نبی پاکﷺ کی میلاد کا فیضان

درخت جب بہت زیادہ پھلدار ہوجاتا ہے تو تب وہ جھک جاتا ہے۔عجز وانکساری کا اظہار کرتا ہے۔چھاؤں دیتا ہے۔ آندھی طوفان کے تھپیڑوں سے بچاتا ہے۔اور اپنے وجود کے حصے پھل کو کھانے کے لیے دے دیتا ہے۔ اِتنی عظمتیں ورفعتیں اِس کے حصے میں آتی ہیں کہ ایسادرخت قابل رشک بن جاتا ہے۔ کسی درخت کی زندگی جتنی بھی دہائیوں پر مشتمل ہوتی ہے اُتنی گزارنے کے بعد وہ اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ لیکن جن جن انسانوں اور حیوانوں نے اُس درخت سے کچھ استفادہ کیا ہوتا ہے وہ وہ انسان اور حیوان اُس درخت کے مشکور رہتے ہیں۔انسان بھی اگر اپنی ذات کو دوسروں کے لیے نافع بنائے رکھے اور اپنے جیسے انسانوں اور چرند پرند جو اِس جہاں میں پائے جاتے ہیں اُن کے ساتھ حسن سلوک کرئے ۔کسی بھی انسان کے لیے اِس سے بڑھ کر طمانیت کا احساس اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے خالق کی رضا کی خاطر اپنے خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر انتہائی محدود وقت کے لیے ملنے والی زندگی کی سانسوں کو اپنے مالک و خالق کی رضا کے تابع کر دیتا ہے۔اگر تو انسان وفاداری کا پیکر ہے تو اُس کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ وفا کرئے۔ اور اِس مقصد کے لیے خدائے بزرگ و برتر کے ازلی دشمن شیطان کی جانب سے ڈالے جانے والے وسوسوں کو یکسر ٹھکرا دئے اور اپنے مالک و برتر کی واحدانیت کی سربلندی کے لیے اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھے اور شیطان کے ہر وار کا مقابلہ اپنے رب کی عطا کردہ مشیت سے کرئے۔ اور وقتی طور پر نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے اپنے رب کی ابدی رحمت سے محروم نہ ہو۔ یقینی طور ایک انسان کے لیے ایسی راہ پہ چلنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ایمان کی مضبوطی سے خالق کی ا طاعت کے وسیلے سے خود کو روحانی سکون کا پیکر بناسکتا ے اور اپنی چند روزہ زندگی کو بھی اور اپنی ابدی زندگی کو بھی روحانی سکون کو گہوارا بنا سکتا ہے۔ساری زندگی انسان کی تگ و دو مادی معاملات کے حوالے جاری رہتی ہے۔ ایسا کرنا ضروری ہے وہ یوں کہ اپنی ذات کے لیے روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی اسباب بھی ضروری ہیں اور اپنی ذات کے ساتھ وابستہ لوگ جن میں والدین بچے عزیز واقارب، رشتے دار، اہل محلہ اہل وطن اور یوں پوری انسانیت شامل ہے کے لیے بھی مادی وسائل کی ضرورت ہے۔ معاشیات اور قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے جو سمجھ بن پڑی ہے وہ یہ کہ غیر معاشی سرگرمیاں بھی معاشی سرگرمیوں کو جنم دیتی ہیں۔یوں مسجد میں پانچ وقت حاضری کا نظریہ بھی کیمونٹی کے باہمی تعلق کا فروغ ہی تو ہے ۔مادی اسباب کی ضرورت اُس حد تک تو ہر انسان کے لیے ہے کہ وہ روح اور جسم کا تعلق برقرار رکھ سکے۔ لیکن جب قناعت کی بجائے ہوس ڈیرئے ڈال لیتی ہے۔اور معاشرئے کا توازن قائم نہیں رہ پاتا ۔یوں پھر ہیو اینڈ ہیو ناٹ کا معاشی مسلہء پیدا ہوتا ہے اور جس سے معاشرئے میں امن چین ختم ہوجاتا ہے ۔ اور یوں روح کے بل بوتے پر زندگی کی سانسیں لینے والا حضرت ِ انسان خود اپنی اصل کو فراموش کر دیتا ہے۔جہنم کے آگ سے بھرنے والا پیٹ دنیاوی اسباب سے بھرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔اِن معاشی و غیر معاشی رخنوں کے سبب معاشی اُتار چڑھاؤ معاشرئے کو مختلف گروہ بندی کا شکار کرتا ہے اور پھر یہ معاشی تقسیم کبھی نسل، کبھی مذہب اور کبھی لسانیات کا روپ دھار کر حضرت انسان کے ہاتھوں اپنے ہی جیسے گوشت پوست اور روح کے مُرقع انسان کو قتل کرواتی ہے۔سیاسی نظریات بھی اِسی معاشرتی تقسیم اور معاشی دوڑ کا سبب بنتے ہیں۔رب پاک نے کائنات میں نظام زندگی کو عدل پر قائم رکھنے کے لیے بزرگ ترین ہستی وجہ تخلیق کائنات اشرف الاانبیاء حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا یوں معاشرئے میں ہر طرح کی اونچ نیچ کی تفریق،ظلم و زیادتی سے جنم لینے والے مسائل سب کا حل اﷲ پاک نے اپنے نبی پاکﷺ عطا فرمایا ۔اور نبی پاک ﷺ نے اﷲ پاک کے حکم سے جو کہا وہ کر دیکھایا۔نبی پاکﷺ کی ساری زندگی کا مرکز ومحور انسان کی بھلائی ہے۔ اور یوں اِس چند روزہ زندگی کا حاصل اگر ہے تو وہ اﷲ پاک کے نبی پاکﷺ کی اطاعت ہے۔ اﷲ پاک نے اپنی آخری کتاب میں فرمادیا کہ نبی پاکﷺ تمھیں جس کام سے روکیں روک جاؤ اور جس کام کا حکم دیں وہ کرو۔اِس لیے اگر ہم میلادِ مصطفی ﷺ کی خوشیوں کا حقیقی ثمر چاہتے ہیں تو اُس کے لیے ہمیں نبی پاک ﷺ کی ہستی کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کا مرکز و محور بنانا ہوگا۔لوٹ مار، دھوکہ دہی، چوری، جھوٹ شراب زنا سود جتنی بھی معاشری بیماریاں ہیں اُن سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد ذریعہ نبی پاکﷺ کے پیغام پر عمل کرنے سے ہے ۔ اور یہ ہی پیغام ہر سال ہمیں ربیع الاولکی مبارک ساعتیں یاد کروانے کے لیے آتی ہیں۔صدقہ خیرات خوب اِس مبارک مہینے کے صدقے دینا چاہیے اور محافل، میلادِ مصطفی ﷺ کا انعقاد تو گویا ہماری بخشش کا ذریعہ ہے۔ اوراِن تمام عقیدتوں کا حاصل یہ ہی ہے کہ معاشرئے کو جھوٹ، چوری، سود، شراب زنا،لوٹ مار سے بچانا ہے۔ یہی تو ہے پیغام اِس مبارک ربیع الاول کا ۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 381779 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More