سرِزمین سرگودہا میں آسودہ خاک درویش صفت شخصیت۔ حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ

چاہتوں کے سمندر کی آرزو میں سرگرداں رہنے کی سعی عاشق اور محبوب دونوں کے لیے امتحان ہے۔ عشق کا مطلب اپنی ذات کی نفی اور محبوب کی طلب ہے۔ جب اپنے آپ کو ہی سر بلند کرنے کی حرص پیدا ہو جائے تو وہ پھر عشق نہیں کاروبا ر بن جاتا ہے۔ اور عشق کی دکانداری ہونا شروع ہوجاتی ہے پھر نہ تو راہبر کی تکریم پیش نظر رہتی ہے اور نہ ہی اُس کی چاہت کی شدت کا سفر جاری رہتا ہے ۔ یوں پھر عاشق ہونے کا دعویٰ ہو ا ہوجاتا ہے۔محبوب تک پہنچ تو دور کی بات عاشق توخود تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔محبوب کو بھی عاشق کے جذبات کی لوٰ کی حدت کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔ امتحان اکیلے عاشق کا نہیں محبوب کو بھی ہوتا ہے۔ محبوب کا امتحان عاشق سے کئی گُنا زیادہ کڑھا ہوتا ہے۔ اپنے روح میں محبوب نے اپنے سے عشق کر نے والے سمونا جو ہوتا ہیمیاں جی ؒ کا ڈیرہ شہر کے پاس ہی ایک نواحی بستی میں ہے۔ میاں جیؒ عہد اسلاف کی وہ نشانی تھے جن کی زندگی عشق رسولﷺ، پاکستان سے محبت اور انسانوں سے پیار سے عبارت ہے۔ میاں جی ؒ کا اصلی نام شائد کسی کو بھی معلوم نہ ہو چھوٹا بڑاسب لوگ اُنھیں میاں جی کہتے۔میاں جی ؒ کے متعلق یہ ہی بات مشہور تھی کے انھوں نے مشہور حکیم قرشی سے حکمت سیکھی تھی۔ میاں جی بہت اعلیٰ پائے کے نبض شناس تھے۔میاں جیؒ کی حکمت کے ساتھ اور جو خصوصیت تھی وہ اُن کا روحانی فیض تھا۔اِسی گھر میں کئی دہائیوں سے مقیم تھے۔ دن بھر لوگ آتے کوئی دوا لیتا اور کوئی دُعا کا طلب گار ہوتا۔میاں جی روایتی پیری مریدی کے قائل نہ تھے لیکن اُن کے حلقے میں شامل افراد انتہائی پڑھے لکھے تھے۔علماء۔نوجوان، پروفیسرز ڈاکٹرز، پی ایچ ڈی کے حامل ریسرچ سکالرز،پائلٹ، فوج کے اعلیٰ افسران۔گویا دکانداری والی پیری مریدی سے کوسوں دور میاں جی نے ایک ایسا نگر آباد کر رکھا تھا جہاں ہر دکھی کو جسمانی اور روحانی ہر بیماری سے شفا ملتی۔ میاں جی نہایت نفیس انسان۔ پاکستان اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا۔ اور اپنا سارا خاندان قربان کرکے ہجرت کی۔مال و متاع سے بالکل رغبت نہ تھی۔ جو بھی اسباب ہوتے وہ ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے۔ عام دیکھنے والا یہ ہی تصور کرتا کہ شائد وہ کافی مال دار ہیں کہ ہر وقت لنگر کا اہتمام۔جو بھی اُن کے ہاں آتا اُسے فوری طور پر کھانا پیش کیا جاتا۔میاں جیؒ سادہ لباس پہنتے۔ سفید قمیض اور سفید رنگ کا ہی تہمد اور نوشہ گنج بخشؒ سے نسبت کا حامل پیلے سے رنگ کا کپڑا، جسے وہ صافا کہتے اُن کے کندھے پر ہوتا اور سفید رنگ کی کپڑئے کی بنی ہوئی ٹوپی اُن کے سر پہ ہوتی۔میاں جی ؒ کی نفاست ہر کام میں اتنی کہ دیکھنے والوں کو رشک آتا۔ نہایت صاف سادہ کپڑئے پہنتے او ر بناوٹ دیکھاوئے سے ہمیشہ دور رہتے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جو بھی اُن سے ایک دفعہ ملنے آجاتا تو پھر ہمیشہ کے لیے اُن کی محفل کا شریک بنا رہتا۔ تاریخ عالم پر گہری نظر، اسلام کی حقانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا میاں جی کے دل و روح کے اندر۔کتابوں کا ایک لازوال ذخیرہ کہ جہاں سے بڑئے بڑئے سکالر آکر استفادہ کرتے۔اﷲ پاک کے دوست میاں جیؒ ہر ملاقاتی سے ایسے ملتے جیسے کہ وہ اُن سے سب زیادہ قریب ہو۔میاں جیؒ کا ڈیرہ ایسی درگاہ ہے کہ جہاں سے عشق رسولﷺ کی دولت سے ہر کوئی مال ومال ہوتا۔میاں جیؒ ہر آنے والے کو خصوصی محبت سے نوازتے اورکھانے پینے سے خوب خاطر مدارت ہوتی۔ نوجوانوں کی تعداد آپکی محفل میں ہمیشہ زیادہ ہوتی۔ حضرت اقبالؒ کے بقول ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ ساقی بھی اگر میاں جی ؒ جیسا ہو تو پھرعشق رسولﷺ کا جام۔دنیا کہ ہر شے سے ماورا کر دیتا ہے۔آپؒ کے لب ہلتے اور گویا ہوتے نبی پاکﷺ کا نام جب بھی لیتے تو فرماتے سرکار دوجہاںﷺ۔آپؒ گویا ہوتے تو پھر الفاظ ہاتھ باندھ لیتے اور آپ بولتے الفاظ خاموش رہتے۔آپ کے الفاظ میں دھن گرج ایسی کہ جیسے کوئی سولہ سترہ سال کا نوجوان نبی پاکﷺ کی محبت میں مخاطب ہے۔آپؒ کے الفاظ یہ پیغام دئے رہے ہوتے کہ جس کا دل مظرب ہو وہ خود کو ہی نہ ڈھونڈ پا رہا ہو۔ جسے دنیا کی بے وفائی اور بے ثباتی کادُکھ ہو۔پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے پناہ پھر ایسی جگہ ملے جہاں سے کائنات کی ہر ذی روح فیض لے رہی ہو۔ جس کی خاطر خالق نے پوری کائنات پیدا کی ہو۔ پھر مبدا خلق عالم کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے جس کے دربار سے رحمت کا حصول ہو۔جب تمام دنیاوی رشتے دم توڑ جائیں تو پھر ایک ہی ہستی کا سہارا رہ جاتا ہے جو کہ ماں باپ اولاد مال سب سے بڑھ کر محبت کا منبع ہے۔وہ ہستی صرف رسول پاکﷺ کی ہے۔آپ کی گفتگو سن کر نوجوان سحر میں کھو جاتے۔ میاں جیؒ کا ایک بہت بڑا وصف یہ بھی تھا کہ وہ ظاہری نمود و نمائش سے ماورا تھے اور نوجوانوں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں جیسا ہوتا۔ ہر کسی کے دکھ درد کی خبر رکھتے۔ رہنمائی فرماتے۔ حوصلہ دیتے اور خاص طور فرماتے کہ شیر بن۔جس جس کو اسباب درکار ہوتے اُس کی مدد فرماتے۔ کوئی بنک اکاونٹ اور نہ کوئی تجوری۔سب کچھ ہی تو خالق کی مخلوق کے لیے وقت کیا ہوا تھا۔ جیسے جیسے خالق نوازتا چلا جاتا ویسے ویسے میاں جی ؒ تقسیم فرماتے چلے جاتے۔میاں جی کے ڈیرئے کا ایک عجیب وصف ہے کہ جب تک میاں جی حیات رہے اُن کے ڈیرئے سے کوئی بھی شخص ناراض یا دکھی ہو کر نہ گیا۔ بلکہ ہر آنے والے سکون کی دولت لے کر گیا اور میاں جی نے اپنے رب کی عظا سے اُس کو امید کے دنیا میں جینے کے عزم سے لیس کیا۔ اکثر عشاء کے بعد نوجوان آپکے ڈیرئے پہ آجاتے اور میاں جی سے اپنے دن بھر کے معاملات کی بابت اپنا احوال بتاتے۔آپ ہر کسی کو نوازتے۔ حوصلہ دیتے۔ اور صوفیا کہ انداز تربیت سے غیر محسوس انداز میں رہنمائی فرماتے۔