کمسن قیدی

 سنگ سرخ سے بنی اس بڑی عمارت کے ساتھ احاطہ نما کھیل کا میدان ہے ساتھ ہی خواتین کا ایک کالج ، بائیں طرف پانی کا ایک بے رحم نالہ ہے ، اسی نالے پر دوسو گز آگے ڈیم نما پانی کا بڑا تالاب ہے۔1947 میں راولاکوٹ آزاد کشمیر کے نواحی قصبے دریک عید گاہ کے اس علاقے میں سرخ عمارت تھی نہ خواتین کا کالج اور نہ ہی کوئی دوسری عمارت تاہم یہ علاقہ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز ضرور تھا۔ مقامی اور کرب و جوار کے لوگ سیاسی اجتماعات کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کرتے تھے ۔یہ وہ دن تھے جب مسلمان اکثریتی علاقے مہاراجہ ہری سنگھ حکومت کی عائد کردہ سخت پابندیوں کی زد میں تھے ۔ گائے کو ذبح کرنا قید وبند کی مصیبتیں اٹھانے کے مترادف تھا ، جموں وکشمیر کے کئی علاقوں میں ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح مذاحمت شروع ہوچکی تھی ۔کشمیریوں کے انقلابی رہنما سردار محمد ابراہیم خان سری نگر سے موجودہ آزاد خطے میں منتقل ہوچکے تھے ۔سردار محمد ابراہیم خان اور ان کے ساتھوں نے ڈوگرہ راج سے آزادی کے لیے مزاحمت کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ موجودہ آزاد خطے کے دوسرے علاقوں کی طرح باغ ، رالاکوٹ اور پلندری میں بھی مسلح مذاحمت جاری تھی ،سنگ سرخ سے بنی اس عمارت سے دو کلومیٹر دور مقامی عمائدین میں سے ایک لیڈر صاحب تھے ۔ لیڈر صاحب کے گھر یکم دسمبر 1933 کو پید اہونے والا بیٹا عبدالرحمن ان دنوں نویں جماعت کا طالب علم تھا مگر ڈوگرہ راج سے سخت خائف تھا۔ایک طرح سے اس کے ذ ہن میں بغاوت کا لاوا ابل رہا تھا یہی وجہ ہے کہ جب بھی ڈوگرہ راج کے خلاف راولاکوٹ، کھائیگلہ ، حسین کوٹ یا کسی اور جگہ مسلمانوں کا کوئی اجتماع ہوتاعبدالرحمن کی وہاں موجودگی لازمی تھی ۔صرف یہی نہیں عبدالرحمن کوان اجتماعات میں تقریر کرنے انقلابی نظمیں اور ترانے پڑھنے کے لیے بطور خاص مدعو کیا جاتا تھا۔ اس روز سرخ رنگ والی عمارت والی جگہ پر بڑا جلسہ تھا دوردور سے لوگ اس جلسے میں شرکت کے لیے آئے ہوے تھے ۔ عبدالرحمن نے اس روز بھی جلسے میں ڈوگرہ راج کے خلاف باغیانہ نظم پڑھی ۔ دوسرے روز ڈوگرہ سپا ہیوں نے لیڈر صاحب کے گھر چھاپہ مار کر عبدالرحمن کو گرفتار کر لیا۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ کم سن عبدالرحمن کو بھی ڈوگرہ سپاہیوں نے راولاکوٹ تھانے میں بند کر دیا۔ان کے ساتھ قید کچھ دوسرے لوگ گھر سے دوری اور مسائل کے باعث پریشان تھے کم سن قیدی پریشان حال دوسرے قیدیوں کی نسبت پر اعتماد اور خوش باش لگ رہا تھا۔تحریک آزاد کشمیر کے نامور رہنما سردار مختار خان مرحوم بھی قیدیوں میں شامل تھے انہوں نے عبدالرحمن سے استفسار کیا آپ کیوں خوش ہیں؟ جواب ملا میں مہاراجہ کی غلط فہمی پرخوش ہوں۔ مہاراجہ ان لوگوں کی وجہ سے پریشان ہے جو چند دن جیل میں نہیں گزار سکتے ۔ آزادی کے لئے تو بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ ایک ماہ راولاکوٹ میں قید کے بعد سردار مختار خان ، سردار عنایت خان سمیت قیدیوں کو براستہ ہجیرہ موجودہ مقبوضہ پونچھ منتقل کر نے کا عمل شروع ہوا۔سردار مختار خان ، سردار عنایت خان ہجیرہ میں قید سے فرار ہونے میں کامیاب رہے جبکہ عبدالرحمن کو مقبوضہ پونچھ منتقل کر دیا گیا۔