بہشت کا کھلا چیلنج

بس ایک مقصدہے کہ اپنے بابا کے مشن کی تکمیل کروں۔جو کہ میرے بابا میرے لیے اﷲ اور اس کے رسولؐ کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہیں اور جیسے جیسے ان کے فراق کے زخم دل میں سمندر کی موجوں کی طرح طغیانی برپا کرکے بڑھتے جاتے ہیں

ملک ریاض اور بابا جان

حقیقت یہ ہے کہ میں نے اک خواب میں اﷲ کے رسولؐ کی زیارت کی اور رسول اﷲؐ کے ساتھ آپؐ کی دو بیبیاں تھیں۔لیکن اُن کے نام معلوم نہیں اور وہ دونوں مجھے قرآن پاک کا ترجمہ سکھا رہی تھیں۔ایک بی بیؓ مجھے اردو میں اور ایک پشتو میں ترجمہ سکھا رہی تھی۔

میں خواب کی تعبیر کی کشمکش میں تھی کہ اس خوبصورت خواب کی تعبیر کون دے سکے گا۔اگلے ہی دن انڈین کے ایک چینل پر کوئی عالمِ دین خوابوں کی تعبیر بتا رہے تھے۔اچانک عالم نے اس خواب کی تعبیر شروع کی او کہا کہ اگر کسی نے ایسا خواب دیکھا ہے یا ایسا خواب آج رات کو دیکھے یا بعد میں دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اﷲ اُس بندے کی دین و دُنیا کی ہر مُراد پوری کرے گا۔آخرت میں بھی سرفراز کرے گا۔دُنیا میں ترقی کی بلندیوں کو چھوئے گا۔ ہر خواہش، ہراُمید اور ہر ارمان پورا ہوگا ۔ انشاء اﷲ
دَپلار دعا بره انسان خېژوی
زمکې نه ئې پورته په اسمان خېژوی
زه دَ بابا په دعاګانو رنګ یم
مابامراد په ھر مېدان خېژوی
درب عجیب مصلحتونه دی دا
د قدرت نخښې شان په شان خېژوی
کله ازمېښت کښې پاکیزه راولی
بیائې سرخرو په ھر مېدان خېژوی
کله ازمېښت کښې آزمائیش کړی شروع
شکر د ے خدایه چې ئې کامران خېژوی

