پروفیسر علی حیدر ملک کی آخری کتاب

 ـ "علی حیدر ملک کے افسانے"پر ایک نظر
صوبہ بہار کے ضلع ملاٹھی کے ایک باعزت،متوسط اور تعلیم یافتہ گھرانے جو زمینداری کے ساتھ ساتھ ملازمت سے وابستہ تھا،سول کورٹ میں ملازمت کرنے والے مظہر العلیم کے ہاں 17 ِاگست1944ء میں علی حیدر ملک پیدا ہوئے۔ہندوستان کے بعد سابق مشرقی پاکستان کے شہر کھلنا اور پھر کراچی میں انتہائی مصروف علمی اور ادبی زندگی بسر کی۔بی۔اے۔آنرز اور ایم۔اے اردو پٹنہ یونیورسٹی سے کیا۔ملازمت کے سلسلے میں سندھ کے معروف شہر سکھر اور خیر پور میں بھی رہے۔یوں علی حیدر ملک پروفیسر علی حیدر ملک بن گئے جو استاد کے ساتھ ساتھ صحافی،صدا کار،نظامت کار،افسانہ نگار اور ادبی کالم نگار کے علاوہ اچھے تنقید نگار بھی تھے۔30 ِدسمبر 2014ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ان کا انتقال ادبی دنیا کے لئے بالعموم اور فکشن گروپ اور مجلس احباب ملت کے لئے بالخصوص ناقابل تلافی نقصان ہے۔

پروفیسر علی حیدر ملک کی افسانے،مضامین،تراجم اور انٹرویوز پر مشتمل 9کتابیں منظر عام پر آئیں جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
۱۔بے زمیں بے آسماں(افسانے)
۲۔افسانہ اور علامتی افسانہ(مضامین)
۳۔عمر خیام اور دوسری غیر ملکی کہانیاں(تراجم)
۴۔دبستان مشرق(ترتیب)
۵۔اردو ٹائپ اور ٹائپ کاری(ترتیب)
۶۔شاہ لطیف بھٹائی نمبر(ترتیب)
۷۔شہزاد منظر :فن اور شخصیت(ترتیب بہ اشتراک صبا اکرام)
۸۔ادبی معروضات(مضامین)
۹۔اُن سے بات کریں(انٹرویوز)
روزنامہ "جسارت"کراچی اور ہفت روزہ "اخبار جہاں"سے طویل عرصے تک وابستہ رہے۔ان کی وابستگی متعدد اخبار و رسائل اور ادبی تنظیموں سے رہی مگر اپنے انتقال تک "اخبار جہاں" سے منسلک رہے، یہاں تک کہ ان کا آخری کالم ان کی وفات کے بعد "اخبار جہاں"کی اشاعت"میں کراچی کا ادبی منظر نامہ"کے زیر عنوان شائع ہوا۔

ان کی خواہش ہوتی کہ ان سے وابستہ تمام لوگ اپنا تخلیقی کام ہر صورت میں جاری رکھیں مگر خود انہوں نے اپنی مصروفیت میں اس قدر اضافہ کر لیا تھا کہ اپنے تخلیقی معاملات سے بے خبر ہوکر پاکستان آرٹس کونسل۔کراچی،اکادمی ادبیات اور دیگر ادبی تنظیموں اور پروگراموں کے علاوہ کتابوں پر مضامین اور نظامت میں مشغول رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ "بے زمیں بے آسماں"کے بعد افسانوں کا دوسرا مجموعہ منصہء شہود پر نہیں آسکا۔یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔

ان کے انتقال کے بعد ان کے بچپن کے دوست اور سمدھی معروف افسانہ نگار،ناول نگار،مضمون نگار اے۔ خیام نے پروفیسر علی حیدر ملک کے حوالے سے ہونے والے تعزیتی جلسوں اور نشستوں میں اپنے جس عہد کا اعلان کیا تھا وہ انہوں نے اس مجموعے کی صورت میں پورا کیا جو کچھ اس طرح ہے۔
نام کتاب:علی حیدر ملک کے افسانے صفحات: 208 قیمت:Rs.500
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز۔5کتاب مارکیٹ۔اردو بازار۔کراچی

