یقین ساحل ، گمان سمندر

نہیں محبت میرا منصب نہیں
میں تو ھوں خاک نشیں ابھی
کچے ذہنوں کی گیلی مٹی
مجھے کچھ بیج ملے ھیں خوابوں کے
معصوم سے کچے ذہنوں میں
وہ بیج اگانے ھیں مجھ کو
دن رات کی انتھک محنت سے
اگلی بہار کے آنے تک
تازہ پھول کھلانے ھیں مجھ کو
ابھی جرم وفا کی بات نہ کر
یہ خوش رنگ ستم ایجاد نہ کر
یہ ھیرے موتی یہ بحر و بر
ان تک آنے میں زمانے ھیں مجھ کو
بجھتی آنکھوں میں ھمدم!
حیات دم توڑتی ھے
ذرا قطرہ جاں پلا دیکھوں ،
سعئ لاحاصل ھی سہی
اک دیا بچا دیکھوں
پلکوں سے پلکوں کے جڑ جانے تک
کئ جینے کے بہانے ھیں مجھ کو
نہیں محبت میرا منصب نہیں
سیپ میں بند موتی بنوں ؟
ابھی کوہ گراں کی بات نہ کر
ابھی بار گراں کی بات نہ کر
میری کوہ دمن اوقات نہیں
میں تو ھوں خاک نشیں ابھی
=======================================
نیند کے معاملے میں میں ہمیشہ کی خود کفیل ... ڈپریشن میں تو اور رج کے نیند آتی تھی اور تھکاوٹ ہو تو سونے پر سہاگہ! آج انڈس ہسپتال میں تیسرا دن تھا .... دو دن ٹیسٹ اور رپورٹس کی نذر ہوئے اور آج تیسرے دن امی کے گھٹنوں کا آپریشن ہوچکا تھا ... سخت تکلیف کی وجہ سے امی کو غنودگی کا انجکشن لگایا گیا تھا اور وہ خاصی گہری نیند سو رہی تھیں ... ہسپتال کا ہوادار جنرل وارڈ ... بڑے بڑے صاف شفاف چبوترے اور ان پر لگی چمکتی کھڑکیاں ... ٹھنڈا ٹھنڈا تاثر دیتے اونچے اونچے نیلے پردے ... ہر تھوڑی دیر پر ایک عدد ڈاکٹر راؤنڈ پر آجاتا ساری تفصیل بتا بتا کر حفظ ہوچکی تھی اس لیے اسکا بھی نیند سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا کہ نیند میں بھی آرام سے تفصیلات دہرا لیتی تھی !! اگلے ماہ کی پندرہ کو میرا تین پاروں کا ٹیسٹ تھا اس لیے میری چھوٹی سی بنچ پر میرا واحد ساتھی میرا ترجمہ والا قران مجید اور سلیبس کے لحاظ سے تفسیر کی کتابیں تھیں جنھیں پڑھتے پڑھتے میں تھوڑی تھوڑی دیر میں ایک نظر امی کے پرسکون چہرے کی طرف ڈالتی اور پھر باقی مریضوں کی طرف ڈالتی رات کے نو بجے ہی سب مریض سونے والی کیفیات میں تھے اٹنڈنٹ یا تو موبائل پر مصروف تھے یا آپس کی گپوں میں لگے تھے کچھ ڈیوٹی کی تبدیلی کے لیے واپسی کی تیاری میں تھے کچھ ابھی آئے تھے اور مختلف اٹیندنٹس کو جانچتی نظروں سے " تعلقات کیسے رکھنے ہیں؟" کے طور پر پرکھ رہے تھے میں مسکرا کردوبارہ اپنے نوٹس میں گم ہوگئی ...
" کیا حال ہے معلمہ ؟" بشریٰ کی زوردار مگر دوستانہ آواز کے ساتھ کھڑکی کے پیچھے سے اسکا ہاتھ بھی میرے کندھے پر اپنی موجودگی کا احساس دلا گیا یقیناً وہ راؤنڈ پر نکلی ہوگی اور کمرے میں مجھے کھڑکی سے ٹیک لگائے دیکھ کر رک گئی ہوگی
" الحمدللہ تم سناؤ بی بی سی؟؟ " میں نے اسکو اسکے مخصوص نام سے پکارا تو وہ ہنستی ہوئی گھوم کر دروازے سے وارڈ کے اندر آگئی ... گارڈ کے یونیفارم میں کندھے پر رائفل لٹکائے سخت چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ سجائے بشریٰ ہمیشہ کی طرح بارعب لگ رہی تھی اپنے مخصوص انداز میں اس نے سب ہی بیڈ پر جاکر خیریت پوچھی اور پھر میرے پاس آکر کھڑی ہوگئی میں نے بنچ پر ذرا سا سرک کر اسکے لیے جگہ بنائی
" سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اس مختصر سی بنچ پر سو کیسے جاتی ہو ؟ وہ بھی اتنے آرام سے؟ باقی تو سب ہی دو بینچ کا انتظام کرلیتے ہیں یا پھر مریض کے ہی بستر پر جگہ بنا کر لیٹ جاتے ہیں" بشریٰ نے میرے ہاتھ سے تفسیر کی کتاب لے کر بغور دیکھتے ہوئے کہا، میں مسکرائی
" میں نے بھی پہلے دن اس چھوٹی سی بینچ پر آبجیکشن کیا تھا مگر میرے شوہر کہتے ہیں بشریٰ ! کہ تیماردار سونے کے لیے نہیں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے آتا ہے تو میں اس ڈر سے بینچ نہیں لگاتی ہوں کہ نیند گہری نہ ہوجاۓ اور امی آوازیں دیتی رہ جائیں میری آنکھ نہ کھلے ؟" میں نے مدبرانہ لہجے میں ڈائیلاگ مارنے کی کوشش کی
"حالانکہ اب بھی یہی ہوتا ہے " بشریٰ نے ہونٹ دانتوں تلے دبا کر شرارت سے مجھے دیکھا .. میں حلق سے ابلنے والے برجستہ قہقہے کو روک نہیں پائی
"کیا کروں ؟ یہ میری واحد کمزوری ہے میں فجر سے عشاء تک ایک پیر پر کھڑی رہ سکتی ہوں پر رات کو نیند پر قابو نہیں رہتا " میں نے ہنستے ہوئے اعتراف کیا تو وہ بھی مسکرانے لگی ...
" یار معلمہ ! میرا بہت دل تھا یہ کورس کرنے کا مگر قسمت نے اتنی پھینٹی لگائی کہ آج یہاں وردی پہن کر مردوں کو دھمکا رہی ہوں "
وہ کسی آیت کو بغور دیکھ رہی تھی اور اسکے لہجے میں وہی اداسی اتر آئی جو مجھے ہمیشہ تشویش کا شکار کردیتی تھی ابھی میں کوئی سوال پوچھنے ہی والی تھی کہ ڈیوٹی نرس نے آکر سامنے والے بیڈ پر ڈسچارج نوٹس دے دیا بشریٰ ڈیوٹی نرس کو دیکھ کر فورا کھڑی ہوگئی اور چہرے سے نرمی ہٹا کر سختی کا تاثر لے آئی اور کچھ دیر معائنہ کر کے باہر نکل گئی .. میں جانتی تھی اسے بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی وہ فیمیل وارڈ کی گارڈ تھی اور اسے مکمل طور پر چوکس رہنا ہوتا تھا مگر وہ اکثر ڈنڈی مار کر کبھی ادھر اور کبھی ادھر گپیں مارلیا کرتی تھی ...