میں حیران ہوں اب تک اس خواب پہ اور سب سے زیادہ حیران اس بات پہ کہ اچانک ٹی وی پہ کوئی عالمِ دین اسی خواب کی تعبیر بتا رہے تھے۔اسی چینل پہ اسی پروگرام یا چینل کا نمبر بھی تھا۔میں نے بہت کوشش کی لیکن وہ نمبر نہیں مل رہا تھا۔میں کال کرکے عالم سے خواب کی تعبیر کی تفصیل کے متعلق پوچھنا چاہ رہی تھی۔اب مجھے ان کا نام یاد نہیں۔ لیکن میرے خیال میں ان کے نام کے آخر میں بخاری آتا تھا۔ میں بہت کوشش میں ہوں کہ وہ عالم ڈھونڈ لو او ر ان سے اپنے خواب کے بارے میں تفصیل معلوم کرسکوں۔ان کا نام مکمل یاد نہیں۔اگر ان کی تصویر سامنے آجائیں تو ہوسکتا ہے کہ پہچان سکوں۔ کیونکہ میں نے ان کو غور سے دیکھا تھاجو کہ میں اپنے زندگی کے نشیب وفراز سے گزرہی ہوں اس لئے خواب کی خوبصورت تعبیر سُن کر بے حد خوشی ہوئی۔جو کہ میری زندگی میں سب سے بڑا غم جس کا تسلسل نہ ختم ہونے والا ہے اور نہ ختم ہو گا بلکہ صرف اور صرف خدا کے فضل وکرم سے اس غم کا عکس مجھ سے فنا ہوسکتا ہے۔وہ اس طرح ہوگا کہ ملک ریاض صاحب جنت کا چیلنج قبول کرکے مجھ سے اس عظیم الشان غم کا رُخ اپنی کراچی میں بننے والی دُنیا کی تیسری بڑی مسجد کی طرف پھیرلیں اور مجھے دُنیا میں رہنے کا جواز پیش کریں جو کہ اﷲ نے ان کے ہاتھ میں میرے اس غم کا مداوا رکھا ہے جو کہ اُن کے لئے اک کھلا چیلنج بھی ہے۔چونکہ میرے عظیم بابا شاکر اﷲ خان اب اس دُنیا میں نہیں ہے اور میں ان کے فراق میں بے حد بے چین ہوں جو کہ یہ غم مجھے ایک پل بھی چین نہیں دیتا ہے اسی لئے خواب میں بے چینی کے حل کا یہی اشارہ دیا گیا ہے کہ جناب ملک ریاض صاحب کی مسجد کا نام (مسجد شاکراﷲ خان) رکھا جائے تو آپ پر بابا کا فراق آسان ہوسکتا ہے جوکہ میں خدا کی دی ہوئی بشارت کے مطابق ان کو استدعا کرتی ہوں کہ اپنی مسجد کا نام مبارک میرے بابا کے مبارک نام پر رکھ کر اپنی عظمت کا ثبوت دے اور دوسرے جہان میں بھی اپنے آپ کو جنت کا حقدار ٹہرائیں۔ کیونکہ اﷲ نے دُنیا میں بیٹی کو رحمت سے تشبیہ دی ہے اور اپنی بیٹی سے محبت پر جنت کی بشارت دی ہے۔تو ایک بیٹی کی باپ کے محبت کا بدلہ چکانا اور وہ بھی ملک ریاض صاحب کے ہاتھ مبارک سے تو کیا اس میں کوئی شک ہوسکتا ہے؟ کہ اﷲ تعالیٰ اُن کو جنت کا حقدار نہیں ٹھرائیگا۔ کیونکہ کائنات کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے۔ اور اگر اﷲ میرا کام ان سے کروانا چاہتا ہے تو یہ اﷲ تعالیٰ کا اپنا کوئی راز ہوگا ورنہ ان کو رب نے جو مقام دیا ہے بے شک مجھے بھی اسی مقام پہ سرفراز کرسکتا ہے کہ میں اپنے بابا کے نام پر دُنیا کی خوبصورت ترین مسجد بنا سکوں۔

ساری کائنات کا رب وہ رب ذوالجلال ہے جو انکا کا رب بھی ہے اور میرا رب بھی۔لیکن اس میں اﷲ تعالیٰ کا کوئی راز ہوگا کہ وہ ملک ریاض صاحب کی مسجد کو بابا کے نام کرانے پہ ان کو جنت کی بشارت دیتا ہے اور میری اپنے بابا سے محبت کی تصدیق اس ذریعے سے کرکے دُنیا پہ واضح کرنا ہے کہ محبت موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی بلکہ بندے کا دیدار فنا ہوکر عاشق کو مزید محبت پر اُکساتا ہے۔ اور محبوب سے جو اپنے محبت کا اظہار بڑے سے بڑا چیلنج قبول کرکے کرتا ہے۔
وقف مې ژوندون کړلو بابا د خوشالو په نوم
ګلونه چې زرغون کړی دَ ھغو شنو پسرلو په نوم
تاماته ژوندون کښې دَ عظمت لارې ښودلی دی
زه به ھم ستا شان کړمه نمر دَ تجلو په نوم

جیسا کہ باباکے دُنیاسے رحلت فرمانے سے اب میری زندگی کا تو کوئی مقصد نہیں رہا ہے۔بس ایک مقصدہے کہ اپنے بابا کے مشن کی تکمیل کروں۔جو کہ میرے بابا میرے لیے اﷲ اور اس کے رسولؐ کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہیں اور جیسے جیسے ان کے فراق کے زخم دل میں سمندر کی موجوں کی طرح طغیانی برپا کرکے بڑھتے جاتے ہیں۔ اسی سے ہی محبت کے بخارات اُٹھ کر بادل کی شکل اختیار کرکے محبت کی بارش برس کر بابا کی محبت کی دُنیا سرسبز وشاداب ہوتی ہے۔

