شہرمالیگاؤں کے حالات پر مختلف موضوعات پرسروے کئے گئے مضامین کااشاریہ

اہلیان مالیگاؤں میں فضول خرچیوں کابڑھتاہوارجحان:ایک سروے رپورٹ

گہوارۂ علم وفن کہلانے والے شہر’’مالیگاؤں‘‘مختلف اعتبار سے ہر وقت سرخیوں میں رہتاہے۔اس شہر کی اپنی ایک منفردشناخت ہے۔اس سے قبل مختلف موضوعات پرراقم شہرکی سروے رپورٹ پیش کرچکا ہے۔ جیسے:(۱)شہر میں ووٹ بینک سسٹم کی بڑھتی ہوئی خرافات پر ناقدانہ وبیباک تبصرہ(۲)مالیگاؤں کی اسکول وکالج سے لڑکیوں کے نکلنے والے ٹرپ(۳)مالیگاؤں کاٹریفک کنٹرول سسٹم(۴)مالیگاؤں میں بیماریوں کابڑھتاہواتناسب(۵) مالیگاؤں میں صحافت کے چندنرالے پہلو(۶)شہرمالیگاؤں میں عیدقرباں کی تیاریوں پر ایک تجزیاتی رپورٹ(۷)اسٹوڈنٹس،اساتذہ،ٹیوشن کلاسیس اور زیراکس دکانداروں کی غفلت(۸)اہل علم اور ارباب سیاست کی پالیسیاں اور عوامی اضطراب(۹)مالی ووڈ:شہر کی ترقی یاعذاب خداوندی کی دعوت کاذریعہ(۱۰)مالیگاؤں میں معاشرتی مسائل اور امراض کی کثرت:تجزیاتی رپورٹ(۱۱)قوم کی لٹتی ہوئی آبرواور ہمارے بے حسی(۱۲)شہرمالیگاؤں کی پچاس سالہ سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر(۱۳)ماہ رمضان میں اسلام کو بدنام کرنے والے مسلمانوں کے معمولات(۱۴)جشن آزادی اور اہلیان مالیگاؤں کی بے حسی:قابل رحم وقابل توجہ(۱۵)عیدکی مبارکبادیوں کے بینرکا سلسلہ:سنت ہے یابدعت؟(۱۶)اسکول وکالج کی سالانہ گیدرنگ میں شرعی احتیاط کی ضرورت(۱۷)عید کی تعطیلات اور خرافات(۱۸)مالیگاؤں کی معاشرتی تباہی پر ایک سروے رپورٹ(۱۹)شادی کی خرافات اور اہل علم وارباب سیاست کی خاموشی(۲۰)الیکشن کی ہنگامہ آرائیوں میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا وقت کب آئے گا؟؟(۲۱)برقعے کامقصد پردہ ہے یا فیشن․․․؟(۲۲)مالیگاؤں میں امیروغریب کی خوشی وغم کافرق(۲۳)ہماری سوسائٹی میں صحت کے مسائل (۲۴)جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مالیگاؤں کے مجاہدین وغیرہ وغیرہ۔الحمدﷲ!مذکورہ تمام مضامین شائع بھی ہوئے اور آن لائن تین ویب سائٹس پر موجود بھی ہیں۔

