ماؤں کے لخت جِگر مرتے رہیں گے اور ہم موم بتی جلاتے رہیں گے

زندگی انسان کو صرف ایک بار ملتی ہے اور جو ملتی ہے سب کو برابر ملتی ہے بس جانے کا وقت مقرر ہے جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں آسکتی اور جو سانسیں باقی ہیں وہ پور ی کئے بنا قبر میں نہیں جا سکتے بس فرق صرف اتنا ہے کوئی اسے راہِ حق پر گذارتا ہے تو کو ئی دنیا داری میں، کوئی اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت میں توکوئی درندگی میں ۔

کسان بنجر زمین میں حل چلا کر زمین کو نرم کرتا ہے پھر اس میں بیج بوتا ہے پھر پانی لگاتا ہے پھر موسم کی سختیوں کو جھیلتا ہے گرم سردی برداشت کرتا ہے پھر جا کر پھل تیا ر ہوتا ہے ان دنوں کسان کی خوشی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتاوہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا ہوتا ہے اسی دوران جب فصل پک چکی ہو پھل تیا ر ہو گیا ہو اور پھر ایک طوفان آجائے اور اس کا ہر ا بھرا لہلاتا گلشن ۔تیار پھل اس طوفان کی نذر ہو جائے تو اس کے دکھ کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے یہ تو ایک کسان ہے جو صرف چند ماہ مشقت کرتا ہے اور وہ اس قدر دکھوں کھو جاتا ہے جیسے اس کی ساری زندگی کی پونجی ختم ہو گئی ہو۔
آج کل اخبار نیوز چینل ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں ، ٹرین پٹڑی سے ڈی ریل ہو گئی کئی لوگ زندگی کی بازی ہار گئے زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے اور اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے جس میں مرنے والوں کے لواحقین کو لاکھوں کی امداد دی جارہی ہے ۔کبھی ہم آپ سب ستنے پڑھتے دیکھتے ہیں ایک بیس سالہ نوجوان کو تاوان نہ دینے پر مار دیا گیا ہے کبھی ہم نے سوچا اس بے چاری ماں پہ کیا گذرتی ہے جو اپنے بچے کو 9 ماہ اپنے پاس رکھتی ہے پھر جنم دیتی ہے اس کو چلنا سیکھاتی ہے اسے بات کرنے کا ہنر سیکھاتی ہے اسے پال پوس کر بڑاکرتی ہے بیس سال کے بعد یہ فصل پکتی ہے کتنی امیدیں کتنی خواہشیں ہوتی ہیں اس کے دل میں ، میرا بیٹا بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا ، انجینیر بنے گا، پائیلٹ بنے گا، حتٰیکہ اُس کے اپنے بالوں میں چاندی چمکنے لگتی ہے پھر ایک بے رحم گولی اُس ما ں کی ساری خوشیوں کو مار دیتی ہے ، کبھی اندازہ کیا 20سال ہونے میں وہ پل پل اپنے لخت جگر کو بڑا ہوتا دیکھتی ہے وہ اس کسان کی طرح مصیبتیں برداشت کرتی ہے، موسموں کی سختیوں جھیلتی ہے وہ خو د کو پریشان کر لیتی ہے مگر اپنے لخت جگر کو زرہ برابر محسوس نہیں ہونے دیتی ، پھر سفاک درندہ انسان اس ماں کے بیٹے کو چند ٹکوں کی خاطر اپنی حوس کا نشانہ بنا دیتا ہے ،آج میں کوئی کالم نہیں لکھ رہا بس ایسے واقعات سن کر پڑھ کر دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے دل کرتا ہے چیخ چیخ کر روؤں دل کا بوجھ ہلکا کروں ۔اپنے درد کو الفاظوں کے رنگ میں ڈاھلنے کی کوشش ہے اور اُن ماؤں سے اظہار ہمدردی ہے جو اس قُرب اور پریشانی میں ہیں۔
ٹی وی پر ایک ماں کی آواز سنی ، کہتی ہیں میرا جوان بیٹا مارا گیا میں عدالت میں کیس نہیں لڑ سکتی کیونکہ غریب ہوں جوان بیٹیا ں ہیں اور جس نے میرے بیٹے کا قتل کیا وہ طاقتور ہیں ، میں اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر اپنا کیس واپس لیتی ہوں ، کہتے ہیں معاشرہ انسانوں سے مل کر بنتے ہیں اور جس معاشرے میں انصاف نہیں ملتا وہا ں درندگی ہوتی ہے وہا ں جنگل راج ہوتا ہے جہا ں صرف چونٹیوں کو سزا اور ہاتھی گھوڑے آزادی سے گھومتے ہیں، میرے ایک دوست مسجد کے خدام بھی ہیں نماز ادا کرنے کے بعد باہر تشریف لا رہے تھے کہ پولیس نے پکڑ لیا کہ مسجد میں سپیکر کی اجازت نہیں لہذا آپ اور قاری صاحب کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج ہے ، پکڑ کر لے گئے اور مزے کی بات دیکھیں مسجد میں بیٹھ کر اس پولیس والے نے دو اور لوگوں سے کہا آپ اپنے آڈی کا رڈ دیں تا کہ امام صاحب کی ضمانت کرائی جا سکے ، پولیس گردی کا اندازہ اس بات سے لگائیں دوسرے دن ان سب کے خلاف جنہوں نے قاری صاحب کی ضمانت کی خاطر اپنے کارڈ دئیے معزز پولیس نے ان کے خلاف بھی چلان کاٹ دیا .اور معزز جج صاحب کو پیش کر دیا۔ اس سے انکی پھرتیوں کا اندازہ لگایں، ادھر کرنسی سملنگ کیس کی حسینہ کے کیس کا اندازہ لگایں، ادھر کرنسی سملنگ کیس کی حسینہ کا کیس عوام کے سامنے ہے محترمہ کے خلاف چلان تک پیش نہ کیا گیا اور اب معزز عدالت محترمہ کا پاسپورٹ بھی واپس کر رہی ہے ، ابھی دو دن پہلے کا واقع ہے شیخوپورہ میں ایک نوجوان کو پولیس مقابلہ ڈال کر جان سے مار دیا گیا ہے ، اور الزام ہے کہ پولیس نے بیس لاکھ روپے مانگے جو کہ غریب والدین دینے کی سکت نہیں رکھتے تھے اور غربت کی پاداش میں جوان بیٹے کی لاش اُٹھانا پڑی ، اس کی بہن غم سے نڈھال رو رو کر بتا رہی تھی یہ میرے بھائی کا قاتل ہے مگربلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے ۔

