شہر قائد میں پروفیسر آفاق احمدبھوپالی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس

بھوپال سے تعلق رکھنے والے شاعر و ادیب پروفیسر آفاق احمد بھوپال میں ٣٠ مارچ کو انتقال کر گئے۔ محبانَ بھوپال فورم اور اکادمی ادبیات پاکستان سندھ کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرینس منعقد ہوا جس کی روداد پیش خدمات ہے

بھارت کے شہر بھوپال سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ ادیب ،شاعر۔ محقق، ماہر غالبیات و اقبالیات پروفیسر آفاق احمد جن کا انتقال بھوپال میں 30مارچ 2016کو ہوا تعزیتی ریفرنس اکادمی ادبیاتِ پاکستان سندھ اور محبانِ بھوپال فورم کے زیر اہتمام اکادمی ادبیات کے آڈیٹوریم ، لیاقت میموریل لائبریری بلڈنگ میں 2 مئی2016 کو منعقد ہوا۔ اکادمی ادبیات ِ پاکستان سندھ کے ریذیڈنٹ ڈائیریکٹر جناب قادر بخش سومرو صاحب کی عنایت کہ انہوں نے مجھے اس تعزیتی ریفرنس کی اطلاع ہی نہیں دی بلکہ اس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔ پروفیسر سحر ؔ انصاری صاحب جنہوں نے اس تعزیتی اجلاس میں اظہار خیال بھی کرنا تھا نے بھی تعزیتی اجلاس میں شرکت کا کہا ۔ اب میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ میں اپنے ان دو کرم فرماؤں کی بات کو ٹال سکتا۔ ویسے بھی ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے صدر کی حیثیت سے میری اور دیگر عہدیداران کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ شہر قائد میں ہونے والی علمی ،ادبی ، ثقافتی اور سماجی تقریبات میں شریک ہوں اور اس کی مختصر روداد ہماری ویب پر آن لائن کریں ، یہ ہماری ویب رائیٹرز کلب کے مقاصد کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔

میں وقت مقررہ سے قبل ہی پہنچ چکا تھا، مقررین بھی آچکے تھے انہیں دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ پروفیسر آفاق احمد بھوپالی مرحوم کے حوالے سے آج کئی محترم شخصیات کو سننے کا شرف حاصل ہوگا۔ ادبی تنظیم محبانِ بھوپال کے عہدیداران و ذمہ داران تو موجود تھے ہی شہر قائد سے تعلق رکھنے والے کئی ادیب اور شاعر بھی آج اس تعزیتی اجلاس میں موجود تھے۔ جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر حکیم عبد الحنان صاحب تشریف فرما تھے، کیونکہ میں نے جامعہ ہمدرد سے ہی ڈاکٹریٹ کیا اس لیے حکیم عبد الحنان صاحب کو دیکھ کر زیادہ مسرت ہوئی۔ سحرؔ انصاری صاحب کے بغیر شہر قائد میں ہونے والی کوئی بھی ادبی تقریب مکمل نہیں ہوتی، گویا سحرؔ انصاری اور شہر قائد میں ہونے والی ادبی تقریبات لازم و ملزوم ہوچکے ہیں۔ میں نے اپنے سابقہ مضمون میں جو روزنامہ ’جناح‘ میں شائع ہوا تھا سحرؔ انصاری صاحب کو ’کراچی کی ادبی تقریبات کے دولھا‘ کا خطاب دیا تھا۔ وہ واقعی محفل میں جان ڈال دیتے ہیں۔ ان کی موجودگی سے تقریب کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ پروفیسرڈاکٹر یونس حسنی صاحب سے شناسائی تو بہت پرانی ہے لیکن آج یہ انکشاف بھی ہوا کہ ان کا تعلق بھی بھوپال کی سرزمین سے ہے اور وہ مرحوم پروفیسر آفاق احمد کے انتہائی قریبی دوستوں اور ساتھیوں میں سے ہیں۔ اسی طرح محبانِ بھوپال فورم سے تعلق رکھنے والے احباب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

تقریبا کا آغاز اﷲ کے بابرکت نام سے ہوا، نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی گئی، میزبان محترم جو محبانِ بھوپال فورم کے ذمہ داران میں سے ہیں پروفیسر آفاق احمد مرحوم کی شخصیت اور ادبی خدمات پر مختصر روشنی ڈالی اور مقررین کو باری باری اظہار خیال کی دعوت دیتے رہے۔ ایک بات جو جناب قادر بخش سومرو صاحب نے کہی بہت دل کو لگی کہ ادیب صرف ادیب ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی خطہ زمین سے ہو۔ اسی سوچ اور اسی فلسفہ کی بنیاد پر انہوں نے بھارت کے شہر بھوپال سے تعلق رکھنے والے ادیب پروفیسر آفاق احمد کے لیے منعقد ہونے والے تعزیتی اجلاس کو یقینی بنانے میں عملی کردار ادا کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ادیب خواہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہوضروری نہیں کہ ہم تعزیتی اجلاس ہی منعقد کریں ، آپ کسی بھی ادیب ، شاعر کے حوالے سے کوئی تقریب منعقد کرنا چاہیں تو اکادمی ادبیاتِ پاکستان ہر طرح کا تعاون کرے گی۔ ڈاکٹر یونس حسنی نے اپنے خطاب میں اپنے اور پروفیسر آفاق احمد کے تعلق کا ذکر کیا ان کا کہناتھا کہ پروفیسر آفاق احمد کے دو ہی دوست ایسے تھے جن سے ان کے تعلقات کبھی کشیدہ نہیں ہوئے ان میں سے ایک میں ہوں ۔ میرے ان سے کبھی تعلقات خراب نہیں ہوئے ، اس لیے کہ پروفیسر آفاق احمد جو کام بھی کیا کرتے اس میں اپنے آپ کو فنا کردیا کرتے تھے، جس ادارے میں وہ شامل ہوتے اسے زمین سے آسمان پر لے جاتے لیکن اس دوران وہ اکثر نہیں بلکہ زیادہ تر لوگوں سے رنجش مول لے لیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر یونس حسنی کا کہنا تھا کہ ان کے اور پروفیسر آفاق احمد کے تعلقات نصف صدی پر محیط رہے ان میں سے نصف حصہ وہ ان کے ساتھ رہے اور نصف حصہ دور رہے ۔ آپ نے یہ بھی بتا یا کہ پروفیسر آفاق احمد در اصل افسانہ نگار ہی تھے لیکن بعد میں وہ تحقیق اور تنقید کی جانب چلے گئے۔ پروفیسر سحرؔ انصاری نے بتا یا کہ پروفیسر آفاق احمد ایک شریف النفس انسان تھے، غالب ؔ اور اقبال ؔ پر انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔ تقریب کے آخری مقرر جامعہ ہمدر کے وائس چانسلر حکیم عبد الحنان صاحب تھے ۔ ان کا تعلق بھی پروفیسر آفاق احمد سے بہت گہرا اور قریبی رہ چکا ہے۔ انہوں نے پروفیسر آفاق احمد کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔دیگر مقررین نے بھی پروفیسر آفاق احمد کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔

پروفیسر آفاق احمد مرحوم کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پروفیسر آفاق احمد کی تعلیم و تربیت بھوپال کے علمی و ادبی ماحول میں ہوئی انہوں نے ہندوستان کے اسی شہر میں 30جولائی 1932ء کو آنکھ کھولی ،ان کی دنیاوی زندگی کا سفر 83 سال بعد30مارچ2016ء کو اختتام پذیر ہوا اور بھوپال کی مٹی کو ہی اپنے لیے دائمی آرام گاہ بنایا۔ بھول کی سرزمین کو لکھنؤ اور دلی کے بعد ادب اور زبان کے حوالے سے منفرد مقام حاصل ہے۔ بھوپال میں شاعروں اور ادیبوں کو عزت و احترام سے نوازا گیا، بھوپال تہذیب و ثقافت ، زبان ادب کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتاہے۔ پروفیسر آفاق احمد کو اسی علمی و ادبی ماحول میں پرورش پانے کا اعزاز حاصل ہوا، اسی جگہ وہ درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔وہ بھوپال کے ایم ایل بی کالج میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو رہے۔ نامور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کئی حیثیتوں کے مالک تھے ، وہ شاعر، ادیب ، محقق، مفکر، صحافی، مترجم، افسانہ نگار، انشاپرداز ، کہانی نویس کی حیثیت رکھتے تھے۔ پروفیسر آفاق احمد کا’ مثنوی سحر البیان ‘کی ترتیب و مقدمہ بہت معروف ہے اس کا ذکر جناب حکیم عبدالحنان صاحب نے بھی اپنی تقریر میں کیا۔ انہوں نے مزاح نگار ملا رموزی کی غیر مطبوعہ کہانیوں کا مجموعہ بھی ترتیب دیا، ہندو افسانہ نگار راج گوپال اچاریہ کی کہانیوں کا مجموعہ بھی ترتیب دیا،پریم چند شناسی اور اقبال ؔ پر بہت کام کیا۔غالب ؔ کے حوالے سے انہیں استاد تصور کیا جاتا ہے۔انہوں نے کئی ادبی اداروں کے معتمد کی حیثیت سے بھی کام کیا اور ان اداروں کو بام عروج پر پہنچایا۔ پروفیسر آفاق احمد کے انتقال سے اردو دنیا ایک نامور ادب ، شاعر، محقق، مصنف اور استاد سے محروم ہوگی۔ شہر قائدسے تعلق رکھنے والے ادیب پروفیسر آفاق احمد کے انتقال پر اپنے انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور دعا گو ہیں اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ بلا شبہ پروفیسر آفاق احمد اپنی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے اردو دنیا میں انتہائی عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہماری ویب رائیٹرز کلب ادیب ، شاعرو محقق کی جدائی پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہے اور دعا گو ہے پروردگار مرحوم کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین۔ آخر میں احمدعلی برقیؔ اعظمی کے نذرانہ پروفیسر آفاق احمد پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔
پروفیسر آفاق احمد کا نہیں کوئی جواب
شخصیت ہے جن کی اقصائے جہاں میں انتخاب
ہیں سپہرِ علم و دانش پر وہ مثلِ ماہتاب
اُن کے ہیں عصری ادب میں کارنامے بے حساب
اُن کے رشحاتِ قلم ہیں مرجعِ دانشوراں
جن سے اربابِ نظر ہوتے رہیں گے فیضیاب
کررہے ہیں ضوفشاں شمعِ ادب بھوپال میں
اُن کے فکرو فن کی کم ہوگی نہ ہرگز آب و تاب
اُن کے گُلہائے مضامیں سے معطر ہے فضا
ہیں وہ گلزارِ ادب میں سرخرو مثلِ گُلاب
اپنے قول و فعل سے اردو کے ہیں خدمتگذار
ہے دعا شرمندۂ تعبیر ہوں سب اُن کے خواب
عمر بھر رخشِ قلم کرتا رہے جولانیاں
مرجعِ اہلِ نظر ہو اُن کی برقیؔ ہر کتاب
(3مئی 2016ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280309 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More