چُپ رہو

حمنیٰ کی پر نسپل نے جب اسے لیبا رٹری میں بورڈکی تز ین و آرائش کا کام سونپا تواس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ خو شگوار کام اس کی انتہا ئی نا خو شگوار یا دو ں میں سے ایک ایسی یا د بن جائے گا جس سے وہ ساری زندگی اپنا پیچھا چھڑا نا چا ہے تو نہ چھڑا سکے گی۔حمنیٰ کے سکول کی سا ئنس لیبا رٹری عما رت کی بیسمنٹ میں تھی بہت سے شہروں کے رہنے والوں کے لیے بیسمنٹ بہت نئی سی چیز ہے کہ جہاں زیر ز مین عما رتیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ لیکن پنڈی اور اسلام آباد کے رہا ئشیوں کے لیے یہ کو ئی خا ص بات نہیں ہے۔ جس دن کا یہ واقعہ ہے اس د ن تمام ٹیچرز زور رو شور سے سائنس لیب کے لیے بورڈ تیار کرنے میں مصروف تھیں۔ حمنیٰ کا مضمون بیا لوجی تھا تو وہ انسانی ڈھانچوں، مختلف اقسام کے بیا لوجی چارٹ اور ما ڈلز کی پیسٹنگ اور کلرنگ میں مصرو ف تھی۔

فزکس اور کمپیوٹر کے بو رڈ کی تیا ری میں دیگر اسا تذہ مصروف تھیں وقت محدود تھا کہ ہفتے والے دن ہی بو رڈ مکمل کر نا تھا۔ اسی دن تمام اسا تذہ کلاس روم بورڈ ،سائنس روم بورڈ اور دوسری سر گرمی اخلا قی اقدار بورڈ وغیرہ کی تیا ری میں مصروف ہو تے تھے اور اس کام کاا یک دن میں کئے جا نا بھی بہت ضروری ہو تا تھا حمنیٰ کے ساتھ اساتذہ کی ٹیم میں دومیل اسا تذہ بھی شامل تھے جن میں سے ایک استاد کا تقرر کچھ ہی دنوں پہلے ہوا تھا ۔

