خون نہیں سرخ مائع

انسان اس فانی کائنات کا مرکز و محور ہے۔ تمام مذاہب انسان ہی کی فلاح کا پیغام لے کر اترے اور اس کو تباہی سے بچنے کے طریقے بتاتے رہے۔ مذاہب کے علاوہ بھی جب انسانوں نے آسمانی پیغام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی تو بھی مرکز و محور انسان کو ہی بتایا گیا۔ وحی کو پس پشت ڈال کر پیش کیے جانے والے تمام فلسفے بھی حضرت انسان ہی کی بھلائی اور فلاح کے گرد گھومتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ صرف مادی فلاح کے تصور تک محدود رہے۔ بزعم خود انسان کی بھلائی اور خوشحالی کے لیے ہی سارے علوم بھی وقف ہیں اور یہ انسان اس قدر قیمتی ہیں کہ ان کا مرنا یا فنا ہوجانا بہت بڑا نقصان تصور ہوتا ہے۔ چنانچہ حتی الامکان سعی جاری ہے کہ اس کو بیماری اور موت سے بھی بچایا جائے کیونکہ انسان کی موت ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس پر ہر جگہ افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن اگر اسی انسان کو انسان ہی قتل کردے تو غم دہرا ہوجاتا ہے اور تمام مہذب انسان مقتول سے ہمدردی جتاتے ہوئے قاتل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ حتی الامکان قاتل کو سزا دی جاتی ہے اور مقتول کے لواحقین کا غم غلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دور موجودہ میں پیرس واقعے میں بھی یہی ہوا ہے۔ کچھ انسانوں نے اس کائنات کی قیمتی ترین مخلوق کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کتنے ہی معصوم اور بے گناہ لوگ ''زبردستی'' راہ عدم پر روانہ کردیے گئے۔ اس پر یقیناً پوری دنیا کے انسانوں کا سیخ پا ہوجانا نہ صرف جائز بلکہ ضروری تھا چنانچہ پوری دنیا کے انسان مذمت کے لیے اکٹھے ہوئے۔ قاتلوں کو سبق سکھلانے کا سوچا اور آناً فاناً اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوگیا۔ روس کے صدر نے فوری اپنی فضائیہ کو حکم دیا کہ جس خطے سے ان کی نسبت بنتی ہے اس خطے کو راکھ کا ڈھیر بنا دو۔ قطع نظر اس بات کہ وہاں بھی بہت سے معصوم انسان بستے ہیں جو اس بمباری کے باعث موت کا زہر پینے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ یوں شام کے علاقوں پر بمباری کا آغاز کردیا گیا۔ بدلے کی آگ بھی ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی اور انسانوں کا بدلہ بھی لینے کا آغاز ہوگیا۔

لیکن۔۔۔۔۔۔! معاملہ کیا صرف انسانوں تک محدود تھا جن کو بچانے کے لیے پورا یورپ اور مغرب اکٹھا ہوگیا یا حقیقت کچھ اور بھی ہے۔۔۔۔۔۔؟ کیا انسانی حقوق کے علمبرداروں کو حقیقتاً حضرت انسان کو بچانے کا اس قدر احساس ہے کہ اس کے لیے جنگ پر کروڑوں اربوں ڈالر پھونک دیتے ہیں یا مفادات کچھ اور ہیں۔۔۔۔۔۔؟

یہ وہ سوالات ہیں کہ جو میڈیا کی باندھی گئی پٹی کے باعث ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ ہم صرف وہی سوچتے ہیں کہ جو میڈیا ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دکھ اور خوشی بھی وہی محسوس کرتے ہیں جو ہمیں غم اور خوشی بتائی جاتی ہے۔ وگرنہ انسانوں کا دکھ اگر ہو تو انسان تو بہت سے ہیںجو روزانہ مرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں کچھ کا احوال ذیل میں حاضر ہے تاکہ قارئین اندازہ کر سکیں کہ پیرس اور یورپ کے علاوہ بھی انسان قتل ہوتے ہیں اور وہ بھی بے گناہ انسان ہوتے ہیں۔

سردست شام کا تذکرہ کیے دیتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی جنگ کا نشانہ بننے والے اس خطے کے معصوم عوام دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں مہاجرین ہیں جو نیلے آسمان تلے فرش زمین پر بستر تانے رگوں کو جما دینے والی سردی برداشت کر رہے ہیں۔ صرف گزشتہ چار ماہ میں مؤتر عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق تین لاکھ چالیس ہزار شامی ابدی نیند سلا دیے گئے ہیں۔ لیکن عالمی حقوق کے دعویداروں کے بقول یہ انسانوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں کیونکہ ان کا جرم یہ ہے کہ یہ لا الہ الا اللہ کے اقراری ہیں۔ یہ مسلمان ہیں چنانچہ فرانس کے شہر پیرس میں مرنے والے 120 سے زائد افراد کے بدلے میں کسی سکول کے معصوم بچوں کو بمباری کرکے شہید کردینا بھی جائز ہے کہ وہ مستقبل میں دہشت گرد بن سکتے ہیں اس لیے ان کو ابھی ختم کردینا چاہیے۔ اس ''کارخیر'' میں سارے ہی شریک ہیں اور تادم تحریر برطانیہ بھی فضائی حملوں میں آمادگی ظاہر کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ لوگ جو ان حملوں اور جنگوں میں مارے گئے ہیں یہ بھی کسی میڈیا گروپ یا گروہ کے لیے انسان کی حیثیت تو کجا جانوروں سے بھی کمتر محسوس ہوتے ہیں کہ اس دنیا میں جانوروں کی بہت سی اقسام کو محض ناپید ہونے سے بچانے کے لیے ان کے شکار پر نہ صرف پابندی عائد ہے بلکہ ان کے تحفظ کے لیے زرکثیر خرچ کیا جاتا ہے لیکن خطہ شام کے یہ مظلوم شاید اس ''قدر کثرت'' میں ہیں کہ ابھی تک ان کی معدومیت کا خطرہ نہیں ہے چنانچہ ان کے حق میں کوئی بھی آواز بھی نہیں ہے۔

