کراچی ادبی میلہ2016

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے امریکی ادارہ برائے بین الا قوامی ترقی (US Aid)امریکی وقنصل خانے کے تعاون سے منعقدہونے والاساتو اں ادبی میلا شہر کراچی کے مغربی میں ساحل سمندر کے کنارے بیچ لگثرر ی ہوٹل میں اہم تقافتی تقریب تھی۔ کراچی میں امن اور سکون قائم ہوجانے کے بعد جس کا سہرا یقیناحکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے کراچی از سر نو اپنی روائتی روش اور روشنیوں کی جانب لوٹ رہا ہے بلکہ لوٹ چکا ہے۔ثقافتی ، علمی ادبی سرگرمیاں بحال ہوچکی ہیں۔ تواتر کے ساتھ ادبی و علمی تقریبات کا انعقاد اس بات کا پتا دیے رہی ہیں کہ یہاں امن قائم ہوچکا ہے، لوگوں کے دلوں میں جو خوف اور ڈر کی فضا قائم ہوچکی تھی وہ دور ہوچکی ہے۔ مغرب بعد یا رات گئے گھروں سے نکلنا خوف کی علامت بن چک تھا، اب رات بھر رت جگہ کا سما پیش کررہا ہوتاہے۔ گزشتہ سال کے اختتام پر آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام آٹھویں عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوئی، اہل کراچی نے اردو زبان و ادب کے حوالہ سے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔کانفرنس میں بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ کے علاوہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں سے تعلق رکھنے والے اہل علم و دانش کی بڑی تعداد اردو زبان کی قدر میں اضافہ کا باعث ہوئی ، کراچی کی علمی ،ادبی ، سر سبز و شاداب فضا ء کو ادبی ستاروں نے چارچاند لگا دئے ۔ایکسپو سینٹر میں کتابی میلے کا اہتمام کیا گیا، نجی اداروں کی جانب سے آئے دنوں کتابوں کی نمائش، انجمن ترقی اردو پاکستان کے کی جانب سے ہر ہفتہ ادبی نشست کا اہتمام اس کے علاوہ عالمی مشاعرہ اور دیگرتقریبات کا انعقاد تسلسل کے ساتھ ہونا کراچی کے بدلتے ہوئے حالات کا پتا دے رہے ہیں۔ کراچی میں چند روز قبل بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی بخیر و خوبی اختتام کو پہنچی اور خوشی اور مسرت کا مقام ہے کہ اس دوران کسی قسم کا کوئی ایک بھی غیر معمولی واقعہ رونما نہیں ہوا۔کراچی کے ماحول میں جو خوشگوار تبدلی آئی ہے وہ اہل کراچی کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ۔یاد ہے اچھی طرح کہ رات ہوتے ہی لوگ غیر ضروری طور پر نہ تو خود گھروں سے نکلتے نہ ہی اپنے بچوں کو گھر سے نکلنے دیتے تھے۔ جو لوگ رات میں باہر کسی مجبوری کے باعث ہوتے تو اہل خانہ ان کی واپسی تک ان لیے خیر کی دعائیں ہی کرتے رہتے تھے۔ لوگوں نے قیمتی موبائل رکھنا چھوڑ دیے تھے، پرس میں کم سے کم رقم رکھا کرتے، نئی گاڑی کا چھن جانا ایک عام سے بات تھی، خواتین نے سونے کے زیورات پہننا چھوڑدیے تھے۔یہ تھی کراچی کہ صورت حال جو اب واپس اپنی اصل میں لوٹ آئی ہے اور اس کا سہرا بہر کیف حکومت وقت اور عسکری قوت کو ہی جاتا ہے اور جانا چاہیے۔ اس لیے کہ ہماری پولیس حالات میں بہتری لانے میں ناکام ہوچکی تھی۔ پولیس خواہ پنجاب کی ہو یا سندھ کی یہ ایک ہی نسل، ایک سوچ، ایک فکر اور ایک فلسفہ کے پیروکار ہیں ۔ اس کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی عمارت سو سال قدیم ہوجائے تو اس عمارت کو اوپر سے لاکھ بناسنوار دیا جائے وہ ڈر اور خوف کی علامت ہی بنی رہتے ہے اس کا واحدحل یہی ہوتا ہے کہ اس عمارت کو مکمل طور پر منہدم کرکے نئے سرے سے اس کی تعمیر کی جائے سو ہمارے ملک میں پولیس کا محکمہ ایک قدیم عمارت کی مانند ہے اس کی اصلاح کسی بھی طور ممکن نہیں اس کا واحد حل یہی نظر آتا ہے کہ اس محکمے کو از سرِ نو تشکیل دیا جائے، پڑھے لکھے لوگوں کو میرٹ پر بھرتی کیا جائے ، تنخواہیں و مراعات ایک پولیس والے کی وہی ہوں جو ایک 17گریڈ کے آفیسر کو حاصل ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ پولیس بہتر نتائج دے سکے۔