بشریٰ کے جاتے ہی میں سامنے والے بیڈ پر متوجہ ہوئی وہاں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی دو گھنٹے میں ہی انہیں یہاں سے چلے جانا تھا ... ہسپتال سے جانا بھی ایسے ہی خوشی کا باعث ہوتا ہے جیسے قید سے رہائی ملی ہو !! میں نے گہری سانس لے کر اپنی امی کی طرف دیکھا .. " الله پاک جلدی سے میری امی کو مکمل صحت عطا فرما تاکہ ہم بھی یہاں سے جاسکیں "
کورنگی کریک میں واقع یہ ہسپتال ایک شاندار چیرٹی ہسپتال ہے جو ہڈیوں کے علاج میں بے حد شہرت حاصل کررہا تھا ہم بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عام سے لوگ تھے .. امی کے گھٹنوں کی حالت اس قدر خراب ہوئی کہ گھٹنوں کا بدلنا لازمی ہوگیا تھا اسلیے ہم یہاں گھٹنوں کے علاج کے لیے آئے تھے میں امی کی اکلوتی بیٹی تھی میرے دونوں بھائی مجھ سے کافی چھوٹے تھے اور فیمیل وارڈ میں خواتین کی پرائیویسی کے خیال سے کسی میل اٹنڈنٹ کو رکنے کی اجازت نہیں تھی .. اس لیے میرا یہاں رہنا لازمی تھا کہ امی کو کسی اور سے تسلی نہیں ہوتی تھی .. اس ہسپتال کی خاص بات یہی تھی کہ یہاں زور زبردستی اور سفارش کا کوئی کام نہ تھا حالانکہ میرے کزن خود یہاں سرجن تھے لیکن وہ سوائے طریقہ کار سمجھانے کے اور کسی کام میں ہمارے مددگار ثابت نہ ہوسکے تھے .. ہمیں ایک سال کے بعد کا نمبر ملا تھا... جب اتنا لمبا عرصہ داخلے کے لیے ملا تو ہم کافی مایوس ہوگئے تھے ، چیرٹی ہسپتال میں تو ویسے بھی کون پوچھے گا؟ مگر یہ تھوڑی تکلیف ہمیں داخلے میں اور اپنے بیڈ تک پہنچنے میں پیش آئیں کیونکہ قطار بنانا اور وہ بھی تمیز سے ورنہ گارڈ کے ٹھڈے کھانا پاکستانی قوم کو کبھی گوارا تھا؟ اسکے بعد جو وی آئی پی ٹریٹمنٹ ہوا وہ کسی بھی طرح یہاں کے جانے مانے بہترین ہسپتالوں سے کم نہیں تھا .. جگہ جگہ اردو اور انگریزی میں بورڈ لگے تھے کہ "
اگر کوئی آپ سے کسی بھی کام کے پیسے مانگے تو فلاں فلاں نمبر پر فون کردیں ہم سخت تادیبی کاروائی کرینگے " یہاں دور دراز سے علاج کے لیے لوگ اتے تھے کچھ تو گوٹھ (گاؤں ) کی طرف سے بھی آتے جنھیں فون ملا نا بھی نہیں آتا تھا پھر کسی اور سے مدد لیتے !
کسی مریض کے کراہنے پر میں اپنے خیالات سے چونکی نماز تو پڑھ لوں میں نے گھڑی کی طرف دیکھا سوئی دس کے قریب سفر کررہی تھی ایک لمحے کو مجھے اپنے بچے یاد آئے ... میرا بیٹا سوگیا ہوگا اور بیٹی شاید ہومورک کررہی ہو یا شاید عابدہ کے ساتھ باتیں کررہی ہو یا پھر سونے کی تیاری؟؟ الله سے انکے حفظ و امان کی دعا کی ملنے کی تمنا کو دل میں دبا کر امی کو دیکھتے ہوئے چپل پیروں میں پھنسا کر برابر کے بیڈ پر سنیہ کو اشارہ کرتے ہوئے امی کا خیال رکھنے کو کہا اس نے مسکرا کر سر ہلایا ہسپتال میں سب مریض اور انکے ملنے والے ایک خاندان کی طرح رہتے تھے ایک دوسرے کی مشکل میں کام آنا اور اکسی کی غیر موجودگی میں دوسرے کے مریض کا خیال رکھنا خود بخود لازم ہوجاتا تھا گویا !! میں واشروم کی طرف آئی کشادہ صاف ستھرے چمکتے واش رومز .. بیسن کے سامنے لگی بڑی بڑی کھڑکیوں سے نظر آتی دور پہاڑوں پر جلتی روشنیاں رات کے اندھیرے میں عجیب سا سماں باندھ دیا کرتی تھیں میں نے خشوع و خضوع کے ساتھ وضو بنایا دل میں ایک بار پھر بچوں کو یاد کیا امی کی صحت کی دعا مانگی اور دوپٹہ کو اچھی طرح اپنے گرد لپیٹتے ہوئے نماز کے کمرے کی طرف چل پڑی چمکتے ہوئے ٹھنڈے فرش پر آخری بار پونچھا لگایا جارہا تھا آسیہ اور نغمہ نے مسکرا کر سلام کیا اور ایک طرف پونچھا روک کر میرے گزرنے کا انتظار کیا میں بھی جوابی مسکراہٹ کے ساتھ خریت پوچھتے ہوئے آگے بڑھتی چلی گئی نماز کا کمرہ بچوں کے وارڈ میں بنا تھا نماز سے فارغ ہوکر تمام مریضوں کو نگاہ تصور میں لاکر دم کیا پھر ایک نظر سامنے والے روم میں دیکھا فائق اپنی مما سے لپٹا سورہا تھا یہ بچہ مجھے بہت زیادہ عزیز ہوگیا تھا میں نے انہیں ڈسٹرب کرنے کا خیال دل سے نکالا اور کمرے کی طرف آگئی اور پھر سامنے کے بیڈ پر جاکر الوداعی کلمات کہہ کر اپنی بینچ پر ایک کمبل بچھایا اور دوسرا اوڑھ کر لائٹ آف کی اور سونے لیٹ گئی لائٹ اف کرتے ہمیشہ کی طرح ایک کھلبلی مچی ارے دوا تو کھلا لیں ، ارے یہ ارے وہ مگر میں نے سب کو ہاتھ ہلایا اور منہ کمبل کے اندر کرلیا . ان تین دنوں میں لوگ میری جلدی سونے والی عادت سے مانوس ہوگئے تھے .. میں نے سامنے والے بیڈ پر سر پیچھے کر کے ایک آخری نظر ڈالی اور " باجی کوئی کام ہو تو اٹھا دیجیے گا " کہہ کر آنکھیں موند لیں "اب یہ لوگ تو چلے جائیں گے جانے کون آئے گا ؟ اور کیسا ہوگا ؟ " نیند میں ابھرتے ڈوبتے ذہن میں آنے والا آخری خیال یہی تھا ....
____________________________________________________
صبح حسب عادت میں فجر سے ایک گھنٹہ پہلے ہی اٹھ گئی ، باہر لاونج میں چہل پہل شروع ہوچکی تھی اس ہسپتال میں چار بار جھاڑو پونچھا اور ڈسٹنگ ہوا کرتی تھی گندگی اور دھول مٹی کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا ... بیدار ہونے کی دعا مجھے ابھی ٹھیک سے یاد نہ تھی اسلیے کتاب سے دیکھ کر دعا پڑھی .... ہمارا وارڈ سٹاف روم کے نزدیک ہی تھا اسلیے صبح ہی صبح درازوں کی کھول بند ہونے اور دواؤں کے پیکٹس کی سرر سرر کی آوازیں آنے لگتی تھیں سارا عملہ چار بجے سے ہی الرٹ ہوجاتا تھا بیڈ شیٹ اور تکیے کے کور کے ساتھ مریضوں کے کپڑے بھی ہر بیڈ کے سائیڈ پر رکھ دیے جاتے تھے اٹنڈنٹ زیادہ تر خود ہی اپنے مریضوں کے کپڑے چینج کروایا کرتے تھے کسی کے ساتھ کوئی نہ ہوتا تو برابر کے بیڈ سے کوئی یا پھر کوئی نرس یہ کام کردیتا ... ابھی پونے پانچ ہورہے تھے اور باہر زندگی گویا رواں دواں تھی مجھے ہسپتال کی یہی بات سب سے اچھی لگی تھی کہ یہاں بہت سے کام فطرت کے اصولوں پر ہوتے تھے صبح صبح ہر کوئی چوکس اور ایکٹو اپنے کام میں مگن ! ورنہ ہماری دنیا میں تو بس پرندے اور دیگر جانور ہی فطرت کے اصولوں پر باقی رہ گئے ہیں انسان نے تو کھلی بغاوت کرڈالی ہے فطرت سے !
