آپ،میں اور ہمارا میڈیا

کافی عرصے سے قلم کچھ لکھنا چاہتا تھا لیکن بے ربط خیال اور ادھورے جملے تحریر مکمل نہیں ہونے دے رہے تھے وجہ وہی زندگی کی چخ چخ....

بہت سارا وقت تو ٹی وی اور سنسنی خیز بریکنگ نیوز کی نظر ہوتا رہتا..

کیا کریں جی کہنے کو تو ہم نے دنیا کو "گلوبل ویلج" بنا دیا ہے لیکن ساتھ ہی ہمدردی،بھائی چارے اور معاشرتی قدروں کو بھی قربان کر دیا ہے..

شائد ہی کسی معاشرے نے ترقی منزل کے ایک قدم کی اتنی قیمت چُکائی ہو..

جی بالکل میں میڈیا کی آزادی کی ترقی کی ہی بات کر رہا ہوں..

وہی میڈیا جسے ایک آمر نے بےلگام جنگلی ہاتھی کی صورت میں اس معاشرے کی قدروں اور نوجوان نسل کی اخلاقیات کو روندنے کے لئے آزاد چھوڑ گیا..

ابھی ذیادہ دیر تو نہیں ہوئی
26 اکتوبر 2015 دن دو بجے کے بعد پاکستان میں زلزلہ آیا

شدت کے لحاظ سے یہ پاکستان کی تاریخ کا ہولناک زلزلہ تھا جو کہ کسی بھی ملک یا جگہ کو صفہ ہستی سے مٹانے کے لیئے کافی تھا

سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر ہر طرف خبریں آنے لگیں
کہیں پر یہ سننے کو مل رہا تھا سب سے پہلے سب سے آگے آپ تک خبر کی رسائی
سچ ذمہ داری کے ساتھ
ہر لمحہ باخبر

کیمرے کی آنکھ سے رنگین اور چست کپڑوں میں ملبوس حسیناوں کے دلفریب انداز میں پیش کی جانے والی خبریں، خبر کم اور بےحیائی کا پرچار زیادہ لگتی ہیں..

کبھی سوچیں کہ کیا جو خبریں میدیا پر نشر ہوتیں ہیں وہ سب سچی بھی ہوتیں ہیں؟
کیا جو وقت ہم میڈیا کو دے رہے ہیں وہ ہمیں فائدہ دے رہا ہے؟
کیا معاشرے میں میڈیا تعمیری کردار ادا کر رہا ہے؟
کیا میڈیا آزادی اظہار کو استعمال کرتے ہوئے حد سے گزر رہا ہے؟
تو اس کا جواب یقیناً " نہیں " ہے...

وجہ...نہایت سادہ

وہ کہانیاں جو ہم ٹی وی میں مرچ مصالحے کے ساتھ سنتے ہیں یا دیکھتے ہیں وہیں ہوتی ہیں جو ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی ہیں فرق یہ ہے کہ حقیقی زندگی میں ہم ان کا مکافات عمل بھی دیکھتے ہیں...

ہمارا میڈیا معاشرے کی تمام برائیوں کو ہی "ہائی لائٹ" کرتا ہے مگر دن میں معاشرے کی اصلاح کے لئے کتنی خبریں یا پروگرام لگتے ہیں؟

میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہمارے معاشرے میں کوئی برائی نہیں ہے
لیکن
برائی کو اچھائی سے ختم کیا جا سکتا ہے جیسے اندھیرے کو روشنی سے...

ہمارے ٹی وی چینلز میں سیاسی ٹالک شوز کی بھرمار ہے...

اور ان میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان کو آمنے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے اور کوئی ہاٹ ٹاپک لے کے اس پہ غصیلی اور بھڑکیلی گفتگو کی جاتی ہے..

کیا کبھی کسی نے سوچا ایسا کرنے سے عوام میں کیا پیغام پہنچایا جا رہا ہے؟

نفرت کا انصر...

اسی وجہ سے آج کل سیاسی کارکن بھی ایک دوسرے کے اوپر اپنا غصہ نکالتے ہیں...

ایسا کرنے سے کیا عوام مختلف دھڑوں میں
تقسیم نہیں ہو رہی؟

سال پہلے کی بات ہے کوئی صاحب آئے تھے پنجاب میں بلکہ پاکستان کے دارلحکومت میں کافی مہینوں تک کانسرٹ اور ڈانس شو کرتے رہے ہیں جو کہ بلکل ایک فلاپ قسم کا شو تھا جس کو صرف اور صرف اسی میڈیا نے ہوا دے کر آگ کی طرح بھڑکیا اور ہمارے ہی ملک کے کچھ حوالدار اینکر جو کہ شائد موجودہ حکومت کا تختہ بھی الٹا چکے تھے
اور تو اور کچھ کو موصوف سرعام پھانسیوں کا حکم بھی صادر کر چکے تھے

کچھ تو قبریں کھود کر اور ہاتھوں میں اپنے اپنے کفن پکڑ کر ایسے لہرا رہے تھے جیسے (نعوذ باللہ) کسی جہاد پر جا رہے ہوں

کیا کسی نے بھی ان سے ایک بار بھی پوچھا کہ یہ کس لئے کیا؟
ہم ایک آزاد ملک میں نہیں رہتے؟

لیکن شائد ان کے سر پر انقلاب سوار تھا اگر کچھ دیر ہمارا میڈیا ان کو کوریج نا دیتا تو کروڑوں کا نقصان ہو جاتا ہماری معشیت کو
لیکن یہ سب کسی نے نہ سوچا ....
اور اپنی ریٹننگ بڑھانے کے چکروں میں براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا
سالوں پہلی کی بات ہے ایک بھائی صاحب آئے تھے جن کے ساتھ ایک جوتی چور کافی نظر آتا تھا اور ان کو دن میں ڈاکٹر نے کالی عینک لگانے سے گریز کیا تھا یہ سب ان کی ہی مرہون منت ہے

اور آج کل ایک اور بات بڑی سننے کو مل رہی ہے
"زندہ ہے بھٹو زندہ ہے بھٹو"
میڈیا تقریباً ہر جگہ ہی پہنچ جاتا ہے کیا ابھی تک وہ اس بھٹو انکل تک نہیں پہنچ سکے جو کہ شائد عرصہ دراز سے ہم سنتے آرہے ہیں زندہ ہے زندہ ہے

اب تو ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک غیر ضروری خبر کو میڈیا صرف ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے اتنا وقت دیتے ہیں کہ عقل بھی حیران رہ جاتی ہے... اور کبھی تو کسی کی ذاتی زندگی کی خبر ایسے دیتے ہیں کہ خبر الیہ کو بھی شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے...
Muhammad Arslan Ilyas
About the Author: Muhammad Arslan Ilyas Read More Articles by Muhammad Arslan Ilyas: 82 Articles with 72989 views Muhammad Arslan Ilyas was born on 28th August 1995. He comes from a humble family of 4 brother and 1 sister. Muhammad Arslan Ilyas is the youngest of .. View More