ملک اپنے نام کا مصداق ہوتا

کبھی کبھی کچھ باتیں ایسی سامنے آ جاتی ہیں کہ جن کو سوچتے سوچتے فکر و سوچ کے تار وہاں پہنچ جاتے ہیں جن سے بہت حیرت انگیز نتائج اخذ ہوتے ہیں ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے والوں کی سوچ شائد اسلامی جمہوریہ ہی ہو اور وہ خود اس کو اسلامی جمہوری پٹڑی پر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے وجوہات کچھ ایسی ہیں کہ سمت اسلامی جمہوریہ سے ہٹی ہوئی واضح نظر آ رہی ہے ہم سب مسلمان ہیں اﷲ کا بے حد احسان ہے مسلمان ہونے کے ناطے ہم اس بات پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں اسلام اک کامل و اکمل دین ہے جس پر اﷲ کا عطا کردہ آئین (قرآن و حدیث) خود بھی گواہ ہے ہمارے دین میں کوئی خامی نہیں خواہ مذہبی لحاظ سے ہوجو ہماری آخرت کی زمانت ہے خواہ ایسے پہلو جن کو ہم نے خود یہودہ نصاریٰ کی طرح دنیاوی کہہ کر دین کی اتباع سے نکال رکھا ہے مثلاََ معاشرت، معیشت، نظامِ ملک (حکومتی نظام) ، دفاع اندرونی یا بیرو نی ، زراعت، دولت کا نظام، آمدو رفت، روابط و پیغامات، تجارت، ملکی داخلی یا خارجی معاملات، تعلیم و تدریس، صحت ، شہریوں کے لئے زندگی کی بنیادی ضروریات اور بہت ساری وہ چیزیں جو میں نہیں لکھ سکا یا وہ کچھ بھی جو آنے والے دور میں مسائل سامنے آئیں گے سب کے حل اور سب کے قوانین و تعزیرات اس آئین میں موجود ہیں ان سب کو ہی دین کہتے ہیں یہ دین سے باہر نہیں ہیں بس یہی غلط فہمی ہے کہ ہم دینی اور دنیاوی معاملات کہہ کر یہودو نصاریٰ کی پیروی کرتے ہیں ہمارا ہر معاملہ دین ِ اسلام کے طابع ہے اور ہمیں اسی کی اتباع کرنی ہے اور اسی میں فلاح ہے اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے اور یہی وہ تعلیمات ہیں جو ہمیں اپنے آنے والی ہر نسل کو گھٹی میں دینی ہے تبھی ہمارا گھر ، محلہ ، معاشرہ، شہر اور ملک اسلامی اخلاقی اقدار پر استوار ہو گا پھر ہمیں اپنے ملک میں اس چیز کا ڈر نہیں رہے گا کہ ہماری نسل کوئی غیر اخلاقی تہوار منائے گی یا اس کے حق میں جھگڑے گی لیکن یہ سب اتنا جلدی ممکن نہیں کیونکہ ہماری سوچ ، فکر و عمل سے اسلامی اخلاقیات کو نکلنے میں جتنے سال لگے اس سے دو یا تین گنا سالوں کی خلوصِ نیت کے ساتھ محنت درکار ہو گی کہ ہمارے اصلاف اور اسلام کی اقدار واپس ہمارے ذہنوں میں رچ بس جائیں۔