میں بال سمیٹتے ہوئے بینچ سے اتری اور قد کو تھوڑا اونچا کر کے سائرہ کی طرف دیکھا وہ بہت آرام سے سیدھی لیٹی ہوئی تھی سر تا پا عبایا پہنے مگر اس وقت چہرے پر نقاب نہیں تھا ... سائرہ سے میری ملاقات پہلے دن وارڈ میں ہوئی تھی اس وارڈ میں مجھ سے پہلے وہ واحد تعلیم یافتہ لڑکی تھی .. اس ہسپتال میں کوئی پرائیویٹ روم نہیں تھا ہر جنرل وارڈ میں تین تین بیڈ ایک قطار میں لگے تھے اور پھر ہر بیڈ کے سامنے ایک بیڈ یعنی ہر کمرے میں چھ بیڈ تھے کمرے کافی کھلے اور ہوادار تھے اور ذرا بھی تنگی کا احساس نہیں ہوتا تھا سائرہ کی امی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ٹانگ کی ہڈی بری طرح مجروح ہوئی تھی اور وہ پچھلے بائیس دنوں سے یہاں رہ رہی تھی کمرے میں داخل ہوتے ہی ہمارا بیڈ پہلا تھا بیچ میں کوئی نہیں تھا اور آخری والے پر سائرہ اپنی امی کے ساتھ تھی مکمل پردے میں صرف اپنی چمکتی آنکھوں سے مسکراہٹ کا احساس دلاتی یہ لڑکی بہت ہی مہمان نواز قسم کی طبیعت رکھتی تھی اس نے مجھے تمام تر چیزوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا نماز کا کمرہ ، واش روم سٹاف روم ، میلے کپڑے کہاں ڈالنے ہیں نئے کپڑے کہاں سے نکالنے ہیں اور سب سے بڑھ کر جنرل وارڈ میں درمیان والے بیڈ کے عین اوپر لگا ہوا باکس دراصل انٹی سیپٹک لوشن ہے ہینڈ واش نہیں ... جسے تمام خواتین بے حد فراوانی سے ہاتھ دھونے کے لیے استمعال کرتی تھیں ... میں پہلی بار یہ جان کر خوب ہنسی تھی اور تب سے ہی میری اور سائرہ کی خوب دوستی ہوگئی تھی ..
سائرہ کو جگانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ وہ خود ہی اٹھ گئی ... میں سوچ رہی تھی آپی کہ آپ اب تک نہیں اٹھی ہیں اور آپ اٹھ گئیں اس نے نقاب برابر کیا اور بینچ سے اتر گئی پھر ہم دونوں ہی واش روم کی طرف چل پڑے بیڈ شیٹ اور مریضوں کے کپڑے تبدیل کرنے کے لیے سٹاف ہر وارڈ میں ٹرالی گھسیٹتا ہوا مستعد نظر آرہا تھا آتے جاتے ایک دوسرے پر فقرے ا اچھالتے ہوئے کم عمر سی نرسز ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ میں مصروف دوائیوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ مریضوں کا بی پی اور ٹمپریچر بھی چیک کرتی جارہی تھیں انہیں ابھی ہمارے وارڈ تک آنے میں دس پندرہ منٹ تھے میں جلدی جلدی نماز پڑھ کر روم تک پہنچنے کے خیال میں تھی امی کو جگا کر جوس پلانا تھا اللہ کرے اب درد میں کمی ہو ! سائرہ حسب دستور مجھے مختلف مریضوں کے بارے میں معلومات فراہم کررہی تھی جسے میں کبھی دلچسپی اور کبھی بے دھیانی سے سنتی رہی نماز پڑھ کر کمرے میں لوٹے تو امی اٹھ چکی تھیں امی کا ہاتھ منہ دھلوایا کنگھی کی امی کو صبح صبح نعت یا حمدیہ کلام سننا بہت بھاتا تھا میرا بھی شوق پورا ہوجاتا تو میں امی کی فرمائش پر حمد پڑھنے لگی وارڈ میں باقی سب بھی متوجہ ہوگئے تھے
یا الله مجھ کو تیری رضا چاہیے
جس سے تو خوش ہو وہ ادا چاہیے
پڑھتے پڑھتے ایک عجیب سا احساس ہوا جیسے کوئی سسکیاں لے کر رو رہا ہو باری باری سب کی طرف دیکھا سب کے چہروں پر شوق کا تاثر تھا کچھ کے چہرے غمگین تھے مگر کوئی بھی رو نہیں رہا تھا ... میں نے وہم سمجھ کر سوچ کو جھٹک دیا تھوڑی دیر میں الہڑ سی نرسوں کا ٹولہ ہمارے وارڈ میں پہنچ گیا ساری لائٹس آن کردی گئیں سارے پردے ہٹا دیے گئے قہقہے مسکراہٹیں اور اور ساتھ ساتھ مریضوں کا چیک اپ سب ہی کے لیے یہ لمحات بہت پر لطف ہوتے تھے مریض اپنی اہمیت پر بے حد خوش ہوتے رات بھر درد رہا یا بے آرامی ... فلاں نرس نے بات نہیں سنی شکایات درج کروا کر عجیب سی تسکیں ہوجاتی تھی اگرچہ کچھ خاص فائدہ نہ ہوتا تب بھی ... امی کے چیک اپ کے دوران میری نظر سامنے کے بیڈ پر پڑی ایک کم عمر سی ماڈرن لڑکی کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ وہ پرانے لوگ تو رات چلے گئے تھے اب یہ نئے لوگ آئے ہیں اس لڑکی کے ساتھ ایک پینتالیس سے بچاس سال کی عمر کی خاتون کھڑی تھیں ٹپ ٹاپ سے درست ڈائی کیے ہوئے گولڈن کھلے کمر تک آتے لئیر میں کٹے بالوں کے ساتھ وہ سٹاف سے کچھ معلومات لے رہی تھیں ... پھر مڑ کر اس لڑکی کو کچھ بتانے لگیں ...
میں نے نظروں کا رخ موڑ کر امی کی طرف دیکھا .. آج فزیو تھراپسٹ کو بھی آنا تھا آج سے امی کی ایکسرسائز بھی شروع ہوجانا تھی میں کسی بچے کی طرح امی کا دھیان رکھ رہی تھی... تقریباً آٹھ بجے ناشتہ آیا سب اپنے اپنے برتن لے کر آگے بڑھے ناشتہ سامنے والے بیڈ کو میں نے مسکرا کر ناشتہ لینے کا کہا ان خاتوں نے انتہائی شائستگی سے منع کردیا لڑکی تکیہ کا گولہ سا بنائے اس پر سر ٹکائے خاموش سی بیٹھی تھی میں نے ایک لمحے کو بہت غور سے اسکی جانب دیکھا ... اسکو بظاہر کوئی تکلیف نظر نہیں آرہی تھی ہاتھ پیر بھی بالکل ٹھیک تھے پھر میں نے چہرے کی طرف نظر کی اچانک مجھ پر ادراک ہوا کہ وہ بے حد خوبصورت ہے کھڑے کھڑے نقش والی سادہ سا چہرہ بھی عجیب سی کشش رکھتا تھا اس نے اپنی سیاہ آنکھیں کسی خاص نکتے پر جما رکھی تھیں چہرے پر سوچ کا تاثر بہت واضح تھا اسکی عمر بمشکل اٹھارہ سال ہوگی ... میں نے ناشتہ لینے کے دوران اسے مخاطب کیا "السلام علیکم.. کیسے ہو بچے ؟" اس نے چونک کر مجھے دیکھا " جی الحمد للہ .. تھینکس باجی " اسکی مسکراہٹ بھی بہت پیاری تھی معصوم اور شفاف ! مزید بات چیت بعد پر ڈالتے ہوئے میں ناشتہ لے کر امی کے پاس آگئی .. سب کاموں سے فراغت کے بعد عام طور پر باقی اٹنڈنٹ خواتین سوجاتی تھیں اور میں اپنی پڑھائی لے کر بیٹھ جاتی .مگر آج میرا ارادہ اس لڑکی کے پاس جاکر بیٹھنے کا تھا میں اسی ارادے سے اٹھی تو وہ بیڈ خالی نظر آیا میرا دل دھک سے رہ گیا . دونوں کہاں غائب ہوگئیں ؟؟
