کتوں کا فائدہ کیا ہے۔ ؟

’’کتوں کا فائدہ کیا ہے۔‘‘پطرس بخاری کے اس سوال پر تحقیق جاری تھی کہ اچانک میرا مفروضہ بدل گیا ۔خارش کا فائدہ کیا ہے۔؟نیا موضوع بن گیا۔مقام خارش پر کھرکنے کا مزا کیوں آتا ہے ۔قریب ہی مزید خارش کیوں ہونے لگتی ہے۔خارشیے بے قرار کیوں رہتے ہیں۔؟اچانک عطاالحق قاسمی کے ایک خارشی مصرعے نے میری رہنمائی کی۔ وہ کہتے ہیں ’’بیوی سے محبت کرنا ایسی جگہ پر خارش کرنا ہے جہاں خارش نہ ہو رہی ہو‘‘۔ہڈیاں جب ہڈ بنتی ہیں تو کچھ ہڈ حرام بھی بن جاتی ہیں۔ ہاتھ کئی بار مقام خارش تک بھی نہیں پہنچے پاتے۔بالکل ایسے ہی سیاستدان جب وزیر بن جاتے ہیں تو دسترس سےباہرہو جاتے ہیں۔حالانکہ اس وقت ووٹرز کو خارش زیادہ ہو رہی ہوتی ہے۔

ڈاگ شو میں شریک کتے

استاد محترم پطرس بخاری لکھتے ہیں کہ ’’علم الحیوانات کے پروفیسر سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سر کھپاتے رہے، لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا کیا فائدہ ہے۔گائے کو لیجئے دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجئے دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں‘‘۔؟

بخاری صاحب کتوں کے فوائد تلاشتے تلاشتے 1958 میں گزر گئے۔ اُن کے بعد محققین اس سوال کو جواب نے کے لئے نگر نگرسونگھتے پھرے۔نئی نئی طاویلیں تراشیں ۔ مفروضوں کی گھڑولیاں بھی بھریں۔راقم خود انہی نیم محققین میں شامل رہا۔ ’’کتوں کا فائدہ کیا ہے۔‘‘اس موضوع پرتحقیق کرتے کرتے اچانک میرا مفروضہ بدل گیا ۔خارش کا فائدہ کیا ہے۔نیا موضوع بن گیا۔مقام خارش پر کھرکنے کا مزا کیوں آتا ہے ۔قریب ہی مزید خارش کیوں ہونے لگتی ہے۔خارشیے بے قرار کیوں رہتے ہیں۔؟اچانک عطاالحق قاسمی کے ایک خارشی مصرعے نے میری رہنمائی کی۔ وہ کہتے ہیں ’’بیوی سے محبت کرنا ایسی جگہ پر خارش کرنا ہے جہاں خارش نہ ہو رہی ہو‘‘
قاسمی نظرئیے کے مطابق چند مرد ہی گھریلو خارشیےہیں۔ باقی سارے غیرگھریلو ۔1973 کا آئین منظور ہونے سے قبل شہروں میں خارشیوں کے لئے منڈیاں ہوتی تھیں۔جہاں پہنچتے ہی طبعیت کُتی ہو جاتی ۔فلم شعلے کےگبھر کا مشہور زمانہ ڈائیلاگ۔’’بسنتی ان کُتوں کے سامنے مت ناچنا‘‘ ذہن میں ہونے کے باوجود وہاں بسنتی نا دھن، دھن نا پر ٹھمکتی۔جب تک ہے جاں ۔۔میں ناچوں گی ۔ پر مصر رہتی۔بسنتی، گھبرسنگھ، کتا اور خارش جب اکھٹے دیکھے تو میرا حوصلہ بندھا کہ تحقیق درست سمت بڑھ رہی ہے۔لیکن اگلے روڑےابن انشا نےاٹکادئیے۔وہ کہتے ہیں کہ ’’کتا اپنی گلی میں شیر ہوتا ہے، جس طرح شیر کسی دوسرے کی گلی میں کتا بن جاتا ہے۔ کتوں اور عاشقوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں راتوں کو گھومتے ہیں۔اپنا اپنا کلام پڑھ پڑھ کر لوگوں کو جگاتے ہیں۔ اینٹ اور پتھر کھاتے ہیں‘‘۔