عبدالرحمن کا جرم یہ تھا کہ اس نے باغیانہ نظمیں پڑھ کر لوگوں کو ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھا ۔ کم سن عبدالرحمن سیاسی قیدی بن گئے ۔ پونچھ جیل میں دوران اسیری اس قیدی کا اعتماد اور بہادری مثالی تھی ۔ کچھ دنوں بعد ہندو بریگیڈیئر نے پونچھ جیل کا دورہ کیا ۔ بریگیڈیئر کم سن قیدی کو دیکھ کر چونک گیااور جیل حکام سے استفسار کیا یہ چھوٹا بچہ کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟ بریگیڈیئر کو بتایا گیا کہ اس بچے نے لوگوں کوڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت پر اکسایا ہے۔بریگیڈیئر نے کم سن قیدی سے پوچھا کیا واقعی ایسا ہے ؟ جی بالکل ہم ڈوگرہ حکومت کو نہیں مانتے اور نہ ہی ہم ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیںڈوگرہ حکومت کے خلاف اظہار رائے پر مجھے قید کر دیا گیا ہے۔ کمسن قیدی کے پر اعتماد جواب سے بریگیڈیئر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا بریگیڈیئر نے کمسن قیدی کو رہا کرنے کا حکم دیا تو قیدی پھر سے بول پڑا رہا ہونے کا کیا فائدہ ؟ جو بھی قیدی رہائی پر گھر کا رخ کرتا ہے اسے مار دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ بریگیڈیئر نے اسے ذاتی رقعہ دیا اور خصوصی حفاظت میں سیز فائر لائن عبور کروانے کا بندوبست کیا ۔ رہائی کے بعد اپنے گائوں واپس آنے پر لیڈر صاحب کے اس چھوٹے بیٹے کی تعلیم کا معطل سلسلہ پھر سے بحال ہوگیا۔ ہائی سکول راولاکوٹ سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کرنے پر اسے گورڈن کالج راولپنڈی میں داخل کرایا گیا ۔ عبدالرحمن گارڈن کالج میں چار سال تک زیر تعلیم رہے ۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر اور وزیر اعظم سردار سکندر حیات ان کے کلاس فیلو تھے ۔ گریجویشن کے بعدراولا کوٹ واپسی ایک ایسے موقع پر ہوئی جب پاکستان میں ختم نبوت کی تحریک زوروں پر تھی۔ تاہم تحریک ختم نبوت کی آواز راولاکوٹ سے دور تھی ۔ راولاکوٹ میں نمار جمعہ کے بعد عبدلرحمن نے مقامی علمائے کرام کو تحریک ختم نبوت سے آگاہ گیا اور جلوس نکالنے پر امادہ کیا جلوس کے بعد جلسہ ہوا عبدلرحمن نے کلیدی مقرر کے طور پر لوگوں کو پاکستان میں جاری تحریک ختم نبوت سے آگاہ گیا۔عبدالرحمن کی تقریر نے دوسرے لوگوں کے علاوہ اس وقت کے ڈپٹی انسپکٹر سکولز ضلع پونچھ کو بھی متاثر کیا۔ ڈپٹی انسپکٹر سکولز نے مقامی لوگوں سے نوجوان مقرر سے متعلق استفسار کیا اور اگلے دن اپنے دفتر مدعو کیا۔ دوسرے دن محکمہ تعلیم کے اس افسر نے نوجوان عبدلرحمن کو محکمہ تعلیم میں ملازمت کی پیش کش کردی۔ تحریر و تقریرکے دلدادہ عبدالرحمن کے ا نکار کی تمام دلیلیں مسترد کرتے ہوے مڈل سکول منگ میں بطور صدر معلم تعینات کر دیا گیا۔1953 میں نہ چاہتے ہوے بھی عبدالرحمن محکمہ تعلیم کا حصہ بن گے ۔ مڈل سکول منگ تک پہنچنے کے لیے ا نہیں سحری کے وقت بیدار ہونے کی عادت بنانی پڑی ۔عبد الرحمن کی شخصیت سرکاری ملازمت سے میل نہ کھاتی تھی ان کی شخصیت میں انقلابیت کے علاوہ ، بغاوت اور ، خدمت کے جذبات تھے۔ عبدلرحمن نے منگ میں سرکاری ملازمت ایسے موقع پر شروع کی جب وفاقی حکومت نے سرادار محمد ابراہیم خان کو منصب صدارت سے ہٹا دیا تھا وفاق کی پالیسیوں کے خلاف پونچھ خطے میں زبردست بے چینی تھی ۔ اس خطے کے لوگوں کی مزاحمت کچلنے کے لیے وفاق نے پی سی تعینات کر دی تھی ۔ سردار عبدلرحمن بھی سردار ابراہیم کے زبردست حامی تھے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پونچھ نے ایک حکم نامے کے ذریعے سردار عبدلرحمن کو ضلع بدر کر کے راولپنڈی بھیج دیا۔سردار عبدالرحمن نے ان دنوں کا تذکرہ کرتے ہوے بتایا تھا کہ وہ راولپنڈی میں مولوی جھنڈالوی کے ہوٹل میں مقیم رہے انہیں اس وقت واپس آزاد کشمیر واپس آنے دیا گیا جب وفاق نے سردار ابراہیم کو منالیا اور معاملہ ختم ہوا۔ آزاد کشمیر واپسی پر عبدا لرحمن نے تدریسی جدوجہد شروع کی، تدریسی اور انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے تعلیمی اداروں میں کئی نئے اقدامات متعارف کرائے ، چھوٹی سطح پر ان کے اقدامات ایک طرح سے تعلیمی اصلاحات تھیں۔ مڈل سکول منگ میں صدر معلم تعینات ہونے والا عبدلرحمن کئی تعلیمی اداروں میں تدریسی فرائض سرانجام دینے کے بعد ناظم اعلی تعلیمات سکولز کے عہدے تک جا پہنچے اس دوران اپنے امور میں کسی سیاسی یا بیوروکریسی کی مداخلت کو قبول نہیں کیا۔ ان کی ملازمت معطلی ، بحالی کے گن چکروں سے بھرپور تھی ۔ وقت کے حکمرانوں نے محکمہ تعلیم کی اعلی ترین ذمہ داری دینے سے انکار کیا تو کسی سیاسی قوت کا سہار لینے کے بجائے عدالت کے زریعے اپنا حق حاصل کیا۔ ان کاانگریزی کتابوں کے علاوہ ، وقت کے علمی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل اور اقبالیات کے بارے میں مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ مڈل سکول منگ سے سیکرٹریت محکمہ تعلیم مظفر آباد تک سفر کے دوران اپنی عوامی خدمت کے طریقہ کار کو تبدیل نہ کیا بلکہ اسی طرح جاری رکھا اور پوری ریاست کے عوام کی بلاتخصیص خدمت کی ۔ مضبوط قوت ارادی کے مالک جناب عبدلرحمن ریاست کے وہ واحد انتظامی آفیسر تھے جن کے لئے یہ مشہور تھا کہ وہ چائے پلاتے ہیں ، کھانا بھی کھلاتے ہیں اور لوگوں کا کام بھی کرتے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عبدالرحمن ایک ایسی تحریک تھے جس کا مقصد انسانی معاشرے میں معاشرتی ناہمواریوں اور تفریق کا خاتمہ تھا۔ مسلسل متحرک رہنے کا نام تحریک ہے ،تحریک اس انسانی رویے کا نام ہے، جو سیاسی،سماجی،اقتصادی اور معاشرتی حوالوں سے انسانی فکر کو جلا بخشتی ہے ۔جذبے عزم و حوصلے اور استقامت کے ساتھ پہلے سے متعین کردہ راہوں پر چلنے والے عبدالرحمن دوران ملازمت اور بعد از ملازمت بلا تفریق لوگوں کی خدمت کرتے رہے ۔ جس شخص نے تحریک آزادی کے ابتدائی دنوں میں سیاسی قیدی کے طور پر جیل کاٹی ہو سردار ابراہیم کی عسکری تحریک میں حصہ لیا ہو، اسے بلاشبہ تحریک آزادی کشمیر کے نشیب و فراز اور نزاکتوں کا زیادہ ادراک ہو سکتا ہے ۔ آزادکشمیر کے سابق صدر اور وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان مرحوم اپنے دور میں مختلف موضوعات پر کھل کر گفتگو کرتے تھے ایک دفعہ بطور وزیر اعظم غیر ملکی دورے سے واپسی پر مظفر آباد میں ایک تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی ۔ غیرملکی دورے کے دوران مسلہ کشمیر پر ہونے والی بات چیت سے لوگوں کو آگاہ کیا اور سوال کیا کشمیر کی تحریک آزادی کے تناظر مین ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کہتے ہیں کانفرس ہال میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ کوئی تعلیمی افسر ریاست کے چیف ایگزیکٹو سے برائے راست مخاطب ہونے کی جرات نہیں رکھتا تھا ۔