-------------------------------------------------------------
میں خاموشی سے آکر اپنی جگہ واپس بیٹھ گئی اور ان دونوں کے خیال کو جھٹکتے ہوئے سورہ ملک کی تفسیر کھول کر بیٹھ گئی ... پڑھتے پڑھتے کسی کے کراہنے کی آواز پر میں نے سر اٹھایا بیڈ نمبر 78 پر ایک مریض بزرگ خاتون شاید کسی ضرورت کے تحت پکار رہی تھیں انکی اٹنڈنٹ کینٹین سے کچھ کھانے پینے گئیں تھیں اور مجھے اپنی ساس کا دھیان رکھنے کا کہہ کر گئیں تھیں ..میں نے کتاب بند کی اور انکے پاس آگئی ... انکا ایک ہفتے پہلے آپریشن ہوا تھا خاصی سرد مزاج اور اکھڑ طبعیت کی خاتون تھیں ،یہ بزرگ خاتون واش روم میں پھسل گئیں تھیں جسکی وجہ سے پیر کی ہڈی فریکچر ہوگئی تھی اور قسمت نے ایک انتہائی نفیس اور طرحدار خاتون کو ہسپتال میں لا پہنچایا جہاں وہ کلّی طور پر دوسروں کے رحم و کرم پر تھیں اپنی بہو کو بالکل خاطر میں نہیں لاتی تھیں انکی ایک عدد بیٹی بھی آتی تھی انکے پاس جو خود کو ڈاکٹر بتاتی تھی امریکہ میں رہائش پذیر تھی اور آجکل امی کے ساتھ ہوجانے والے حادثے کی وجہ سے پاکستان آئی ہوئی تھی جبکہ انکی بھابھی کا کہنا تھا کہ یہ وہاں نرسنگ کرتی ہیں بس یہاں آکر رعب جمانے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے ... الله الله !! یہ خواتین کی ٹیڑھی ٹیڑھی باتیں .. جس سے پوچھو ایک الگ کہانی ہوتی تھی ! خیر میں انکے پاس جاکر بہت ادب سے مخاطب ہوئی " جی اماں جی ؟ کوئی کام ہے؟ " وہ کسمسا کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں گویا تم جاؤ مجھے کسی اور کی ضرورت ہے ... " امّاں جی ! شبانہ بھابھی کسی کام سے گئی ہوئی ہیں آپ کو جو بھی کام ہے مجھے کہہ دیجیے انہیں واپسی میں آدھا گھنٹہ لگ جائے گا " اس تفصیل کو سننے کے بعد میں نے انکی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھی مجھے بہت عجیب سا احساس ہوا بے بسی بے کسی ... لاچاری مجبوری !! کیا حقیقت ہے انسان کی ؟ " امّاں ! میں بھی تو آپکی بیٹی ہی ہوں آپ پریشان نہ ہوں میں پین لگا دوں گی منہ دوسری طرف کر کے " پردہ چاروں اطراف سے لگا کر ربر کے دستانے ہاتھوں پر چڑھا کر میں انکے بیڈ کے نیچے سے پین نکالنے لگی ... جب میں پین لے کر جارہی تھی تو کچھ خواتین نے ناک پر دوپٹہ رکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انکے جسم تمام عیبوں سے پاک ہیں !! جسم تمام عیبوں سے پاک تو جنت میں ہونگے .. یا پھر دنیا میں احمقوں کی اپنی جنت ہے !! دل میں ایسے تمام لوگوں کے لیے ہمدردی کے جذبات کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوتا ... جب میں واپس آئی تو ان بزرگ خاتون نے میرا ہاتھ تھام کر تشکر آمیز نظروں سے مجھے دیکھا " الله پاک تمہیں بہت نوازے .. " میرے اندر ایک ٹھنڈک سی اتر گئی
" نوازا ہوا ہے امّاں جی .. " میری آنکھوں میں میری عزیز بیٹی کی تصویر لہرائی دل اچانک تڑپ اٹھا اس سے ملنے کے لیے مگر فرائض ہمیشہ کی طرح راہ روکے کھڑے تھے ... امی کے لیے بھی دل تڑپتا ہے مگر جتنا بیٹی کے لیے تڑپتا ہے اتنا نہیں !! جانے یہ کیا راز ہے ؟؟ میں دل ہی دل میں اپنی بیٹی کو ڈھیروں پیار کرتے ہوئے امی کے پاس آگئی انکی دوا کی اگلی خوراک کا وقت ہوگیا تھا وہ دے کر انکے قریب ہی بیٹھ گئی وہ بہت کمزور لگنے لگی تھیں ان سے باتیں کرتے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اچانک ایک غلغلہ سا اٹھا سارے مریض ایکٹو ہوگئے کوئی ہاتھ ہلا رہا تھا کوئی پیر زمین پر جما رہا تھا ... میں کچھ حیران سی ہوکر سب کی حرکات و سکنات کو دیکھ رہی تھی سائرہ کو آواز دے کر پوچھا کہ کیا ہوا ہے ؟
اس نے ہنس کر کہا " ہٹلر آرہا ہے "
" کون ہٹلر ؟ "
" ڈاکٹر فرخ ! " میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کندھے ہلائے اور سامنے سے گزرتی بشریٰ سے سلام دعا کرنے لگی .. چند لمحوں میں ایک درمیانے سے قد کا نوجوان فریش چہرے کے ساتھ وارڈ کے اندر آیا . اور ناک کی سیدھ میں سائرہ کی امی کے بیڈ کی طرف آگیا .. " جی جناب ؟ پھر ؟؟ "وہ عقابی نگاہیں سائرہ کی والدہ پر جما کر سنجیدگی سے انہیں دیکھنے لگا وہ بے چاری تیز تیز ہاتھ ہلانے لگیں " یہ دیکھیں ڈاکٹر صاحب اب تو میں ساری ایکسرسایز کررہی ہوں " میں حیران ہوکر انکو دیکھنے لگی ہڈی تو پیر کی فریکچر ہے یہ ہاتھ کی ایکسر سائز کیوں کررہی ہیں ؟ یہی بات ڈاکٹر فرخ نے کہی تو انکا تیزی سے حرکت کرتا ہاتھ رک گیا
" آپکو دیکھ کر دماغ چل گیا ہے ڈاکٹر صاحب ! ورنہ میں پیروں ہی کی ایکسر سائز کررہی ہوں " اب انکا پیر تیز تیز حرکت کرنے لگا .. میرا قہقہہ حسب معمول بلا ارادہ تمام بند توڑ کر حلق سے برآمد ہوا تھا ڈاکٹر فرخ نے قدرے خجل ہوکر مجھے دیکھا پھر مسکراتے ہوئے انکو انگوٹھا دکھایا " گڈ " اور تمام بیڈ سے ہوتے ہوئے ہمارے بیڈ پر آگئے جب میں امی کو اٹھانے کے لیے آگے بڑھی تو میری نظر سامنے کے بیڈ پر پڑی اسکا پردہ چاروں طرف سے بیڈ کو گھیرے ہوئے تھا ... اس وقت مجھے فزیو تھراپسٹ سے ساری باتیں سمجھنا تھیں اس لیے توجہ ادھر سے ہٹا کر ادھر مبذول کی .. امی ڈاکٹر کو اپنے بارے میں بتانے کے بجائے اس سے اسکے بارے میں تفصیل پوچھنے لگیں تھیں .. شادی ہوگئی؟ نہیں ؟ اچھا کیوں مگر ؟ اتنی عمر ہوگئی ہے بیٹا اب شادی کرو گے تو آگے جلد فرائض سے سبکدوش ہوسکو گے ...
