یوپی ۔اترپردیش (انڈ یا ) پر ایک نظر

اترپردیش شمالی ہندوستان کی ایک ریاست ہے جو تبت اور نیپال کے سرحد پرواقع ہے ۔ ہندوستان کے نقشے پر اس کا وجود ۱؍ اپریل ۱۹۳۷؁ء میں ’’ -United Provincesمتحدہ صوبہ جات ‘‘کے نام سے ہوا۔ پھر ۱۹۵۰؁ء میں اس نام کو ’’UP۔ اترپردیش ‘‘ سے تبدیل کر دیا گیا ۔ اس کا مغربی کنارہ راجستھان سے ملتا ہے جب کہ شمال مغربی سرحد پر دہلی و ہریانہ، شمال میں ملک نیپال اور اتراکھنڈ ہیں ، مشرق میں بہار، جنوب میں مدھیہ پردیش اور جھارکھنڈ کے کچھ علاقے ہیں ۔ اس کے جنوب مشرقی کنارے پر چھتیس گڑھ آباد ہے۔ ۹؍نومبر ۲۰۰۰؁ء میں ریاست اترپردیش سے ہی اتراکھنڈکے نام سے ایک نئی ریاست وجود میں آئی جو اترپردیش کے ہمالیائی پہاڑی علاقوں سے متصل ہے ۔ ریاست اترپردیش کا کل رقبہ 2,43,290 مربع کلو میٹر 93,933 مربع میل ہے جوہندوستان کے 6.88% حصہ پر مشتمل ہے اور رقبہ کے اعتبار سے ہندوستان کی چوتھی بڑی ریاست ہے ۔ اس کے مجموعی آبادی ۲۰۱۱؁ء سروے رپوٹ کے مطابق 19,95,81,477 تھی ِ، ہندو 79.7% ، مسلم19.3%، سکھ 0.1%، جین 0.1%، عیسائی 0.2% ۔ اورشرح خواندگی 69.72% ہے ۔ ۲۰۱۵ ؁ء میں مجموعی تعداد تقریبا 21,56,09,813تک جاچکی ہے ۔ ریاست اترپردیش 9763 ارب روپئے (GDP)’’مجموعی گھریلو پیداوار ‘‘کے ساتھ معیشت کے اعتبار سے ہندوستان کی تیسری بڑی ریاست ہے ۔ اس کی معیشت کے بہت سارے ذرائع ہیں ، ان میںسب سے اہم زراعت اور صناعت کے ذرائع ہیں ۔

