گُل جنت خان چاچا۔۔۔۔۔۔ایک باکمال سیاسی کارکن

 غالباً 2006ء کی بات ہے ۔میں اور معین الدین بھائی جماعت کے ایک بزرگ رکن سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگئے۔ضلع کرک کے جنوب مشرق میں میاں والی کے بالکل سرحد پر ایک بلند وبالا پہاڑی سلسلے شین غر کے دامن میں واقع ایک بستی میں اُن کا گھر تھا۔اس بستی کے تقریباً سارے مکانات گارے اور پتھر کے بنے ہوئے تھے لیکن یہ بستی شہروں کے درمیان میں واقع کچی بستیوں سے با لکل مختلف تھی جہا ں شان دار کوٹھیاں اور جھگیاں ایک دوسرے کامنہ چڑاتے دکھائی دیتی ہیں۔کُھلی فضا،صاف و شفاف اور ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک ماحول میں خالص اور مُخلص لوگ ۔پکی سڑک پر 15,20کلومیٹر سفر کے بعدہم نے ایک جگہ اپنی گاڑی کھڑی کردی یہاں سے آگے ریتلے نالے کا سفر درپیش تھااس لیے ہم نے 7,8 کلومیٹرکا سفر ایک ایسی ٹیکسی میں کیاجس کا ڈرائیور ریت میں ڈرائیونگ کا ماہر تھا۔ سرکنڈوں کے بیچ میں سے ہوتے ہوئے جب ہم ان کے گھر پہنچے تو عصر کی نماز کے لیے ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ہمارے میزبان جنت خان چاچا بنفس نفیس باہر آئے۔ملاقات ہوئی ،تعارف ہوا۔بیٹھک کا دروازہ کھلا۔تین چار چار پائیاں دھری تھیں جن پر ہم بیٹھ گئے ۔ہم دو مہمان تھے ۔گُل جنت خان چاچا،اُن کے دو بیٹے،دو تین پوتے پوتیاں اور اُن کی اہلیہ میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔چائے اور بسکٹ کا دور چلا،ساتھ ہی گفتگو بھی شروع ہوئی۔ مجھے اُن کی ماضی سے دل چسپی تھی لہٰذا محتصر حال احوال کے بعد میں نے پہلا سوال یہ پوچھا کہ آپ جماعت اسلامی میں کیسے آئے ؟ جواب میں بات گُل جنت خان چاچا کی جوانی تک پہنچی اور وہ بھی عنفوان شباب تک۔اُن کے نحیف ونزارجسم میں گویا برقی رو دوڑ گئی،چہرے پہ رونق ،آنکھوں میں چمک اور آواز و اندازمیں جوش نظر آنے لگا۔اگرچہ اُن کی گفتگو میں بعض اوقات ربط اور تسلسل کا فُقدان رہتا،یہ اُن کی عمر کا تقاضا تھا،لیکن اس کے باوجود ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو میں ایسی باتیں آئیں جن میں آج کے کارکن اورقیادت دونوں کے لیے دعوت فکر موجودہے۔آئیے ملتے ہیں گل جنت خان چاچا سے۔

گُل جنت خان چاچا کبھی باقاعدہ سکول نہیں گئے۔انھوں نے ابتدائی عربی ،فارسی اور قرآن مجید کی تعلیم عیسک چونترہ میں مولانامعین الدین خٹک سے حاصل کی۔مولانا معین الدین خٹک صاحب ہی کے مکتب میں انھوں نے ترجمان القرآن اور کوثر کا مطالعہ شروع کیا۔یہ وہ وقت تھا جب مولانا مودودی رحمتہ اﷲ علیہ اور اُن کے ساتھی پٹھان کوٹ میں تھے۔معین الدین خٹک صاحب نے نظم جماعت سے وابستگی کے لیے پٹھان کوٹ رابطہ کیا اور وہاں سے رہ نمائی چاہی۔جہاں سے انھیں خان سردار علی خان اور ارباب عون اﷲ سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔گل جنت خان چاچا ،مولانا معین الدین خٹک اور مولانا منہاج الدین کے ساتھ چارسدہ گئے جہاں انھوں نے خان سردار علی خان اور ارباب عون اﷲ سے ملاقات کی اور یوں جماعت سے باضابطہ طور پرمنسلک ہوگئے۔اس دوران انھوں نے لٹریچر کا خاطر خوا مطالعہ کیا۔ایک عرصے تک کرک کی مشہور بستی ٹیری میں دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہے۔اس دوران انھیں کئی دفعہ گرفتاری اور علاقہ بدری کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

پھرکراچی چلے گئے جہاں سات آٹھ سال تک ہمہ وقتی رضا کار کارکن رہے۔اس وقت وہ غیر شادی شدہ تھے۔گزر بسر کے لیے جزوقتی مزدوری کرتے تھے۔کسی رشتہ دار نے نیوی میں بھرتی کے لیے بات کی لیکن دنیا کمانا تو اُن کا مقصد تھا ہی نہیں لہٰذا اس تجویز کو زیر غور ہی نہ لایاگیا۔اگر چہ اُ ن کو سن اور مقام کم ہی یاد تھے۔تاہم انھوں نے اپنے ماضی کو ٹٹولتے ہوئے بتایا کہ 1948ء میں پشاور کے ایک اجتماع میں مولانا مودودی سے اُن کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔اسی دوران انھیں مولانا مودودی کی امامت میں ایک نماز پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی جس کی لذت کواُن کو آج تک بھی یا د تھی۔اسی زمانے ہی میں وہ جماعت کے رُکن بنے تھے۔

