گھر

برسات کا موسم جب بھی آتا ہے میں اپنے ماضی کے ایک واقعے میں کھو جاتا ہوں ۔ مجھے شدت سے فقیر محمد یاد آیا۔پہاڑوں پر بادل لہراتے اور بستیوں پر پھوار پڑتی ہے تو دکھ کی ایک گہری لکیر سینے پر لپک جاتی ہے ۔ مجھے بھی فقیر محمدکی طرح’’ گھر ‘‘ یاد آنے لگتا ہے ۔یہ پچیس برس ادھر کی بات ہے ۔ا یسا ہی موسم آن لگا تھا۔ برسات کی رم جھم دیکھنے میں گاؤں سے ذرا باہر ایک پہاڑی درے میں جا بیٹھا تھا۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر اس قریہ حسن کو دیکھ رہا تھا جسے دنیا میں جنت سے یاد کیا جاتا ہے ۔ تا حد نظر لہلہاتے سر سبزو شاداب کھیتوں کے اس پار ایک اور پہاڑی سلسلہ ہے اور اس کے دائیں جانب پیر بڈیسر کا وہ پہاڑ جس کے پار آباء کی سر زمین ہے۔ غلامی کی منحوس لکیر کے دوسرے کنارے پر بھیڑیوں کے غول ہیں اور اس کنار ے ہماری بے بسی اور بے حسی کے لشکر پڑاؤ ڈالے بیٹھے ہیں ۔ وادی بناہ کی چھوٹی بری بستیوں پر جب کبھی باران رحمت جم کر برستی اور ٹھنڈی ہواؤں کے غول دوڑنے لگتے ہیں تو بوڑھے لاٹھی کے بل کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ سرحد کے اس پار دیکھ کر بے اختیار پکارتے ہیں۔

’’ آج گھر میں بارش ہوئی ہے ۔‘‘

’’ گھر ‘‘ کا لفظ سنتے جب ایک عرصہ گزر گیا تو ہم نے ڈرتے ڈرتے اپنے ماموں سے ایک روز پوچھ ہی لیا ۔ آخر آپ لوگ ’’ گھر ‘‘کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ہم ’’ راجوری ‘‘ کو گھر کہتے ہیں ۔جنہوں نے ۱۹۴۷ء اور ۱۹۶۵ء کے عرصے میں اس خیال سے ہجرت کی تھی کہ بہت جلد واپس ’’ گھر ‘‘ آ جائیں گے ۔پھر وقت کا تیز رفتار گھوڑا منزلوں پر منزلیں مارتا بڑھتا چلا گیا ۔ پانچ دس برس کی تو بات نہیں ساٹھ برس بیت چلے ۔ ان بوڑھوں نے واپس ’’گھر ‘‘جانا تھا نہ گئے ۔یہاں تک کہ زندگی کا پہیہ جام ہو گیا ۔ان کی آسیں اور امیدیں ختم نہ ہوئیں۔ یہ لوگ حقیقی گھر چلے گئے ۔ خیر ذکر اس روز کا ہو رہا تھا۔ میں جو بادلوں کے منظر سے اپنی توجہ ہٹا کر واپس لوٹنے کو مڑا تو سر پر کھڑے کسی ہیولے سے ٹکڑا کر گرتے گرتے بچا ۔ میرے سنبھلنے سے قبل فقیر محمد نے مجھے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں لے لیا ۔جانے کب سے میری پشت پرکھڑے وہ بھی اپنے ’’ گھر ‘‘ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ فقیر محمد کی کہانی ربع صدی کے بعد آج پھر دل کے تار چھیڑنے لگی۔کل جب بادل اترے اور بارش برسی۔