ریاست اترپردیش کا شمار قدیم اور قرون وسطی میں ہندوستان کی طاقتور سلطنت کے طورپر رہا ہے۔ اس ریاست میں ۲ بڑی دریا گنگا جمنا رواں دواں ہیں ۔ دریائے گنگا زرعی معیشت کے لئے ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔ اس کے ذریعہ سے بہت بڑے علاقے میں آب پاشی اور کاشت کاری کی جاتی ہے۔اس ریاست میں بہت سارے قدرتی ،تاریخی ، مذہبی اور سیاحی مقامات ہیں جیسے شہر آگرہ میں تاج محل، وارنسی، لکھنؤ ،کانپور، الہ آباد، کشی نگر، متھرا، میرٹھ اور علی گڑھ وغیرہ وغیرہ۔ تاج محل: ۔ انڈیا کے شہر آگرہ میں واقع محبت کی ایک نشانی ہے ۔ سفیدسنگ مرمرسے تعمیر کیا جانے والا یہ مقبرہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی شریک حیات ممتاز محل کی یاد میں ۱۶۳۱ تا ۱۶۴۸ء میں تعمیر کروایا تھا۔ تاج محل مغل طرز تعمیر کاعمدہ نمونہ ہے اس کا تعمیراتی طرز فارسی، ترکی، ہندی اور اسلامی طرز تعمیر کا انوکھا ملاپ ہے ۔ ۱۹۸۳ ؁ء میں تاج محل کو اقوم متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثہ میں شمار کیا ہے اور بہترین تعمیرات میں سے ایک بتایا ہے۔ استاد احمد لاہوری کو عام طور پر اس کا معمار خیال کیا جاتا ہے۔ لکھنؤ :۔ اترپردیش کی دار السلطنت ہے اور نوابوں کے شہر سے جانا جاتا ہے ۔ یہ سلطنت اودھ کے نوابوں کادارالحکومت تھا ،یہ شہر علم و ادب ،زبان وبیان، فنون اور دستکاری میں اپنی مثال آپ ہے، اسی شہر میں امت مسلمہ کی ایک دینی و مذہبی درسگاہ ہے جس کو ہم اور آپ ’’ندوۃ العلماء ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں جہاں سے رشدوہدایت کے متوالے اور علم وہنر کے پیکر باکمال ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پورے عالم میں شمع ہدایت روشن کررہے ہیں۔ وارانسی :۔ جس کو ہندوؤں کی مذہبی دار الحکومت کہا جاتا ہے۔ ہندومت کے پیروکار دنیاں بھر سے اس کی زیارت کو مقدس سمجھتے ہیں۔ یہ ان کے سات مقدس مقامات میں سے ایک ہے اوردریائے گنگا سے اس کی خوبصورتی میں چارچاند لگ جاتا ہے۔
الہ آباد:۔ ہندومت کے ماننے والوں کے لئے ان کے عقیدے کے مطابق بھگوان برہما کی زیارت کرنا اہم مذہبی فریضہ ہے ، یہ تین دریا گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر واقع ہے ۔ کمبھ ہندو مذہبی نوعیت کا سب سے بڑا اجتماعی اور تقدسی میلا اس شہر میںبھی لگتا ہے جو ۱۲ سال میں ایک مرتبہ آتاہے۔ کانپور:۔ دریائے گنگا کے کنارے واقع یہ شہر ریاست اترپردیش کا سب سے بڑا شہر ہے اوراس کو اترپردیش کی صنعت کا مرکز مانا جاتا ہے اس کو ملک ہندوستان کا مانچسٹر کہا جاتا ہے۔ اس کی صنعت کا ایک اہم حصہ چمڑے کی صنعت ہے ۔یاد رہے مانچسٹر انگلیڈ میں دنیا کا سب سے پہلا صنعتی شہر ہے۔ متھرا:۔ہندو مت کے عقیدے کے مطابق بھگوان کرشن کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے ہندو مذہب کے پیروکار اس کو سات مقدس شہروںمیں سے ایک شمار کرتے ہیں ۔ اس میں مندر کی اچھی خاصی تعداد ہے ،یہ بدھ مت کا بھی مرکز رہ چکا ہے۔ فتحپور سیکری :۔ اس کو 16ویں صدی میں مغل شہنشاہ اکبر نے تعمیر کروایا تھا ۔ پانی کی قلت کی وجہ سے کچھ ہی مدت تک یہ شہر عروج پر رہا لیکن وہاں کی خوبصورت فن تعمیر اور آرکیٹکچرل تعمیرات آج بھی قابل دید ہیں۔ ایودھیا:۔ فیض آباد ضلع میں ایک شہر ہے جس کو ہندومت کے پیروکاررام کی جنم بھومی سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کے یہاں اس کو مقدس شہر کا درجہ حاصل ہے۔ اس کو متنازع شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ۱۵۲۷؁ء سے ۱۵۳۰؁ء تک جس بابری مسجدکو ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابرکے حکم سے تعمیر کیاگیا تھا اس مسجدکو آر ایس ایس ، وشو ہندوپریشد ،بجرنگ دل اور سنگھ پریوارنے بی جی پی لیڈر لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے ساتھ مل کر ۶ ؍دسمبر ۱۹۹۲ ؁ء میں شہید کردیا اورجس رتھ یاتراکولال کرشن اڈوانی نے ۱۹۹۰؁ ء میں شروع کیا تھا اس کا اختتام بابری مسجد کی شہادت پر ہوا۔ تقریبا 1,50000 فرقہ پرست کارسیوکوں نے اس مقدس شہر کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے اترپردیش کی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم بھائی چارہ کا جنازہ نکالتے ہوئے ہندوستانی تا ریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کردیا۔2000 سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے اور کئی بڑے شہروں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں زبردست جانی اور مالی نقصان ہوا۔ اس وقت کلیان سنگھ وزیر اعلی اور پی وی نرسمہا راؤ ملک کا وزیر اعظم تھے ۔ کشی نگر :۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا مرکز ہے۔ یہ گوتم بدھ جو بدھ مذہب کے بانی تھے ان کی جائے پناہ ہے گرچہ ان کی پیدائش لمبنی نیپال میں ہوئی لیکن وفات کشی نگر میں ہوئی ۔ علی گڑھ :۔ اس کو ایک تاریخی شہر کی حیثیت حاصل ہے ، اترپردیش کے بڑے شہروں میں اس کا شمار ہوتاہے اور پورے انڈیا میں 55 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا شمار 100اسمارٹ شہروں میں بھی ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ علم و ادب میں اپنا مقام رکھتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جس کا قیام ۱۸۷۵۔۱۸۷۸ء میں اسی شہر میں ہوا جو پورے اترپردیش ہی نہیںبلکہ پورے عالم میں معروف و مشہور ہے ۔اس شہر میں 2 یونیورسٹی، 26 کالج، 21 انجینئیرنگ اور فارمیسی کالج ،
28 سے زائد اسکول،6 آئی ٹی آئی انسٹیٹوٹ اور بھی بہت سارے تعلیمی ادارے ہیں۔

اترپردیش کا سیاسی اثرو رسوخ:۔ ریاست اترپردیش 75 اضلاع پر مشتمل ہے ، ہندی 75 اضلاع میں سرکاری اور سب سے زیادہ وسیع پیمانہ پر بولی جانے والی زبان ہے ۔اب تک15 وزیر اعظم میں سے 8 وزیر اعظم:۔جواہرلال نہرو،اندراگاندھی،اٹل بہاری واجپئی، راجیو گاندھی، لال بہادر شاستری، وی پی سنگھ ،چرن سنگھ اور چندرشیکھر کا تعلق ریاست اترپردیش سے رہاہے ۔اترپردیش تاریخی طور پر ہندوستان کے سیاسی منظرنامہ پر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے پاس 80 اراکین پارلیمنٹ ہیں جو ریاستی سطح پر لوک سبھا کی سیٹوں کے اعتبار سے سب سے بڑی تعداد ہے۔ دوسرے نمبر پر مہاراشٹر ا 48 سیٹوں والی ریاست ہے۔اترپردیش کے اراکین اسمبلی (ودھان سبھا) 403 سیٹوں پر مشتمل ہیں ، 16 ویں اسمبلی مارچ ۲۰۱۲ء؁ سے وزیر اعلی کی کمان اکھلیش یادو سنبھالے ہوئے ہیں ساتھ ہی ساتھ اسمبلی ہاؤس کی قیادت بھی کرتے ہیں۔ اسپیکر کے فرائض ماتا پرساد پانڈے انجام دے رہے ہیں ، اپوزیشن کی ذمہ داری سوامی پرساد موریا( بی ایس پی) اور سیکریٹری پردیپ کمار دوبے جی ہیں۔
Shoaib Younus Khan
About the Author: Shoaib Younus Khan Read More Articles by Shoaib Younus Khan: 3 Articles with 2158 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.