جب زمین پر رحمت کی بارش برستی ہے تو کیسے نہ ہوگا کہ وہ شاداب نہ ہوگی اور یہی میرے بابا کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کہ دنیا میں اُن کا نام رہ جائے اور ان کے فراق کا تسلسل تب کم ہوگا جب میں ان زخموں کو کسی ایسے قالب میں ڈھانپ لوں جس سے زخم کا کوئی آثار نظر نہ آئے اور وہ قالب صرف اور صرف ملک ریاض صاحب کی مبارک مسجد ہے۔جس کا نام میر ے بابا کے نام پہ رکھ کر میرے دل کے زخموں کو مندمل کرسکتے ہیں۔جو کہ اﷲ تعالیٰ نے خود ہی میرے دل کے زخموں کا معالج ان کو ہی بنایا ہے۔اب ان پر منحصر ہے کہ اﷲ نے جو ان کو میرے مرض کا معالج بنایا ہے تو وہ کس حد تک اپنے اس فرض کو نبھا نا چاہ رہے ہیں؟؟؟؟

مجھے اﷲ جل شانہ پر کامل یقین ہے کہ ملک ریاض صاحب اﷲ کی اس عظیم بشارت کو نہیں ٹھکرائے گے جو کہ ان کیلئے بہشت کا ایک کھلا چیلنج ہے میں نے اپنا فرض ادا کرکے اﷲ کی دی ہوی بشارت ان کو پاکیزہ یوسفزئی کی تحریر کی شکل میں پہنچایا جو کہ براہ راست جنت کی بشارت ہے۔ میرے خیال میں وہ جنت کے چیلنج کو نہیں ٹھکرائے گے اور اپنی مسجد کا نام میرے بابا کے نام پہ رکھ کر اپنے آپ کو جنت کا حقدار ثابت کرے گے جوکہ ملک ریاض صاحب دنیا کی دوسری بڑی خوش قسمت ہستی ثابت ہونگے۔ایک ہستی حضرت سلیمان علیہ السلام تھے جن کو اﷲ نے دنیا میں بھی بادشاہ بنایا اور دوسرے جہان کو بھی اﷲ نے دنیا میں انہی کی جھولی میں ڈال کر دیا تھا۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے ملک ریاض صاحب کو بھی دنیا میں بے تاج بادشاہ بنایا ہے اور جنت کی بشارت بھی دنیا میں ایک بیٹی کے خواب کی وساطت سے دے رہا ہے۔جو اپنے بابا کے فراق میں سرکرداں ہے۔جوکہ ان کے عظیم بابا شاکر اﷲ خان اور بیٹی مریم شاکر کی محبت یعقوب علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کی محبت کی مثال پیش کرتی ہے۔جیسا کہ اﷲ ملک ریاض صاحب کو سلیمان علیہ السلام کی طرح دوسری بڑی خوش قسمت ہستی کی بشارت دیتا ہے اس طرح مریم شاکر کی اپنے بابا سے محبت کی مثال یوسف علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام پہ دیتا ہے جو کہ یوسف علیہ السلام زندہ تھے اور یعقوب علیہ السلام ان کے فراق میں بینائی کھو گئے تھے پھر اس کا دیدار کرکے بینائی واپس آگئی لیکن مجھے معلوم ہے کہ میرے عظیم ومہربان بابا واپس نہیں آسکتے ہیں۔ تو اپنے فراق کے زخموں کو مندمل ہونے کیلئے اور امید نہیں۔بس یہ ایک امید کہ ملک ریاض صاحب کی مسجد کا نام میرے بابا کے نام ہوجائے۔ اور دنیا سے میرے عظیم بابا کے چلے جانے سے اب ان کا نام زندہ ہوکر میرے فراق کے زخم مندمل ہوسکتے ہیں۔ تا کہ جب میں دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بابا کے مسکن مبارک پہ حاضری دوں تو میرے ساتھ(مسجد شاکراﷲ خان) کی شکل میں ایک عظیم اور بے مثال تحفہ بھی ہو۔جو میں اپنے بابا کی جھولی میں ڈال کر ان کی بے پناہ محبت اور بے مثال تربیت کا فرض اُتارنے کی کوشش کروں۔جو کہ میرے عظیم بابا کا نام لفظوں میں بے حد خوبصورت جو ان کی مسجد کے حسن کو دوبالا کرکے مسجد کی تاثیر کو بے حد بڑھائے گا۔ اور معنی کے لحاظ سے بے حد بہتر جو کہ میرے بابا کے نام کا معنی ہے ’’اﷲ کا شکر ادا کرنے والا‘‘۔بے شک اﷲ شکر کرنے والوں کو بے حد پسند کرتا ہے۔

