کلام لایعنی اور بےمعنی نہیں ہوتا

شاید ہی کوئی پڑھا یا ان پڑھ‘ موسیقی سے شغف نہ رکھتا ہو گا۔ حمد‘ نعت‘ نغمہ‘ گیت‘ غزل‘ گانا وغیرہ ہمیشہ ناسہی‘ کبھی کبھار ضرور سنتا ہو گا۔ مزدور طبقہ سے متعلق لوگ‘ اوروں سے زیادہ‘ اس کے شائق ہوتے ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے‘ کہ وہ شعر کہتے نہیں۔ اگر کسی کو شعر کہنے کا شوق لپک پڑے‘ تو وہ پوری دل جمی سے‘ اس کی کوشش کرتے ہیں۔ ان غیر شعرا کی کوشش کو‘ اگر شعر نہیں تو نثر بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں‘ کسی ناکسی سطع پر آہنگ ضرور موجود ہوتا ہے۔

جس تحریر میں کسی بھی سطع کا آہنگ موجود ہوتا ہے وہ نثر نہیں ہوتی۔
دوسری بات یہ کہ اس کا اسلوب اور نحوی اہتمام نثر سے قطعی ہٹ کر ہوتا ہے۔
تیسری بڑی بات یہ کہ خیال یا جذبے کی پیش کش نثر سے مختلف ہوتی ہے۔
اسی طرح جذبے یا خیال کی پیش کش کے زیر اثر لفظوں کی معنویت اور لفظ کی گرائمری حیثیت میں بھی فرق آ جاتا ہے۔

ان معروضات کے تناظر میں اس عام سے شخص کی یہ کوشش نثر نہیں کہلا سکتی۔ عروضی اسے شاعری مانیں یا نامانیں لیکن دیانت داری سے اس کا مطالعہ کریں تواسے نثر کہتے ہوئے ان کی زبان میں لکنت ضرور آئے گی۔

اردو شعر و نثر کی تاریخ کا مطالعہ کردیکھیں فورٹ ولیم کالج‘ سرسید تحریک‘ شاہ یا پھر شاہ کے شورےفا سے جڑے‘ گنتی کے چند لوگ ہی نظر آئیں گے۔ کچھ خوش نصیبوں کے دو چار شعر تذکروں میں مل جائیں گے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ میر و سودا سے کہیں بڑے شاعر گم نامی کی بستی میں جا بسے۔ فردوسی اس لیے زندہ رہا‘ کہ وہ محمود کا چمچہ تھا۔ ادھر ذوق کی بھی یہ ہی صورت ہے۔ کسی بھی کہنے والے کو بےوزن کہہ کر رد کر دینا سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ اجارہ دار نام نہاد استاد شعرا کا اس زیادتی میں کوئی کم حصہ نہیں۔

کہنہ مشق ہو کہ نوآموز شاعر یا ابھی ابھی شوقیہ‘ کسی جذبے‘ کسی واقعے‘ کسی معاملے یا حادثے سے متاثر ہو کر کہنے والے کے کہے کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا یا کیا جانا چاہیے۔ مزے کی بات یہ کہ ابھی ابھی کہنے والے کی فکر اور زبان میں ہر دو پہلوں سے بڑھ کر متاثر کرنے کی صلاحیت ہو گی۔ اگر وہ ایک بار پٹری چڑھ گیا تو آتے وقتوں میں دھائی ڈال دے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ موجود قرار دیے گیے استاد شعرا اور شاہی جھولی چک قرار پائے بڑھ شعرا اسے قدم قدم پر ٹیز کریں گے تا کہ کسی کی اس کی جانب نظر ہی نہ جائے۔