" امی امی امی ! " میں نے زبان دانتوں تلے دبا کر امی کا ہاتھ پکڑ لیا اس سے پہلے کہ امی اسکو موت کے منظر تک پہنچا دیتی میں نے بروقت مداخلت کر کے انکو روک لیا تھا " ڈاکٹر فرخ کچھ حیرت اور تفکر سے امی کو دیکھ رہے تھے
" یہ اسی طرح باتیں کرتی ہیں ؟ یا ابھی آپریشن کے بعد ؟ " انہوں نے مجھے دیکھا تو میں بھی اس بات کو سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ عمل آپریشن کے بعد زیادتی کی طرف مائل ہوا ہے ورنہ امی ہرکسی سے ایسے بات نہیں کرتی تھیں
" جی شاید .. بلکہ یقیناً ایسا ہی ہے شاید انستھیسیا کی ڈوز کچھ اثر دکھا رہی ہو ؟ "
" جی بہت ممکن ہے اگر ایسا ہے تو انہوں نے آئی سی یو میں بھی کچھ ابنارمل حرکت کی ہوگی ؟ آپکے علم میں ہے کہ ہوش میں آتے ہی یہ کیسا رویہ اختیار کیے ہوئے تھیں ؟ " ڈاکٹر فرخ نے اچانک انگریزی میں گفتگو شروع کردی اور امی نے سر ہلاتے ہوئے کہا " ہاں ہمیں بھی ایسا ہی لگتا ہے وہاں ہم نے ایک سسٹر کو بہت پریشان کیا تھا "
ڈاکٹر فرخ نے آنکھیں پھیلا کر امی کو دیکھا " یہ انگلش سمجھتی ہیں ؟ "
" جی " میں نے مسکرا کر امی کو اپنے ساتھ لگا لیا" یہ ایک ٹیچر رہ چکی ہیں بہت شاندار ماضی ہے انکا ! " " ہمم جبھی ،،، " ڈاکٹر فرخ کی چمکدار نظریں امی پر لگی ہوئی تھیں " آپ پہلے ایکسر سائز کیا کرتی تھیں ؟ " اب وہ امی سے بہت اپنائیت سے مخاطب ہوئے تھے " جی بالکل میرا بھانجا ہے ڈاکٹر محفوظ آپ بھی جانتے ہونگے اس نے ہمیں سارا کچھ سکھا دیا تھا ہم بہت آرام سے ایک ایک کلو تک کا وزن اپنے پنجوں پر اٹھا سکتے ہیں " انکشافات پر انکشافات نے ڈاکٹر فرخ کی گویائی چھین لی تھی وہ چند لمحے حیرت سے امی کو دیکھتے رہے وہ اور بھی کچھ تفصیل بتا رہی تھیں تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر فرخ امی سے بہت دوستانہ انداز میں بات کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے
" بس تو پھر آنٹی اب آپ کو ایکسر سائز شروع کرنا ہے اور اپنے پیروں کو بس اتنا اٹھانا ہے صرف دس تک گننا ہے اور واپس نیچے لے جانا ہے درد ہو تو بھی رکنا نہیں ہے اگر آپ یہ کام کریں گی تو ہم آپکو کل چلائیں گے اور امید ہے کہ آپ باسانی یہ سب کرلیں گی " انہوں نے مسکرا کر امی کو دیکھا اور پلٹتے ہوئے ایک نظر میری کتابوں پر ڈالی اورسامنے والے بیڈ کی طرف بڑھ گئے
میں نے امی کو تھوڑی دیر آرام کا کہا اور خود بینچ پر ٹک گئی دیوار سے ٹیک لگا کر میں بظاھر بہت دور باہر کھڑکی سے نظارے کرنے لگی لیکن میری ساری توجہ سامنے والے بیڈ پر ہونے والی گفتگو پر تھی
" اچھا ؟ تو آپ اسکو دیکھ کر آئیں ؟ " ڈاکٹر فرخ کے سوال پر مدھم سی آواز ابھری "جی ڈاکٹر صاحب ! مگر وہ تو بہت پین فل ہے .. اتنے بڑے بڑے سکریو پیروں میں لگے ہیں جو ظاہر ہے گوشت میں پیوست ہیں اور سال بھر سے وہ اسی حالت میں ہے .. بیڈ نمبر 82 بھی یہی کہہ رہی ہے کہ بے حد پین فل ہے یہ آپریشن اور پھر اتنا وزنی فریم سہارنا.. میری بچی ... " ایکدم ہی الفاظ کی جگہ سسکیوں نے لے لی تھی یہ آواز اس بچی کی تو نہیں تھی شاید وہ اسکی والدہ ہیں !
" جی اسی لیے میں یہ چاہ رہا ہوں کہ آپ ساری سچویشن کو سمجھ لیں بعد میں کوئی شکایت نہیں کیجیے گا یہ سب بہت دردناک ہے اور کم از کم دو سال کے عرصے پر محیط ہوگا اگر مومل برداشت کر سکے تو ہمیں آپریشن پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا !
" مما کم آن .. مجھے برداشت ہوگا یہ درد پلیز آپ روئیں تو مت " انگلش لہجے میں اردو بولتے ہوئے وہ لڑکی واقعی بہت بہادر لگی تھی
" الله پاک اسکے لیے بہت سی آسانیاں دینا " میں کچھ نہیں جانتی تھی کہ کیا ہونے جارہا ہے میں جاننا چاہتی تھی اور میرا تجسس اپنی جگہ مگر دعا بہت بے اختیار کی تھی میں نے...
---------------------------------------------------------
ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ راہ
ہم وہ نہیں جنھیں زمانہ بنا گیا ........!
بارہ بجے کے بعد کینٹین سے مریضوں کا کھانا آجاتا تھا جسکو سرو کر کے اور پھر برتن دھو کر میں نماز پڑھنے جایا کرتی تھی ابھی گیارہ بجے تھے ... ڈاکٹر فرخ جاچکے تھے اور سامنے والے بیڈ کا پردہ تھوڑا کھلا ہوا تھا کہ اجازت لے کر اندر جایا جاسکتا تھا میں نے امی کی طرف دیکھا دواؤں کی وجہ سے ہر تھوڑی دیر پر غنودگی طاری ہوتی تھی اب بھی وہ آنکھیں موندے گہری سانس لے رہی تھیں میں نے موبائل ہاتھ میں اٹھایا اور سامنے والے بیڈ کی طرف آگئی ان خاتون نے مسکرا کر میرا استقبال کیا وہ بچی فون پر کسی سے بات میں مصروف تھی سلام دعا کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ کی کون ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ میری بیٹی ہے پھر دھیرے دھیرے باتیں کرتے ہوئے وہ اسکے بارے میں تفصیل سے بتاتی گئیں
اس کا نام مومل تھا تقریباً دس سال پہلے وہ بچوں کے ساتھ کھلتے ہوئے چھت سے گرپڑی تھی اسکے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی پھر کافی علاج وغیرہ ہوا بظاہر تو سب ٹھیک ہوگیا تھا مگر اسکے الٹے پیر کی نشو و نما ٹھیک سے نہیں ہوئی اور دونوں پیر کے سائز میں تھوڑا فرق رہ گیا تھا اب مومل کی خواہش تھی کہ وہ بالکل نارمل ہوجائے اور جب علاج موجود ہے تو کروانے میں کیا حرج ہے ؟ ڈاکٹرز نے دس فیصد چانس کہا تھا ٹھیک ہونے کا ..مومل کی امی بہت ڈری ہوئی تھیں اسلیے آپریشن سے پہلے ہر طرح کی تسلی چاہتی تھیں ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کے بعد وہ ایسے لوگوں سے مل کر اطمنان کرنا چاہتی تھیں جو اس عمل سے گزر چکے تھے اسی لیے وہ مختلف مریضوں سے مل رہی تھیں اور آج صبح بھی ایک لڑکی سے مل کر آئی ہیں جس کو دیکھ کر انکی ہمت جواب دے رہی تھی ...
