این جی اوز فلاحی یا ۔۔۔ادارے

خیر اور فلاح اسلام کے ابدی اصول ہیں۔ نماز کو بھی خیر و فلاح قرار دیا یعنی اپنی ذات اور معاشرے کی خیر و فلاح۔ زکٰوۃ کو صاحب حیثیت مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تاکہ وہ اپنے مال میں غریب کا حصہ اسکا حق سمجھے نہ کہ رعایت۔ صدقہ و خیرات کو بہترین درجہ دیا کیونکہ اسلام معاشرے کے ہر فرد کو دوسرے فرد سے جوڑتا ہے۔ اور ہر ایک کی مدد کا حکم دیتا ہے اور یہ مدد اس طرح کہ لینے والا شرمندہ نہ ہو کہ دائیں ہاتھ کی خبر بائیں ہاتھ کو نہ ہو۔ معاشرتی بھلائی کے کاموں کو بھی نمود و نمائش نہیں بلکہ بھلائی اور خیر کے نکتہ نظر سے ہونا چاہیے لیکن آجکل خیر، خیرات، بھلائی اور معاشرتی تعمیر سب کچھ کمرشلائز کر دیا گیا ہے۔ فلاحی کام کسی ادارے یا تنظیم کے تحت کرنا فلاح کو زیادہ منظم بنا دیتا ہے لیکن آجکل دوسرے میدانوں کی طرح یہاں بھی نمود ونمائش نے جگہ لے لی ہے بلکہ اس کام کو دوسرے کی مدد کی بجائے اپنی مالی حالت مزید سے مزید نکھارنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ این جی اوز کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے ترقی یافتہ ملکوں نے ترقی پذیر اور غریب ممالک پر کنٹرول کا ایک نیا طریقہ اس صورت میں نکالا ہے اور اپنے این جی اوز کی شاخیں ان ممالک میں کھول کر ان کے متعلق بلکہ ان کے خلاف رپورٹیں شائع کر کے ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان بھی ان دنوں این جی اوز کی لپیٹ میں ہے اور حکومتی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سے زائد این جی اوز یہاں قائم ہیں۔ دراصل پاکستان میں اولین این جی اوز کی ابتدا اسوقت ہوئی جب اپنے قیام کے بعد اسے لاکھوں مہاجرین کو سنبھالنا پڑا بہت سے خیراتی ادارے وجود میں آئے زیادہ تر بیگمات نے یہ کام کیا۔ ١٩٨٠کی دہائی میں رفاہ عامہ کے لیے کچھ اور ادارے اور این جی اوز بنائے گئے جن میں کچھ ملکی اور کچھ غیر ملکی تھے اور ١٩٨٠ کی دہائی کچھ اور غیر ملکی این جی اوز افغان مہاجرین کی آڑ لیکر آئے اور کچھ غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب نمائندوں نے فنڈز کے حصول کے لیے بنائے اسی طرح ١٩٩٠ کی دہائی میں فنڈز کے لیے سندھ اور پنجاب میں بے تحاشا این جی اوز بنائے گئے۔

ملکی این جی اوز کی تو پھر کوئی منطق پیش کی جا سکتی ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ انکا خلوص بھی شک و شبہ سے بالا تر نہیں۔ دس، پندرہ یا بیس افراد پر مشتمل این جی او فلاح و بہبود کا کام کتنا کر سکتے ہیں اور فنڈ کتنا حاصل کرتے ہیں۔ کیا کبھی کسی حکومت نے ان کا آڈٹ کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ اور کیا کسی چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی موجود ہے یا بغیر کسی قانون یا قانون موجود ہوتے ہوئے بھی بلا ضرورت اور بلا تحقیق این جی اوز کو رجسٹر کیا جا رہا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ٤٥٠٠٠ این جی اوز رجسٹرڈ ہیں لیکن اصل تعداد اب بھی معلوم نہیں حالانکہ یہ وہ زمانہ نہیں جب گنتی اور شمار بہت مشکل کام ہو ہمارے انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار این جی اوز بنانا ہی انسانیت کی معراج سمجھتے ہیں اور پھر کسی فرد کے عمل کو پوری قوم پر منطبق کر کے اسے بدنام کرتے ہیں کشمیر سنگھ کی رہائی پر نام کماتے لیکن پورے کشمیر کے جل جانے پر خاموش رہتے ہیں۔ وہ اس خاموشی اور اس واویلے کی کتنی قیمت وصول کرتے ہیں عوام تو ظاہر ہے اس کا جواب نہیں جانتی کیا حکومت بھی بے خبر ہے؟

