عصر حاضر کے محدث کبیر علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃاﷲ علیہ

جمعرات چار فروری 2016کو دور حاضر کے معروف عالم دین، عظم محدث اور مفسر قرآن علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کراچی کے ایک ہسپتال میں رحلت فرماگئے۔ حضرت کی موت کی خبر سے دینی و علمی حلقوں میں رنج و الم کی فضاء چھا گئی۔ عربی کا ایک مقولہ ہے ’’موتُ العالِم موتُ العالَم‘‘ کہ ایک عالم دین کی موت حقیقت میں ایک جہان کی موت ہوتی ہے۔ تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ہر آنے والا جانے والے جگہ تو لے لیتا ہے لیکن اس جیسے کمالات نہیں رکھتا۔ بقول اقبالؒ
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھے جاتے ہیں کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی

آپؒ 10رمضان المبارک 1356 ہجری بمطابق 14 نومبر 1937 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہاں ہی حاصل کی۔ قیام پاکستان کے وقت دس سام کی عمر میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور کراچی میں قیام کیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ ایک عابدہ ،زاہدہ اور تہجد گزار خاتون تھیں۔ ابتدائی دینی علم اور قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم اپنی والدہ سے ہی حاصل کی۔اس دوران آپ کے والد گرامی انتقال فرما گئے اور بعد ازاں آ پ کی والدہ صاحبہ نے دوسری شادی کرلی۔ گھریلو حالات کی تنگدستی کی وجہ سے بارہ سال کی عمر میں آپکو تعلیم چھوڑنی پڑی اور محنت مزدوری کرنے لگے۔ لڑکپن کی عمر میں کراچی کے گلی کوچوں میں آئیس کریم بیچنے کا کام شروع کیا۔ پھر ایک پرنٹنگ پریس میں کام سیکھا اور وہیں ملازمت اختیار کرلی۔آپ کی عمر انہیں حوادثات زمانہ سے گزرتے گزرتے اکیس سال ہوگئی۔ آپ پریس کے مالک سے جمعۃ المبارک کے دن اجازت لیکر نماز کی ادائیگی کیلئے آرام باغ کی مقامی مسجد میں جاتے۔ وہاں جمعہ کے بعد درود و سلام کی صدائیں بلند ہوتیں تو آپ کے قلب و جگر میں ہل چل مچ جاتی۔حالات کی ستم ظریفی اپنی جگہ مگر اﷲ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آپؒ کے دل میں دینی ذوق پیدا ہوا تو مطالعہ قرآن شروع کردیا۔ ایک دن ایک اشتہار پر نظر پڑی جس میں لکھا تھا کہ رحیم یا خان کے مدرسہ ’’جامعہ محمودیہ رضویہ میں بلا معاوضہ علم دین حاصل کریں‘‘۔ اس طرح کراچی کو خیر آباد کہ کر رحیم یار خان کے اس دینی مدرسہ میں داخلہ لے لیا۔ اس دور میں اس ادارہ کے منتظم اعلی حضرت علامہ محمد نواز اویسی صاحب تھے۔ انہوں نے اس طالب علم کی آنکھوں میں حصول علم کی چمک دیکھی تو انھیں ایک انتہائی قابل اور شفیق استاد جناب علامہ عبدالمجید اویسی کے حوالے کردیا۔ ان سے صرف و نحو اور ادب و فقہ کی ا بتدائی کتب پڑھنے کے بعد لاہور آگئے اور جامعہ نعیمیہ (گڑھی شاہو) لاہور میں داخل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اﷲ علیہ اور مفتی عزیز احمد بد ایونی رحمۃ اﷲ علیہ سے بھرپور اکتساب فیض کیا۔ تفسیر، حدیث ، فقہ ،منطق اور حکمت کی کتب پڑھنے کے بعد بھی آپکی علمی تشنگی ابھی باقی تھی اور ہمہ وقت خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے تھے۔ اسی دوران آپ مزید حصول علم کیلئے اس دور کے علوم و فنون کے معروف عالم دین اور محقق حضرت علامہ عطا محمد بندیالوی چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس پہنچ گئے۔ منطق اور فلسفہ کی بڑی بڑی کتب آپ نے ان کے پاس پڑھیں ۔ ان کے علاوہ جامعہ قادریہ فیصل آباد کے استاد مولانا ولی النبی صاحب اور مختار الحق صاحب بھی آپ کے اساتذہ کرام تھے۔ حضرت علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کو اﷲ تعالی نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور آپ نے وہ تمام تر صلاحیتیں دین متین کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی تھیں۔ علم حدیث اور علم تفسیر میں آپ درجہ کمال پر فائض تھے۔ آپ عالم اسلام کے وہ روشن چراغ ہیں جن کے علمی فیوض و برکات سے بیشمار لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ آپ اپنی ذات میں ایک مفتی، محدث، مفسر، فقیہ اور کئی ایک کتب کے مصنف ہیں۔ 1986 میں صحیح مسلم شریف کی شرح لکھنا شروع کی اور1994 میں سات جلدوں میں اسے مکمل کیا۔ اس کتاب کے آٹھ ہزار صفحات ہیں اور اس کے ابھی تک انیس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ آپ ؒنے قرآن پاک کی تفسیر ’’تبیان القرآن‘‘ لکھی۔ 1994 میں اس تفسیر کے لکھنے کا آغاز کیا اور 2006 میں بارہ ضخیم جلدوں میں اسے مکمل کیا۔آ پ ؒنے 2006 اور 2014 کے دوران بخاری شریف کی شرح سولہ جلدوں میں مکمل کی۔ پہلی سات جلدیں’’ نعمۃ الباری شرح صحیح بخاری‘‘ کے نام سے جبکہ بعد کی نو جلدیں ’’نعم الباری شرح صحیح بخاری‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں ۔ اس طرح یہ کتاب سولہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں توضیح البیان، تذکرۃ المحدثین، مقالات سعیدی، مقام ولایت و نبوت، اعلی حضرت کا فقہی مقام، ذکر بالجہر، حیات استاذالعلماء، ضیائے کنزالایمان، معاشرے کے ناسور اورشان الوہیت بھی آپ کی مشہور و معروف تصانیف ہیں۔ ابھی آپ قرآن پاک کی ایک اور تفسیر ’’تبیان الفرقان‘‘ کے نام سے قدرے مختلف زوق علمی سے لکھ رہے تھے۔ ابھی وہ نامکمل ہی تھی کہ زندگی نے وفا نہ کی اور آپ داعی اجل کو لبیک کہ گئے۔ آپکی ان تمام علمی و تحقیقی کاشوں کے پس پردہ چئرمین روئت ہلال کمیٹی پاکستان جناب مفتی محمد منیب الرحمان صاحب کا قابل صد تحسین کردار ہے ۔انہوں نے علامہ سعیدی صاحب کوبتیس سال اپنے ادارے ’’جامعہ نعیمیہ کراچی‘‘ میں ہر مالی و اخلاقی سہولت مہیا کی جو اس عظیم کام کے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ضروری تھی۔ آ پ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں بڑی بڑی عظیم علمی و روحانی شخصیات شامل ہیں۔ پیر محمد حبیب الرحمان محبوبی صاحب (بریڈفورڈ)، پیر غلام نصیر الدین چشتی (گولڑہ شریف)، علامہ سید محمد اشرف شاہ (ناروے)، پروفیسر ڈاکٹر محمد جمیل الرحمان شاہ ( کامونکی شریف)، علامہ عارف حسین سعیدی (چشم) اور دور حاضر کی دیگر بیشمار شخصیات نے آپ کی بار گاہ سے علمی فیضان کے حصول کیلئے ذانوئے تلذ تہہ کیے۔ پیر طریقت جناب صاحبزادہ محمد حبیب الرحمان محبوبی صاحب کی دعوت پر آپؒ دو دفعہ انگلینڈ تشریف لائے۔ پہلی دفعہ 1990اور دوسری دفعہ1993میں۔ اس دوران آپ شرح صحیح مسلم شریف لکھ رہے تھے۔ آپؒ نے اپنی اس شرح میں ذکر بھی کیا ہے کہ کچھ حصہ صفۃ الاسلام بریڈ فورڈ میں بیٹھ کر تحریر فرمایا۔ اس دوران صاحبزادہ حبیب الرحمان صاحب نے اپنے تاثرات میں حضرت کی خدمت میں تفسیر قرآن پر کام کرنے کی استدعا بھی کی۔ جس کا ذکر علامہ سعیدی صاحب نے شرح صحیح مسلم کی پانچویں جلد کے صفحہ چونتیس اور پینتیس پر فرمایا ہے۔ اور بعد ازاں تفسیر تبیان القرآن پر کام شروع کیا۔ آپ نے ہمیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑا بلکہ علمی خزانے اور کتب کی صورت میں بہترین دوست دے کر گئے۔ اﷲ تعالی اکتساب فیض کی توفیق دے۔ علامہ صاحب کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں’’ تمغہ امتیاز سے نوازا۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219029 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More