چوہدری رحمت علی……نظرانداز کردہ ہیرو

۱۹۷۸ء میں جب میں چوہدری رحمت علیؒ کے مزار پر گیا تو قبر کے گرد چاروں طرف سفید سنگ مرمر کا حصار تھا، مرمر کی سیلوں کے ٹکڑے نہایت ہی سلیقے سے لگائے گئے تھے اور قبر کے اوپر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے قبرکی زمین کو ڈھانپا ہوا تھا۔سرہانے کی طرف سنگ مرمر کا بڑا سا کتبہ لگا ہوا تھا جو ان کے شایان شان تھا۔ انگلستان کے قبرستان کی قبروں کے مطابق اگرچہ ان کا مقبرہ نہیں تھا۔مگر اب( ۲۲ جولائی ۲۰۰۷ء ) جو مجھے قبرستان جانے کا موقع ملا تو جوقبر تھی وہ تو قبر بھی نہ تھی بلکہ ایک گھڑا تھا جس کو ڈھانپنے کے لیے ایک پھٹا پرانا سبز رنگ کا ریشمی کپڑا جس کی قیمت ایک پونڈ سے زیادہ نہ ہوگی وہ وہاں ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے چاروں کونوں پر چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ دئیے گئے تھے، وہ کپڑا درمیان سے بُری طرح پھٹا ہوا تھا۔ قبر کے چاروں طرف لگی ہوئی سنگ مرمر کی سلیٹیں اٹھا لی گئی تھیں اور قبر کے ارد گرد تعویز پڑے ہوئے تھے۔ ماربل کے چھوٹے چھوٹے گول پتھر اور کنکریاں بھی صاف کردی گئی تھیں۔ اس لیے قبر کاکوئی نشان نہ تھا،بس ایک گڑھا سا تھا۔ جیسے جان بوجھ کر پتھراٹھاتے ہوئے قبر کی مٹی بھی کھود کر اٹھا لی گئی تھی۔ سرہانے کی طرف سنگ مرمر کا کتبہ تھا، جو 1978 میں بولٹن لنکا شائر سے بنواکر لگوایا گیا تھا وہ بھی غائب تھا۔اب قبر کے سرہانے دو لکڑیاں لگا کر اس پر بڑی سی تختی آویزاں کی گئی ہے، جس پر سیدھی طرف انگریزی کا کتبہ لکھا ہوا ہے جو بڑی مشکل سے پڑھاجاسکتا ہے۔ تختی کے پچھلی طرف اردو میں ہاتھ سے کچھ عبارت بھی لکھی گئی ہے۔ تختی کے ایک طرف کے کیل اکھڑے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تیز ہواؤں کے زور سے اور بارش کی وجہ سے لکڑی کی یہ تختی جلد ضائع ہو جائے گی۔

۲۳ جولائی ۲۰۰۷؁ء کو میں بہت مضطرب تھا، گزشتہ روز چوہدری رحمت علیؒ کی قبر کا جو حال دیکھا تھا اس نے مجھے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ میں نے کیمبرج قبرستان والوں کو فون کیا تاکہ پتہ کروں آخر چوہدری رحمت علیؒ کی قبر کا یہ حال کیوں ہوا اور یہ کہ وہ سنگ مرمر کا کتبہ جس پر چوہدری رحمت علیؒ کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات اور کوائف لکھے ہوئے تھے اس کا کیا بنا؟ فون پر مس جون سے بات کی، چوہدری صاحب کی قبر نمبر B8330 دیا۔ مس جون نے کہا کہ چوہدری صاحب کی لاش پاکستان لے جانے کے واسطے ہوم ٓفس کو درخواست دی گئی تھی ، وہ منظور ہو گئی تھی۔ اس عرصے میں جس فرم نے کتبہ بنایا تھا وہ اس کو واپس لے گئے۔ قبر کی سلوں کو بھی اکھیڑ دیا گیا ۔یہ مشاہدات اور تاثرات چوہدری رحمت علیؒ کے ایک عقیدت مند آغا محمد سعید (لندن) کے ہیں۔