ہر وہ جو اپنی دانست میں شعر کہ رہا ہے کے کہے کو نثر نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ وہ متعلقہ زبان کو کچھ ناکچھ دے رہا ہوتا ہے۔ مثلا
١-
کسی رائج مہاورے کا نیا استعمال دے رہا ہوتا ہے۔
اس کے الگ سے معنی فراہم کر رہا ہوتا ہے۔
پاس سے کوئی نیا مہاورہ گھڑ رہا ہوتا ہے۔
سٹریٹ میں موجود مہاورہ استعمال کر رہا ہوتا ہے۔
٢-
اس کے کہے میں موجود روزمرہ اور تکیہ کلام موجود ہوتا ہے۔
٣-
کوئی ناکوئی فنی‘ سماجی‘ معاشی‘ سیاسی اصطلاح استعمال میں لا رہا ہوتا ہے۔
٤-
نئے الفاظ استعال میں لا رہا ہوتا ہے۔
٥-
الفاظ کا نیا استعمال اور ان کے نئے مفاہیم دریافت کر رہا ہوتا ہے۔
٦-
نئے الفاظ گھڑ رہا ہوتا ہے۔
٧-
الفاظ میں اشکالی تبدیلیاں لا رہا ہوتا ہے۔
٨-
آوازوں کے تبادل کا عمل پوری شدت سے متحرک ہوتا ہے۔

بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہتی۔ وہ
١-
زبان کو مختلف نوعیت کے مرکبات مہیا کر رہا ہوتا ہے۔
٢-
نادانستہ طور پر علامتیں استعارے اور اشارے تشکیل پا رہے ہوتے ہیں۔
٣-
مروجہ سے ہٹ کر تشبیہات اور تلمیحات زبان کو میسر آ رہے ہوتے ہیں۔

مزید یہ بھی کہ
١-
اس کے کہے میں لفظ کی اس کے کلچر سے میل کھاتی سماجیات موجود ہوتی ہے۔
٢-
الفاظ کی نئی نفسیات وضع ہو رہی ہوتی ہے۔
٣-
کسی عصری واقعے‘ معاملے اور حادثے کی شہادت موجود ہوتی ہے۔
٤-
کوئی انکشاف موجود ہو سکتا ہے۔
٥-
کسی عالمی غنڈہ طاقت کی بدمعاشی کی طرف اشارہ موجود ہو سکتا ہے۔
٦-
کسی عصری تخلیق یا شے کا نام استعمال آیا ہوتا ہے۔
٧-
انسانی جذبات کی والہانہ انداز میں عکاسی موجود ہوتی ہے۔
٨-
غم‘ غصہ‘ درد‘ کھونے کا غم پوری شدت سے موجود ہوتا ہے۔
٩-
خوشی کے اظہار کے لیے بھی‘ یہ ہی طوراختیار کیا گیا ہوتا ہے۔

اس کلام میں مختلف شعری صنعتی اور حسن شعر پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مثلا
تکرار لفظی و تکرار حرفی
صنعت تضاد
ہم صوت الفاظ کا استعمال
تحت النقط‘ فوق النقط اور بےنقط لائنیں
ہم مرتبہ الفاظ کا استعمال
متعلق الفاظ کا استعمال

اس کلام میں مختلف طور بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مثلا
بیانیہ‘ استفساریہ‘ حکائی‘ مکالماتی‘ مزاحمتی جارحانہ وغیرہ

یہ کلام لایعنی اور بےمعنی نہیں ہوتا اس میں باقاعدہ پیغام ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس قسم کا کلام لکھنے والے شعرا کے ہاں باسابقہ شعرا کے کلام سے کہیں بڑھ کر روانی شائستگی اور شیفتگی کے ساتھ ساتھ کمال درجے کا پیغام بھی موجود ہوتا ہے کہ باسابقہ شعرا اس کی گرد تک کو بھی نہیں پہنچ پاتے۔ ضروری نہیں کوئی باسابقہ اور شاہی چمچہ شاعر ہی بڑی بات کرے۔ بڑوں کا ہونے کے سبب اس کے کہے جائے یہ قطعی الگ سے بات ہے۔ بڑی بات عمر تجربہ تعلیم سے وابستہ نہیں۔ ایک بچہ بھی بڑی بات کہہ کر حیرت میں ڈال سکتا ہے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.