اسلامی ملک کا ذکر ہوا ہے تو تھوڑی نظر اپنے ملک پر بھی ڈال لیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستا ن ہے سب سے پہلی بات یہ کہ ہمارا ملک ہر معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہے حالانکہ ملک کا ہر معاملہ دین کے طابع ہونا چاہیے تھا یہ اک حسین خواب ہی ہے تو سہی کہ کاش ہمارے ملک کے آئین کی جگہ قرآن و حدیث ہوتی اور قومی اسمبلی میں جتنے لوگ بیٹھے ہیں قرآن و حدیث کے عالم ہوتے اور باقی علوم جو مطلوب ہوتے جانتے ہوتے کسی شعبہ کے متعلق جو وزیر ہوتا وہ اس شعبہ کا تو عالم ہوتا کیا ہی اچھا ہوتا کہ دین کا بھی عالم ہوتا، ہمارے وزراء جب کوئی قانون بناتے ہیں تو آئینی حدود دیکھتے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ قرآن و حدیث کی حدود کو دیکھا جاتا اور جب کوئی فیصلہ ہوتا تو دلیل میں قرآن و حدیث کا حوالہ ہتا لیکن کیا ہے کہ علماء کونسل علیحدہ بنا دی ہے جس کا اسمبلی کی آئینی قانونی مسائل میں کوئی عمل دخل نہیں، چھوڑیں خواب سے نکل کر دیکھیں تو ہماری نسلوں کو سنوارنے والے نظامِ تعلیم کی حالت ہی بہت عجیب ہے جن سے نکل کر لوگ حکومت کرتے ہیں یا نوکری کرتے ہیں یا دہشتگرد بن جاتے ہیں پھر گلہ کس بات کا، اک حکومتی نظامِ تعلیم ہے دوسرا پرائیویٹ تیسرا مدارس کا نظام ہے پھر ان تینوں کے اندر بھی (ونج موحانڑے ہو) والی حالت ہے ہم میں سے ہر کوئی چاہتا ہے کہ بچوں کو پرائیویٹ سکول و کالج میں تعلیم دلوائے جو کسی وجہ ہے وہاں نہیں جا سکتے حکومتی نظام اور پھر جو ان دونوں سے اپاہج ہوتا ہے اس کو مدارس میں بھیج دیتے ہیں جو ہماری کل کی نماز کا امام بنتا ہے اور ہمارے دین کا محافظ اور ٹھیکیدار بنا پھرتا ہے یقین کریں اگر یہ ہمارا اندازِ اہمیت الٹا ہوتا تو کسی کو کوئی گلہ شکوہ نہ رہتا نہ کوئی ویلینٹائن کا حامی ہوتا ، نہ ہی کوئی اپنے ملک کا نوجوان دہشتگرد بنتااور نہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ تجارت میں سود کی لچک کا سوال کرتا۔ اپنے ملک کا عدالتی نظام بھی اسی تفریق کا کار ہے اور دو طرح کا عدالتی نظام ہے اک شرعی عدالت دوسری غیر شرعی مطلب جو عام عدالتیں ہیں-

کیا ہی اچھا ہوتا اگرایک ہی نظامِ تعلیم ہوتا اور اسی میں آٹھویں تک دینی دنیاوی علوم جنرل کر کے اکٹھے پڑھائے جاتے میٹر ک میں علوم کی شاخیں علیحدہ علیحدہ کر لی جاتیں اور پھر یونیورسٹیز میں ان کے متعلقہ اعلیٰ تعلیم رکھی جاتی پھر جب ملک چلتا تو تب اپنے نام کا صحیح معنوں میں مصداق ہوتا پھر کسی کو کسی قسم کا گلہ نہ ہوتا تب کوئی مدرسہ ہی نہ ہوتا جو صرف اپنے فرقہ کی تعلیم دیتا بلکہ دین کے تمام علوم صحیح تجدیدی بنیادوں پر پڑھائے جاتے تو کوئی انتہا پسند نہ بنتا، ملک کا ہر شہری اک نظریے کا صبر اور تحمل والا ہوتا اور اک ذمہ دار اسلامی اخلاقی شہری ہوتا تو ملک اپنے نام کا مصداق ہوتا۔
Fayyaz Hussain
About the Author: Fayyaz Hussain Read More Articles by Fayyaz Hussain: 23 Articles with 15506 views Khak-e-paa aal-e-rasool (a.s) wa ashaab-e-rasool (r.a).. View More