اسی دوران سب سے پچھلی قطار مین بیٹھا ایک شخص کھڑا ہوا اور بولا جناب وزیر اعظم؛ سردار عبدالقیوم خان نے اس شخص کو پہچان لیا، یہ عبدالرحمن کی آواز ہے ۔ بتائیں اپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟سردار عبدالقیوم خان کے استفسار پرعبدالرحمن نے کہا ہماری پالسیی کشمیر میں عسکریت کی حمایت ہے کل جب عسکری تحریک کمزور پڑھ گئی تو ہم کیسے کشمیر کاز کو اجاگر کریں گے ہمیں متبادل بھی سوچنا چاہیے۔سردار عبدالقیوم خان نے عبدالرحمن کی رائے کی تعریف کی اور پھر اسی موضواع پر مذید بات چیت جاری رکھی۔ عبدالرحمن ملازمت سے ریٹائرڈ منٹ تو ہوئے مگر اپنے مشن سے نہیں چنانچہ ،ریٹائرڈ ہو کر راولاکوٹ منتقل ہوئے تو راولاکوٹ شہر میں سیاسی اور سماجی پلیٹ فام متحدہ محاز قائم کیا۔ راولا کوٹ شہر میں اس کا باقاعدہ دفتر قائم کرکے اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔2014 عبد الرحمن کی زندگی کا آخری سال تھا۔ مارچ اپریل تک ان کی صحت اس حد تک اچھی تھی کہ وہ حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کر لیتے تھے، انہیں شوگر کے علاوہ دل کے امراض بھی لاحق تھے ۔ کمزوری کے باعث وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہو گئے تھے تاہم ہر روز مسلسل پانچ گھنٹے تک گھر کی بالکونی میں بیٹھ کر مطالعہ ضرور کرتے تھے۔ موقع پاکر میں بھی کھبی کبھی ان کے پاس بیٹھ جاتا وہ کوشش کرتے کہ حالات حاضرہ پر بات چیت کی جائے، حال احوال پوچھتے اور پھر گھر والوں کو آواز لگاتے ، کوئی پو چھنے آتا تو حکم جاری کرتے کہ چائے پیش کی جائے، ان کا یہ ایسا حکم تھا جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا تھا پہلی آواز پر ہی تعمیل کرکے انہیں اطلاع کی جاتی تھی ۔ انہوںنے زندگی میں دو قسم کے حکامات جاری کیے۔ پہلا حکم سرکاری ملازمت کی تقررری کا اور دوسرا سائل کے لیے کھانے پینے کا اہتمام کرنے کا ہوتا تھا۔ دوسری قسم کا حکم ان کی زندگی کے آخری سانسوں تک جاری ہوتا رہا۔بڑھاپے کی وجہ سے مسلسل پانچ گھنٹے پڑھی جانے والی کتابوں کی باتیں ان کا حافظہ میں محفوط نہیں رہتی تھیں مگر وہ زندگی بھر جاری رکھی جانے والی مشق ضرور کرتے تھے ۔شام کے گہرے ہوتے سائے انہیں احساس دلاتے تھے کہ آج کا کام کافی ہوگیا ہے چنانچہ وہ آواز دیتے یا اشارہ کرتے تھے تاکہ انہیں ان کے بستر تک پہنچایا جائے۔۔نڈر دلیر اور جی دار سردار عبدلرحمن17 جون 2014 کو اپنے چاہنے والوں کو خیر آباد کہہ کر دنیا سے رخصت ہوگے۔ سردار عبدلرحمن کی رحلت کے دو ماہ بعد اگست کی گرمی میں ایک صبح میں اسلام آباد سے راولاکوٹ کی جانب محو سفر تھا میری منزل سنگ سرخ سے بنی یہی عمارت تھی ۔ اس عمارت کے قریب خواتین کالج کے اڈیٹوریم میں ماضی بعید کے کم سن قیدی اور ماضی قریب کے بڑے تعلیمی افسرسردار عبدلرحمن کی یاد میں 19 اگست کوایک مجلس کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ پرل ویلفیر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مجلس صبح گیارہ بجے شروع ہوئی تاہم مہمان خاص جناب سردار خالد ابراہیم دن دو بجے تشریف لائے ۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50726 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More