حمنی سمیت تمام ٹیچرز دلجمعی کے ساتھ اپنے اپنے بورڈ کو معیا ری اور تخلیقی بنانے کے لیے نت نئے اور انوکھے جد ت پسندی کے خیا لات مجتمع کر نے میں مصروف تھے ۔ہر گروپ میں تین ٹیچرز شامل تھے جن میں سے ایک ٹیچر کسی اپنے بہت ضروری کام سے ہا ف ڈے کر کے چلے گئے اب شو مئی قسمت حمنیٰ کے ساتھ جو ٹیچر رہ گئے وہ وہی نئے تقرر شدہ تھے جو کچھ ہی ماہ پہلے اسکول سے وابستہ ہو ئے تھے ۔اس دن سائنس لیب میں بیک وقت اساتذہ کے تین گروپس کام کر رہے تھے ایک گروپ کیمسٹری لیب کے لیے بورڈ تیار کر رہا تھا اور دوسرا کمپیوٹرکا جب کہ حمنیٰ بیا لوجی کا بورڈ تیا ر کر رہی تھی ۔سب سے پہلے کمپیوٹر لیب والوں نے اپنا بورڈ تیار کر کے مکمل کر نے کا اعلان کر کے فارغ ہو گئے اور لیب سے چلے گئے۔ کیمسٹری والے دونوں استا تذہ بھی تیز رفتاری کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئی تھیں کہ دو بجے تک ان کاتمام کام مکمل ہو جائے ۔ایک حمنٰی کاہی گروپ تھا جہاں ایک طرف تو ایک ٹیچر کسی ضروری کام کی وجہ سے جا چکے تھے تو دو سرے میل ٹیچر کا حال یہ تھا کہ اگر وہ ریسو رس روم سے کو ئی سامان لا نے جاتے تھے تو 30منٹ سے پہلے واپس آنے کا نام نہ لیتے تھے اس کے بعد آکراس قدر بے دلی اور غیر نفاست سے کام کر تے کہ حمنیٰ کا اپنا سر پیٹ لینے کو دل چاہتا ۔بہر حال کام تو کسی نہ کسی طر ح کر نا ہی تھا اور آج کی تا ریخ میں ہی مکمل کر نا تھا ۔ لہذا جیسے تیسے کر کے وہ کام کر رہی تھی رفتار بھی تیزرکھی تھی اور کام کا معیا ر بھی بر قرار رکھنا تھا۔ یوں دونوں محا زوں پر لڑ تے ہو ئے وہ ما حول سے قدر بے نیا ز ہو گئی اور کام میں اتنا محو ہو گئی کہ اسے ٹا ئم کا اندازہ ہی نہ رہا ڈیڑ ھ بج چکے تھے ۔اُس نے نظر اٹھا کے دیکھا تو تمام ساتھی اسا تذہ اپنا کام مکمل کر کے جا چکی تھیں اور بیسمنٹ میں صرف وہ اکیلی رہ گئی تھی ۔پہلی دفعہ ایک خوف کا احساس اس کے ذہن میں اجا گر ہوا اس نے سو چا میں کوئی ٹین ایج لڑ کی تو نہیں جو گھبرا جا ؤں جو کام میرے ذمے سو نپا گیا ہے میں یقینا اسے پو را کر کے ہی جا ؤں گی چا ہے کچھ بھی ہو جائے۔ ادھو را کام چھوڑنا میری سر شت میں شامل نہیں ویسے بھی جن اس نے ٹیبل پر نظر دوڑائی تو تقریباً تمام پیپر ورک کلرنگ، کٹنگ اور پیسٹنگ مکمل تھی بس اس تمام سا ئنسی آرٹ ورک کو سوفٹ بو رڈ پر تھمب اور آل پنوں کی مدد سے منا سب جگہوں پر لگا دیتے تو اس کاکام مکمل ہو جاتا۔ بس آدھا گھنٹہ اور لگے گا ۔حمنیٰ نے اپنے دل کو تسلی دی بس آدھا گھنٹہ۔ اور یہ سر پتہ نہیں کہا ں چلے گئے ؟ حمنیٰ نے خود کلامی کے انداز میں کہا اور اسی لمحے لیبا رٹری کے دروازے کی طرف سے آتے قدموں کی جاب سنی تو باہر آئی سانس میں سا نس آئی کو ئی تو آیا سر آپ جلدی سے یہ آرٹ ورک سوفٹ بورڈ پر لگاتے جا ئیں میں آپ کو ایک ایک کر کے پکڑاتی ہوں اسے کام ختم کرنے کی بہت جلدی تھی۔ اُس نے ان کی آنکھوں میں لہراتی چمک محسوس نہ کی ۔میم آپ اسٹول پر چڑ ھ کر سوفٹ بورڈ ہینڈل کر یں میں آپ کو آرٹ ورک پکڑا تا ہوں میرا سوفٹ بورڈ بنانے کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے ۔سر نے کہا۔ پہلی دفعہ اس کے دل میں خوف کے سائے لہرائے یہ ایسا یوں کہہ رہے ہیں میں کیوں چڑھوں کر سی پر ۔یہ کام تو ویسے بھی آدمیوں کے کر نے کے ہو تے ہیں۔ میم کیا سوچ رہی ہیں مجھے بہت دور جا نا ہے جلد ی کر یں۔حمنیٰ نے دل مضبوط کیا کا م تو کر نا تھا ۔ اس کے دل نے دوبارہ منع کیا ۔اس نے کہا سر یہ کام آپ کر یں ۔ورنہ میں آفس بوائے کو بلوا کر کروا لوں گی۔ اچھا اچھا میں کر تا ہو ں۔ انہوں نے جواب دیا اب وہ آرٹ ورک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پکڑا کر انہیں سمجھا تی جا تی کہ وہ اسے یہاں یہاں آل پنوں کے ذریعے لگ جاتے جا ئیں۔ کئی دفعہ ُاسے محسوس ہو ا کہ وہ جان بوجھ کر کچھ ایسا کام کر رہے ہیں جس سے وہ بہت ان ایزی فیل کر رہی تھی ۔بس ایک ہی خواہش تھی دل میں کام جلد از جلد ختم ہو اور اس کی جان چھوٹے ۔کام کا آج ہی مکمل کر نا بہت ضروری تھا ۔وہ دل ہی دل میں خود کو تسلی دے رہی تھی کہ میں کو ئی ڈرپوک تو نہیں۔ میں ٹین ایجر تو نہیں ۔میرا میل اسا تذہ کے ساتھ کام کرنے کا یہ پہلا تجربہ تو نہیں وہ خود کو تسلی پہ تسلی دیے جا رہی تھی مگربہر حال اس کوسمجھ یہ آیا کہ عمر کے کسی بھی حصے میں بھی ہم اپنی عزت پر ذرا سی بھی آنچ نہیں آنے دیتے بہر حال ان استاد محترم جن کو اب استاد کہتے ہو ئے بھی اسے شرم آرہی تھی، نے کئی اپنے نا پسندیدہ جملوں اور رویوں،حر کتوں کا بر ملا اظہار کیا جو حمنیٰ کے لیے قطعی نا پسندیدہ تھے۔

