسز کے اندراج کے حوالہ سے بلترتیب چائنہ، ایران، سعودی عرب، اور امریکہ کے بعد پانچویں نمبر پر ہے۔ تاہم پاکستا ن میں سزائے موت پر عملدرامد کی تاریخ اُتارچڑھاوٗ پر مبنی ہے، اور اس ضمن میں پچھلے دس برس کے دوران اعداد و شمار کچھ اسطر ح رہا کہ سنہ ۲۰۰۵ میں کل ۲۴۱ مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ جس میں سے ۳۱ مجرموں کو تختہِ دار پرلٹکایا گیا۔ سنہ ۲۰۰۸ میں آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کا عہدہ سنبھالتے ہی سزائے موت کے عملدرامد پر پا بندی لگا دی ، جو کہ نئی قیادت کے باگ دوڑ سنبھالتے ہی ۳۰ جون ۲۰۱۳ کو اٹھا دی گئی۔تاہم ایمنسٹی انٹر نشنل نے ۴ جولائی ۲۰۱۳ کو رپورٹ شائع کی جس کے مطابق دنیا بھرمیں سزائے موت کے کے لیے منتظر ملزمان کی تعداد ۸۰۰۰ تھی۔اس رپورٹ کے شائع ہوتے ہی یورپی یونین نے پاکستان میں سزائے موت پر عملدراد سے اٹھائی گئی پابندی کی شدید مخالفت کی۔ جس کے دباؤ کے زیرِ اثر پابندی کو بحال کر دیا گیا۔ اس پابندی کے بعد ۴ نومبر، ۲۰۱۴ کو میانوالی سنٹرل جیل میں قتل کیس کے مجرم محمد حسین کو تختہِ دار پر لٹکایا گیا۔ تاہم سزائے موت پر پابندی باقاعدہ طور پر اے پی ایس میں دہشت گردی کے افسوسناک واقعہ کے بعد اٹھا دی گئی۔ ایمنسٹی کی تازہ رپورٹ جو کے ۲۰۱۵ میں شائع ہوئی اس کے مطابق پاکستان میں اے پی ایس کے واقعہ کے بعد ابھی تک ۱۰۰ مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جا چکا ہے۔

پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی بھی خطہ، سزائے موت کے نفاذ اور عملدرامد پر لگنے والی پابندی ، اس سے متعلق پائے جانے والے شک و شبہات اوراس پر کی جانے والی تنقیدکا نتیجہ ہے، جو کہ پیشتر مغالطوں پر مبنی ہے۔مندرجہ بالا بیان کردہ جواز اول منطق کی اصطلاح میں مغالطہ اپیل برائے رحم کہلاتا ہے۔ جس کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں:
ـ’’ ا‘‘ جس پر کہ قتل کا الزام ہے، اپنے خاندان کا واحد کفیل ہے۔
’’ا‘‘ کی زندگی اُسکے خاندان کی بقا ء ہے۔
لـہذا ’’ا‘‘ کی جان بخشی کی جائے۔
یعنی قانونی جواز کے طور پر ترحم کے جذبات کا سہارا ،اور اس پسِ منظر میں حقائق کی پردہ پوشی محض ایک مغالطہ ہے۔ اسی طرح اگر جواز دوم کا جائزہ لیا جائے تو وہ ریاستی معاہدہ کے معنی و مفہوم سے متعلق کم فہمی پر مبنی ایک مغالطہ ہے۔ ریاست صرف اُسی صورت میں فرد کے جان، مال، عزت و جائیداد کے تحفظ کی ضامن ہے جب تک فرد کی جانب سے ریاست کے قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں معاہدہ کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ اور اگر ایسی صورت جنم لیتی ہے تو ریاست کا اولین فریضہ قانون کی بقاء و بالادستی کے لیے کوشاں ہونا ہے، تاکہ ریاست کے دیگر باشندوں کے فرائض کی انجام دہی ممکن ہو سکے، نہ کہ یہ کہ ریاست مجرموں کی زندگی کی بقاء کے لیے پیش کردہ جواز کی پیروی میں اپنی توانائی صرف کرے۔

اور اگر ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ زندہ رہنے کا حق ریاست کے تمام افراد کے لیے یکساں ہے، خواہ ان میں سے کوئی سنگین سے سنگین جرم کا مرتکب ہی کیوں نہ ہوا ، تو اول سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسا کرنے سے ریاست کے دیگر افراد کے ساتھ انصاف کے کیا معنی ہونگے، جو قانون کے دائرہ کار میں زندگی بسر کرتے ہیں ؟ نیز یہ کہ ریاست اُن سے قانون کے احترام کا مطالبہ کیونکر کر سکتی ہے؟

دوم یہ کہ فرض کریں کہ اگر مجرم قاتل یا دہشت گرد ہے(جیسا کہ پیشتر ممالک میں قتل اور دہشت گردی جیسے جرائم کی پاداش سزائے موت ہے)،تو کیا متاثرہ فرد یا افراد کو زندہ رہنے کا حق مجرم سے کم تھا؟ دنیا کی کوئی بھی ریاست ہو، اور اگر وہ تحریری اور قانونی طور پر اگر اپنے تمام افراد کو زندہ رہنے کا حق دیتی بھی ہے، تو بھی امر واقعہ یہ ہے، کہ وہ عملی طور پر ایسا کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ اس کے ہی کچھ باشندگان ریاست کے اس فریضہ کی راہ میں رکاوٹ ہوں گے۔ اور جیسا کہ ریاست واقعتا عملی طور پر ایسا کرنے سے قاصر ہے تو پھر ریاست سے محض سنگین جرائم کے مجرموں کے لیے زندگی کا حق تصور کرنا کیا منطقی جواز رکھتا ہے ؟