شام کے بعد ایک خطہ اور ہے جہاں مرنے والوں کو انسان کا درجہ کم ہی ملتا ہے۔ یہاں رہنے والوں کا جرم دہرا ہے۔ ایک تو وہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والے، کلمہ گو مسلمان ہیں۔ دوسرا اور بڑا جرم یہ ہے کہ وہ دنیا کی ''مظلوم ترین'' قوم یہودیوں کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ چنانچہ ان کا ''سرخ مائع'' کتنا ہی کیوں نہ بہے خون کا درجہ حاصل نہیں کر پاتا۔ فلسطین نامی اس ملک نما حصے کے لوگوں کا خون صرف اسرائیلی فوج نہیں بہاتی ہے بلکہ عام یہودی بھی اس کام میں برابر کے شریک ہیں۔ ایک مغربی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 53 فیصد یہودیوں کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کو بغیر کسی عدالتی تفتیش کے مار دینا چاہیے کہ وہ اس قابل کہاں کہ دنیا کی ''حقیقی حاکم'' قوم کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات کرسکیں۔ چنانچہ 2300 فلسطینی صرف ایک سال میں شہید کردیے گئے۔ جبکہ یہ اعداد و شمار ان اداروں کے ہیں جو اسرائیلی حمایت یافتہ ہیں۔ چنانچہ حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ محض یکم اکتوبر 2015 سے تادم تحریر 99 فلسطینی انھی اسرائیلیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ جب یہ ہلاکتیں اس قدر بڑھنے لگیں کہ ''مہذب دنیا'' میں موجود کچھ لوگوں کے دل میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھرنے لگے تو فوراً نیا کھیل رچایا گیا۔ ہر مارے جانے والے فلسطینی کے ہاتھ میں ایک عدد چاقو تھما دیا جاتا کہ یہ اس محض چاقو کی مدد سے جدید ترین اسلحہ سے لیس فوج پر حملہ آور ہوا تھا۔ چنانچہ اس کو مارنا بالکل برحق ہے۔ یوں قتل ہونے والے فلسطینی بھی تاحال انسان کا درجہ پانے سے قاصر ہیں اور منتظر بہ توجہ ہیں۔

ایک اور خطہ بھی ہے۔ یہاں بھی لوگ مسلمان ہیں اور یہ ان کا جرم ہے لیکن ان کا بڑا جرم جو ان کے ابلتے خون کو محض سرخ مائع میں تبدیل کرتا ہے، وہ ان کے قاتل کے ساتھ جڑے عالمی برادری کے تعلقات ہیں۔ کشمیر کے مسلمان بھی ہنوز انسانوں کی فہرست سے خارج ہیں کہ اگر ان کو بھی انسان مانا جائے گا تو ان کے قتل عام پر بھارت سے احتجاج کرنا ہوگا جو کہ کسی صورت گوارا نہ ہے۔ کیونکہ بھارت ایک ارب انسانوں کی منڈی ہے اور اگر اتنی بڑی معاشی منڈی کو صرف چند لاکھ لوگوں کے لیے چھوڑ دیا جائے تو اس سے بڑھ کر معاشی بے وقوفی کیا ہوگی۔ چنانچہ بھارت کو اس وقت پوری اجازت حاصل ہے۔ لگ بھگ ایک لاکھ سے زائد کشمیری صرف اس لیے موت کی نیند سلا دیے گئے ہیں کہ وہ بھارت سے آزادی کی بات کر رہے تھے۔ جو بھارتی فوج کے درندوں نے خود موت کے گھاٹ اتاردیں وہ شمار سے باہر ہیں۔ ہزاروں نوجوان ہیں جو اس وقت اپنے گھروں سے غائب ہیں۔ ان کا کچھ اتا پتا نہیں ہے کہ مرگئے یا زندہ ہیں۔ خوف کی فضا ہے کہ ہر وقت جنت نظیر وادی پر چھائی رہتی ہے۔ ڈر کے مہیب سائے اس قدر طویل ہیں کہ اب کشمیری عوام اس کے عادی ہوچکے ہیں۔

لیکن یہاں بھی یہ نفوس کسی طور انسان نہیں کہلاتے۔ کم از کم عالمی طاقتوں کے مطابق تو بالکل نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو محض 120 سے زائد انسانوں کے مرنے پر شام میں آگ کا طوفان برسانے والے اتنی بڑی تعداد میں مرنے پر کیا قیامت برپا کرتے۔ چنانچہ یہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والے صرف اپنے تئیں اپنی اپنی جگہ جدوجہد میں مصروف رہیں گے۔ لیکن انسانی حقوق کے یہ کسی طور حقدار نہ ٹھہریں گے۔

کوئی عالمی ادارہ ان کے لیے نہ اجلاس منعقد کرے گا اور نہ ہی کسی ملک کے سربراہ کی طرف سے ان مظلوموں کے قاتلوں کو سزا دینے کی بات کی جائے گی۔ انسانوں کی فہرست سے خارج یہ لوگ زیادہ سے زیادہ اپنی کاوش کے نتیجے میں دشمن کا نقصان کر بھی لیں گے
Hanzla Ammad
About the Author: Hanzla Ammad Read More Articles by Hanzla Ammad: 24 Articles with 19730 views Doing M-Phil from Punjab University
A Student of Islamic Studies
.. View More