افغان طالبان لڑائی اور مذاکرات کی کوششیں

پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تعطل کا شکار مذاکرات کو بحال کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں اتوار کو افغانستان کے دارالحکومت کابل گئے۔ جنرل راحیل شریف نے ایک روزہ دورے کے دوران کابل میں افغانستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقاتیں ‘افغان صدر اشرف غنی اور افغان چیف ایگزیکٹیو عبداﷲ عبداﷲ جن کے درمیان مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے اختلافات تھے پاک فوج کے آرمی چیف نے یہ اختلافات ختم کرا دئیے اور ان دونوں کومذاکرارت کے لیے آمادہ کیا افغان صدر اور افغان چیف ایگزیکتیو کے اختلافات کا خاتمہ کرنا جنرل راحیل کی ایک اور واضح کامیابی ہے جنرل راحیل شریف کو اسلام آباد میں افغانستان کے بارے میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرس کے انعقاد سے قبل نو دسمبر کو کابل جانا تھا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی پیچیدگی کے باعث یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا تھاافغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات پہلی مرتبہ اس سال جولائی میں پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد کے قریب سیاحتی مرکز مری میں منعقد ہوئے تھے۔لیکن مذاکرات کا یہ سلسلہ طالبان رہنما ملا عمر کی وفات کی خبر سے تعطل کا شکار ہو گیا تھادوسری بار جب مذاکرات کی باتیں شروع ہوئیں تو ملا منصور کے مارے جانے کی خبریں منظرعام پر آنے لگیں جس سے پھر خاموشی چھاگئی تھی اب ایک بار پھر مذاکرات کی باتیں کی جارہی ہیں تو پاک فوج کے آرمی چیف کے دورے سے قبل بھارتی وزیراعظم نرنیدر مودی نے افغان پارلیمنٹ کے افتتاح کے لیے مختصر دورے پر افغانستان پہنچ کر پاکستان کو ایک پیغام دے دیااور وہاں پاکستان کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس بھی نکال لی جو ان کا وطیرہ ہے ادھر پاکستان کی طرف سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہی اافغانستان میں طالبان کی طرف سے کارروائیوں کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا اور وہ اس وقت اپنی پوری قوت کا مظاہرہ کررہے ہیں تاکہ اگر مذاکرات شروع ہوں تو ان کا پلہ بھاری رہے افغانستان کے صوبے ہلمند میں ان دنوں افغان فورسز اور طالبان میں گھمسان کی جنگ جاری ہے طالبان سنگین ضلع پر مکمل طور پر قابض ہو چکے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پورے صوبے پر قبضہ کرلیا اور اب وہاں ان کا کنٹرول ہے تاہم افغان حکومت طالبان کے اس دعوے کی تردید کررہے ہیں لڑائی جاری ہے اور دونوں طرف سے متضاد دعوے کئے جارہے ہیں کون اپنے دعوے میں سچاہے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا آزاد ذرائع بھی ابھی پوری طرح اس کی تصدیق نہیں کر سکتے ضلع سنگین کی اس لڑائی میں اس ضلعی کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ضلع سنگین پر طالبان کے دوبارہ قبضے کی صورت میں افغان فوجیوں کی لشکر گاہ سے ہتھیاروں کی اہم سپلائی لائن منقطع ہوجائے گی ضلع سنگین افغانستان کے صوبہ ہلمند کے شمالی ضلعوں کو دارالحکومت لشکرگاہ سے ملانے والا اہم ضلع ہے اس ضلع پر قبضے کا فائدہ افغان طالبان کو پہنچے گا اسی لیے صوبہ سنگین پر قبضے کے لیے اور صوبہ ہلمند کو طالبان کے کنٹرول میں جانے سے بچانے کے لیے افغان حکومت اپنی پوری کوشش کررہی ہے اور افغان فورسز کی مدد کے لیے تازہ دم دستے بھیجے جا رہے ہیں جبکہ امریکی فضائیہ بھی متحرک ہوچکی ہے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد نیٹو کی فورسز نے اسی سنگین ضلع کو اپنا مرکز بنایا تھا اس ضلع اور صوبے پر قبضے کی صورت میں طالبان کی صوبے کے شمالی علاقوں میں نقل و حرکت میں اضافہ ہو سکتا ہے اس ضلعی اور صوبے میں