اور اگر ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ ریاستی قانون ساز اداروں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مجرموں کی زندگی کے خاتمہ کی قانون سازی کریں تو ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ریاست کو یوں بھی حق حاصل نہیں کہ ایسے افراد کی افزائش کرے اور انہیں پالے جو اس کے معصوم باشندوں سے غیر قانونی طور پر زندگی کا حق چھین لیتے ہیں۔

سزائے موت کے خلاف پیش کیے جانے والے دلائل میں سے اہم دلیل یہ ہے کہ اگر کسی بے گناہ کو پھانسی دے دی جائے تو اُسے پھر کس طرح انصاف فراہم کیا جا سکتا ہے؟

نیز یہ کہ پیشتر ممالک میں یہ سزا حق تلفی اور ذاتی انتقام کی انجام دہی کا باعث بنتی ہے۔ لہذا سزائے موت قابلِ قبول نہیں۔ یہ دلیل بھی مغالطہ ہے، کیوں کہ اول تو یہ کہ بے گناہ افراد کو پھانسی پر لٹکانا، کمزور، ناقص اور غیر موزوں قانونی نظام اور کاروائی پر سوال اٹھاتا ہے نہ کہ فی نفسہ سزائے موت کے قانون پر۔ دوم یہ کہ اگر ہم غیر منصفانہ قانونی نظام اور کاروائیوں کے پیشِ نطر سزائے سنگین ،سزائے موت کے علاوہ عمر قید تجویز کریں، تو کیا اس سے بے گناہ افراد غیر منصفانہ قانونی کاروائیوں سے محفوظ رہ سکیں گے؟ کیا ایسا کرنے سے با اثر افراد بے گناہ افراد کے خلاف عمر قید کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کریں گے ؟ اگر مسئلہ ناقص قانونی ڈھانچہ ہے تو اس کا حل سزائے موت کے خاتمے میں نہیں ہے، بلکہ شفاف نظام کے استقام میں ہے۔

سزائے موت کی افادیت کے متعلق سوال کہ یہ جرائم کی کمی کی باعث نہیں بنتی پیشتر فکری اغلاط پر مبنی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی مخصوص جرم کی شرح میں اضافہ اس سے متعلق لاتعداد وجوہات کی بناء پر ہوتا ہے: جیسا کہ غربت، مفلسی، تعلیم ، روزگار اور صحت کے لیے ناکافی مواقعہ، نیز ذہنی و فکری الجھنوں کے تدارک میں عدم دلچسبی اور اس سے متعلق موزون مواقعہ، اور لاقانونیت اور سزاؤں کا عدم نفاذ۔ اب اگر ہم ایک ایسی ریاست کا تصور ذہن مین لائیں جہاں مندرجہ بالا بیان کردہ تقریباََ تمام تر مسائل بھیانک تناسب میں جرائم کی علل کے طور پر موجود ہوں، اور ہم صرف سزاوؤں کے نفاذ کو یقینی بنا کر یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کوئی بھی مخصوص سزا جرم میں کمی کا با عث نہیں بن رہی لہذا اس کا نفاذ بے معنی ہے؟ اسی طرح سزائے موت قتل اور دہشت گردی یا دیگر سنگین جرائم کے روک تھام کی جزوی علت ہے، جب تک ہم مذکورہ جرائم کے اضافے کے پسِ پردہ پائی جانے والی تمام تر وجوہات پر قابو نہیں پا لیتے،محض سزا کے نفاذ سے جرم میں کمی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ یعنی کسی بھی سزا کا عدم نفاذ جرائم میں اضافہ کی جزوی علت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محض اس کے نفاذ سے جرم کی شرح پر قابو نہین پایا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو تو سعودی عرب ایران ، چین اور پاکستان میں جرائم مین اضافہ یکساں تناسب سے ہو، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ تمام ممالک میں سزائے موت کی حیثیت قانونی ہے، جبکہ جرائم میں اضافے کی شرح مختلف، اور اس کی وجہ تمام ممالک کے متفرق معاشی، معاشرتی، ثقافتی و اخلاقی مسائل کا متفرق تناسب سے موجود ہونا ہے۔ یعنی اس ضمن میں ہمیں اس حقیقت ا ادراک ہونا ضروری ہے، کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں جرئم کی روک تھام محض سزا کے نفاذ سے ممکن نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ جرائم سے متعلقہ مندرجہ بالا بیان کردہ تمام تر وجوہات پر قابو پایا جائے۔ اور اگر ہم ان حقائق کو مدِ نظر رکھے بغیر جرائم میں اضافے سے متعلق تجزیاتی اعداو شمار شائع کرتے ہیں تو یقینا ہم صریح غلطی کا شکار ہیں۔
 
سزائے موت کے خلاف پیش کیے جانے والے تمام تر جواز ریاست اور فرد کے مابین پائے جانے والے معاہدہ کی کم فہمی کے نتیجہ میں مغالطہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سزائے موت کی افادیت ور اہمیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اور اسکے افراد کے مابین معاہدہ ِ عین، اسکی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا جائے۔نیز اس فہم کا ادراک نہایت ضروری ہے کہ دنیا کے متفرق خطوں کے مسائل متفرق ہیں جو کہ جرائم میں کمی یا اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہر خطے کے مسائل کی نوعیت کے مطابق ہم سزاوؤں کی افادیت کا سوال تجویز کریں۔
Qamar un Nisa
About the Author: Qamar un NisaQamarunNisa passed M.Phil in philosophy and working as Lecturer philosophy at Higher Education Department.
She is also currently writing for "The La
.. View More