میرے بابا تو اﷲ تعالیٰ کے بہت فرمانبردار، شکرگذار بندہ اور مہربان ہستی تھے۔ جس نے زندگی کے ہر موڑ پر کامیابیاں حاصل کی تھی جو کہ زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور انسان کو آزمانے کیلئے رب اپنے بندے کو امتحانوں میں ڈالتا ہے۔ لیکن میر ے بابا ہر امتحان میں اﷲ کا شاکر بندہ ثابت ہوے تھے وہ کبھی بھی مایوس نہ ہوتے۔اوراس کام سے ملک ریاض صاحب بھی ثابت کریں گے کہ انہوں نے اﷲ کی نعمتوں کا شکر بہترین طریقے سے ادا کیا اور شکر گزاراور فر مان بر دار بندہ ثابت ہونگے ۔میرے عظیم بابا سوات مٹہ کے سرفہرست خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ پشت در پشت سرداروں کی اولاد تھے جو کہ یوسفزئی قبیلے کی ایک بڑی اہم شاخ اور سوات مٹہ کے معزز خاندان (شمع خیل) سے تعلق رکھتے تھے۔جن کے دادا پردادا سے لے کر اب تک ان کا خاندان علاقے کے سرفہرست خاندان مانا جاتا ہے جو کہ یہ خاندان 7گاؤں پر مشتمل ہے اور وہ خود اپنے خاندان اور علاقے کے بڑے خان اور معزز ہستی شمار ہوتے تھے جو کہ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اپنے ہی مال و جائیداد سے علاقے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی لئے ذاتی کردار کے حوالے سے بھی ایک معتبر،شریف، دوراندیش اور بارعب شخصیت مانے جاتے تھے۔

میرے عظیم بابا کا پورا نام شاکر اﷲ خان (شمع خیل) یوسفزئی تھا۔ ان کا یہ مبارک نام ان کے دادا محترم سردار نظر خان نے رکھا تھا۔ جوکہ میرے بابا کا شجرہ یہ ہے۔

سردار شاکراﷲ خان بن سردار کوٹو خان بن سردار نظر خان بن سردار بھا رام خان بن سردار سعید خان بن سردار قہار خان بن سردار امیر خان، ان کی والدہ صاحبہ تہمینہ بنت حبیب خان سوات مٹہ کے ایک معزز اور سرفہرست خاندان ماما خیل سے تعلق رکھتی تھی۔ اور دادی روحی بی بی صا حبہ بھی سوات مٹہ کے اور سرفہرست خاندان نظر خیل سے تعلق رکھتی تھی۔ اسی لیے میر ے بابا سوات مٹہ کے سرفہرست خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔

زیادہ ترتاریخ دان ہمیں ابراہیم علیہ السلام کی اولاد بتا تے ہیں۔ جو یعقوب علیہ السلام سے شجرہ منسوب ہے۔ جو اسرائیل سے افغان کے آس پاس کے علاقوں کو ہجرت کرکے پھر افغانستان میں بس گئے پھر الغ بیگ کے وقت میں یوسفزئی کے سر د اروں کا قتل عام ہواتو حالات کی رنجشوں کی وجہ سے ہمارے داداسر دار ملک احمد نے ہم کو سوات میں لاکر بسایا۔اس وقت سے لے کر اب تک سوات ہی ہمارا مسکن رہا ہے جوکہ ہمارے داداسردار ملک احمد کا ہم پہ احسان عظیم ہے۔ جو اس خوبصورت سرزمین کو ہمارا مسکن بنایا ہے۔
ښکلے د ے وطن او ھم روښان په مونږ
ستا نوم نه رونق د ے دابوستان په مونږ
ډېر په قبیله کښې نوموړ ے وے
ځکه نوموړ ے ددې شان په مونږ
سوات چې د مسکن راله جوړ کړ ے دے
کړ ے دې بې شانه د ے احسان په مونږ
ھم مونږه ښائسته یو ھم وطن ښائسته
ځکه ښائسته شو ے د ے جھان په مونږ
ھم زمونږ د شان نه د ے تاریخ ښائسته
ځکه ھم ښائسته شولو داستان په مونږ
مونږ د یوسفزیو ښائسته ګلونه یو
ځکه ھم ښائسته د ے ګلستان په مونږ
زړهٔ دَ پاکېزې دا ترانې وائی
نوم ملک احمد بابا دی ګران په مونږ