قصور واقع تب تک لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا جب تک ٹی وی کی رونق بنا رہا، موم بتی مافیا بھی دکھ کا اظہار کرتا رہا، چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیئے اور اینکر چسکے لے لے کر والدین کی آواز بنا رہا مگر افوس کوئی رزلٹ نہ نکلا، میری قوم کی یاداشت کافی کمزور ہے یہ تو سیالکوٹ میں دو حافظ بھائیوں کا قتل بھی بھول چکی ہوگی،زین کیس، گنگا رام ہسپتال ، چھوٹی معصوم بچی کا ریپ کیس قصور میں بچوں کا ریپ، ایسے کتنے انگنت واقعات ہیں جو عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں ، یا غریبوں کو پیسوں کا لالچ دے کر یا اوپر سے پریشرائیز کروا کر کیس ختم کر دیا جاتا ہے ان باتوں سے میری مراد یہ نہیں کہ معزز عدالتیں کام نہیں کر رہیں ، عدالت ثبوتوں اور گواہوں کے بیا نات پر چلتی ہے ہمار ا نظام ہی ایسا ہے کہ معززعدلیہ کو کیس صحیح بتایا ہی نہیں جاتا گواہوں کو عدالتوں پہنچے ہی نہیں دیا جا تا ، زیادہ حثیت والے لوگ اپے اثر رسوخ کی وجہ سے جلد ضمانت کروا لیتے ہیں اور باہر آکر پھر سے جرم کرتے ہیں اور اس طرح معاشرے میں بی چینی اضطراب پید ا ہوتا ہے ۔ ایسے فرسودہ نظام کو جڑوں سے اُکھاڑ کر پھینکنے کی ضرورت ہے جہاں ماؤں کے لخت جگر مرتے ہوں ، جہا ں انصاف نہ ملتا ہو، جہا ں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جائے ایسے نظام معاشرے صرف تباہ ہوسکتے ہیں، قومیں دفن ہو سکتی ہیں زوال مقدر بن جاتا ہے ۔

اگر ہم سوتے رہے تو وہ دن دور نہیں جیسے آج ایک ماں نے اللہ کی رضا سمجھ کر خاموش ہو گئی کل ہم میں سے کو ئی اور اللہ کی رضا سمجھ کر خاموش ہو جائے گا ہم اپنے پیاروں کی قبروں پر موم بیتاں جلاتے رہیں اور ظالم لوگ ہمارے گھروں کو قبرستان بناتے رہیں گے ۔
بقول شاعر ۔
حاکم شہر کی بند گلی کے پیچھے
آج پھر اک شخص کو خوں اگلتے دیکھا
تم سمجھتے ہو کہ ہوتے ہیں درندے ظالم
ہم نے انسان کو انسان نگلتے دیکھا
M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 49477 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More