بہر حال کام ختم ہو چکا تھا۔ حمنیٰ نے بیگ اٹھا یا ریسیپشن پر آکر سائن کئے اور گھر آگئی۔ اگلے دن اتوار تھا تمام دن اور اتوار کا دن عجیب کشمکش میں گزارا کہ کیا کروں ؟کس کو بتا ؤں ؟اس آدمی کی ذات کا جو پہلو میرے سامنے عیاں ہو گیا ہے وہ جا کر پر نسپل کے علم میں لا ؤں یا چپ رہوں بس اسی مقام پر چپ رہو کا مفہوم اس کی سمجھ میں آگیا ۔ہم صفِ نا زک اپنی عزت کو آ بگینے کی مانند سمجھتے ہو ئے صف کر خت کی طرف سے ورکنگ پلیس پر، پبلک ٹرانسپورٹ میں ،شا پنگ سینٹر پر، اسپتا لوں اور دیگر جگہوں پر کیے جا نے والے ان نا پسندیدہ رویوں کو نظر انداز کر تے ہو ئے چپ رہتے ہیں ۔جی ہاں چپ رہو ہما ری گھٹی میں ہو تا ہے اور ہم اپنی بیٹیوں کو بھی چپ رہو کی تر بیت دیتے ہیں نظر انداز کرو چپ رہو ہاں وہ بھی چپ رہی تھی اور شاید چپ ہی رہتی۔ اگر وہ اس دن اسٹاف روم میں بیٹھ کر اتفاق سے وہ منظر نہ دیکھتی۔حمنیٰ روز ہی فری پر یڈ میں اسٹاف روم میں بیٹھ کر پلا نر لکھا کر تی تھی۔ وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا اتفاقاً اس کی نظر اٹھی سامنے ہی آٹھو یں جما عت کا کمرہ تھا جہاں فزکس کے ایک سر بچیوں کو پڑ ھا رہے تھے۔آٹھویں جما عت کی بچیاں معصوم نو خیز کلیوں جیسی فرشتوں جیسی مسکراہٹ لیے دلوں میں تعلیم حا صل کر نے کی شمع جگائے پڑ ھا ئی میں مصروف تھیں۔وہ تمام بچیاں عمر کے ایسے حصے میں تھیں کی جب زندگی کی تلخ حقیقتیں سچا ئیاں اور تا ریکیاں ان سے کو سوں دور تھیں۔ مگرحمنیٰ کی نگا ہوں نے اس منظر کی سنگینی کو محسوس کیا فزکس کے وہ سر ایک بچی کو کھڑا کر کے کچھ پو چھ رہے تھے اور وہ بچی سر جھکا ئے کھڑی تھی یہ منظر عام سا ہوتا اگراسکی نگا ہوں کے سامنے ٔوہ واقعہ نہ گھوم جا تا جس کے اثرات سے وہ ابھی تک نہ نکل سکی تھی ۔اس منظر کی سنگینی یہ تھی کہ وہ سر نہ صرف بچی کے خطر ناک حد تک نزدیک کھڑے تھے اور وہ بچی سہمی ہو ئی سی محسوس ہو تی تھی۔ حمنیٰ اس منظر سے نظر ہٹا لیتی اور اسے معمول کا ایک استاد طالبہ کا پڑ ھائی کے مو ضوع پر مذا کرہ سمجھ کر ٹا ل دیتی اگر اُسے ان صا حب کا پس منظر اچھی طر ح معلوم نہ ہو تا۔