میاں جی کی شخصیت اتنی سلنشین تھی کے اُن کے ڈیرئے پہ آنے والا ایک ایک شخص اُن سے اپنے دل کی بات کہہ کر اپنا غم ہلکا کر لیتا۔ کوئی نمود نمائش نہیں تو تھی میاں جی میں۔ ہر کسی کی بات کو محبت سے سُنتے۔بناوٹ اور تصنہ تو چھو کر بھی میاں جیؒ کو نہیں گزرئے تھے۔آپ بعض اوقات چارپائی پر لیٹے لیٹے پاس بیٹھے ہوئے حاضرین کو تصوف کے دریچوں سے روشنی دیکھاتے چلے جاتے آپ فرماتے کہ لو بھی دوستو: پھر آپ کا فرمان شروع ہوجاتا اور ایک گفتگو کا ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ سُننے والے محو ہوجاتے اور میاں جی فرما رہے ہوتے کہجب بندہ اہتمام کے ساتھ اپنے خالق ومالک کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہے اور اپنے دُکھوں کا بوجھ خالق کے دربا رمیں عرض کی صورت میں رکھتا ہے تب خالق اپنے بندے کی عاجزی اور انکساری کو بہت پسند کرتا ہے اور بندے کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے۔رب پاک اور بندے کا تعلق اسی طرح ہے جس طرح ایک بے حس وحرکت تصویر کو بنا نا والا جیسے مرضی رنگ بھردے اور اِن رنگوں کی بدولت وہ تصویر ایک خوبصورت نظر آنے لگے۔اب مصور اور تصویر کا جو تعلق ہوتا ہے وہ خالق اور محلوق والا ہے۔انسان کی پیدائش سے موت تک کے تمام تر حالات وواقعات اِس بات کے شاہد ہیں کہ انسان کی حثیت کیا ہے۔محبت کے ساتھ نفرت بھی انسان کی جبلت میں ہے۔چاہے جانے کا جذبہ انسان سے نیکیاں بھی کرواتا ہے اور انسان کو بدی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔بندے کی ساری تگ و دو ایک ایسے ٹائم فریم کے اندرہے جس کے متعلق کچھ بھی حتمی نہیں۔اگر ایک جہا ز لاہور سے پرواز کرتا ہے اُسے ساوتھ افریقہ جانا ہے۔اب راستے میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے۔یہ ہی انہونی یا Probility کا جو فیکٹر ہے یہ ہی خالق کے وجودکی گوا ہی دیتا ہے اور خالق کے ہونے کی دلالت کرتا ہے۔سفر منزل کی جانب جب شروع ہو اور سفر کرنے والے کو منزل تک پہنچنے کی بے یقینی ہو تو در حقیقت یہ بے یقینی رب پاک پر حق الیقین ہے خالق کے معبود ہونے کی پہچان ہر اُس عمل سے ہو تی ہے جو بندے کے ارادوں کے مخالف ہو۔ذرا تصور فرمائیے اگر انسان دوسرئے سے عاجزی اور انکساری سے ملتا ہے اور اُس کے سامنے اپنا دکھ بیان کرتا ہے تو جس کے سامنے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے وہ بھی اپنے دل میں نرمی پیدا کر لیتا ہے۔یہ حال تو ایک دنیا دار شخص ہے لیکن خالق کے سامنے جب عجز و انکساری ہو اور خالق اپنے بندئے سے بے پناہ محبت کرتا ہے وہ اپنے بندئے کو خالی نہیں لوٹاتا۔عبد کا اختیار اُسکی عبدیت پر منحصر ہے جیسے جیسے وہ اپنے رب کے رستے پر چلتا ہے ویسے ویسے وہ ایک مقبول عبد کی حثیت حاصل کرلیتاہے۔ ہو۔انبیا ء اکرام تو گنا ہوں سے پاک ہیں وہ بشری لبادے میں رب پاک کے خاص عبد ہیں۔اُن پر اُس طرح کے قوانین فطر ت کا اطلاق نہیں جس طرح ہم پر ہے۔خالصتااپنے خالق کی رضا کو اپنا لینا بندے کو رب کا دوست بنا دیتا ہے۔