عاشقوں اور کتوں کی مشترکہ صفت ہڈی بھی ہوتی ہے۔ٹیٹھ ہڈی۔ہڈیاں جب ہڈ بنتی ہیں تو کچھ ہڈ حرام بھی بن جاتی ہیں۔ ہاتھ کئی بار مقام خارش تک بھی نہیں پہنچے پاتے۔بالکل ایسے ہی سیاستدان جب وزیر بن جاتے ہیں تو دسترس سےباہرہو جاتے ہیں۔حالانکہ تب ووٹرز کو خارش زیادہ ہونے لگتی ہے۔ابن انشا۔ خارشی گلی میں جانے والےجس شیرکو کتاکہتے ہیں شاہد وہ کوئی سیاسی شیرہو۔ ؟میرا تو راسخ عقیدہ ہے کہ کتے غیر سیاسی ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ سیاست میں کئی دن تک کتے کا تذکرہ نہ سنیں تو گدھے گونگے اور ضمیر مردارلگنے لگتا ہے۔ کُتا ہمارے سیاسی احتجاج اورذاتی انتقام کا استعارہ ہے۔یہی کتا سالہا سال سے سیاسی ٹریک کا یو ٹرن بھی ہے۔جلسوں، مظاہروں اور دھرنوں کی اینٹی اقتدارتحریک بھی کتے کے گرد ہی گھومتی ہے۔صدر کُتا ہائے ہائے کے نعرے لگانے والا ایک شخص پولیس نے پکڑلیا ۔تو۔وہ ڈرگیااور بولا۔! تھانیدار صاحب۔میں تو انڈیا کے صدر کو کہہ رہا تھا ۔
تھانیدار:اوئے بے وقوف نہ بنا۔ ہمیں پتہ ہے کون سا صدر کتاہے۔
پولیس کوواقعی سب پتہ ہوتا ہے حتی کہ یہ بھی کہ جرم کہاں ہوتا کہاں ہے اورکرتا کون کرتا ہے۔ پطرس بخاری’’کتے کا فائدہ کیا ہے‘‘یہ سوال کسی تھانیدار سے جوابتے توممکن ہے کتا حوالات میں ہی مل جانا تھا۔سکولوں میں نالائق طلبا کو’’گدھا‘‘اور محلوں میں شرارتی بچوں کوسب سے زیادہ کتے کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔میری نیم تحقیق کے مطابق گدھا نصابی لفظ ہے اور کتا سماجی۔یہ دو اکائیاں معاشرتی دھائیاں ہیں۔ہم نےتوکتوں کے حق میں نعرے مارتے گدھے بھی دیکھے ہیں ۔
چوہدری کمی سے :او گدھے ۔تم میرا احترام کیوں نہیں کرتے۔ ؟
کمی:جناب یہ کیسے ممکن ہے ۔ آپ کا تو کتا بھی آئے ہم سمجھتے ہیں چوہدری صاحب خود آئے ہیں۔
معاشرے میں کمیوں اورچوہدریوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ایسےچوہدری جنہیں دیکھ کر نصابی کہانی گریڈی ڈاگ یاد آ جاتی ہے۔انگریزی کہاوت ہے کہ ’’ بھونکنے والے کتے کاٹنے نہیں‘‘ ۔ایسے کہاوتی کتے پاکستان میں کہاں ۔؟ یہاں توبھونکنے اور کاٹنے کی ایک ہی ریسی پی ہے۔بلکہ بقول پطرس بخار ی’’ہم دیسی لوگوں کے کتے بھی عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر تو ان میں سے ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون اور کوٹ کو دیکھ کر ہی بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ کچھ کتے ہوتے ہیں کچھ بہت کُتے ہوتے ہیں۔ اصل کتے پالتو ہوتے ہیں کچھ فالتو بھی ہوتے ہیں ‘‘۔