جس زمانے میں فقیر محمد ہجرت کرکے آزاد کشمیر آیا تھا تب اس کی عمر ۲۲ برس تھی ۔ بہت پہلے ان کے دادا وادی بناہ سے ہجرت کر کے مقبوضہ راجوری گئے تھے جہاں انہوں نے ریاستی باشندے کی حیثیت سے زمین الاٹ کرالی ۔ جس کے بعد یہ خاندان وہیں مقیم ہوگیا۔زمین داری باغبانی کے علاوہ مویشیوں کی افزائش کا پیشہ اپنایا۔زندگی خوشحالی سے گزرنے لگی اور کچھ ہی عرصے بعد تقسیم بر صغیر کا فارمولہ آ گیا ۔فقیر محمد کے خاندان میں بھی تقسیم ہو گئی ۔ آدھا خاندان پاکستان آنے کے لیے تیار ہو گیا نصف یہاں آنے کا کوئی ’’ خاص فائدہ‘‘ خیال نہیں کرتا تھا۔ فقیر محمد کہتا تھا میرے دادا اور والد نے یہ کہہ کر آزاد کشمیر آنے سے انکار کر دیا ……’’ کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ‘ جیسے یہاں آزاد ویسے وہاں بھی آزاد ہوں گے‘ البتہ جو جائیداد وغیرہ بنی ہے اس سے بھی جائیں گے۔‘‘ اس کے خیال میں باپ دادا کا کہنا درست ثابت ہوا تھا۔ فقیر محمد زبردستی آزادی کے سہانے خواب کی تعبیر پانے سیز فائر لائن عبور کر کے یہاں آ گیا۔ ایک مدت تک وہ جہلم کے قریب چک جمال نامی قصبے میں مہاجرین کی بستی میں راشن کھاتا رہا ۔ پھر اسے راشن کارڈ مل گیا تو وہ خوش رہنے لگا پھر راشن ختم ہوا ‘راشن کارڈ بھی پرانا ہوگیا۔جس کے بعد وہ سیالکوٹ چلا گیا یہاں اسے ایک خیمہ مل گیا اور ایک ریڑھی مل گئی ۔ دن بھر ریڑھی پر چیزیں بیچتا اور شام کو خیمے میں جاکر سو جاتا ۔ یہیں اسے ایک عزیز کے ذریعے والد کا پیغام ملا کہ وہ کوٹلی چلا جائے اور وہاں دادا کی زمین پر آباد ہو جائے ۔وہ راتوں رات کوٹلی پہنچا ۔ ۱۹۴۹ء کا سال تھا ۔ مہاجرین کے قافلے ابھی تک آ جا رہے تھے۔ ڈوگروں کے کچلے مسلے کشمیر کے آدھے حصے میں آزادی کی صبح طلوع ہوچکی تھی ۔ نئی حسرتوں اور امنگوں کے جلومیں لوگ جنگلوں اور ویرانوں میں بستیاں بسا رہے تھے۔

جس کے سینگ جہاں سمائے وہ بیٹھ گیا ۔ فقیر محمد نے دادا کی زمین پر جھگی بنانے کا آغاز کیا تو اگلے روز مقامی نمبردار اپنے بد معاشوں کے ساتھ اس پر ٹوٹ پڑا ۔ فقیر محمد کو آزادی کے ثمرات کے طو رپر ایک ٹانگ اور پاؤں کی ہڈی تڑوانا پڑی ۔ کئی روز تک سول ہسپتال کوٹلی میں زیر علاج رہا ۔صحت یابی کے بعد کچھ ’’ بڑوں ‘‘ کو لے کر دادا کی زمین کا تصفیہ کرانے نمبر دار کے گھر گیا ۔ ابھی جم کر بیٹھنے نہ پائے تھے کہ نمبر دار نے دوسری قسط کے طور پر بڑوں سمیت فقیر محمد کی درگت بنا دی ۔ ۱۹۵۵ء کے شروع میں فقیر محمد عدالت میں چلاگیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس طرح منصفی چاہے ۔ ایک ہندو وکیل نے اسے بتایا کہ جو بھی فیصلہ ہونا ہے وہ انگریزوں اور ڈوگروں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ہوگا ۔سابقہ حکمرانوں کا نام سن کر اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۔ آٹھ برس بیت جانے کے بعد بھی ’’ اسلامی نظام ‘‘ کا دور دور تک نشان نہ پا کر فقیر محمد نے واپس ’’ گھر ‘‘ جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس نے سوچا دادا درست ہی کہتا تھا ’’ یہاں کچھ نہیں بدلے گا۔‘‘