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئیں آنکھیں نم ہونے لگی تھیں شاید انکی ، میں ایک گہری سانس لے کر مومل کو دیکھنے لگی ، وہ اب تک فون پر بات کررہی تھی اور مسکراتی ہوئی بہت پیاری لگ رہی تھی .. مومل کی امی کا نام سبین تھا .. کینٹین والے کی ٹرالی کی دھنادھن سنائی دی تو میں سبین کو حوصلہ دلاتے ہوئے دل میں مومل کی صحت کے لیے دعا کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی .. کھانے کے بعد میں نماز کے لیے جانے لگی تو سبین نے مجھے آواز دی .. فاطمہ ! ذرا مومل کو نماز کی جگہ بتا دیں گی ؟ مجھے بہت خوشی ہوئی ہسپتال آکر بہت کم لوگ نماز کی پابندی کرتے تھے اور مومل کے بارے میں مجھے نہیں لگا تھا کہ یہ بھی نماز پڑھتی ہوگی ... انسان رائے قائم کرنے میں بہت جلدی کرتا ہے اپنے آپ کو سرزنش کرتے ہوئے میں مومل کو ساتھ لے کر وضو بنانے چلی گئی اس دوران میں نے بہت غور کیا اسکی چال میں بے حد معمولی سا لنگڑا پن تھا جسے اگر دور نہ بھی کیا جاتا تو کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ... نماز کے بعد میں نے اس پر نظر ڈالی وہ دعا مانگ رہی تھی ، جب فارغ ہوئی تو میں نے پوچھا مومل ! کیا مانگا الله سے ؟ "
کہنے لگی "باجی ! میری آجکل بس ایک دعا ہے کہ الله پاک میرے شوق میں اپنی رضا بھی شامل کردے "
"کیسا شوق؟"
ہائی ہیل کا شوق !" جانماز لپیٹ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی
میں نے پوری کوشش کی کہ مومل مجھے اپنا دوست سمجھنے لگے اور میں اپنی اس کوشش میں کافی کامیاب ہوئی .نماز سے واپسی پر اس نے مجھے بتایا کہ اسے ہائی ہیل کا بہت شوق ہے اور جب وہ اپنی فرینڈز اور بہنوں کو ہیل پہنے دیکھتی ہے تو اسکے دل میں بھی یہ خواہش زور پکڑ جاتی ہے بس اسی شوق کے لیے میں نے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے .. وہ کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بتا رہی تھی اور میں حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی
" صرف ایک شوق کو پورا کرنے کے لیے تم اتنا بڑا رسک لے رہی ہو مومل ؟ "
" شوق صرف نہیں ہوتا باجی ! شوق تو جنوں بھی بن جاتا ہے " وہ کہتے کہتے رکی جیسے کچھ سوچ رہی ہو میں نے دخل اندازی نہیں کی اسے سوچنے دیا ہم ہسپتال کے چمکتے کوریڈور میں ٹہلتے جارہے تھے وارڈ نزدیک آرہا تھا تب اس نے کہنا شروع کیا " میرا فیانسی کہتا ہے کہ مومل تم مجھے ایسے ہی پسند ہو مگر باجی ! میں خود کو ایسے پسند نہیں ... سب برداشت ہوجاتا ہے پر اتنے سمارٹ سے لڑکے کے ساتھ چلتے ہوئے لنگڑانا بہت برا لگتا ہے " وہ پھر سے ہنس پڑی مجھے بھی ہنسی آگئی " دیوانی ہو تم "
" جی ٹھیک کہا آپ نے .. مگر یہ بات زیادہ اہم ہے کہ میں ہائی ہیل کے شوق میں درد برداشت کرنے کو تیار ہوں ... " اس نے پھر رک کر کچھ سوچا " باجی ! آپ بیڈ نمبر 82 کی پیشنٹ سے ملی ہیں ؟ " اس نے اچانک سوال کیا تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا
" اور سدرہ ممتاز سے ؟ جو پچھلے سال آپریشن کروا کر گئی تھی ؟ کل اسکا چیک اپ تھا یہاں ..مجھے ڈاکٹر امین نے اس سے ملوایا تھا کل اسکے پیروں میں جو سکریو لگے ہیں وہ ٹائٹ ہونے تھے اور اسکی چیخیں سن کر مجھے رونا آرہا تھا امی بھی تب سے ڈر گئی ہیں یہ سکریو ہر ماہ ٹائٹ ہوتے ہیں .. اور آج 82 کی سکینہ سے ملے ہم وہ بالکل مشورہ نہیں دے رہی آپریشن کا کہتی ہے تم بہت چھوٹی ہو ابھی برداشت نہیں کرپاؤ گی "
میں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی " کیا یہ بہت ضروری ہے مومل ؟ تم دس فیصد پر اتنا برا قدم اٹھا رہی ہو ؟ "
" نہیں باجی ! میں سو فیصد پر قدم اٹھا رہی ہوں الله کے بس میں سب کچھ ہے نا ؟؟"
اس نے نظریں فرش پر جما رکھی تھیں مجھ میں بھی حوصلہ نہیں تھا اسکو دیکھنے کا
" ارے ہاں باجی ! آپ نعت بہت اچھی پڑھتی ہیں " مومل نے اچانک بات بدل دی تو میں نے سر اٹھایا " تمہیں کیسے پتہ ؟ "
"میں نے بھی سنی تھی آج صبح آپکی آواز .. اور میرا دل بھر آیا تھا "وہ مسکرائی تو مجھے وہ سسکیوں کی آواز یاد آئی میں بھی مسکرا دی
" الله پاک تمہیں بہت آسانیاں دے مومل ! " میں نے دل سے کہا تھا
" آپ چلیں گی سکینہ سے ملنے ؟" ہمارے وارڈ سے پہلے والے وارڈ پر اسکے قدم رک گئے میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے رکنے کا کہا اور آگے جاکر امی کو دیکھا سائرہ انکے پاس بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھی میں نے اطمینان کا سانس لیا اور مومل کے پاس آگئی " چلو "
بیڈ نمبر 82 کی سکینہ اپنی امی کے ہاتھ سے پھل وغیرہ کھا رہی تھی اسکے پاؤں میں بڑے بڑے فریم گولائی میں فٹ تھے جنکی چوڑائی تقریباً دو فٹ ہوگی اور عقل یہ سوچنے سے قاصر تھی کہ اسکے ساتھ ایکسر سائز کیسے کی جاسکتی ہوگی ؟ بلکہ اسے لگا کر چلا بھی کیسے جائے گا ؟
میرا دل چاہ رہا تھا کہ مومل کو سمجھاؤں یہ رسک نہ لے وہ اسکے بغیر بھی مکمل ہے خوبصورت ہے ... مگر میرے الفاظ دل میں ہی رہ گئے اور میرے کانوں نے مومل کا جملہ سنا
" سکینہ ! جس دن یہ فریم نکلے گا آپ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ آپ خود کو کتنا خوش قسمت محسوس کریں گی .. الله سے آپ کے لیے بھی دعا کروں گی کہ آپکو اس درد کے بعد بہت سی خوشیاں اور آسانیاں دے "
ایک اٹھارہ سال کی لڑکی جو خود اسی تکلیف میں گرفتار ہونے والی تھی وہ دوسروں کے لیے کتنا حوصلہ بڑھانے والی تھی میں اپنی کم ہمتی پر شرم سار ہوئی کہ اسکا حوصلہ بڑھانے کے بجائے توڑنے کی فکر میں تھی... سکینہ مومل کا ہاتھ تھامے آنسو بہا رہی تھی جبکہ مومل اسکے ہاتھ کو نرمی سے تھپتھپاتے ہوئے کہہ رہی تھی " ہر وقت گزر جانے کے لیے ہوتا ہے .. جب خوشی کا وقت گزر جاتا ہے تو تکلیف کا وقت بھی گزر جاتا ہے یہ وقت بھی گزر جائے گا اور ہم ایک دن بہت آرام سے متوازن چال چل سکیں گے ..."
" ان شاء الله " میں نے بے ساختہ کہا اور وہ دونوں مسکرانے لگیں نم آلود مسکراہٹ ، تکلیف کے بعد راحت کی امید و نا امیدی کے درمیان والی کیفیت میں گھری مسکراہٹ ... جیسے خوف کے پیچھے جھانکتی بہادری اور اندھیرے کے پیچھے آتا سویرا جیسے پہاڑوں کے پیچھے سے کرنیں بکھرتا صبح کا سورج !!
---------------------------------------------------------------------------------
وہ سارا دن ہی میرا کسی سوچ کے تحت گزرا امی سے باتیں کرتے ،انکو دوا کھلاتے ،انکو ایکسر سائز کرواتے ، ارد گرد کے لوگوں سے خوش گپیاں کرتے ، کسی مریض کو درد کی شدت سے تڑپتے دیکھتے ، کسی کا دکھ بانٹتے ، کسی کی درد بھری کہانی سنتے ، کسی کو فون کا نمبر ملا کر دیتے ہوئے ... بس ایک مسلسل سوچ تھی جو دماغ کو آزاد نہیں کررہی تھی اس سوچ کا کوئی سرا نہیں تھا بس تھکان کا شدید احساس تھا ... کوئی بار بار کان میںحدیث کے الفاظ دہراتا تھا " تو غنیمت جان اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے ..." آنکھیں بار بار نم ہورہی تھیں کاش اے میرے رب ! میں تیرا شکر ادا کرنے کا سلیقہ رکھتی !
ہسپتال کی زندگی دیکھنے کے بعد احساس ہوا تھا کہ ہم آج تک کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا کر پائے ہیں ؟ درد بھری بے بس زندگی جو یہاں کے لوگ گزار رہے ہیں کوئی بھی صحت مند انسان کہاں محسوس کرسکتا ہے ؟
مغرب کے بعد ہی میری آنکھیں بوجھل ہونے لگی تھیں ... آج سارا دن گھر پر بات نہیں کر پائی تھی ٹائم دیکھا تو سات بجے تھے اب پڑھائی سے فارغ ہونے والے ہونگے سارے بچے .. میں نے موبائل اٹھاتے ہوئے سوچا ...