چونکہ بڑے پیمانے پر افیون بھی کاشت کی جاتی ہے اس لیے محصولات کی مد میں طالبان کی آمدنی کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے ‘سنگین میں طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوتا جا رہا سنگین ضلع پر طالبان کے قبضے کی راہ خود افغان فورسز نے ہی ہموار کی افغان فورسز نے اس علاقے میں آپریشنز کے ذریعے زیادہ تر عام افغانیوں کو گرفتار کیا ‘ان کے گھر مسمار کئے اور ان کے کھیتوں کو نقصان پہنچایا اس میں ان فوجیوں نے نمایا ں کردار ادا کیا جن کا اس علاقے میں کچھ لینا دینا تھا اور انہوں نے کارروائیوں کی آڑ میں اپنی دیرنیہ دشمنیاں نمٹائیں جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی بڑی تعداد میں حکومتی فوج کے خلاف غم و غصے کے جذبات پائے جاتے تھے اور یہ جذبات اب بھی ہیں ۔سنگین ضلع پرطالبان کے لیے قبضہ برقرا رکھنا آسان نہیں ہوگا تاہم مقامی آبادی ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔طالبان مقامی لوگوں کے ان جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے اور مقامی آبادی کی تمام تر ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے قندوز میں بھی افغان طالبان نے یہی حکمت عملی اپنائی تھی اور وہاں طالبان مقامی شہریوں کے ساتھ گھل مل گئے تھے یہ صورتحال افغان حکومت اور نیٹو فورسز کے لیے پریشان کن ضرور ہوگی طالبان کا مقامی آبادی کے ساتھ گھل ملنے کا یہی طریقہ کار نیٹو فورسز نے بھی سنگین ضلع میں اپنایا تھا لیکن نیٹو فورسز کے جانے کے بعد افغان فورسز نے مختلف کارروائیوں کے ذریعے مقامی لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھاجس کی وجہ سے مقامی آبادی میں افغان فوج کے خلاف ردعمل شروع ہوا کہا یہ جارہا ہے کہ علاقے کے لوگوں نے طالبان قبضے کا خیرمقدم کیا ہے افغان حکومت اگر اس پورے علاقے کو طالبان سے خالی کروانا چاہتی ہے تو انھیں مقامی آبادی کے دل و دماغ دونوں جیتنا ہوں گے افغان حکومت ایک طرف طالبان کو ہتھیار پھنکنے کی بات کرتی ہے اور طالبان سے مذاکرات کی خواہشمند ہے تو دوسری طرف اس کی فورسز عام لوگوں سے چھڑچھاڑ کرکے انہیں اپنے خلاف کررہی ہے جو طالبان کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ جب مذاکرات کا مرحلہ قریب آتا ہے تو ان کے بعض بڑے ’’خیر خواہ ‘‘ کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر افغان حکومت کو مذاکراتی عمل روکنے پر مجبور کردیتا ہے اور سلسلہ اب تک بدستور جاری ہے موجودہ حالات کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک بات طے ہے کہ بھارت اپنے مفادات کے لیے اس خطے میں جو کھیل کھیل رہا ہے اس کے اثرات امن کی صورت میں نہیں بلکہ بدامنی کی ہی صورت میں ہی موجود رہیں گے اس خطے میں اس وقت ایک کولڈ وار جاری ہے خطے میں امن و امان لانے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حالات کی اصلاح کی جائے اور یہ صرف اسی صورت میں کی جاسکتی ہے کہ پاکستان پر الزام تراشی کی بجائے بھارت کو واضح پیغام دے کر اسے افغانستان میں پاکستان کے خلاف تربیتی کمیپ بند کرنے ‘ پاکستانی طالبان کو استعمال کرنے سے روکنے کے ساتھ ہی ساتھ مفادات کا کھیل بند کرنے پر مجبور کیا جائے اوریہ کا م افغان حکمرانوں کا ہی ہے اگر وہ کرنا چاہیں تب ہی اس خطے میں پائیدار امن قائم ہوگا یہ امن نہ صرف افغانستان کے لیے ضروری ہے بلکہ پاکستان کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی افغانستان کے لیے ضروری ہے اس امن کا فائدہ بھارت کو بھی پہنچے گالیکن اس فائدے کو پانے کے لیے اسے اپنا کھیل بند کرنا ہوگا تب ہی مذاکرات بھی کامیاب ہوں گے اور امن بھی آئے گا۔
Haidar Ali
About the Author: Haidar Ali Read More Articles by Haidar Ali: 3 Articles with 2134 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.