ایک روز وہ سیز فائر لائن پر گیا اور مقامی ایجنٹ کو کچھ رقم دے کر بارڈر پر کر گیا۔راجوری جا کر وہ چنگس قصبے میں محنت مزدوری کرنے لگا ۔ لیکن ’’ آزادی ‘‘ کے سہانے خواب اور ان دیکھی نعمتوں نے اسے سونے نہ دیا ۔ فقیر محمد کا خیال تھا کہ کبھی نہ کبھی آزاد کشمیر اور پاکستان میں وہ سحر ضرور طلوع ہوگی جس کا وعدہ اس سے کیاگیا تھا۔ اپنے دادا اور باپ سے اس موضوع پر بحث کرتے کرتے وہ تھک گیا لیکن ہتھیار نہیں ڈالے ۔۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں وہ سیز فائر لائن عبور کر کے پھر آزاد کشمیر آ گیا۔ یہاں ہرطرف پاک فوج کی کامیابیوں کے جشن تھے لیکن وہ ہر ایک سے پوچھتا پھرتا تھا کیا راجوری بھی آزاد ہو گیا ۔ کسی نے اسے جواب نہ دیا ایک روز اس پر حقیقت آشکار ہوئی تو واپسی کے لیے سامان باندھ لیا ۔کیونکہ اس کا گھر تو ابھی غلام تھا۔ سکاکس نامی گاؤں میں کئی روز تک وہ کسی ایسی خبر کا منتظر رہا جو اس کے حوصلے بڑھا سکتی ا ور وہ جاکر اپنے باپ اور دادا کو قائل کرتا ۔جس روز مایوس ہو کر وہ بسالی نامی گاؤں پہنچا ۔ بھارتی فوجیوں نے قید کر لیا ۔ پرتاب فارم جموں کے عقوبت خانے میں اس پر جو بیتی وہ ایک الگ داستان ہے ۔
ایک مدت تک وہ بھارتی ایجنٹ ہونے کی سزا بھگتتا رہا یہاں تک ۱۹۷۱ء کا زمانہ آ گیا ۔ فقیر محمد ’’ با عزت ‘‘ بری ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کا المیہ جنم لے چکا تھا۔ دادا اور باپ کے طعنے سنتے سنتے تنگ آ کر وہ ایک روزپھر سیز فائر لائن عبور کر کے وادی بناہ آ گیا ۔ یہاں ایک نیا دور اس کا منتظر تھا ‘وہ بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزام میں دھر لیاگیا۔تفتیش ‘ تشدد اور طعنے اس کی زندگی کا حصہ بن گئے تھے۔ چنانچہ فقیر محمد کے اندر کا انسان شاعر بن کر سامنے آ گیا ۔

۲۵ برس ادھر ایسے روز جب آسمان سے بارش کی پھوار ٹوٹ پڑی تھی وہ اس عاجز کو منظر میں مگن دیکھ کر کندھے پر ہاتھ رکھ کرکھڑا ہوا تھا اور بولا ’’ گھر ‘‘ یاد آرہاہے؟ میں نے تو ’’ گھر ‘‘ کبھی دیکھا نہیں تھا بس بزرگوں سے ہی اس کے بارے میں سنا تھا۔ فقیر محمد کو دیکھ کر محض سر ہلادیا تھا معاً وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گانے لگا ۔
بربر بدلا دے دبکار
کدوں جاساں اپنے کہار
اکھیاں بھریاں پانی نال
ڈھڈا زخم جانی نال
رستے تکاں پہاڑی پار
فوجی بیٹھے ادھ بشکار
زخمی دل تے جاں لاچار
کدوں جاساں اپنے کہار
بربر بدلا دے دبکار

’’ اے بادلو! دھماکے کے ساتھ برسوں ہائے کب ہم کب ’’ گھر‘‘ جائیں گے ۔ آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہیں اور جان کو گہرا زخم لگا ہے ۔ پہاڑی کے اس پارراستہ دیکھتا ہوں لیکن درمیان میں فوجی بیٹھے ہیں‘ دل زخمی اور جاں لاچار ہو چکی ہے ‘ کب اپنے ’’ گھر ‘‘ جائیں گے‘ اے بادلو ! دھماکے کے ساتھ برسو ۔‘‘

فراق کی طویل نظم کا شاعر فقیر محمد واپس راجوری(چنگس) چلا گیا تھا اور اپنے ’’ گھر ‘‘ جا بسا ۔ اس کے جاننے والے ہزاروں ’’ گھر ‘‘ جا سکے نہ گھر کے راستے میں بیٹھے فوجی ہٹ سکے ادھر برسات کی رم جھم لگی ادھر فون کی گھنٹی بجی۔ فقیر محمد کا داماد قدرت اﷲ کہہ رہا تھا ’’ بابا کل رات مر گیا۔‘‘ ۲۵ برس ادھر کے لمحے آنکھوں میں سمٹ آئے اور ذہن کے کسی کونے میں گونج اٹھی۔
بربر بدلا دے دبکار
کدوں جاساں اپنے کہار

فقیر محمد بالآخر ’’ گھر ‘‘ سے گھر جا بسا ‘ لیکن اس گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگنے کی رسم باقی رہی۔
 
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 34068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.