کراچی میں قیام کے دوران میں جب بھی مولانا مودودی کراچی آتے تو محافظ کے فرائض وہ اداکرتے۔ وہ اس بات پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے کہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں مولانا مودودی جیسے نابغہ روزگار ہستی کے ساتھ دینے کی توفیق بخشی تھی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’جب میں مولانا مودودی اور ان کے ساتھیوں کے علمی مرتبے اور ﷲیت پر غور کرتا تو اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوتا۔‘مولانا مودودی کو بڑی عقیدت و احترام سے آج بھی سیدصاحب کے نام سے یاد کرتے۔وہ گاہے گاہے مولانا سے ملنے اچھرہ بھی جایا کرتے۔اس طرح کی ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:’’ایک دفعہ میں نے مولانا سے پوچھا: سید صاحب کبھی جنات سے بھی آپ کی ملاقات ہوئی ہے ؟سید صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا :خان صاحب !کہیں آپ جن تو نہیں؟

میں نے اُن کی یا دوں کو مزید کریدا تو کہنے لگے:کرک کے اپنے دور کے مشہور کمیونسٹ رہنما حوشحال کاکا جی نے ایک دفعہ مجھ سے کہا :گُل جنت خان !آپ اتنے دور دراز کے پہاڑوں سے مولانا مودودی کے ہاں کیسے پہنچے؟میں نے جواب دیاکہ آپ نمک کے کان سے ماسکو پہنچ سکتے ہیں تومیں مو لانا مودودی کے پاس کیسے نہ پہنچتا۔واضح رہے کہ حوشحال کاکا جی کا تعلق کرک کے مشہور بستی بہادرخیل سے تھا،جہاں پاکستان کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے۔

یہ جان کر میری خوش گوار حیر ت کی انتہا نہ رہی کہ گل جنت خان چاچا مولانا سلیم مرحوم کو جماعت میں لانے کا ذریعہ بنے۔وہی مولانا سلیم جو افغانستان میں پہلے غیر ملکی شہیداور اسلامی جمعیت طلبہ کے رُکن فضل ربی شہید کے والد،مجاہدین افغانستان کے میزبان اور ایک دبنگ قبائلی رہنما تھے ۔مولانا سلیم کوہاٹ اور ہنگو کے امیر بھی رہے اوروہاں سے قومی اسمبلی کے لیے جماعت کے امیدوار بھی۔

گُل جنت خان چاچا مولانا معین الدین خٹک صاحب کی قیادت میں اُس سہ رکنی وفد کے رُکن تھے جس کو قیام پاکستان کے بعدمولانا مودودی نے فقیر آف ایپی سے ملاقات کے لیے بھیجا تھا۔اس وفد کا مشن فقیر آف ایپی کو اس بات پر آمادہ کرنا تھاکہ انگریزوں کے جانے اور پاکستان بننے کے بعداب مُسلح جدوجہد کی ضرورت نہیں رہی۔

یہ باتیں جان کر میں حیرت و استعجاب کے گہرے سمندر میں ڈوب گیا۔گُل جنت خان چاچا معروف معنوں میں نہ عالم تھے،نہ فلسفی،نہ لیڈر،نہ وہ مال وزر کے حامل تھے نہ اختیار واقتدارکے۔وہ ایک سیدھے سادے دیہاتی اور ایک عام کارکن تھے۔لیکن اس کے باوجود ایسی بصیرت اورایسا اعتماداوراتنے بڑے بڑے مہمات سر کرنے کے کمالات کیسے حاصل کر گئے؟میں انھی سوچوں میں گُم تھاکہ اس دوران معین الدین بھائی نے اُن سے کوئی سوال پوچھا۔پھر انھوں نے مولانا مودودی ،امین احسن اصلاحی اور میاں طفیل محمد کی تحریروں کا حوالے اپنے الفاظ میں دینے شروع کیے اور کہیں کہیں سے اقتباسات اُن کی زبان پر رواں ہوگئے۔معلوم ہورہا تھاکہ اُن کا یہ میموری کارڈزمانے کی دست وبُرد سے محفوظ رہ گیاتھا۔اندازہ ہوا کہ انھوں نے جماعت اسلامی کے لٹریچر کا بالاستعیاب مطالعہ کیااور ایک لمبے عرصے تک اپنے ساتھ لٹریچر کا تھیلا ساتھ رکھتے رہے ۔شاید یہی وہ راز ہے جس نے ایک عام کارکُن کو صاحب کمال بنادیا تھا۔

خوش گوار اور حیر ت افزا احساسات کے ساتھ ہم ان کی گھر سے روانہ ہوئے ۔راستے بھر میں میرے ذہن میں گُل جنت خان چاچا کی زندگی کی ریکارڈنگ چل رہی تھی ۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیااور مؤذن نے اذان دی ہم نے گاڑی روکی، نماز پڑھی ۔پھر ایک دن پتا چلا کہ گل جنت خان چاچا کی زندگی کاسور ج بھی غروب ہوگیا۔اعلان ہوا،نماز (جنازہ)پڑھی گئی اور یوں ایک صاحب کمال کارکن کی زندگی کا روشن باب اختتام پذیر ہوا۔
خدارحمت کُند ایں عاشقان پاک طینت را
 
Hamid ullah khattak
About the Author: Hamid ullah khattak Read More Articles by Hamid ullah khattak: 17 Articles with 16167 views Editor,urdu at AFAQ.. View More