اگر تاریخ دانوں کی تاریخ صحیح ہے تو یہ ہمارے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ ہم ابراہیم علیہ السلام کی اولادمیں سے ہیں۔تاریخ دان یہ حوالہ بھی دیتے ہیں کہ پختونوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے۔اور پھر پختون آدم سے لے کر اب تک ایک حق ماننے والی قوم ہیں۔جو کہ میرے خیال میں حق پہ عمل نہ بھی کرتے ہو لیکن عقیدہ رکھتے ہیں۔اﷲ کو وحدہ لا شریک مانتے ہیں( پختونوں میں کچھ نااہل لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے خلاف خود بھی لکھتی ہوں دو آرٹیکل پر تو بہت واویلا مچ گیا تھا۔ لیکن ان پختونوں کے خلاف نہیں لکھتی۔ جو پختون ہوکر پختونیت کاکام کریں۔حالانکہ میں اُن پختونوں کے خلاف لکھتی ہوں جو پختون ہوکر بھی غیر پختونوں کا کام کریں۔قریش میں محمدؐ بھی تھے،حمزہؓ بھی،عباس ؓ بھی تھے۔ لیکن دوسری طرف ابوجہل تھا ابو لہب تھا۔اس لئے نااہل پختونوں کے خلاف آرٹیکل پر اعتراض کرنے والوں کو میرایہی پیغام ہے کہ میرے بابا بھی پختون تھے جن کی شخصیت کا اندازہ اس آرٹیکل سے لگانا آسان ہے کہ اُنہوں نے اپنے بیٹی کی کیسی تربیت کی ہے اور اس کو کتنی محبت دی ہے کہ آج میرا قلم بابا کا تذکرہ کرکے ایک لفظ لکھ کرا ور الفاظ کا سمندر موجزن ہوتا ہے اور جتنا بھی لکھو پیاس بجھتی نہیں لیکن آرٹیکل لمبا ہوجائیگا۔اس لئے مختصر جملوں پر انحصار کرتی ہوں جو کہ یہ ایک پختون قوم کیلئے زندہ مثال ہے جسکی گواہی اس کی بیٹی خود اپنے قلم سے دے رہی ہے)۔

آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک کا حوالہ میں نے خود اپنے نظریے پہ بتایا۔ اگر میری بات ٹھیک نہ ہو تو میں پہلے سے معافی مانگتی ہوں۔ لیکن تاریخ کے شواہد سے لکھنا میرا کام ہے باقی کام خدا کا ہے اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ اﷲ ہی سب علم رکھتا ہے۔اور آدم علیہ السلام سے لے کر پختونوں تک اس لئے بتا یا کہ طارق جمیل صاحب ٹی وی پرپروگرام روشنی کے سفر میں خطاب فرمارہے تھے اُن کا فرمان تھا کہ آدمؑ سے لے کر عبداﷲ تک محمدؐ کا شجرہ پاک رہا ہے کوئی کافر، مشرک یا کوئی بت پرست نہیں رہا ہے۔ کسی نے ناجائز کام نہیں کیا۔ تو اس بناء پر میں پختون قوم کا حوالہ دیتی ہوں کہ جب ہم ابراہیم علیہ السلام کے اولاد ہیں تو محمدؐ بھی ابراہیم ؑ کی اولاد تھے جو کہ اسماعیل ؑ کی نسل سے ہیں اور ہم اسحاقؑ کی اولاد ہے تو جب محمدؐ کا شجرہ آدمؑ سے لے کر عبداﷲ تک پاک ہے اور ابراہیم ؑ تک محمدؐ اور پختون کا شجرہ نسب تو ایک ہے۔اگر ہم بھی ابراہیم ؑ کے اولاد ہیں اور اگر ہمارے شجرہ نسب نے وقت کے ساتھ ہر پیغمبر کا ساتھ دیا ہے یعنی حق کا ساتھ دیا ہے جو کہ تاریخ دان ہمارے شجرے کا سلسلہ اسرائیل تک بتاتے ہیں اور اسرائیلؑ یعقوب ؑ کی اولاد ہیں۔یعقوب ؑ اسحاق ؑ کے بیٹے تھے اسحاق ؑ ابراہیم ؑ کے اور زیادہ تر پیغمبر اسرائیل میں آئے ہیں اور اب ہم اسلام کے داعی ہیں اور اگر یہ بات صحیح ہو کہ ہم نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے تو پھر میں اپنی بات دوبارہ دہراسکتی ہوں کہ میرے بابا کی نسل آدم ؑ سے لے کر اب تک حق کی داعی رہی ہے۔ اس بات کی وضاحت اس لئے کررہی ہوں کہ دنیا کی تیسری بڑی مسجد پر میرے بابا کا نام رکھنا اس کا حق بنتاہے جو آدم ؑ سے لے کر اب تک حق ماننے والی نسل سے ہیں اور خدا کرے کہ قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح رواں دواں ہو اور یہی دُعا میرے لبوں پر ہوتی ہے سدا کہ میرے اور میرے بابا کے خاندانوں اور قیامت تک ہماری نسلوں کے سلسلوں کو ہمیشہ عزت،راحت،چین،سکون،خوشی اور امن وامان کی زندگی دے۔سدا پاک، حلال،کشادہ رزق،پاک،میٹھی اور بے حساب پانی عطا فرمائے۔ہمیشہ اچھی صحت سے نوازے،ہدایت سے بارآور کرے اور شفاعتِ رسولؐ نصیب فرمائے۔اور ہمارے اباؤ اجداد کو بھی شفاعت دے۔امت رسول کی مغفرت فر مائے۔اﷲ تعالیٰ میری دُعا قبول فرمائیں۔آمین

جب مریم شاکر نے آرٹیکل کے ذریعے محترم ملک ریاض صاحب کو خواب سے آگاہ کرنے کا ارادہ کیا تو اسی رات ہی اپنے بابا کو پھر سے خواب میں دیکھا کہ میرے بابا زندہ ہیں اور جہاد میں مصروف ہیں اور یہ بات ملک ریاض صاحب کی جنت کی بشارت اور ان کی مسجد پر بابا کا نام رکھنے کے فیصلے کو تقویت بخشتی ہے اور اسی خواب کی بنا پر میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے مسجد پر بابا کے نام کی بشارت دے کر کھلا ثبوت دیا۔ کیونکہ ایک طرف میں نے اپنے بابا کو زندہ دیکھا ہے جو کہ مسجد پر نام رکھنے سے ان کا نام زندہ ہوگا۔

اوردوسری طرف جہادمیں مصروف ہیں اور جیساکہ دین میں جہاد افضل عبادت ہے اور خواب میں جہاد کی تعبیر یہ دی گئی ہے کہ بندہ فرمانِ الٰہی کی اطاعت کرے گا جوکہ میرے بابا ہر قدم پر رب کے فرمان کی اطاعت کرتے رہے اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ملک ریاض صاحب فرمان الٰہی کی اطاعت کرے گے اور اسی خواب نے میرے دل کی تاریکیوں کو روشنیوں کا پیغام دیا۔
میرے جیون کی تاریکیوں میں اُجالوں کا سماں
تیری عظمت کی روشنیوں کے ہیں انوار بابا