دنیا بھر میں چار سو نسل کے 40 کروڑ سے زیادہ کتے ہیں۔مجرم شناسی کا سب سے آسان ذریعہ بھی کتا ہی ہے۔ پچھلے دنوں پشاور پولیس نےسراغنے والے کتوں پر بریفننگ دینے کے لئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بلایا تو پنجرے میں بند دو کتے دیکھ کروہ پریشان ہوئے اور کہا ’’مجھے یہ کتے سفارشی لگتے ہیں۔ نئے کتے میرٹ پر بھرتی کئے جائیں‘‘۔کُتا میرٹ پشاور پولیس نےکیسے پورا کیا دوبارہ کوئی خبر نہیں آئی۔لیکن یہ ثابت ضرو ر ہوگیا کہ یہاں کُتا میرٹ ہی رائج ہے۔خاتون اول کی سابق امیدوار ریحام خا ن نےایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ہماری طلاق کی ایک وجہ کتے بھی ہیں۔ میرا زیادہ وقت کپتان کے کتوں کے ساتھ گزرتا ۔بنی گالہ میں عمران کے 5کتے ہیں۔ ایک کتامیں ساتھ لائی تھی۔خان کاایک کتا ’’شیبرڈ‘‘ہمارے بیڈ روم میں ہی سوتا تھا۔ہمارے کتے بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔‘‘

بنی گالہ کے سارے کتے یقیننا میرٹی تھے۔پشاوری کتوں کے ساتھ کتے والی ہوئی۔میانوالی، راہ والی اور ٹامیوالی کے بعد’’کتے والی‘‘ بالکل نئی تحقیقی اختراح تھی۔ جنرل ضیا نے ایک بار کہا تھا ’’ یہ سیاستدان کیا ہیں۔ میں ذرا سا پچکاروں تو دُم ہلاتے آ جائیں گے‘‘۔یہی’’کُتے والی‘‘ہے۔ضیا الحق کی کابینہ کتے والی کا عملی ثبوت تھی۔ کتے ہاٹ ڈاگ کے بغیر ہی دم ہلا رہے تھے۔البتہ جرمن نسل ’’ ڈابر مین‘‘والے کتے پچکارنے سے محفوظ رہے کیونکہ وہ پیدائشی دم کٹے ہوتے ہیں۔

اس سارے کتیاپے کی بنیاد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ہونے والا جرمن شیفرڈ۔ ڈاگ شو ہے۔جس میں ملک بھر سے170 بہت ہی کُتوں نے شرکت کی۔کتا اسمبلی دیکھنے کے لئے انسان بھی موجود تھے۔مقابلے میں عمر کے مطابق کُتوں کی پانچ کیٹگریزبنائی گئیں۔ جسامت، خوبصورتی اورکتا واک کی بنیاد پرجن کُتوں نے پوزیشن لی ان کی ٹرافیاں مالکان لے گئے۔کتے جیت کر گاڑیوں میں بیٹھ کر گھروں کو نکل گئے۔

آج کل کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے لوگ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔جب تک اس دنیا میں کتے
موجود ہیں اور بھونکنے پر مصُر ہیں تو ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں۔کتے کاٹ لے تو دو علاج ہیں۔ پہلا علاج ٹیکا ہے اور دوسرا علاج ہے کُچلا زہر۔ جن کے پاس کُچلا ہے وہ کتوں سے مل گئے اور قوم میں ٹیکے لگوانے کی حیثیت ہے اور نہ ہی ہمت۔ کتے پالنے کے شوقین افراد ایک بارگاڑی میں کتوں سمیت شاعر مشرق کوملنے آئے۔ لوگ اندر جا بیٹھے اور کتے موٹر کار ہی میں رہے۔اتنے میں علامہ کی چھوٹی بیٹی منیرہ بھاگتی ہوئی آئی اور بولی۔ ابا ابا، موٹر میں کتے آئے ہیں۔علامہ نے ان لوگوں کی طرف دیکھا اور کہا، نہیں بیٹا یہ تو آدمی ہیں۔
نوٹ :علامہ اقبال سچ میں مفکر پاکستان تھے۔
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 95043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.