میں خود بھی ٹیوشن پڑھاتی تھی، اپنے بچے اور ٹیوشن والے بچے اپنی نند کے حوالے کر کے آئی تھی گھر کے باقی کاموں کی پریشانی عابدہ نے ختم کردی تھی ..میرے گھر کام کرنے والی لڑکی عابدہ بہت سمجھدار تھی محبت اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ! اس نے میری غیر موجودگی میں سارا گھر سنبھال لیا تھا بلکہ وہ رات کو بچوں کے پاس ہی رک جایا کرتی تھی .. میں ان تمام لوگوں کی بہت شکرگزار تھی جو اس کڑے وقت میں میرا ساتھ دے رہے تھے
تیسری بیل کے بعد فون اٹھا لیا گیا شوہر اور بچوں سے بات کر کے تھکن کا احساس کم ہوا.. انہیں کل مجھ سے ملنے آنا تھا اسی سرور میں، میں اس رات میں پڑھائی نہ کرسکی جلدی سو گئی .. سونے سے پہلے مومل کے بیڈ کی طرف دیکھا وہ اپنی امی سے باتوں میں مصروف تھی مجھے متوجہ پاکر ہاتھ ہلانے لگی میں نے بھی ہاتھ ہلا کر ایک مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی اور آنکھیں موند لیں ..
-----------------------------------------------------------------
دوسرا دن چھٹی کا تھا .. آج بچے آئیں گے ملنے .. میری نگاہ بار بار گھڑی کی جانب اٹھ جاتی تھی ہسپتال میں دن کے نو بھی کس قدر مشکل سے بجتے تھے !! ہمارے گھر سے ہسپتال کا راستہ پورے ایک گھنٹے کا تھا آٹھ بجے ان لوگوں کو نکلنا تھا اور نو بجے تک پہنچ جانا تھا پھر ہم نے ناشتہ اکٹھے کرنے کا پروگرام بنایا اتنی دیر میری ایک کزن کو امی کے پاس رہنا تھا پھر ہم واپس آجاتے تو وہ لوگ گھر چلے جاتے اور میں اوپر امی کے پاس .. سب کچھ پلان کے مطابق ہی ہوا تھا .. ساحل سمندر انڈس ہسپتال کے بہت قریب تھا تو ہم تھوڑی دیر کو وہاں بھی چلے گئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں اور سمندر کی جھاگ اڑاتی لہروں نے دل پر چھائی اداسی دور کردی تھی ہم خوش باش واپس آئے . ڈاکٹر فرخ نے امی کو وہیل چئیر پر نیچے جانے کی اجازت دے دی تھی .. نیچے کا سرسبز ماحول مریضوں کے دماغ پر اچھا اثر ڈالتا تھا اور پھر امی کو بچوں سے ملنے کی خواہش تھی اسی سوچ کے تحت میں نے ان لوگوں کو رکنے کا کہا اور اوپر آگئی دو تین خواتین کی مدد سے امی کو وہیل چئیر پر بٹھا کر نیچے لے کر گئی کافی دیر ہم نے خوب باتیں کیں ، میرا بیٹا امی کو پورا ہسپتال گھما رہا تھا خوش مگن باتیں کرتی مسکراتی امی ! میں شاد نظروں سے انہیں دیکھتی رہی دعا کرتی رہی !
تقریباً بارہ بجے وہ لوگ گئے پھر ہم اوپر آگئے امی کو بیڈ پر لٹا کر میں بھی آرام سے بینچ پر بیٹھ گئی ..ہمارے برابر والے بیڈ پر کوئی نئی فمیلی نظر آرہی تھی بیڈ پر بیٹھی خاتون سندھی لگ رہی تھیں انکے ارد گرد موجود لوگ بھی اونچے لمبے سرخ سفید سے تھے اتوار کی وجہ سے سب جگہ لوگ نظر آرہے تھے ... کھانا آگیا تو سب کھانے میں مصروف ہوگئے میں امی کو کھلا کر خود کینٹین گئی آج دال روٹی بنی تھی کھا پی کر واپس آئی .. سب کے پردے تھوڑے تھوڑے آڑ کیے ہوئے تھے لہذا میں بھی نماز سے فارغ ہوکر پردہ برابر کر کے پڑھنے بیٹھ گئی . ساڑھے تین بجے میں بھی تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئی ایک گھنٹہ بعد دوائیں اگئیں ... ملنے کا وقت ختم ہو رہا تھا تیماردار ڈیوٹیاں بدل رہے تھے سٹاف بھی اپنی ڈیوٹی دوسروں کو ہینڈ اور کررہے تھے پانچ بجے تک سب ختم ہوچکا تھا اور ہسپتال کا مخصوص خاموش اور پرسکون ماحول لوٹ آیا تھا .. جب میں عصر کی نماز پڑھنے جارہی تھی تو مومل کے ساتھ ایک صحت مند مگر پیاری سی لڑکی کو دیکھ کر رکی .. مومل نے سمجھ کر میرا تعارف کروایا " یہ میری بہن ہیں باجی ! ایمن نام ہے شی از میریڈ.. آج یہ رہیں گی میرے پاس " میں اس سے مل کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی نماز کے دوران کسی کی موجودگی کا احساس ہوا نماز کے بعد دیکھا تو سفید چادر میں لپٹی مومل کھڑی تھی میں وہیں بیٹھی رہی ساتھ واپسی کے خیال سے پھر واپسی میں مومل نے بتایا کہ کل اسکا آپریشن ہے . میرا دل زور سے دھڑکا تھا ( یا الله رحم فرمانا )
" تو تم نے آپریشن کا پکا فیصلہ کر لیا ہے مومل ؟"
" فیصلہ تو پکا ہی تھا باجی ! آج امی گئیں ہیں گھر کہتی تھیں صدقه دے کر آئیں گی میرا .. پھر میرا آپریشن ہوگا تو کل وہ یہیں ہونگی "
"الله پاک بہت اچھا کرے گا تمھارے حق میں " میں نے خدشات کو جھٹکتے ہوئے دعا کی
اس کے بعد سے لے کر اگلے دن تک میں مومل کا بہت خیال رکھتی رہی پتہ نہیں لاشعوری طور پر میرا دل اس بچی سے بہت مانوس ہوگیا تھا رات دیر تک میں مومل اور اسکی بہن سے باتیں کرتی رہی انہوں نے کچھ نعتیں بھی سنیں مومل کے منگیتر کا ذکر بھی آیا .. احمر ! ..انکی آپس کی پسندیدگی کی وجہ سے سب کیسے راضی ہوئے ؟ یہ ایک الگ قصہ تھا مگر سب کو راضی کرنے کا کام بھی مومل نے بہت بے جگری سے کیا تھا .. میں نے اندازہ لگایا کہ یہ لڑکی بہت کم عمری میں بہت سے فیصلے کرنے پر اور انکو منوانے پر قدرت رکھتی تھی بہت مضبوط قوت ارادی کی مالک لڑکی ہر لمحہ مجھے اپنے دل کے قریب محسوس ہورہی تھی ...
اگلے دن اسکے آپریشن سے پہلے میں جانماز پر بیٹھ کر دعا مانگنے لگی ... بہتے آنسو اور رحم کی درخواست .. اور میں کیا کر سکتی تھی اس کے لیے ؟ اسکی امی بھی مستقل تسبیحات میں مشغول تھیں .. الله کیسے کیسے بہانے سے اپنے بندے کو اپنا بنا لیتا ہے ... یہ میں نے ہسپتال کی زندگی میں دیکھا تھا !
مومل کا آپریشن کامیاب ہوا تھا .. دس دن وہاں رہی مومل اس دوران میرا اور اسکا تعلق اسقدر مضبوط ہوگیا کہ اسکی امی بھی اکثر دن میں دو تین گھنٹے گھر جاکر آرام کر آتیں اور مومل میرے حوالے ہوتی امی کے ساتھ اسکی دوائیں اور ایکسر سائز کا خیال رکھنا مجھے بہت مطمئن کیا کرتا تھا ... دس دن کے بعد مومل کو ڈسچارج کردیا گیا اب اسے ہسپتال صرف چیک اپ کے لیے آنا تھا ! جاتے جاتے میں نے اس سے کہا ...