اسی خواب کی وجہ سے صبح مریم مسرور ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد غمگین بھی تھی۔اس لیے کہ خواب میں اپنے مہرباں بابا کو زندہ دیکھا تھا اور جب خواب سے بیدار ہوئی تو بابا نہیں تھے اس لئے فراق کے زخم پھر سے تازہ ہوکر وہ بہت بے چین تھی۔
’’میرے عظیم بابا‘‘
آپ مبارک تھے دل کا چین دل کا قرار بابا
آپ کے جانے سے جی ہواہے بے قرار بابا
آپ نے دنیا پہ بابا جنت کو ترجیح دیا
مجھے اکیلی چھوڑ کر خوب تھا تیرا پیار بابا
کبھی فراق کا زخم جی سے نہ مٹ جائے گا یہ
وصل کا کرونگی قیامت تک انتظار بابا
کبھی سکون نہ ملے گا تاقیامت تک بابا
غمِ فرقت نے کیا جینے سے بیزار بابا
کس طرح آپ کو میں بھول جاؤ تو بتاؤ بابا
تیری چاہت تھی میرے جینے کی بہار بابا
کس چیز سے اپنا دل بہلاؤ تو بتاؤ بابا
روح تڑپتی ہے تیری یادوں سے باربار بابا
کب میرے زندگی سے ہجر دور ہوجائے گایہ
کب میں کروں گی وصل تیرا و دیدار بابا
میری ہر بات منوانا تھا تیرا کام بابا
مجھ پہ آسان بناتے تو کام دشوار بابا

میری ہر بات ہی تو کرتاتھا تسلیم بابا
تو نے فیوچر کیلئے دیا تھا اختیار بابا
میرے جیون کی تاریکیوں میں اُجالوں کاسماں
تیری عظمت کی روشنیوں کے ہیں انوار بابا

(یہ غزل اور بابا کی تصویر2010ء میں بابا کی وفات کے کچھ دن بعد سوات کے مقامی اخبار ’’آزادی سوات‘‘ میں شائع ہوا تھا) تیسرے دن اس نے آرٹیکل لکھ کر دل کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کی۔ایک مولانا نے یہ بھی بتایا کہ ایک نیک بندہ کے نام رکھنے سے ملک ریاض صاحب کو بھی ثواب ملے گا۔ کیونکہ میر ے بابا زندگی میں ہر قدم جہاد سمجھ کر رکھتے وہ ہمیشہ شرک ترک کرنے کی تلقین کرتے اور خدا کے وحدہ لاشریک کی ترغیب دیتے تھے۔خدا کی مخلوق کی خدمت ہی ان کا مشن تھا ان کی گاؤں کی مسجد میں جو بھی بندہ امام مسجد ہوتا ان کا بے حد احترام کر تے تھے ۔گاؤں کی مسجد کو جو بھی مہمان آتے ۔تبلیغی جماعت آتی ،مسافر آتے تو کھاناان کے گھر سے دیاجاتا۔جب کبھی امام مسجد موجود نہ ہو تے جمعہ کے دن ممبر پر چڑھ کے خود وعظ دیتے۔میرے با با نماز پنجگانہ کے بہت پابند تھے ان پہ کوئی قضا نماز نہیں تھی چاشت اور اشراق کے نوافل پابندی سے ادا کر تے فجرادا کرنے کیلئے مسجد کو جاتے تو اشراق کے نوافل تک مسجد میں ہوتے اشراق کی نماز ادا کر نے کے بعد گھر آتے تھے۔روز ہی ایک پارہ تلاوت کیا کر تے تھے۔قرآ ن کا تر جمہ کیا تھا۔اُنہوں نے کراچی میں بھی بہت وقت گزارا تھا۔ وہاں وہ کامیاب بزنس چلارہے تھے۔بزنس کے ساتھ وہ لنگر بھی چلارہے تھے۔ان کے لنگر سے ہر غریب ،مزدور،ضرورت مند،مہمان ،رشتہ دارغرض ہر طبقے کے لوگ مستفید ہوتے۔وہ اپنے نوکروں سے بہت محبت سے پیش آتے تھے جو وہ خود کھاتے اُن کو کھلاتے اور جو خود پہنتے اُن کو پہناتے۔ جوکہ سادہ مزاج کے ساتھ ساتھ وہ عمدہ کھانے اور عمدہ لباس پہننے کے بے حد شوقین تھے۔جو کہ نوکروں کو بھی عمدہ کھانا کھلاتے،عمدہ لباس پہناتے۔کبھی بھی کسی غریب سے زیادتی نہیں کی۔اپنے علاقے میں جرگے ان کے ہاں کیے جاتے تھے۔

سماجی کام خدا کی رضا کیلئے کرتے۔کبھی رشوت نہیں لی ہمیشہ حق بات کہتے اور پسند فرماتے اور حق بات کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔سچائی آپ کا شیوہ تھا اس لئے صادق، امین،صلح پسند ان کے القاب تھے۔ہر غریب ہر رشتہ دار اور علاقے کے ہر فرد کے دل میں ان کا بے حد احترام تھا ۔اب بھی علاقے میں ان کا نا م بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔احتراماً لوگ ان کو (خان لالا) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