بس یہ وہ لمحہ تھا جب اُس نے اپنی خاموشی کو تو ڑنا منا سب سمجھا اور چپ رہو کے نظریے سے باہر نکل آئی۔ چپ رہو کے ٹرانس سے باہر نکلتے ہی اُس نے اپنی کو آرڈینیٹر سے پرنسپل صاحبہ سے ملنے کی اجا زت مانگی جوکسی وجہ سے نہ مل سکی تو اگلے ہی دن صبح صبح وہ پرنسپل صا حبہ کے آفس چلی گئی اور ان فزکس کے سر کا واقعہ ان کو بتا دیا۔ تمام واقعات سننے کے بعد وہ بو لیں میں نے ان کو کل آف ٹا ئم کے بعد فارغ کر دیا ہے۔ میرے علم میں یہ بات آئی اور میں نے فی الفور نوٹس لیا۔ اسکول کے اصولوں اور ضا بطوں کے بر خلاف فوری کا رروائی کی اور ان کو فا ئر کر دیا اور مجھے بہت خوشی ہے آج کل کی ہما ری نئی نسل اپنے والدین پر اتنا بھروسہ اور یقین کر تی ہے اس مذ کورہ بچی نے گھر جا کر یہ تفصیل اپنے والد کو بتائی اور والد صاحب نے فوراً پر نسپل کو فون کر کے اعتما دمیں لیا کہ اس سے پہلے کہ دوسری معصوم بچیاں ایسے کسی واقعے کا شکار ہوں ان حضرت کے خلا ف ایکشن لیاگیا جو کہ معلم کے پیشے پر بد نما داغ تھے ۔پندرہ سالہ بچی کا کانفیڈنس لیول دیکھیں اس نے فوراً اپنے والد کو بتا یا اور انہوں نے چپ رہنے کے بجا ئے فوراً پر نسپل سے بات کی۔ پرنسپل کی ہمت اور بہا دری دیکھیں کہ انہوں نے اصولوں اور ضابط سے قطع نظر معاملے کی انو سٹی گیشن کی اور ان سر کو فارغ کر دیا۔ چپ رہو والا نظریہ فرسودہ ثابت ہو گیا اور ہما ری نئی نسل جیت گئی۔ واقعی یہ بات سچ ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کی تربیت ان اصولوں پر کر نی ہو گی کہ وہ اپنے ساتھ روا رکھے جا نے والے رویوں کی بر ملا نشا ندہی کر سکیں اورچپ رہو والے فلسفے سے د ور رہیں ۔تعلیم ہمیں شعور اور اپنے حقو ق کے تحفظ کا ادراک دیتی ہے ۔

ہما رے ان ہی خا مو ش رویوں کی وجہ سے صنف کرخت نے ہر طر ح کی من مانی کو اپنا حق مان لیا ہے۔ آفرین ہے اس بچی کے والدین پر کہ جنہوں نے اپنی بچی اور اسکول پر حَرف آنے کی وجہ سے خاموش رہنے کے بجا ئے حق کا ساتھ دیا اور فی الفور کا رروائی کی تاکہ دوسری بچیاں ایسے کسی واقعہ سے محفوظ رہ سکیں۔لوگ اپنے انفرادی مفا دات کو بچا نے کے لیے اجتما عی مفا دات کو قربان کر دیتے ہیں اور یہی ہما را قومی المیہ ہے اور ہمارے ذوال کی وجہ بھی ہے۔

پرا نے زما نے کی خواتین چپ رہو کے اصول پر کار بند رہتی تھیں لیکن آج کی نسل پر اعتماد اور اپنے اوپر بھرو سہ کر نے والی ہے اور اگر ان کو ساتھ دینے والی پر نسپل اور والدین کا ساتھ ملے تو ان کو عملی زندگی میں کامیاب ہونے سے دنیا کی کو ئی طاقت روک نہیں سکتی ۔صنف ِ کرخت کی طرف سے روا رکھے جانے والے یہ رویہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے لیے ہم سب کو ہر سطح پر آواز اُٹھا نی چاہیے نئی نسل کو سپو رٹ کر کے انہیں اعتماد بخشنا چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں خدا سے دعا ہے کہ وہ ہما ری نئی نسل کو استقامت دے اور وہ ہمیشہ اسی طر ح سمجھداری اور فرض شنا سی کے ساتھ انفرادی مفادات پر اجتماعی مفا دات کو فوقیت دیتی رہیں اور اس کے لئے ہم سب صنف ِ نازک کو چپ رہو کے ٹرانس سے با ہر نکلناہو گا۔۔
 
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44743 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.