خالق اُ س بندے پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول کرتا ہے۔حتی کے خالق اپنے بندے کے نازبھی اُٹھاتاہے۔بندہِ مومن کی آنکھ خالق کی آنکھ قرارپاتی ہے۔بند ہ مو من کی خواہش کی تکمیل خالق فرما دیتا ہے۔انسانی رویے کے حوالے سے اگر ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو یہاں معاشیات کا ایک مفروضہ جسے لائف سائیکل ہائی پوتیسیزکا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق بچہ جب پیدا ہوتا ہے اور اُس کی حالت اِیسی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کماء سکے لیکن اُس کی ذات پر اخراجات کافی آتے ہیں۔ اُس کی خوراک اُسکے لیے میڈیکل کی سہولیات، کپڑئے وغیرہ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے نگہداشت کے لیے کُل وقتی ایک عدد سہارئے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اُس کے لیے ہورہا ہوتا ہے اب آئیے اِس نقطے پہ غور کرتے ہیں کہ ایک انسان کے بچے کی نگہداشت کا معاملہ خالق نے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ خالق تو جانوروں پرندوں سب کی پرورش پر قادر ہے اور وہ ایسا کرتا ہے۔اِسی لائف سائیکل مفروٖضے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اُس وقت وہ اِس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ کمائی کرئے اور اُس کی اپنی ذات پر اتنا خرچ نہیں ہوتا جتنا وہ کما رہا ہوتا ہے۔ اب اگرہم خالق کے نظام کو دیکھیں کہ کس طرح ہر ذی روح کو اُس نے ایک دوسرئے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ اور کائنات کا نظام جاری و ساری ہے۔ میاں جیؒ فرماء رہے ہوتے اور سُننے والے سُن رہے ہوتے۔کوئی بھی تو میاں جی ؒ کی محفل میں اکتاہٹ کا شکار نہ ہوتا تھا ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ ایک اﷲ کا دوست محبت سے ہر کسی کے دکھ سُن کر اُن کو دعا دئے رہا ہوتا۔ حوصلہ دئے رہا ہوتا۔میاں جی کے ڈیرئے پر آنے والے ہر کوئی یوں محسوس ہوتا کہ میاں جیؒ میرا بہت خیال رکھتے ہیں میاں جی اُن کے بچوں تک سے پیار کرتے اور اُن کو خصوصی محبت سے نوازتے۔یوں چھوٹے بچوں کو بھی میاں جی سے بہت زیادہ اُنس تھا۔ میاں جی ؒ خود بہت ہی سادہ غذا کھاتے لیکن مہمانوں کی خوب خاطر مدارت کرتے۔اﷲ پاک کے نیک بندوں کا ہمیشہ سے وصف ہے کہ اُن کے ہاں لنگر نہیں رُکتا۔ میاں جیؒ اکثر اُن نوجوانوں کے انتظار میں ہوتے جو عام طور پر اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر روزانہ اُن کے پاس چلے آتے اور میاں جیؒ پھر علم وحکمت کے ایسے موتی بکھیرتے کے اﷲ اﷲ۔ میاں جیؒ ہر آنو والے کا اتنا خیال رکھتے کہ گمان ہوتا کہ شائد میاں جیؒ کی ڈیوٹی ہی صرف اِس کام پر ہے۔ اپنے لیے کچھ طلب نہ فرماتے ہمیشہ دیتے ہی چلے جاتے۔ اِسی طرح اُن کا حقہ اُن کے پاس پڑا ہوتا اور وہ کبھی لیٹ کر اور کبھی بیٹھ کرگفتگو فرماتے۔وہ اِس طرح فرماتے کہ اُن کی بات دل کی آواز محسوس ہوتی میاں جی تو شاید کسی اور ہی نگ میں رنگے ہوئے انسان تھے۔ اکثر جب من کی باتیں ہوتیں تو فرماتے کہ من کے اُجرنے کی وجہ بہت سے ایسی بیماریاں ہیں جوظاہری طور پر تو چھوٹی چھوٹی خواہشات سے جنم لیتی ہیں لیکن یہ ہی خواہشات من کے اندر ایسے مچلتی ہیں کہ کہ اُسکا اثر پھر تن پہ بھی دیکھائی دیتا ہے۔اِس لیے زندگی زندگی کو سوہاں روح بنانے میں یہ ہی اچھوتی خواہشیں اثدھا بن جاتی ہیں جہاں پھر نیکی کا ٹھرنا ممکن نہیں رہتا۔ زمانے کے انداز خود پرحاوی کر لینے سے معاملات بگڑتے ہیں سنبھلتے نہیں۔ لالچ ایک ایسا سراب ہے کہ انسان کو اپنی طرف اِس طرح کھینچتا ہے کہ انسان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔لالچ کا سلسلہ یوں ہی رُکتا نہیں بلکہ لالچ نئے لالچ کو جنم دیتا ہے۔یہ لالچ ایسے کنویں کی حثیت اختیار کر جاتا ہے کہ اِس گڑھے سے باہرنکلنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اِس سے قطع تعلق ہونا انسان کے لیے اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اِنسان انسانیت کے دائرئے سے بھی نکل جاتا ہے۔ یہ ہی لالچ پھر المیوں کو جنم دیتا ہے۔ایک کے بعد ایک المیہ۔زندگی کا مقصد صرف ہوس بن کر رہ جاتا ہے۔یہ ہی ہوس چھوتی بیماری کی طرح دیگر ہم عصروں کو بھی اپنا شکار کر لیتی ہے بالکل اِسی طرح جیسے راہزن راہبر بن جائے۔انسان ہونے کے مقام سے لالچ انسان کو ہٹا دیتا ہے۔ درندگی کا حامل بنا دیتا ہے۔ محبت خلوص کے راستے کو ویران کر دیتا ہے۔وفا نام کی کوئی شے بھی لالچ کے قریب نہیں پھٹکتی۔انسانی وقار کو نہ صرف شدید دھچکا لگتا ہے۔صوفی چونکہ اپنے خالق کی طرف امید لگائے ہوتا ہے اور اُسے یہ ادارک ہو جاتا ہے۔ کہ لالچ تو خود کو مردہ کرنے کا نام ہے چونکہ لالچ دنیاوی عارضی شے سے ہوتا ہے اِس لیے اُس شے کے اندر دیرپائی بھی نہیں ہوتی۔جب محرک یہ ہو کہ گوہر نایاب کو پانا ہے تو پھرُ اُس کی تلاش کے لیے صاحب نظر ہی تحریک پیدا کرتا ہے اور صاحب نظرکی تمام تر تحریک کا ماخذ عمل کی طرف سفر ہوتا ہے دعویٰ عشق اور پھر بعد ازاں عشق کی لاج رکھناہی عشق ہے۔اِس لیے صوفی کے اندر طمع نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔اِس کا مطلب یہ نہیں کہ صوفی کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ بات یہ ہے کہ صوفی نے اپنی ضروریات کو محدود کر لیا ہوتا ہے۔ صوفی کو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ تصنہ بناوٹ سے منزل نہیں پائی جاسکتی تفکرات انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لیتے ہیں۔ اِسی وجہ سے نادانستگی میں انسان سے ظلم روا ہوجاتا ہے۔ انسان کا مقصد ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو گزند پہنچائے لیکن کیونکہ کہ تفکرات نے اُس کی سوچ کو جامد کیا ہوتا ہے اِس لیے اُس سے ہر وہ عمل ہو جاتا ہے جو اُسکی جبلت کے خلاف ہوتا ہے۔اِن تفکرات کی وجہ سے خالق کو فراموش کرکے انسان دُنیاوی خدا بنا لیتا ہے۔ صرف ایک خالق کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے اُسے بہت سوں کو سجدہ کرنا پڑتا ہے۔ اگرایک خالق کے حوالے سارئے دکھ درد کردیے جائیں تو بس پھر خالق جانے اور خالق کا کام۔خواہ مخواہ چند اونس کے حامل دماغ پر اتنا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ انسان کا سانس تک رُکنے کو ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ چند روزہ زندگی کی معمولی اور جلد ختم ہونے والی خواہشوں کی بجائے انسان صرف اپنے خالق کو ہی کارساز مانے اور سارئے دکھ اپنی جھولی سے نکال کر خالق کے حوالے کردئے تو وہ دماغ جو چند مسائل کی وجہ سے پھٹا جارہا ہوتا ہے وہ دماغ اور دل پوری کائنات کو اپنے اندر سمو لیتے ہے۔ بس ایک کام کرنا ہے کہ خالق سے رشتہ کمزور نہ ہو پائے۔ خالق تو مخلوق کے انتظار میں ہوتا ہے کہ مخلوق کب مجھے پکارتی رب پاک امید کا نام ہے۔رب پاک محبت سے بھر پور ہستی ہے۔رب پاک سے جب ہم امید باندھ لیتے ہیں۔تو پھرہم خود کو اپنے دُکھوں اور غموں سمیت اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے رب کے حوالے کر دیتے ہیں مسافر کبھی پلیٹ فارم پہ مستقل قیام کا خواہاں نہیں ہوتا۔نہ ہی وہ پلیٹ فارم پہ خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اُسے کوئی اگر کہے بھی کہ اِسی جگہ رُک جاؤ تو تب بھی وہ کسی کی نہیں مانتا بلکہ اُلٹا ایسا کہنے والے کو پاگل گردانتا ہے کہ یہ جگہ ایسی ہے کہ یہاں مستقل قیام کیا جائے یہ دُنیا تو پلیٹ فارم سے بھی عارضی ہے اِس کے لیے خود کو، دوسروں کو تکلیف میں ڈالنا ایسے ہی ہے کہ آبیل مجھے مارفراق وصال اُسکا ساتھ ہونا بھی دل کو خوف میں رکھتا ہیکہ شاید اب کہ یہ وصال کی آخری گھڑیاں تو نہیں ہجر کی ناتمام مسافتیں جب اپنا دامن پھیلادیتی ہیں تو تب وصال کی دُعا کے ساتھ ساتھ ہجر کا دُکھ سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہتا ہے لیکن روح کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ہجر طمانیت دینی لگتی ہے کیونکہ ہجر کے بعد تو کسی اور ہجر کے درپیش ہونے کا دکھ تو نہیں۔ من کے اندر سکون حاصل تب ہی ہوتا ہے جب مخلوق مخلوق کا خیال رکھتی ہے۔ کسی کو دُکھ دئے کر کسی کے مال پر قبضہ کر کے کسی سے رنجش کرکے من کی بستی کو آباد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔جب خود سے دوسروں کو اُجڑنے کا عمل ہو رہا ہے تو رد عمل بھی اُجڑنے کا ہی ہوتا ہے۔ تخریب سے مزید تخریب پیدا ہوتی ہے۔میاں جیؒ کا ڈیرہ تو ٹوٹے ہو ئے دلوں کو جوڑتا۔ میاں جیؒ سے ملاقات کے بعد پھر ملنے کی تشنگی رہتی۔میاں جیؒ نے پچاسی سال کی عمر میں وصال فرمایا۔سرگودہا نیومسلم ٹاون بھلوال روڈ سرگودہا سے متصل اِن کا ڈیرہ آج بھی اُسی طرح آباد ہے جس طرح اُن کی ظاہری حیات میں آبد تھا۔اُنکے دو صاحبزاگان میں سے بڑئے صاحبزادئے میاں محمد یوسف نوشاہی سرگودہا میں قیام پذیر ہیں اور چھوٹے صاحبزادئے یونس نوشاہیؒ اُن کے وصال سے چند ماہ بعد ہی وصال فرماء گئے تھے۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 382967 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More