ہمارے ہاں عام دستور ہے کہ کوئی رشتہ دار، دوست اور جاننے والا وفات پا جائے تو جنازے میں شرکت کرتے ہیں، جو جنازے میں شریک نہ ہو وہ پسماندگان سے تعزیت کرتے ہیں اور قبرستان جا کر دعاء مغفرت کی جاتی ہے۔ چوہدری رحمت علیؒ 1951 میں فوت ہوئے، آج تک پاکستان کا کوئی سفارت کار، سیاستدان اور حکمران چوہدری رحمت علی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے نہیں گیا۔ پاکستان سفارت خانے (لندن) نے چوہدری صاحب کی قبر پر کبھی پھول نہیں چڑھائے۔ اگر ہم نے چوہدری رحمت علیؒ کا دیا ہوا نام (پاکستان )اپنے لیے پسند کیا تو پھر اس نظریے اور نام کے خالق اور محرک کو نظر انداز کرنا اور اس بری طرح نظر انداز کرنا کہ اس کا نام و نشان مٹ جائے قابل توجہ ہے۔ علامہ اقبال ؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد پاکستان کس کے ہاتھوں میں ہے؟ پاکستان کی باگ دوڑ بدقسمتی سے ایسے ہاتھوں میں چلی گئی جو تحریک پاکستان کو مسخ کرتے رہے۔ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی عقیدت مندوں نے کسی نہ کسی انداز میں انہیں زندہ رکھنے کی کوشش جاری رکھیں اور سرکاری طور پر بھی کچھ نہ کچھ ہوتا رہا لیکن حقیقت یہی ہے کہ افکار قائداعظم اور علامہ اقبال کو جس بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے وہ الگ داستان ہے۔چوہدری رحمت علی ؒ کے لیے مناسب انداز میں تحریک بھی نہیں ہوئی اور حکمران تو پہلے ہی انہیں نظرانداز کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔یہ روش مسلسل ستر سالوں سے جاری ہے ۔

چوہدری رحمت علیؒ تحریک پاکستان کے بانی اور اولین محرک تھے۔ انہیں زیادہ دیر پاکستان اور اہل پاکستان سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ من گھڑت تاریخ کو میڈیا کی تہلکہ خیزی نے آشکار کردیا ہے۔ اب ہرفرد معلومات تک رسائی پارہا ہے۔ کنٹرولڈ نصاب تعلیم اور کنٹرولڈ معلومات کا وقت گزر چکا ہے۔پاکستان کے سپوت تاریخی حقائق سے بتدریج آگاہی حاصل کررہے ہیں۔ جسد خاکی لانے کے لیے نہ کسی حکمران کی منظوری کی ضرورت ہے اور نہ پاکستان میں دفن کرنے کے لیے کسی صاحب اختیار کی اجازت کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان چوہدری رحمت علی ؒ کی جدوجہدکا ماحاصل ہے اور نہیں پاکستان لانے اور شکرپڑیاں میں دفن کرنے سے کون، کسی بنیاد پر روک سکتا ہے۔ ہاں یہ حکمرانوں کے لیے قیمتی موقع ضرور ہے کہ وہ یہ کام ازخود کرلیں ، بصورت دیگر کروڑوں پاکستانی یہ کام خود کرلیں گے اور حکمران بے بسی کی علامت بنے رہیں گے۔تاہم یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا پاکستانی ایک زندہ قوم ہے؟ جو قوم اپنے قائدین کو بھول جائے، جو اپنی تاریخ کو مسخ کرنے پر لگی رہے اور جو بزرگوں کے احسانات کو یاد نہ رکھے، اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ یہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔آج کا پاکستان مختلف ہے، انگریزوں کی روٹیوں پر پلنے والے اور ان کے کتوں اور گھوڑوں کے رکھوالے رفتہ رفتہ چھٹ رہے ہیں اور حقیقی پاکستانی قوم جنم لینے کو ہے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105359 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More