نظام تعلیم محض ایک کاروبار

 لفظ تعلیم لاطینی زبان کے لفظ Educare or Educatum سے نکلا ہے۔ ایجوکئیر کا مطلب ہے تربیت دینا،پرورش کرنا، چڑھانااور کھڑے ہونا۔ایک بچہ باغ میں موجود اُس چھوٹے سے پودہ کی مانند ہے جس کی بہترین نشونما کے لئیے اُستاد اسے بہت ہی پیار سے محبت سے پروان چڑھاتا ہے کیونکہ تعلیم انسان میں شعور بیدار کرتی ہے اوردرسگاہوں میں بیٹھ کر صرف تعلیم ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ بچوں کی شخصیت بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔اور حصول تعلیم ہر پاکستانی کا بنیادی حق بھی ہے۔

حضور ﷺ کی حدیث مبارک کے مطابق ـ ـــعلم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔یہ ہی نہیں قرآن مجیدکی "سورۃ العلق" میں کہا گیا ہے کہ" پڑھ اپنے رب کا نام لے کر جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ۔ پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے آدم کو قلم سے علم سکھایاجو وہ جانتا نہ تھا"۔ آیات اور حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ اسلام تعلیم کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ مگر یہ سب باتیں صرف کتابوں کی حد تک ہی رہ گئیں ہیں کیونکہ نہ تو اب وہ اسکولز دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی وہ اساتذہ جن کا مقصد اُن کے طالب علموں کی رہنمائی کرنا تھا، اُنھیں اچھی تعلیم دینا تھا۔ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے اس لیے ا س بات کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ ہر علاقے میں دس سے پندرہ اسکول نظر آئیں گے ،جہاں تعلیم تو دی جاتی ہے پر تعلیم کے نام پر ہر اسکول کی اپنی ہی ایک دنیا ہے جہاں اپنے پسند کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔اور یہ ہی نہیں ہائی سو سائیٹیز میں بچوں کو "A" اور"O" لیول جبکہ متوسط طبقے کے لئیے انگلش میڈیم اور غریب بچوں کے لئیے اردو میڈیم اسکولز قائم ہیں ۔اس لیے ہر اسکول سے نکلنے والا بچہ دوسرے اسکول کے بچے سے مختلف ہوتا ہے۔اس کی شخصیت کا ہر ایک پہلو بلکل محتلف ہوتا ہے۔یہ ہی نہیں اگر لانڈھی ،کورنگی ،دیفینس،لیاری،ناظم آباد،دیگر علاقوں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کوایک جگہ کھڑا کریں تو اُن میں زمین آسمان کا فرق صاف سیکھائی دے گا۔ ہم اکژسنتے ہیں کہ "علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے"۔ چین ہی کیوں جائیں اگر اپنے ملک کا نظامِ تعلیم بہتر ہو تو لندن ، چین ، امریکہ جیسے دیگر ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کی نوبت ہی نہ آئے مگر ہمارے یہاں تعلیم کے نام پر سیکروں اسکولز کھول تو لیے جاتے ہیں مگر صرف پیسے کمانے کا ایک بہترین ذریعہ سمجھ کر ۔ہمارے ملک کی قومی زبان تو اُردو ہے پر فوقیت انگلش کو حاصل ہے۔

ہمارا موجودہ نظام تعلیم بہت ہی فرسودہ اور ناقص ہوگیا ہے ۔ کیونکہ ایک طویل عرصہ سے ہمارے یہاں کا نظام تعلیم کئی نظاموں میں تقسیم ہو چکا ہے۔جس کی وجہ نجی تعلیمی ادارے، لوکل نجی تعلیمی ادارے اور سرکاری تعلیمی ادارے ہیں ۔ ان سب اداروں میں الگ الگ قسم کہ نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔اس کہ علاوہ ان تمام اداروں میں اساتذہ کرام کی بھی الگ الگ قسم دیکھنے کو ملتی ہے ، اگر بات کی جائے لوکل نجی تعلیمی اداروں کی جو کہ آج کل ہر گلی محلوں میں دیکھائی دیتے ہیں یہاں پر پڑھائے جانے والے نصاب بلکل ہی علیحدہ ہیں ،اور پڑھانے والے اساتذہ میٹرک پاس ، انٹر پاس اور سادہ گریجوئیڈ ہیں۔جبکہ وہ نجی تعلیمی ادارے جو انتہائی expensiveہیں وہاں کا نصاب تعلیم علیحدہ ہے اور پڑھانے والے اساتذہ کرام Phd. Mphill. Masters ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام تو Highly qualified ہیں مگر نصاب تعلیم نجی تعلیمی اداروں سے بلکل مختلف ہے۔