اے۔خیام نے ان کے وہ افسانے تلاش کئے جو ان کے کسی مجموعے میں شامل نہیں تھے۔اس تلاش کے دوران انہیں ان کے متعد افسانچے بھی ملے جو مجموعے میں شامل ہیں۔اے۔خیام نے گفتگو کے دوران بتایا کہ "افسانچے"کے بارے میں حیدر نے(خیام بھائی پروفیسر علی حیدرملک کو اسی نام سے بلاتے تھے)کبھی ذکر نہیں کیا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ میں اس کے خلاف ہوں۔اس بات سے حیدر بھائی(میں انہیں اسی نام سے بلاتا رہا ہوں)کی شخصیت کی سادگی،احترام اورمحبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس مجموعے میں 39افسانے اور 28افسانچے کے علاوہ اے۔خیام کا مضمون"کچھ اس کتاب کے بارے میں"،یاور امان(مرحوم) کا مضمون"میں علی حیدر ملک کو نہیں جانتا"،علی حیدر ملک کا ایک مضمون جو ماہنامہ"الفاظ"کراچی کے دسمبر 1983ء کے شمارے میں"وہ یہ کہتے ہیں"کے عنوان سے شائع ہوا تھا،فلیپ پر معروف شاعر اور نقاد صبا اکرام کی مختصر رائے کے علاوہ پس ورق پر زاہدہ حنا کا خراج تحسین شامل ہے۔

یقینا پروفیسر علی حیدر ملک کی یہ آخری تحریریں ہیں اور ان سے محبت کا دم بھرنے والوں،عقیدت رکھنے والوں اور ادب کے شہسواروں کو اس مجموعے کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔

بہت پہلے یعنی فروری1986ء میں اپنے افسانوں کے مجموعے"بے زمیں بے آسماں"میں "کہانیوں سے پہلے"کے عنوان سے پروفیسر علی حیدرملک نے جو تحریر کیا تھا ملاحظہ کیجئے۔

"اپنے جگر لخت لخت کو یکجا کرنا اور پھر انہیں ترتیب دے کر کتابی صورت میں پیش کرنا ایک مشکل کام ہے۔خصوصاً مجھ جیسے آدمی کے لئے جس کی زندگی ایک ایسی تنی ہوئی رسّی پر چلنے میں گزری جس کے چاروں طرف آگ کے شعلے دہک رہے تھے۔میرے لیے تو یہی سوال ہمیشہ سوہان روح بنا رہا ہے کہ میں لکھتا کیوں ہوں؟کہانیاں لکھنا میرے لیے کوئی خوشگوار فعل نہیں،ایک اذیت ناک عمل ہے۔اسی لیے میں حتی الامکان اس سے گریز کی کوشش کرتا ہوں اور صرف اسی وقت قلم اٹھاتا ہوں جب فرار کے تمام راستے مسدودہو جاتے ہیں۔گویا کہانیاں لکھنا میرا شوق نہیں بلکہ مجبوری ہے۔۔۔میں تو جوگیوں اور صوفیوں کی مانند گوشہ نشینی کی خاموش اور گمنام زندگی گزارنا چاہتا تھا لیکن وائے ناکامی کہ بہت سی آرزوؤں کی طرح میری یہ آرزو بھی پوری نہیں ہوئی۔۔۔۔قصہ کوتاہ یہ کہ میں کہانیاں لکھنے جیسے کار ِ فضول کا گناہ گار ہوں اور گزشتہ بیس برسوں میں میں نے درجنوں کہانیاں لکھی ہیں۔یہ کہانیاں اردو کے معروف و معتبر رسائل میں شائع بھی ہوتی رہیں لیکن یہ تمام کہانیاں میرے پاس محفوظ نہیں۔۔۔"

اب آئیے ان کی کتاب کی طرف آتے ہیں:۔
پس ورق پر زاہدہ حنا لکھتی ہیں کہ "علی حیدر ملک کی اچانک رخصت پر یقین نہیں آتا۔چند دنوں پہلے ان سے ادبی تقریب میں ملاقات ہوئی تھی۔اپنی عادت کے مطابق چہک رہے تھے۔اس وقت گمان بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ رخت سفر باندھ چکے اور اب کوئی دن جاتا ہے کہ تہہ خاک ہو جائیں گے۔۔۔وہ جدید اردو افسانے کا اہم نام تھے۔۔۔۔ان کے تنقیدی مضامین توجہ سے پڑھے جاتے تھے۔۔۔وہ ایک اداس انسان تھے اور اسی اداسی کے رنگ میں قلم ڈبو کر انہوں نے کہانیاں لکھیں۔۔۔"

