ٹین ایجرز بچوں پر جدید ذرائع مواصلات کے اثرات

کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جہاں پر شمار نہیں کیا جاتا۔اسی لیے تو اﷲ پاک نے انسان کو ما ں اور باپ عطا کیے ہوتے ہیں کہ وہ روحانی و مادی ضروریات اُسے بہم پہنچائیں۔ والدین کی جانب سے اولاد کے ساتھ اِس برتاو کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اﷲ پاک نے ماں باپ کے دل میں اولاد کے لیے محبت رکھی ہے اگر رب پاک نے ایسا نہ کیا ہوتا تو پھر کائنات کا رنگ اور طرح کا ہی ہونا تھا۔ ماں اور باپ دو ہستیوں کی وجہ سے انسان کی زندگی میں جو بہاؤ ہے اُس کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہوجاتا۔ رب پاک کی محبت اپنے بندئے سے بے انتہا ہے اور رب کی محبت کا 1/70 حصہ ماں کی محبت ہے۔ رب اپنے بندئے سے ماں سے سترگُنا زائد محبت کرتا ہے۔انسان کے بس میں جو ہوسکتا ہے وہ اپنی اولاد کے لیے کرتا ہے اِس مقصد کے لیے وہ ہر طرح کے جتن کرتا ہے۔ محبت کی وجہ سے انسان اپنے اولاد سے کچھ صلہ لینے کا طلبگار نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اولاد کو ترقی کرتے دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ جو والدین اپنی اولاد کو چلنا سکھاتے ہیں اُسے ہنسانا سیکھاتے ہیں ۔وہ اُن کے بغیر بھی ہنس سکتے ہیں اُس کے بغیر بھی گزاراہ کر سکتے ہیں ۔لیکن اسلامی و مشرقی روایات کا ہمیشہ سے یہ خاصہ رہا ہے کہ والدین کا احترام کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں اولڈ ہوم کا تصور تک نہیں تھا اب اولڈ ہوم کھل چکے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو ماں باپ نے تو اولاد سے محبت کرنا ختم نہیں کی وہ تو بدستور اپنی جبلت کی وجہ سے محبت بانٹ رہے ہیں ۔لیکن یہ ہمارئے معاشرئے کو کیا ہوگیا ہے کہ والدین کا احترام اُن کا خیال اُن کی بات کو اہمیت دینا کہاں چلا گیا۔ حضرت اکبر آلہ آبادی نے کہا تھا کہ ہم تو سمجھے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ،میرا سرجن رگِ ملت سے لہو لیتا ہے۔ اب ذرا دیکھیں تو سہی جدید ترین تعلیم کے چرچے ہیں ۔ انٹرنیٹ اورموبائل نے زندگی کو بالکل بدل کر رکھ چھوڑا ہے۔ انسانی رویوں کے اندر کچھ اِس طرح کی تبدیلی آئی ہے کہ سب سے پہلے تو شرم و حیا جاتا رہا ہے اور اُسکے بعد رشتوں کے تقدس پر کاری ضرب لگی ہے۔ انفارمیشن کے سیلاب نے ملک کی حالات کا سوا ستیاناس کردیا ہے۔ آپ آج سے پندرہ سال پہلے کے سال چہارم کے طالبعلم کو یاد کریں اور موجودہ دور کے اِسی تعلیمی درجے کے طالبعلم کو دیکھ لیں۔ لڑکیوں کو تو خیر لباس ہی ایسا پہنا دیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ لڑکوں اور لڑکیوں کا کام بس موبائل کے پیکچ کے ذریعے سارا وقت مشغول رہنا۔ساری ساری رات موبائل پیکج کے ذریعے مصروف رہنا ۔ پڑھائی کہاں ہونی ہے۔یہ درست ہے کہ اِن جدید ایجادات کا مثبت استعمال کرنا چاہیے لیکن ہمارئے ہاں تو اِن چیزوں نے آگاہی سے زیادہ گمراہی پھیلائی ہے۔ ماں باپ کی عزت واحترام اور اُن کی حثیت کا جو بھرم تھا وہ کھو گیا ہے۔ ہمارئے معاشرئے کے نفوس پذیری کے حامل افراد جن میں اساتذہ، ڈاکٹرز ،وکلاء ادیب، شاعر شامل ہیں اِ ن کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اور نئی نسل کی اخلاقیات کے حوالے سے قومی لائحہ عمل بنایا جائے۔موبائل فون کے استعمال کی صرف یونیورسٹی طالبعلم کو اجازت ہو اور سکولوں کے بچوں کے پاس موبائل برآمد ہونے کی صورت میں والدین سے باز پرس ہونی چاہیے۔شاہین بچوں کوخاکبازی کا سبق دیا جارہا ہے۔تعلیم انڈسٹری بن چکی ہے بچوں کے نزدیک پڑھ لکھ کر بے روزگار ہی ہونا ہے اِس سے بہتر ہے کہ گانا بجانا سیکھیں اور شادیوں کی محفلوں میں جاکر اُچھل اُچھل کر گائیں اور موج مستی کریں۔آزادی رائے اپنی جگہ لیکن قوم کےنو نہالوں کو اخلاقی پستی سے بچانا اور معاشرئے کی وہ اقدار جس میں خاندان کا ایک اتحاد نظر آنا چاہیے وہ ہونا ضروری ہے۔ موبائل فون کے سستے پیکجز پر پابندی لگائی جائے۔اور موبائل فون کی سم ایشو کے لیے کم ازکم عمر کا معیار مقرر کیا جائے۔ کم ازکم بیس سال کی عمر تک کے طالبعلموں کے پاس موبائل پر پابندی لگادینی چاہیے۔ اگر ہم اپنے معاشرئے میں اخوت بھائی چارہ اور ماں باپ کا احترام چاہیتے ہیں۔ تو پھر ہمیں اپنی راہیں متعین کرنا ہوں گا۔ او ر اِن ایجاد کا استعمال مثبت کرنا ہوگا۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 381833 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More