ماں جی صحن میں پودوں کو پانی دے رہی تھیں

ماں جی صحن میں پودوں کو پانی دے رہی تھیں کہ پھٹ پھٹاتا ہوا رکشہ بالکل گھر کے دروازے سے آن لگا -دروازے کی جھری سے انہوں نے جھانک کر جو دیکھا تو ماہا کو صبح صبح دیکھ کر انکا ماتھا ٹھنکا -اپنی اس بیٹی کی معاملات میں جلد باز، خودسر اور نادان طبیعت کے باعث انکا دل ویسے ہی اسکی طرف سے کھٹکتا ہی رہتا تھا اور بلا کسی پیشگی اطلاع کےصبح صبح یوں رکشہ پکڑ کر آ جانا ویسے ہی کئی سوال اٹھا رہا تھا-

انہوں نے لپک کر دروازہ کھولا تو ماہا رکشے میں بیٹھی اسکے ڈرائیور سے بحث میں الجھی ہوئی تھی کہ جب وہ کام کرنے نکلا ہے تواسکے پاس ہزار کا کھلا کیوں نہیں موجود؟

غریب رکشے والا ابھی ان جوابات پر روشنی ڈال ہی رہا تھا کہ ماں جی چادر جیسا دوپٹہ سر پر جماتی سلیقے سے لپیٹے ہوئے باہر آ گئیں۔ بیٹی سے علیک سلیک کے بعد رکشے والے سے بولیں .

اے بیٹا تم اس پھٹ پھٹی کو تو ذرا دم کے لیے بند کر دو کان پڑی آواز نہیں آتی مجھے تو۔ اور بیٹا ذرا دیر یہ دروازے کے ساتھ والی بینچ پر بیٹھ جاؤ جب تک چاۓ پی لو تب تک ملازم قریبی دکان سے کھلے پیسے لے آتا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے فوراً ہی ملازم کے ہاتھوں اسے ناشتے کی ٹرے بھجوا دی۔

اس سے پہلے کہ ماہا گھر میں موجود بھاوج اور چھوٹے بھتیجے سے ملنے ملانے میں وقت لگاتی ماں جی اسکا ہاتھ تھامے ساتھ والی بیٹھک میں اسے گھسیٹ لائیں اور حیران ہو کر پوچھا سب خیریت تو ہے میری بچی اسطرح کیسے آگئی؟

ماہا نے جوابا بہت ہی فاتحانہ انداز میں انکی طرف دیکھتے ہوۓ بتایا " میری نندوں کا تو اپنے سسرال میں دل ہی نہیں لگتا۔ بے بی باجی کے بیٹے کی آج چھٹی تھی تو جھٹ ہمارے گھر آ گئیں ،مجھے تو ایسی آگ لگی بغیر کسی سے کچھ کہے رکشہ پکڑا اور ادھر آگئی .

اس کے جواب سے ماں جی کو یہ تو بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ آگ لگنا کسے کہتے ہیں۔

انہوں نے کافی سخت لہجے میں اس سے پوچھا تمھاری نند تمہارے گھر آگئی تو تم اٹھ کر یہاں چلی آئی؟ بغیر یہ سوچے کہ تمھاری آمد پر یہی باہر کھڑا رکشہ پکڑ کر تمھاری بھابھی اپنی ماں کے گھر چلی جاۓ تو تم کو کیسا لگے گا ؟ گھر ہے یا تاش کے پتوں کا گھروندا کہ ایک کو ذرا دھکا لگا تو آخر تک سب گرتے چلے گۓ، کبھی زندگی میں اپنی ماں کو مہمانوں سے ایسا برتاؤ کرتے دیکھا ہے؟

یاد رکھنا! مہمان کی تکریم اسکی عزت ایمان کا حصہ ہے، فون اور ڈراموں سے دھیان ہٹے تو ایمان کو سمجھو ناں تم .کچھ دیر اس کے اس عمل سے پیدا ہو جانے والے حالات کی اونچ نیچ سمجھاتی رہیں جب دیکھا کہ بیٹی کو بات سمجھ آگئی ہے تو .....پھر تھوڑا نرم ہوتی ہوئی بولیں میری بیٹی تو بہت سمجھدار ہے، کہ اتنی سی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ ایک دن تو ہم سب کو اللہ تعالیٰ کا مہمان بننا ہی ہے سوچو ذرا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی مہمان سے اس روز بات بھی نہ کرے غصه ہو جاۓ اسکے آنے پر .....ماہا نے انکو بات مکمل نہ کرنے دی اور نم آنکھوں کے ساتھ ماں سے بولی "ماں جی اب کیا کروں ؟"

ماں جی کا چہرہ یک دم کھل اٹھا اسے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے فریزر کی طرف لپکیں ،دو پیکٹ سموسے اور کباب کے نکال کر بیٹی کو پکڑا کر بولیں بس یہ سرپرائز اب اپنی ساس اور نند کو کسطرح دینا ہے یہ تمھارا کام ہے .ماہا نے ماں کی بات سمجھتے ھوۓ انکو خوش ہو کر گلے لگایا مدھم سی آواز میں سوری کہا جلدی سے کچن میں کام کرتی بھاوج سے مل کر دروازے کی جانب لپکی -ماں جی بھی پیچھے ہو لیں

رکشے والا پلیٹ میں چمٹا ہوا جام چاٹنے میں مصروف تھا۔ انہیں دیکھ کر کچھ خفگی اور کچھ شکر گزار لہجے میں بولا " امّاں دیر کرا دی ،اب سواری بھی ملے کہ نہیں اس ٹیم پر "
ماہا نے کہا "ہے سواری ......جہاں سے لیا تھا وہاں واپس بھی جانا ہے " رکشے والے نے یہ سنتے ہی چابکدستی سے رکشے میں بیٹھ کر لیور کھینچ ڈالا .....

اللہ تعالیٰ کے ڈھیروں شکر کے ساتھ اسکی حفاظت میں اپنی نگاہوں سے دور ہوتی بیٹی کو دیتے ہوئے ماں جی گھر کا دروازہ بند کرتے ہوئے مسکرا رہی تھیں کہ رکشے کی پھٹ پھٹ انہیں زندگی بھر کبھی اتنی سریلی نہ لگی تھی جتنی اس دم لگ رہی تھی۔
Kamran Buneri
About the Author: Kamran Buneri Read More Articles by Kamran Buneri: 92 Articles with 259400 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.