" مومل ! ایک وعدہ کرو مجھ سے، تم جب بالکل صحت یاب ہوجاؤ گی تو مجھ سے ملنے میرے گھر آؤ گی ، ہائی ہیل پہن کر !" اور وہ کھلکھلا کر اپنی مخصوص ہنسی ہنس دی تکلیفوں کو چھپا کر مسکرانے والے کس قدر عظیم ہوتے ہیں .. میں نے اسکی آنسوؤں سے جھلملاتی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اسکے ماتھے پر پیار کیا تھا
-----------------------------------------------------------------------------
ہم تقریباً ڈیڑھ ماہ وہاں رہے امی کے ایک پیر کے ٹانکے میں کچھ مسئلہ ہوگیا تھا لہٰذا دوبارہ اپریٹ ہونا تھا ... امی بہت پریشان تھیں میں تو اپنی پریشانی کا اظہار بھی نہیں کرسکتی تھی .. بہرحال الله پاک سارے وقت گزار دیتا ہے ہمارا بھی یہ کڑا وقت گزر گیا ... بہت کچھ ہے آپ سب کو بتانے کے لیے سنانے کے لیے پھر کبھی وقت نے اجازت دی تو ضرور شئیر کروں گی .... بہت سے نئے دوست بنے تھے سندھی بزرگ خاتوں بھی مجھ سے بہت پیار کرنے لگی تھیں اپنے بچوں میں وہ "مٹھڑی امی " کے نام سے مشہور تھیں اور مجھ سے بھی یہی کہنے کی فرمائش کی جو میں نے بخوشی قبول کیا ..
جب ہم وہاں سے واپس آرہے تھے تو میرا دل الله کے حضور جھکا جارہا تھا آنکھوں شکرانے کے آنسو اور ہونٹوں پر اسکی کبریائی ... دل کچھ اور الله کی عظمت کا قائل تھا آج !
مومل سے میرا فون پر رابطہ تھا ہفتہ دس دن پر ایک آدھ میسج ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں خبر دے دیا کرتے تھے ... ایک سال کے بعد وہ کچھ بیزار سی رہنے لگی تھی ... میں حوصلہ بڑھانے کی پوری کوشش کرتی وہ پھر سے مسکرانے لگتی ... دھیرے دھیرے ہمارے آپس کا رابطے کم ہونے لگے زندگی کی بھاگ دوڑ میں پورے تین سال گذر گئے... ایک دن ایک میسج دیکھ کر میں حیران رہ گئی
------------------------------------------------------------------
دن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں، کبھی منظر صاف نہیں ہوتے
کبھی سورج بات نہیں کرتا
کبھی تارے آنکھ بدلتے ہیں
کبھی منزل پیچھے رہتی ہے
کبھی رستے آگے چلتے ہیں
کبھی آسیں توڑ نہیں چڑھتیں
کبھی خدشے پورے ہوتے ہیں
کبھی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں
کبھی خواب ادھورے ہوتے ہیں
یہ تو سب صحیح ہے لیکن
اس آشوب کے منظر نامے میں
دن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کچھ سایہ کرتی آنکھوں کے ، پیماں تو دکھائی دیتے ہیں!
ہاتھوں سے اگرچہ دور سہی، امکاں تو دکھائی دیتے ہیں!
ہاں، ریت کے اس دریا سے ادھر
اک پیڑوں والی بستی کے
عنواں تو دکھائی دیتے ہیں!
------------------------------------------------------------------------------------
مومل کا میسج کافی عرصے کے بعد آیا تھا
" باجی ! میں اپنی زندگی سے بہت بیزار ہوگئی تھی ایک سال کے بعد دل بہت شاکی ہوگیا اور ڈیڑھ سال میں تو لگتا تھا میں سب کو کاٹ کھانے لگی ہوں ہر کوئی بات کرتے ڈرنے لگا تھا مجھ سے... پھر ایک دن میں نے سوچا مجھے کچھ چینج کی ضرورت ہے
مجھے لگتا تھا مومل نام مجھے سوٹ نہیں کرتا اور مجھے اپنا نام بدل کر فاطمہ رکھ لینا چاہیے اس لیے میں اب مومل نہیں فاطمہ ہوں ایک بہادر لڑکی مجھے بیزار نہیں ہونا مجھے اپنی زندگی جینا ہے امید قائم رکھتے ہوئے یہ درد یہ تکلف کبھی تو ختم ہونگی نا ؟ مجھے اس وقت کا انتظار کرنا ہے ... مشکل تھا باجی بہت مشکل تھا سوچنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے .. آج تین سال بعد مجھے اس تکلیف سے مکمل نجات مل گئی ہے اب میں آسانی سے چل پھر سکتی ہوں ... آپ کو اپنی منگنی کی تصویر بھیج رہی ہوں جو کہ میری صحت یابی کی خوشی میں بہت دھوم دھام سے ارینج کی گئی ہے . "
..اس میسج کے بعد اس نے مجھے ڈھیروں تصویر بھیجی ہنستی مسکراتی مومل ! کہیں اپنی بہنوں کے ساتھ کہیں اپنی امی کے ساتھ پھولوں اور تحائف میں گھری بہادری سے سامنے دیکھتے ہوئے اسکی آنکھوں میں زندگی کے لیے کھلا چیلنج تھا یا مجھے محسوس ہوا تھا ! میرا بہت شدت سے دل چاہا تھا اس سے ملنے کا مگر وقت اور حالات اجازت نہیں دے رہے تھے بے تحاشہ مصروفیت کے باعث میں تصویر میں ہی ہر منظر کو دیکھ کر دل سے اسکے لیے دعا کرتی جارہی تھی آخری تصویر دیکھ کر میں خوشی سے رو پڑی اسکی سائیڈ پوز سے ایک بے حد جاندار مسکراہٹ والی تصویر تھی وہ بالکل سیدھی کھڑی تھی ہائی ہیل میں ! زندگی میں آزمائشیں تو آتی ہیں سب ہی کی زندگی حادثات اور تجربات کا مرکب ہوتی ہے مگر ہم نے اس مشکل سے نکلنے کی کتنی سعی کی کتنے ہاتھ پیر مارے اور دکھ اور تکلیف کے لمحات کو کیسے کاٹا یہ بہت معنی رکھتا ہے .. رو رو کر گزارنے والوں کا وقت بھی گزر ہی جاتا ہے اور ہنستے مسکراتے موج حوادث سے کھلنے والوں کا بھی مگر دونوں کا انجام بہت مختلف ہوتا ہے ایک اپنے ارد گرد بسنے والوں کو ڈپریشن اور اذیت میں رکھتا ہے جبکہ دوسرا اپنے ارد گرد رہنے والوں کو جینے کا حوصلہ سکھا دیتا ہے ... میں نے بھی مومل سے جینے کا ڈھنگ سیکھا تھا .. اسکی مسکراہٹ صرف مسکراہٹ نہیں ایک امید افزا پیغام تھی میرے لیے ...
ابھی چند دن پہلے میری مومل سے بات ہوئی میں نے اس سے گھر آنے والے وعدے کا پوچھا تو کہنے لگی آفس سے چھٹی نہیں ملتی کچھ دیر بعد اس نے کہا کہ باجی ! آفس سے گھر آکر آپ سے بات کرتی ہوں میں حیران ہوئی
" تم جاب کرنے لگی ہو کہیں ؟"
" جی باجی ایک کمپنی میں انٹیریر ڈیکوریٹر کی جاب ہے بہت دنوں بے مصرف زندگی گزاری ہے اب کچھ مصروف رہنے کا ارادہ ہے " تب مجھے پتہ چلا کہ اس نے ان مشکل گھڑیوں میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھی تھی آنا جانا بھی کرتی رہی ہے جو کچھ مجھے ناممکن لگتا تھا وہ سب اس نے ممکن کر دکھایا تھا
" کہاں بے مصرف زندگی رہی تمہاری ؟ اتنا کچھ تو کر لیا تم نے ماشاللہ" میں نے چند لمحے توقف کیا پھر پوچھا " مومل تم پر ایک کہانی لکھوں ؟ بہت دل چاہتا ہے ایک بہادر لڑکی کی کہانی لکھنے کو .. اگر اجازت ہو تو ؟ "اسکا جواب اگلے دن آیا
" آاآ آ ... مجھ پر ؟ جی اس میں اجازت کی کیا ضرورت ہے ؟ ایم فیلنگ سو لکی ، تھینک یو سو مچ لوو یو "
-----------------------------------------------------------------------------------
اور بس پھر میں پہلی فرصت میں لکھنے بیٹھ گئی کیسا لگا آپ سب کو ایک بہادر لڑکی کا یہ مشکل سفر ؟؟ اپنی رائے سے آگاہ کیجیے گا ...
الله پاک آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور دوسروں کے لیے امید جگانے کا سبب بنائے نا امیدی کا نہیں !
:)
Fatima
About the Author: Fatima Read More Articles by Fatima: 14 Articles with 25677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.