امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب روایت

امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب روایت
تحقیق: فضیلۃ الشیخ علامہ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک ضعیف اور باطل روایت یوں ہے:
إني لأتبرك بأبي حنيفة، وأجي إلي قبره في كل يوم، يعني زائرا، فإذا عرضت لي حاجة؟ صليت ركعتين، وجئت إلي قبره، وسألت الله تعالي الحاجة عنده، فما تبعد عني؟ حتي تقضي

میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر ہر دن زیارت کے لیے آتا ہوں. جب مجھے کوئ ضرورت پیش آتی ہے. تو میں دو رکعتیں ادا کرتا ہوں اور ان کی قبر کی طرف جاتا ہوں اور وہاں اللہ تعالی سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا ہوں، جلد ہی وہ ضرورت پوری کر دی جاتی ہے.
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی 1/135)

یہ جھوٹی روایت اور باطل روایت ہے، کیونکہ اس کے راوی عمر بن اسحاق بن ابراہیم کا کتب رجال میں کوئ نام و نشان نہیں ملتا. نیز علی بن میمون راوی کی بھی تعیین نہیں ہوسکی.
اسکے باوجود محمد زائد الکوثری جہمی حنفی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے.
(مقالات الکوثری: 380)

جس روایت کے راوی کا حال یہ ہو کہ اس کا کتب رجال میں ذکر ہی نہ ہو، اسکی سند صحیح کیسے ہوئ؟ کیا یہ سب کچھ قبر پرستی کو تقویت دینے کے لیے تو نہیں کیا جارہا؟

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ ایسی جھوٹی روایت ہے، جس کا جھوٹا ہونا ہر اس شخص کو لازمی طور پر معلوم ہو جاتا ہے، جو فن روایت سے ادنی معرفت بھی رکھتا ہو. امام شافعی جب بغداد تشریف لاۓ، تو وہاں قطعا کوئ ایسی قبر موجود نہ تھی، جس پر دعا کے لیے حاضر ہوا جاتا ہو. یہ چیز امام شافعی کے دور میں معروف ہی نہیں تھی. امام شافعی رحمہ اللہ نے حجاز، یمن، شام، عراق، اور مصر میں انبیاء کرام اور صحابہ و تابعین کی قبریں دیکھی تھیں. یہ لوگ تو امام شافعی اور تمام مسلمانوں کے ہاں امام ابو حنیفہ اور ان جیسے دوسرے علماء سے افضل تھے. کیا وجہ ہے کہ امام شافعی نے سواۓ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کسی کی قبر پر دعا نہیں کی؟ پھر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وہ شاگرد جہنوں نے ان کی صحبت پائ تھی، مثلا ابو یوسف، محمد (بن حسن)، زفر اور حسن بن زیاد نیز انکے طبقہ کے دوسرے لوگ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یا کسی اور کی قبر پر دعا نہیں کرتے تھے. پھر یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم کرنا مکروہ ہے، کیونکہ اس میں فتنہ کا خدشہ ہے. اس طرح کی جھوٹی روایات وہ لوگ گھڑتے ہیں، جو علمی اور دینی اعتبار سے تنگ دست ہوتے ہیں یا پھر ایسی روایات مجہول اور غیر معروف لوگوں سے منقول ہوتی ہیں.
اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم ص: 165

جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب (م: 2009 ء) لکھتے ہیں:
یہ واقعہ جھوٹا اور گھڑا ہوا ہے.
(باب جنت ص: 65)

الشیخ محترم کی تحقیق کا کلام یہاں ختم ہوا.

حنفی فقہ کے امام الآلوسي نے اس روایت کے بارے میں فرمایا، مفہوم: یہ جھوٹ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ جھوٹ ہے اسکے سامنے اجسے ذرا سا بھی اسناد کا علم ہے.."
(فتح المنان صفحہ: 372)

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
والحكاية المنقولة عن الشافعي أنه كان يقصد الدعاء عند قبر أبي حنيفة من الكذب الظاهر

ترجمہ: الشافعی رحمہ اللہ سے منسلک واقعہ کہ انہوں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قبر کے نزدیک دعا کی ظاہر ہے کہ جھوٹ ہے.
(اغاثۃ اللھفان من مصایۃ الشیطان 1/246)

شیخ مہی الدین محمد ابن علی البرقاوي الحنفی (م 929 ہجری) نے ایک روایت اور کچھ تفصیل کے بعد فرمایا، مفہوم:
اور یہی بات امام شافعی رحمہ اللہ سے منسلک روایت کے انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قبر پر دعا کی، یہ ایک واضع جھوٹ ہے
(زیارۃ القبور صفحہ: 58)

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو سلسلۃ الضعیفۃ 1/31 میں کمزور بلکہ جھوٹ کہا. کیونکہ بے شک عمر بن اسحاق بن ابراھیم مجہول ہے.

حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے اسی وجہ سے اسکو جھوٹ کہا.
مجلہ الحدیث نمبر: 26 صفحہ 49 اور 50

گویا اس ارٹیکل:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=71507

میں پیش کیے صاحب کا اس ضعیف روایت سے استدلال صحیح نہیں. افسوس اس بات پر ہے کہ ان احباب کا دارومدار صرف روایت پیش کرنے پر ہے نہ کہ یہ دیکھنے پر کہ مذکورہ روایت صحت و سقم کے اعتبار سے کیا درجہ رکھتی ہے
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 410865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.