آج کے اس مختصر سے مضمون میں راقم مالیگاؤں میں بڑھتی ہوئی فضول خرچیوں کااشاریہ پیش کرے گا۔راقم نے ٹووہیلرگاڑیوں کے شوروم سے رابطہ کیاتومعلوم ہواکہ تھرٹی فرسٹ کے جشن کے لیے بہت سے لوگوں نے نئی گاڑیوں کی بُکنگ کروائی تھی جبکہ ان کے پاس پہلے سے عمدہ اور اچھی گاڑیاں موجود تھیں۔بلکہ انہوں نے یہاں تک کہاں کہ جب کمپنی کوئی نئی بائک لانچ کرتی ہے تو بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ روپئے دے کر سب سے پہلے وہ گاڑی خریدتے ہے تاکہ وہ دوستوں کی محفل میں فخریہ اندازمیں یہ کہہ سکے کہ ’’مالیگاؤں میں سب سے پہلی گاڑی میں نے خریدی ہے‘‘چاہے اس کے لیے انہیں ہزاروں روپئے زیادہ ہی کیوں نہ دیناپڑے۔ہر چار چھ یاسال بھرمیں گاڑیاں تبدیل کرنے کارجحان بھی شہر میں بڑی تیزی کے ساتھ پنپ رہاہے۔اسی طرح راقم نے مختلف پان اسٹال پر وزٹ کی تو معلوم ہواکہ اس شہر میں ایسے بھی لوگ ہے جن کاایک مہینہ کا پان خرچ بیس تاتیس ہزار روپئے ہے۔اگر چھ تاآٹھ لاکھ لوگوں کی آبادی والے شہر میں بیس روپئے روزکے اوسط سے ایک لاکھ لوگ بھی پان کھاتے ہونگے تو ایک مہینے میں کروڑوں روپئے پان کھاکر تھوک دیئے جاتے ہیں۔پان اسٹال پرپان کاپتہ فروخت کرنے والے شخص نے بتایاکہ میں ایک ہفتے میں مختلف پان دکانوں پر پانچ لاکھ روپیوں کاکچاپان دیتاہوں۔ قارئین خوداندازہ لگائیں کہ مالیگاؤں میں ایسے کتنے سپلائرہوں گے جودکانوں پر پان کاپتہ پہنچاتے ہوں گے؟ پان اسٹال والے اس پر کتناروپیہ کماتے ہوں گے؟ اور پان کے شوقین خون پسینے کی کتنی کمائی تھوک کی نذرکرتے ہوں گے؟یہ توصرف پان کاخرچ ہے اسی طرح بیڑی، سگریٹ،گٹکا، تمباکواورچائے کاتخمینہ بھی نکالاجاسکتاہے۔گلوبلائزیشن کے اس دور میں ہر کوئی انٹرنیٹ کااستعمال کرناچاہتاہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے مہینے کے کروڑوں روپئے اہلیان مالیگاؤں موبائل کی خریدوفروخت پر خرچ کردیتے ہیں۔اگرمالیگاؤں میں ایک لاکھ لوگ بھی 250؍روپئے کی ایک جی بی ایک مہینہ میں استعمال کرتے ہوں گے تواہلیان مالیگاؤں لاکھوں کروڑوں روپیہ صرف انٹرنیٹ پر خرچ کردیتے ہیں اورانہیں احساس بھی نہیں ہوتا۔جبکہ بہت سے ایسے بھی لوگ ہے جو محض اپنی تفریح طبع کے لیے ایک سے زائد جی بی کا ریچارج کرتے ہے۔یہ تو رہاصرف نیٹ کاخرچ،کالنگ اور ایس ایم ایس پر ہونے والے اخراجات اس سے علاحدہ ہے۔فلم بینی،سنیمااور ویڈیوپر کئے جانے والے اخراجات کاآپ جائزہ لوں گے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائینگی۔مگر اس طرح کی فضول خرچی کرنے والے افراد کی نجی زندگی میں آپ دیکھوں گے تو معلوم ہوگاکہ لاکھوں روپیہ اڑانے والے صاحب کامہربھی ابھی تک باقی ہے،انہی لوگوں سے آپ مسجدومدرسے کی امدادکے لیے چندہ یازکوٰۃ مانگ لوتو یوں منہ بناتے ہیں جیسے زکوٰۃ کے اصل مستحق یہی لوگ ہیں۔کسی یتیم بچی کی کفالت،کسی بے سہارے کے علاج،بیوہ وبے کس کی امداداور ناگہانی مصیبت کے لیے ان کی جیب سے چندسکوں کے علاوہ کچھ اورنہیں نکلتا۔غیروں کی مددکی بات تو دوران کے پاس تو خودکے بچوں کی تعلیم کامنصوبہ،والدین کی خدمت کاارادہ اورشریک حیات کے مستقبل کابھی خیال نہیں ہے۔یہ مست ہے اپنی فضول خرچی کی زندگی میں۔مگر یاد رہے جورب نعمت دیتاہے وہ چھین بھی لیتاہے اور جس نعمت کی قدر نہ کی جائے وہ ختم ہوجاتی ہے۔اسی طرح راقم نے ہوٹلوں اور چوراہوں پر کھانے کی گاڑیاں لگانے والے مختلف لوگوں سے ملاقات کی تومعلوم ہواکہ مسلم مردوں کی آدھی آبادی رات کاکھاناباہرتناول کرتی ہے۔ اگرمالیگاؤں میں ایک ہزارہوٹلوں ،کھاناولوں اور گاڑیوں کی تعداد تعین کرکے روزکا دس ہزارکاکاؤنٹرتسلیم کریں تو اہلیان مالیگاؤں روزکے دس لاکھ روپئے صرف عمدہ ولذیذ کھانے کی خواہش پر خرچ کردیتے ہیں جبکہ انہی کے گھر کے باقی کے ممبران دوپہر کے سالن اور روکھی سوکھی روٹی پر اکتفاکرلیتے ہیں جبکہ اﷲ کے حبیب ﷺنے بیوی کے متعلق فرمایاہے کہ جوتم کھاؤوہی اسے کھلاؤاور جوتم پہنو اسے بھی وہی پہناؤ۔اب اس کامطلب یہ نہیں کہ خود بھی ہوٹل میں کھاؤاور گھر پارسل بھی لے کرجاؤبلکہ اپنی فضول خرچیوں پر کنٹرول کرواور گھروالوں پرخرچ کرواس لیے کہ پیغمبراسلامﷺنے فرمایاہے کہ سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جو گھروالوں پر خرچ کیاجائے۔یہ صرف چندباتوں کااشاریہ تھااس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کام ہیں جوہمارے یہاں رائج ہے مگرطوالت لکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔اﷲ پاک فضول خرچیوں سے محفوظ رکھیں۔
٭٭٭
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ،ایم ایچ سیٹ) مالیگاؤں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
 
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 673023 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More