پاکستان میں کل 260,903 تعلیمی ادارے ہیں، جس میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد180,846ہے، جبکہ نجی تعلیمی اداروں کی تعداد 80,057 ہے۔ ان میں پڑھنے والے طالبعلموں کی تعداد 41,018,384 ہے ، اور اساتذہ کرام کی تعداد 1,535,461 ہے۔ اس کہ باوجود پاکستان کا Literacy rate 54.4%ہے۔یہی نہیں 176ممالک میں پاکستان تعلیمی سطح پر 153 نمبر پر ہے اور 57اسلامی ممالک میں پاکستان 40نمبر پر آتا ہے۔
آخر کیوں ؟؟؟ اور ایسی کیا وجہ ہے جو اتنے تعلیمی نظام ہونے کے باوجود ہم اتنے پیچھے ہیں ۔ اگر ان سب باتوں پر غور اور توجہ فرمائی جائے تو یہ بات نظر کہ سامنے آتی ہے کہ اس کی اصل اور بنیادی وجہ بکھرا ہوا نظام تعلیم ہے۔اگر پاکستان میں یکساں تعلیمی نظام ہوتا اور تمام لوکل تعلیمی اداروں، نجی اداروں اور سرکاری اداروں میں ایک ہی نصاب ہوتا تو آج تعلیم کی اس دوڑ میں پاکستان کئی ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیتا، کیونکہ پاکستان میں یکساں تعلیمی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل بکھر گئی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان موتیوں کو سمیٹا جائے اور اس نظام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کہ نقصانا ت کو مدِ نظر رکھا جائے ۔
جیسے کہ احساس کمتری ۔۔۔۔ سرکاری اور لوکل نجی اداروں میں پڑھنے والے طالبعلموں میں احسا س کمتری نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ کیونکہ ان کی نظر سے دیکھا جائے تو High profile / Expensive اداروں میں پڑھنے والے طالبعلم اُن سے بہتر ہیں کیونکہ اُن کو پاس جو تعلیم ہے وہ ہم سے کئی گناہ زیادہ بہتر ہے۔
Equality۔۔ لوکل اور سرکاری اداروں میں پڑھنے والے بچوں کوکوڑے کاغذکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ
Expensive/ High Profile ادوروں میں پڑھنے والے طالبعلموں میں ہیرے موتی نظر آتے ہیں .۔آخر دونوں کو برابری کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھا جاتا۔ یونیورسٹی یا کالج میں داخلہ لینا ہوتو پہلے سیلف پر داخلہ لینے والے طالبعلموں کو آگے بھیجا جاتا ہے جبکہ میرٹ پر داخلہ لینے آنے والے طالبعلموں کو انٹری ٹیسٹ دینا پرتا ہے۔

Career۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاب پر نکلنے والے نوجوانوں کو بھی اُن کے تعلیمی معیار کی بناہ پر پرکھا جاتا ہے کیونکہ اُن میں انگریزی بولنے کی مہارت اور نالج لوکل اور سرکاری اداروں سے حاصل ہونے والی تعلیم سے زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ اُن کی ڈگریاں O level & A Level ہوتی ہیں۔

آخر اس حد تک علیحدہ تعلیمی نصاب اور فرق کیوں ؟؟؟ جب ملک ایک ہے ،عوام ایک ہے ،حکومت ایک ہے ، پھر نظام تعلیم علیحدہ کیوں ہے؟؟؟؟؟۔۔۔۔

اگر حکومت پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام قائم کردے تو ہر لوکل ،سرکاری،اور سٹینڈرڈ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم در بدر کی ٹھوکریں کھاتے نظر نہ آئیں گے۔ احساس کمتری کا شکار نہ ہونگے۔ اور بین الاقوامی سطح پر بھی کوئی فرق نہ کیا جائے گا۔
Areesa Yumna
About the Author: Areesa Yumna Read More Articles by Areesa Yumna: 3 Articles with 5558 views Treat me like a queen and I will treat u like a king....
But if u treat me like a game,
I will show u how its Played... :)
.. View More