قدرتی آفات اتنا تو بتاتی ہیں․․․․

یہ بات صحیح ہے کہ قدرتی آفات بتا کر نہیں آتیں، لیکن ان آفتوں سے ہماری لاعلمی بس اس حد تک ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ کس دن ہم پر بلائے ناگہانی بن کر ٹوٹ پڑیں گی، تاہم ہمیں اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ یہ بلائیں کن راستوں سے آئیں گی۔ اب کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک کے وہ کون سے علاقے ہیں جو سیلاب کی زد میں آتے رہے ہیں اور آسکتے ہیں، کسے نہیں پتا کہ ان علاقوں میں بند ہوجانے والی آبی گزرگاہیں پانی کو راستہ نہ دے کر سیلاب کا سبب بنتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے حکومتی ادارے اور تمام باشعور پاکستانی اس حقیقت سے بہ خوبی آشنا ہیں کہ پاکستان کا ایک وسیع علاقہ زلزلے کی بیلٹ پر واقع ہے، جہاں کبھی بھی قیامت مچ سکتی ہے۔

یعنی قدرتی آفات ہمیں وقت اور تاریخ سے تو لاعلم رکھتی ہیں، لیکن اتنا ضرور بتا چکی ہیں کہ وہ کبھی بھی آسکتی ہیں۔ اب یہ ہمارا کام تھا کہ ہم ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتے اور پوری منصوبہ بندی کرتے کہ ہمیں کم سے کم جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے، لیکن 2005 کے قیامت کے مناظر دکھاتے زلزلے اور تباہ کن سیلابوں اور بارشوں کے باوجود ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی اور پیشگی اقدامات نظر نہیں آتے۔

کچھ دنوں قبل ملک کے شمال میں زلزلے کی صورت ٹوٹنے والی قیامت نے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کردی کہ ہم مستقبل کے خطرات کے بارے میں سوچنے کو تیار نہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی متاثرین کے لیے امداد کے اعلان ہوئے اور متاثرہ افراد اور گھرانوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے؟

یہ احساس بہت طمانیت بخش ہے کہ مشکل وقت میں پاکستانیوں کا جذبۂ خیر متحرک ہوکر کرشمے دکھاتا ہے۔ 2005 کا زلزلہ ہو، قیامت ڈھاتی بارشیں اور سیلاب ہوں یا کوئی اور قدرتی آفت، جب بھی ملک کے کسی حصے میں اس طرح کی مصیبت نازل ہوئی ہے مختلف فلاحی اداروں اور لوگوں نے انفرادی طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر اور متاثرین کے لیے امداد بھیج کر ایثار، قربانی اور فلاح کے جذبے کے شان دار مظاہرے کیے ہیں۔ ایدھی، سیلانی، چھیپا اور ان جیسی متعدد فلاحی تنظیمیں اور ادارے ہمارے ملک میں تسلسل کے ساتھ لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ یہ من حیث القوم ہمارا جذبۂ خیر اور اس پر عمل کرتی تنظیمیں اور ادارے ہی ہیں جن کی وجہ سے سرکاری اداروں عدم کارکردگی اور نااہلی پر بڑی حد تک پردہ پڑا رہتا ہے، ورنہ روزمرہ کی زندگی اور خاص طور پر کوئی قدرتی آفت آنے کی صورت میں نہ جانے لوگوں کا کیا حال ہو۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس جذبۂ خیر کو اجتماعی اور منظم صورت دے کر کیوں استعمال نہیں کیا جارہا؟ حکومت ان فلاحی اداروں اور تنظیموں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرکے اور ان کا ہاتھ بٹا کر عوام کے درپیش مسائل، مشکلات اور خاص کر قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل تیار کر سکتی ہے اور اس کے لیے پورا اسٹرکچر بنایا جاسکتا ہے۔ کچھ نہیں تو ان تنظیموں اور اداروں کے رضاکاروں کی مدد سے عوام میں یہ شعور تو اجاگر کیا ہی جاسکتا ہے کہ لوگوں کے اپنے پیدا کردہ وہ کون سے عوامل ہیں جو زلزلہ آنے کی صورت ان کے لیے تباہی کا سامان بن جاتے ہیں، جن میں سرفہرست عمارتوں کی ساخت اور ان میں استعمال ہونے والا میٹریل ہے۔

اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان میں قدرتی آفات کے خطرات اور ان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومتی ادارے کیا کررہے ہیں؟ تو اس سوال کا جواب ہر قدرتی آفت آنے کے بعد ہونے والی تباہی سے مل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ زلزلے سے ہونے والے بربادی کی تصاویر میں جو تباہ شدہ عمارتیں نظر آرہی ہیں، ان میں سے بہت سی تصویروں میں عمارتوں کے تباہ شدہ اسٹرکچرز میں دکھائی دینے والی دراڑیں صاف بتاتی ہیں کہ ان کی تعمیر میں خرابی تھی اور معیار کے اعتبار سے یہ غیرمحفوظ تھیں۔ ایسے علاقوں میں جو زلزلے کی بیلٹ پر واقع ہیں زلزلے کے جھٹکوں سے تاش کے پتوں کی طرح بکھر جانے کا پورا امکان رکھنے والی عمارتیں کیسے تعمیر ہونے دی گئیں؟
زلزلے سے متعلق ایک خبر کے مطابق زلزلے سے تخت بھائی میں واقع آثارقدیمہ میں دراڑیں پڑ گئیں، جب کہ خیبرپختون خوا میں137سرکاری اسکولوں کی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔

سرکار! کم ازکم اسکولوں کی عمارتیں بناتے ہوئے تو اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ان میں ننھے مُنے بچے اپنی شروع ہوتی زندگی لے کر مستقبل سنوارنے آتے ہیں۔ 2005 کے زلزلے میں بھی متعدد اسکولوں کی عمارتیں زمیں بوس ہوگئی تھیں، یوں کتنی ہی ماؤں کی گودیں اُجڑ گئی تھیں۔ کم ازکم اسکول کی عمارت بناتے ہوئے تو تعمیر کے معیار کے مطابق ہونے کا خیال رکھا جائے۔ بالخصوص زلزلے کے خطرے سے دوچار علاقوں میں بنائی جانے والی اسکولوں کی عمارتوں کا اسٹرکچر ایسا ہونا چاہیے جو اس قدرتی آفت کو سہار سکے۔ حکومت اتنا تو کر ہی سکتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے سرکاری اسکولوں کی عمارتیں آثارقدیمہ سے بھی گئی گزری ہیں تو اس کا ذمے دار کون ہے؟

2005 کے زلزلے کے بعد حکومتی اداروں کی آنکھیں کھل جانی چاہیے تھیں، مگر زلزلے اور سیلاب بھی ان اداروں کو جگانے میں ناکام رہتے ہیں۔

اس صورت حال میں جب میں کراچی میں بنی اونچی اونچی عمارتیں، کئی کئی منزلہ فلیٹس اور کئی منزلہ خستہ حال عمارتیں دیکھتی ہوں تو یہ سوچ کر دل لرز جاتا ہے کہ یہ شہر بھی زلزلے کی بیلٹ پر واقع ہے، اگر خدانہ خواستہ․․․․

تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔ نہ جانے حکم رانوں، حکومتی اداروں اور منتخب نمائندوں کو یہ خطرہ کیوں نظر نہیں آرہا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارا میڈیا یکسو ہوکر قدرتی آفات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے موثر انداز میں آواز اٹھائے اور منتخب نمائندے اور سیاسی جماعتیں اس اہم ایشو کو اپنی سیاست کا محور بنائیں، کیوں کہ یہ لاکھوں افراد کی زندگی کا مسئلہ ہے، ان کے گھروں کے تحفظ کا ایشو ہے اور ہمارے معاشی طور پر زبوں حال ملک کی معیشت کو مزید تباہی سے بچانے کا سوال ہے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 282994 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.