بات علم و ادب اور کراچی ادبی میلے کی شروع کی تھی پہنچ گئی پولیس پر ۔ جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کتابوں کی اشاعت کا ایک بڑا اور معتبر ادارہ ہے، تجارت کو فروغ دینے اور زیادہ سے زیادہ آمدنی کے اہداف تک پہنچنے کے لیے تمام ہی تجارتی ادارے مختلف قسم کے پروگرام تشکیل دیتے ہیں۔ تجارت کتابوں کی ہو تو ادب اس کا لازمی حصہ ہے۔ ادب، ادیب، کتاب اور ناشرایک دوسرے سے باہم اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ہر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ناشرین، ادب اور ادیبوں کے حوالے سے علمی و ادبی سرگرمیوں کا اہتمام کرتے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہیے۔ ملک میں بے شمار بڑے ناشر موجود ہیں ان میں سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی فاؤنڈر ڈائیریکٹر امینہ سید کو کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ کئی سال سے ادبی میلے کا اہتمام کررہی ہیں۔جس کے لیے وہ قابل مبارک باد ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیاں علم و ادب کے فروغ کا باعث ہوا کرتی ہیں ، لکھنے والوں کو ایک دوسرے کے خیالات و نظریات کو سننے اور اس سمت آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ ہم تو کتاب سے دور ہوتے جارہے ہیں، پڑھنے کی عادت مفقود ہوکر رہ گئی، رہی سہی کثر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے، ہمارے گھروں میں دنیا جہان کی ہر شہ ملتی ہے اگر کچھ نہیں ہوتا تو وہ کتاب ہوتی ہے جو شاید ہی کسی گھر کے ڈرائینگ روم کی ذینت بنی دکھائی دیتی ہو۔ جس کے گھر یہ ہوتی ہے وہ قابل مبارک باد ہیں۔ اس کی وجوہات بہت سی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو ایسے مواقع میسر ہی نہیں آتے کہ وہ اس جانب توجہ دیں۔ گزشتہ دنوں ایکسپو میں ہونے والی کتابوں کی نمائش میں ریکارڈ کتابیں فروخت ہوئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو مواقع میسر آئیں تو لوگ اس جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ ادبی سرگرمیاں جن میں کتابوں کی نمائش، ادیبوں اور شاعروں کے حوالے سے ادبی تقریبات ، مشاعرے منعقد ہوتے رہیں تو وہ علم و ادب سے محبت اور لوگوں کو ازسرِ نو کتاب کی جانب مائل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ساتویں ادبی میلے کا افتتاح جمعہ 5فروری کو ہوا جو تین دن جاری رہا ، اس کے لیے جس جگہ کا اہتمام کیا گیا وہ شہر کراچی کا مغربی کونا تھا ۔ پھر بھی عاشقانے علم وادب بڑی تعداد میں وہاں پہنچتی رہی ، بیچ لگثرری ہوٹل ماحول کے اعتبار سے یقینا آئیڈیل جگہ ہے اور اس بات کا بھی احساس دلاتا ہے کہ منتظمین کے سامنے اخراجات کی کوئی اہمیت نہیں تھی ، یہ بھی ایک اچھی بات ہے لیکن اس نقطہ نظر سے کہ اس میں کراچی کے عام و خاص لوگ بھی شریک ہوجائیں مشکل صورت تھی اگر یہی میلہ ایکسپو سینٹر میں سجا ہوتا تو شرکت کرنے والے لاکھ یا سو لاکھ نہ ہوتے بلکہ یہ تعداد لاکھوں میں ہوتی،جیسے گزشتہ دنوں عالمی کتابوں کی نمائش میں لوگوں کی تھی۔ اگر ایکسپو نہ سہی آرٹس کونسل آف پاکستان اس کے لیے آئیڈیل جگہ تھی ۔ ہوٹل میں منعقدہ تقریب سے عام لوگوں میں ذہنوں میں مختلف سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اس قسم کی تقریبات کا بنیادی مقصدزیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کو لازمی بنا نا ہونا چاہیے ، محدود شرکت اور عمدہ لوازمات تقریب کو محدود بنادیتی ہے۔ جہاں تک آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ادبی میلے کا سوال ہے یہ ایک کامیاب شو ہر اعتبار سے رہا۔ میلے کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں امینہ سید کا فرمانا تھا کہ ’ہم نے اس لٹریچر فیسٹیول کا آغاز 2010میں اس وقت کیا جب ملک میں دہشت گردی اور تشدد کی فضا تھی اور ہم آج جس جگہ موجود ہیں وہ سب لوگوں کے پیار اور سپورٹ کا نتیجہ ہے، ہم کتاب اور مصنفوں کے جشن میں سب کو خوش آمدیک کہتے ہیں، انہوں نے وضاحت کی کہ اس تقریب کو میلہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں کتابوں کی کثیر تعداد اپنے اندر ایک الگ رنگ سموئے ہوئے ہے‘۔ افتتاحی اجلاس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں معروف افسانہ نگار انتظار حسین کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کی مغفرت کی دعا کی گئی۔ امینہ سید کا کہنا تھا کہ کراچی فیسٹیول سے متاثر ہوکر انہوں نے 2011میں بچوں کے ادبی میلے کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد اساتذہ ادبی میلہ، لاہور ادبی میلہ، فیض ثقافتی میلہ سمیت متعدد ادبی میلوں کا ایک سلسلہ چل نکلا جو آج تک جاری ہے،انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اس میلے کا آغاز کیا تھا تو اس وقت لوگوں کی آمد پانچ ہزار تھی جو بڑھ کراب یہ تعداد سو الاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ یہ میلا چونکہ امریکی تعاون سے منعقد ہوا تھا اس لیے امریکی قونصل جنرل کی شرکت بھی لازمی تھی اور انہوں نے خطاب بھی فرمایا ۔ اس وقت برائن ہیتھ امریکہ قونصل جنرل ہیں انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی ادبی میلہ شہر کی اہم ترین ثقافتی تقریب ہے۔ یہ میلا پاکستان اورغیر ملکی ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو ایک جگہ جمع کر کے انہیں اپنے خیالات ایک دوسرے تک پہنچانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ کراچی ادبی میلہ پاکستان کے شاندار ادبی ورثے کی نما ئندگی کرتا ہے۔ قونصل جنرل نے اس موقع پر امریکی ادارے برائے بین الا قوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے 165ملین ڈالر کی لاگت سے جاری پاکستان ریڈنگ پراجیکٹ کا بھی ذکر بھی کیاجس کے تحت 10لاکھ طلباء میں مطالعے کوفروغ دینے کے لیے صوبائی اور مقامی محکموں کو معاونت فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 155ملین ڈالر کی لاگت سے سندھ بیسک ایجو کیشن پروگرام (ایس پی ای پی) کے تحت سندھ کے 50ہزار بچوں کو106نئے تعمیر ہونے والے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ نہوں نے بتایا کہ امریکی حکومت کی معاونت سے 10ہزار طلباء پاکستانی جامعات میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں جب کہ ہر سال ایک ہزار طلبا مختلف تبادلہ پروگراموں کے ذریعہ امریکہ کا دورہ کرتے ہیں۔کلیدی خطاب ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور فہمیدہ ریاض کا تھا۔

ادبی میلے کی خاص بات مختلف کتابوں کی تعارفی تقریبات کا اہتما م تھا ۔ اس حوالے سے انیس ہارون کی کتاب ’کب مہکے گی فصل گل‘ ،ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب ’اردو کی تشکیل جدید‘ اور دیگر کتب کی تعارفی تقریب کے علاوہ مختلف ادیبوں اور شاعروں جن میں انتظار حسین، عبد اﷲ حسین ، جمیل الدین عالی اور کمال احمدرضوی کو ان کی علمی ادبی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا گیا، ڈائجسٹوں کے حوالے سے بھی نشست ہوئی۔ میلہ تین دن جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوا ۔ اختتامی دن انتظار حسین کے نام رہا۔ اس موقع پر انتظار حسین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے میزبان امینہ سید نے کہا کہ انتظار حسین نہ صرف ایک معروف افسانہ نگار تھے بلکہ وہ کراچی ادبی میلے کے باقاعدہ اسپیکر تھے، اُن کی اچانک موت نے دانشور حلقے کو سوگوار کردیا ہے۔ تین دن اپنی بہاریں دکھاتا کراچی کا یہ خوبصور ادبی میلا اختتام پذیر ہوا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280776 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More