نوجوانوں نسل کو ذمہ داریوں کا احساس

آج کا انسان اپنے اس احساس ذمہ ادری سے عاری ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے قیادت و سیادت کا مفہوم بالکل الٹ گیا ہے -انسان کی بہت سی ضرورتوں میں ایک اہم ضرورت اجتماعیت ہے، اس میں اللہ نے برکت رکھی ہے اور اس میں اس کی مدد بھی شامل حال رہتی ہے۔پھر ذمہ داروں میں اہل شخص اپنی امانت داری اور صلاحیتوں کے ذریعے اعلیٰ اصولوں کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے ۔ عوام کی توقع کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر جہاں احساس ذمہ داری ہے وہیں ایمان کے تقاضے بھی ہیں۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ، ولا دین لمن لا عہد لہ (ابن ماجہ)
اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

تقدیر ملت کے ان ستاروں کی روشنی اور اس کی کرنیں اس وقت تک آب وتاب اور پورے چمک دمک کے ساتھ برقرار رہتی ہیں، جب تک یہ عہد شباب کی منزلوں کے رہ گذر میں واقع کہکشاؤں کے مسافر ہوں جس طرح آسمان کی بلندیوں پر تابندہ روشن ستاروں کی تابندگی ان کی ذاتی نہیں بلکہ سورج کی روشنی سے مستفاد ہوتی ہےآج اقتدار کی خاطر جنگ ہوتی ہے بڑے بڑے فسادات بھی کروائے جاتے ہیں ،جن میں ہزاروں لوگوں کے ارمان لٹ جاتے ہیں، جانیں تلف ہوجاتی ہیں .جب کہ پہلے لوگ قیادت کی باگ ڈور کو تھامنے سے ڈرتے تھے خود کو کمزور سمجھ کر ذمہ داری کا بار اٹھانے سے کتراتے تھے۔ کوئی اس کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا تھا۔ .خالق نے تخلیق کیا اوربتا دیا کہاتنا ہی بوجھ ڈالا جائے گا جتنا برداشت کر سکو گے۔“ہمت” کر “برداشت” کر یا “پاس ” کر۔یہاں سے دو طبقے وجود میں آجاتے ہیں ،“ذمہ دار” اور “غیر ذمہ دار”اور یہی “مشکل” ہے ، کہ ہم “ذمہ دار” اور “غیر ذمہ دار” میں فرق نہیں کر سکتے ۔۔شاید اسے ہی “احساس” کا ہونا اور نہ ہونا کہتے ہیں۔تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی۔احساس جوابدہی کا یہی وہ محرک تھا جس نے صحابہ کرامؓ کو ذمہ دارشخصیت بنادیا، جو دنیاوالوں کے لیے نمونہ بنے۔ .سلام اجتماعی زندگی چاہتا ہے جوفطرت کا تقاضا ہے۔اس کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں ہر فرد کو ذمہ داری کا احساس ہو۔امانت دار لوگوں کو کام پر لگایاجائےتاکہ کام ٹھیک ٹھیک انجام پائیں اور مال محفوظ ہوں۔رشتہ داریا تعلقات کی بنیاد پر وہ ذمہ داریوں کو نہ تقسیم کرے کہ بلکہ اسے امانت تصور کرتے ہوئے اس کی اہلیت رکھنے والوں کو ہی اس کا ذمہ دار بنائے ، ورنہ سے خیانت سمجھا جائے گا ۔ ذرا غور کریں کہ اگر قیادت و سربراہی کا وہی مفہوم آج بھی لیاجاتا جوپہلے سمجھا جاتا تھا اور جواب دہی کا تصور نگاہوں کے سامنے ہوتا تو لازما قیادت کی جنگ کبھی نہ ہوتی اور ہم وہی دور دیکھتے جو خلافت راشدہ اور عمربن عبدالعزیز کا تھا۔ کاش ملت کے قائدین اس احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے ۔تو ہم ہر گز یہ نہ کہتے ؂
مجھے رہ زنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے -
اگر نوجوانان ملت اپنی حیثیت کو شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کی روشنی میں سمجھیں اور اس پر عمل کے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو یقینا ہمارا بگڑا ہوا معاشرہ اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے اور گھر، خاندان، اور معاشرہ چین وسکون اور امن وامان کا گہوارہ بن جائے۔ کسی شاعر نے بڑے ہی درد کے ساتھ کہا ہے کہ۔
اگر ہم اپنی روش بدل کر رہ ہدایت پہ ہوں روانہ
خدائی نصرت بھی ساتھ ہوگی مٹے گا یہ دور جابرانہ

اس کے علاوہ حدیث کی عمومیت کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے احساس ذمہ داری کو بیدار رکھے اور وہ جس درجہ میں بھی ذمہ دار ہے اپنی ذمہ داری کے باز پرسی کا خیال رکھتے ہوئے اسے حسن خوبی اپنا کام انجام دے۔اللہ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو بہ حسن خوبی انجام دینے کی توفیق بخشے ۔
 
Attique Aslam Rana
About the Author: Attique Aslam Rana Read More Articles by Attique Aslam Rana: 13 Articles with 19018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.