اب ذرا آئیے غیر ملکی این جی اوز کی بات کرتے ہیں جو خورو جھاڑیوں کی طرح ملک بھر میں اگی ہوئی ہیں کچھ قابل فہم اور کچھ ناقابل فہم ناموں سے گلی کوچوں میں موجود ہیں۔ کیا ایسا ہے کہ ان دور دراز کے ملکوں کے رہنے والے متعصب گوروں کو ہم سے انتہائی ہمدردی ہے اور وہ ہماری خدمت کرنے کے لیے ہمارے یہاں آئے ہیں۔ یقیناً ایسا ہرگز نہیں ہے ورنہ یہ این جی اوز ہمارے ملک کے خلاف لا یعنی قسم کے الزامات نہ لگاتے اصل میں یہ آئے ہی اس کام کے لیے ہیں ورنہ وہ اپنے ملکوں میں بھی یہ خدمت کر سکتے ہیں کیونکہ مسائل وہاں بھی ہیں چاہے وہ ہم سے مختلف ہوں لیکن اپنے مسائل اجاگر کرنے میں ظاہر ہیں خامیاں بھی نظر آئیں گی اور فنڈز بھی اس طرح نہیں مل سکتے جس طرح ترقی پذیر ملکوں کی خدمت کے نام پر ہتھیائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان ملکوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو اچھال کر اپنی موجودگی کا جواز بھی پیدا کیا جاتا ہے اور پھر ان مسائل کے حل کے نام پر بڑے بڑے فنڈز حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ پوش علاقوں میں انتہائی زیادہ کرائے، اپنے کارندوں اور ملازمین کو بڑی بڑی تنخواہیں آخر یہ سب کیسے ممکن ہے ظاہر ہے اس سب کچھ سے زیادہ وہ اپنے لیے رکھ لیتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے کوشش کے نام پر ملک کی بدنامی اور بہت کچھ بھی۔

سوال یہ ہے کہ آخر ہماری حکومت یہ سب کچھ کرنے کی اجازت کیسے دے دیتی ہے۔ ایک این جی او کی ہی مثال لیجیئےEOPM یعنی یورپین آرگنائزیشن آف پاکستانی مائناریٹیز کے نام سے کام کرنے والی این جی او نے پاکستان کو اقلیتوں کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد ٥ فی صد ہے لیکن حکومت جان بوجھ کر انہیں کم بتاتی ہیں اس این جی او کی گمراہ کن رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ عیسائی، ہندو، قادیانی اور دوسری اقلیتوں کی عورتوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے یعنی صرف پاکستان کی بدنامی کی کوشش ورنہ پاکستان کا آج کا آزاد میڈیا سب سے پہلے خبر پہنچانے کے شوق میں ہی ایسی خبریں نشر کر دے۔ پھر توہین رسالت کے قانون کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اور اس پر اعتراض کرتے ہوئے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے کسی محمد یوسف کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے یعنی مذہبی معاملات میں مداخلت۔ کیا ہماری حکومت اس اور اس جیسی دوسری این جی اوز سے جواب طلبی نہ کر کے مجرم نہیں بن رہی۔

ہمارے حساس ادارے بھی یوں لگتا ہے کہ اس فرض سے پہلوتہی کر رہے ہیں کیا پاکستان اور پاکستانیوں کے مسائل پہلے کم ہیں جو انہیں مزید بدنام کیا جارہا ہے دراصل مغرب نے اسلام کا بالعموم اور پاکستان کا بالخصوص محاصرہ کیا ہوا ہے لیکن قصور ہمارا بھی ہے جب گھر والے گھر میں مداخلت کی اجازت دیں تو دشمن تو ہر وقت تیار رہتا ہے ان کے جاسوس ادارے تو ہمہ وقت اپنے کام میں مصروف ہیں لیکن چوکنا تو ہمیں رہنا ہوگا جسطرح افواج پاکستان کی مدد سے گھوسٹ سکولوں کا پتہ چلایا گیا تھا کیا ایسے ہی اصل فلاحی اداروں، فنڈز کے حصول کے لیے قائم شدہ جعلی این جی اوز اور بدامنی اور بدنامی پھیلانے والے جاسوس این جی اوز جو کھلم کھلا اور درپردہ پاکستان دشمنی کر رہے ہیں کا پتہ نہیں چلایا جا سکتا تاکہ مجبوراً نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے نوجوان ان کے جھانسے میں نہ آسکیں بلکہ ملک مخالف پروپیگنڈا کرنے والے این جی اوز کو نہ صرف بین کیا جائے بلکہ اندرونی معاملات میں مداخلت پر انکے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔ میڈیا سے میری گزارش ہے کہ جسطرح وہ سرکاری اداروں میں کرپشن کو عوام کے سامنے لاتا ہے اسی طرح این جی اوز کا کردار اور انکے فنڈز کا حساب کتاب بھی عوام کو بتائے اور یہ بھی کہ پچاس ساٹھ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے تقریب منعقد کر کے اسکا بل لاکھوں کے حساب سے کیسے لے لیا جاتا ہے حکومت اسطرف ضرور توجہ دے ورنہ ایسا نہ ہو کہ یہ ٹڈی دل پوری فصل کی تباہی کا باعث بن جائے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508418 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.