یاد ِ ماضی اور ہماری زندگی

مشکلات و مصروفیات نے انسانی زندگی کو اس قدر پریشان و حیران کر رکھا ہے کہ انسان ان سے نجات پا کر سکون و آسائش سے محروم۔۔۔ مگر برق رفتاری سے دنیا کی تزئین و آسائش میں مصروف و مگن نظر آتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اپنی زندگی میں چاہے جس قدر مصروف ہوجائے مگر ماضی کی کچھی باتیں ان کے سامنے چھیڑ لی جائیں تو ان کی آنکھوں سے ایک آنسوؤں کی لہر نکل کر دل سے ایک ٹھنڈی آہ نکالتی ہوئی پورے جسم پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے، خاص کر وہ واقعات جن لمحات میں وہ بھر پو ر مسرور و خوشحال تھا یا خود اس یا د کا ایک شاندار ماضی ہو مثلاََ ماضی کا کوئی کھیل، بولی، پروگرام، مخصوص مقام و شخصیت اور محافل وغیرہ کا ذکر ان کے سامنے کیا جائے تو وہ اُن کو بھر پور انداز میں یاد آئے گا اور ماضی کے پیار و لگاؤ کا اندازہ تو اس بات سے ہو سکتا ہے کہ وہ سارے کام چھوڑ کر اس یاد میں گم ہو جائے گا اور خود کو پھر اُسی میدان میں کھیلتا ہوا پائے گا، ہر علاقے کے مشہور پرانے کھیل جوہم اور بعض جو ہمارے آباؤ اجداد کھیلا کرتے تھے مثلاً ہمارے ہاں شادی بیاہ کے مواقع پر تمبنڑ مارنا(سب سے اونچے درخت کے اوپر لوہے کی سلاخ باندھ کر پھر اس کی نشانہ بازی سے گرانا)، بٹھی (بھاری و وزنی پتھر ) اُٹھانا، کبڈی کھیلنا، بیلوں کی دوڑ کا مقابلہ، گاہ کروانا، بیلوں کی دوڑ کے مقابلے، راتوں کو اکٹھے ہو کر ڈنڈوں سے مکئی کے بٹھوں سے گاہی، نیزہ بازی کے مقابلے، ڈیڈیوں کا قیام، حقہ و جرگوں کا انعقاد، شاعر ی و گیتوں کے مقابلے، شادی میں دلہے کے لیے جوڑوں کا رواج، لمبی لمبی اور پیدل باراتیں، موت کے موقع پر سارے گاؤں کا اکٹھے ہو نا، پورے گاؤں میں سناٹے اور غم کی لہر کا چھا جانا، دُعا و تدفین میں گاؤں کے سب ہی افراد کا اکٹھا ہونا، تلاوت و فاتح کا سلسلہ، کسی کے بیمار ہونے پر جانی و مالی تعاون کی یقین دہانی و حوصلہ افزائی، گاؤں کی بیٹی کی قدر و عظمت میں اپنی جان تک کی پروا نہ کرنا ، پیدل سفر کرنا، اپنے نمبروں کا انتظار اگرچہ وہ کنوؤں سے پانی بھرنے پر ہو، چکی و جند ر پہ آٹے کے لیے ہو، بھٹی پر دانوں کے لیے ہوں سب نمبر آج ماضی کی صرف حسین یادیں ہیں، سردیوں میں دوستوں کی محافل کا انعقاد اورآگ لگا کر بیٹھنا، سرسوں کے ساگ ،مکئی کی روٹی اس کے اوپر رکھا مکھن ،پیالے میں ڈلی چٹنی ، اور لوہے کے بڑے سے جگ میں لسی، پیدل سکول جانا اور جاتے وقت گھر سے پیسوں کے بجائے ملے کالے چنے اور دانے کھانا، سارے راستے دوستوں سے اپنے ان دیکھے خوابوں کے تذکرے، سکول میں اپنے اساتذہ سے پڑنے والی مار، اُونچی آواز میں پڑھا ئے جانے والے کلمے، پہاڑے اور سبق ، کلاس فیلوز کے ساتھ بیتے لمحات ، کھیل کے آباد میدان عرضیکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی وہ بات یاد وں کے دیپ جلا رہی ہوتی ہے جو ہمارے آج کے موجودہ معاشرے میں ناپید ہوتی جارہی ہے۔ ماضی کی یادیں جذبات بن کر بچوں کی طرح کھیلتے ہوئے نظر آتی ہیں، مٹی پر بیٹھنے کا دور ضرور تھا مگر ململ سے زیادہ نرم و پرسکون لمحات تھے، بناوٹ سے پاک ان یادوں میں بچوں ، نوجوانوں اور بوڑھوں کے دل یک جان ہو کر دھڑکتے نظر آتے ہیں، آج صرف ایک آرمانوں سے سجی ڈولی نظر آتی ہے ، اگر ان یادوں کو انسان یاد کرنے بیٹھ جاتا ہے توایک پل کے لیے آدمی اپنے آپ کو پھر سے اسی ماحول میں موجود محسوس کرنے لگتا ہے، یقین مانیں صبح نکلنے والا سور ج کا سہانا طوع ، پرندوں کے ترنم، شبنم سے تر ماحول ، ہواؤں کی گنگناہٹ اور ابابیلوں کا خاموش فضاؤں میں ڈبگیاں لگانا یہ ہی نہیں شام کو غروب آفتاب کے دل آویز مناظر ، موت سے بھرپور درد ناک سناٹا، چمگادڑوں کا فضاؤں میں ناچ اور جگنوؤں کا چم چم کرنا یہ سب مناظر نا قابل فراموش حقیقتیں بھول جانی پڑتی ہیں۔ماضی کی کچھ یادیں و باتیں بیان کرنے سے صرف اور صرف اتنا مقصود تھا کہ ہم نے اپنی زندگی کو نا حاصل ضروریات و خواہشات کے لیے اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ آج ہم کو اپنے بھائی کے پاس بیٹھنے تک کا ٹائم ہے اور نہ ہم بیٹھنا چاہتے ہیں، محلے میں فوتگی ہو گئی ہے تو دوسرے گھر میں شادی بیاہ کی سر ِ عام بیودہ رسومات کا انعقاد، نواجوان اولاد کا والدین کے سامنے اپنی خوبصورتی و فحاشی کا بے ڈھڑک بیاں غرضیکہ ہم نے اپنے آپ کو کس سمت لگا دیا ہے، ہمارا مستقبل کیا ہو گا ، ہمارے آنے والی نسلیں کیا سیکھ رہی ہیں اور کیا کھو رہی ہیں ۔۔۔کیا سوچا ہے ہم نے کبھی ۔۔۔؟؟؟
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182347 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More