اے۔خیام اپنے مضمون"کچھ اس کتاب کے بارے میں"میں لکھتے ہیں کہ "علی حیدر ملک کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ شائع کرنے کا اعلان میں نے کسی وقتی تاثر کی بنا پر نہیں کیا تھا۔اس کی زندگی میں بھی مستقل اصرار کرتا رہا تھا کہ دوسرا مجموعہ منظر عام پر لاؤ کہ افسانہ نگاری اور افسانے کی تنقید ہی تمہاری پہچان ہے۔لیکن اس کی دوسری سماجی اور مختلف قسم کی ادبی مصروفیات دوسرے مجموعے کی اشاعت میں رکاوٹ بنی رہیں۔نئے،پرانے ادیبوں،شاعروں کی کتابوں کے پیش لفظ،فلیپ کی رائے،ادبی محفلوں کی نظامت،ایک بڑے ہفتہ وار رسالے میں ادبی کالم نگاری وغیرہ اسے بیحد مصروف رکھتی تھیں۔۔۔کوشش کی گئی ہے کہ جس غرض و غایت کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے،اس میں کوتاہی نہ ہوئی ہو۔اگر پھر بھی کسی خامی یا کمی کا احساس ہوتا ہو تو اسے میری مجبوری پر محمول کیا جائے۔۔"

یاور امان کا مضمون"میں علی حیدر ملک کو نہیں جانتا"انکی کھلنا میں رہائش اور ادبی مصروفیات و خدمات کا بہت قریب اور ساتھ ساتھ مشاہدہ کرنے والے کا ہے جس نے اپنی پوری زندگی ان کے ساتھ اور مشورے سے اپنا ادبی سفر جاری رکھا اور "انہدام"کے عنوان سے شعری مجموعہ شائع کیا نے انکی زندگی کے بہت سے گوشوں کی نشاندہی کی ہے۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"ملک صاحب کی شخصیت بڑی تہ دار اور کئی خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔وہ نہ صرف اچھے افسانہ نگار،صحافی،اور کمپیئر ہیں بلکہ اچھے انسان بھی ہیں۔وہ ایک مشفق استاد،اپنے بچوں کے شفیق باپ اور مخلص وفا شعار شوہر بھی ہیں۔۔۔۔انہوں نے جس مشن کا آغاز مرحوم مشرقی پاکستان کے چھوٹے سے شہر کھلنا ،بلکہ مہاتما بدھ کے شہر گیا سے کیا تھا وہ مشن آج بھی جاری ہے۔ایک استاد کے روپ میں،ایک ادارے کے روپ میں یہاں بھی ان کے شاگردوں،دوستوں اور چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے اس لیے کہ وہ خود اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ،ایک ادارہ ہیں۔۔۔اور میں جو دنیائے ادب کا ایک حقیر ذرّہ ہوں تو یہ بھی علی حیدر ملک کا ہی فیض ہے اور انہیں کے دم سے میں سید امان اﷲ سے پہلے امان ہرگانوی اور اب یاور امان کی حیثیت سے آپ سے ہمکلام ہوں۔۔۔"

علی حیدر ملک کا مضمون"وہ یہ کہتے ہیں"میں علی حیدر ملک نے لکھا"اردو میں افسانہ ایک توانا اور مقبول صنف ہے لیکن کچھ نقاد ایسے بھی ہیں جو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔۔۔وہ افسانہ اور افسانہ نگاروں پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں اور اپنی ساری صلاحیت یہ باور کرانے میں صرف کر رہے ہیں کہ افسانہ ایک غیر تخلیقی،معمولی اور حقیر صنف ہے۔ایسے نقادوں میں دو نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی اور محمود ہاشمی۔۔۔دونوں کو نئی بات کہنے کا شوق ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر نئی بات صحیح بھی ہو۔پھر بھی یہ لوگ نئی بات کہنے کے شوق میں غلط باتیں بھی دھڑلّے سے کہتے ہیں۔۔۔سب سے آخری اور اہم بات یہ کہ ان دونوں حضرات نے افسانے کا مطالعہ اس تسلسل اور انہماک کے ساتھ نہیں کیا ہے جس طرح کہ شاعری کا۔لہٰذا افسانے اور ناول کے بارے میں ان کی آراء بھی زیادہ تر بے وزن اور گمراہ کُن ہوتی ہیں۔۔۔"(مطبوعہ ماہنامہ "الفاظ"،کراچی،دسمبر1983ء)۔

اور اب چند افسانوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
پہلا افسانہ"رشتے کا زہر"تقسیم کے پُر آشوب دور پر لکھا گیا ہے جس کی ابتداء"مجھے اپنے وجود سے گھن آتی ہے"سے ہوتی ہے اور اس جملے کی وجہ تسمیہ آخری پیراگراف میں جاکر ظاہر ہوتی ہے چنانچہ اختتام بھی اسی جملے پر ہوتا ہے۔

دوسرا افسانہ"نہ جائے ماندن"وطن کے حالات اور ستم ظریفی پر ایک منفرد نوعیت کی کہانی ہے۔اس میں شامل ایک جملہ ملاحظہ کیجئے۔۔۔"تم تو اپنی تاریخ اور تہذیب پر فخر کرتے ہو،پھر تم یہاں کیوں چلے آئے؟"۔۔۔ہماری تاریخ اور تہذیب اب گزرے زمانے کا قصہ بن گئی ہے۔

تیسرا افسانہ"چُپ شاہ"ایک مجذوب کی داستان ہے جسے عمدہ واقعات نگاری کے ساتھ انتہائی اہم کہانی کے روپ میں ڈھالا گیا ہے۔چند جملے۔۔"ہر حیرت ایک نہ ایک دن ختم ہو جاتی ہے۔۔۔جب وہ کوچ کر رہے تھے تو ماحول پر قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی اور فضا پر موت کا سا سکوت طاری تھا،پھر ہر طرف سے گولیوں اور دھماکوں کی آواز سنائی دینے لگی۔۔مگر چپ شاہ کا دور دور تک کہیں پتا نہیں تھا"۔

ہر افسانے پر گفتگو یقینا طوالت کا سبب بنے گی اور ان افسانوں کا استحقاق یہ ہے کہ انہیں پڑھا جائے۔ان کی کہانیوں میں سماجی انتشار،بے زمینی کا دُکھ،رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور بے حسی کے کرب کا بلند اظہاریہ جا بہ جا ملتا ہے۔افسانوں کے مزید عنوانات اس طرح ہیں۔

پانی پانی،دہشت گرد چھٹی پر ہیں، اجلاس،دل دریا،روپ بہروپ،لفٹ،یوریکا،دیوار کا لکھا،پر کرتی،نئی صبح کا انتظار،وہم،انتظار،بے زبانی ہے زباں میری،تھا جو رازداں اپنا،جھگڑا ایک باغ کا،اپنے آنسو اپنا دامن،جہاں ہم ہیں،تاج محل،صبح کاذب،شعلہ در برگ حنا،مقام،اعتماد کا بھرم،نجو باجی،ایک زخم ہرا ہرا سا،تنکا،خالق کی موت،بھکارن،دلکش ہو مگر،شیشے کا جگر،نئی منزل،گل مہر،عمر قید،تیری میری کہانی،قوت کل،ّخری کہانی اور پرایا مرد۔

افسانچے مختلف موضوعات پر ہیں لیکن سانحہ ء مشرقی پاکستان اور تقسیم ہند کے پس منظر میں ایک افسانچہ "چوبیس سال بعد"کے عنوان سے کچھ یوں ہے۔

"یہ لو پاکستان"
تلوار کے ایک وار سے اسکی جوان بیوی کا سینہ زمین پر آرہا۔وہ اپنی بیوی کی اکلوتی یادگار سینے سے لگائے پاکستان چلا آیا مگر چوبیس سال بعد پھر وہی منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔
"یہ لو پاکستان"
اس بار رام داؤ کی تیز دھار سے اس کی جوان بیٹی کا سینہ زمین پر آگرا تھا۔"

پروفیسر علی حیدر ملک کی یہ آخری کتاب ہے جو انکی وفات کے بعد شائع ہوئی ہے ان کے عزیز ترین دوست اور معروف افسانہ نگار،ناول نگار،مضمون نگار اے۔خیام کی توجہ کا ثمر ہے جسے اہل ادب کو نہ صرف یہ کہ سراہنا چاہئے بلکہ کتاب کے مطالعے کے بعد اپنے تاثرات سے بھی سرفراز کرنا چاہئے۔

اے ۔خیام نے یہ مشکل کام کئی ماہ کی جد و جہد کے بعد بالآخر کر دکھایا۔اے۔خیام اور رنگ ادب پبلی کیشنزکے روح رواں شاعر علی شاعراس عظیم کام کے لئے انتہائی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ibn-e-azim fatmi(syed waqar azim fatmi)
About the Author: ibn-e-azim fatmi(syed waqar azim fatmi) Read More Articles by ibn-e-azim fatmi(syed waqar azim fatmi): 2 Articles with 2364 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.