نوٹ:میں ملک ریاض صاحب کو آرٹیکل کی شکل میں اپنے دل کی بات پہنچانا چاہتی ہوں باقی کام خدا کا ہے۔خدا کو جو منظور ہوگا وہی ہوگا۔پھر ملک ریاض کاکام ہے کہ وہ میرے آرٹیکل کو غور سے پڑھے،سوچے اور مجھے اپنے ارادے سے مطلع کریں۔ورنہ میری ملک ریاض صاحب پر نہ کسی قسم کی زبردستی ہے اور نہ مرضی مسلط کرنا چاہتی ہوں اور نہ حق بنتا ہے۔وہ میرا فیصلہ قبول کریں یا نہ کریں ان کی مرضی ہے۔پھر بھی میں ان کا بے حد احترام کروں گی اور وہ میرے لئے ایک قابلِ احترام ہستی ہیں اور رہے گے۔کیو نکہ وہ ہیں ہی احترام کے قابل۔جو کہ اﷲ نے ان کو یہ استطاعت دی ہے کہ وہ دنیا میں تیسری بڑی مسجد بنائے تو ایسے بندے کا احترام ہر مسلمان پر لازم ہے۔کیونکہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کو اﷲ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے لیکن وہ ایسے کاموں پر پیسہ خرچ نہیں کرتے۔لیکن عیش وعشرت کی زندگی کو اپناتے ہیں لیکن دنیا میں بھی سکون سے خالی زندگی گذارتے ہیں اور اپنی آخرت بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔اگر محترم ملک ریاض صاحب نے میری استدعا منظور کرلی اور مسجد کو میرے بابا کا نام دیا تو میرے لئے ایسی نایاب خوشخبری ہوگی کہ اس مسرت کے متبادل دونوں جہانوں میں اور کوئی خوشخبری نہیں ہوسکتی۔ اور اس قابلِ احترام نوید سے اﷲ سے میری سب شکایتیں دور ہوجائے گی جو اﷲ سے بے شمار نعمتوں کے پانے کے باوجود میرے دل میں ہے اگر محترم ملک ریاض صاحب اس استدعا کو قبول نہیں کرتے تو مجھے ان سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہوگی۔لیکن اﷲ سے شکوہ ضرور کرونگی کہ جس ہستی نے ملک ریاض صاحب کو یہ استطاعت دی ہے کہ وہ دنیا کی تیسری بڑی مسجد بنائیں تو مجھے بھی دے سکتا ہے۔اگر اﷲ نے مجھے یہ استطاعت نہ دی کہ میں اپنے عظیم بابا شاکر اﷲ خان کے نام دنیا کی تیسری بڑی مسجد بنا سکو تو مجھے اﷲ جلہ شانہ سے گلہ ہوگا اور رہے گا اور اس وقت تک شکوہ برقرار رہے گا جب تک اﷲ مجھے یہ استطاعت نصیب نہ فرمائے۔
ا ﷲچې ستا په عدالت کښې ھم انصاف اونه شی
ددې جھان عدالتونو به ګله څه اوکړم

میرا اﷲ تعالیٰ پر کامل یقین و بھروسہ ہے کہ جس طرح اﷲ نے مجھے بابا کی بخشش کی خبر ان کے دفن مبارک سے پہلے دی تھی اسی طرح اﷲ تعالیٰ مجھے یہ استطاعت بھی دے گا۔ان شاء اﷲ۔ کیونکہ اﷲ کی عدالت انصاف پر مبرا ہے بے شک خدا کی عدالت میں دیر ہے اندھیر نہیں۔
اَسْتَغْفِرُاﷲ رَبِّ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہُ عَمَداً اَوْخَطَاًٗ سَرَّاً اَؤ عَلٰی نِیَۃٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنَ الْذَّنْبِ الَّذِیْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الذِّیْ لَاَاَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ وَسَتَّارُالْعُیُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلِّا بِااللّٰہِ الْعَلِِّی الْعَظِیْم ہ

کیونکہ میری اپنے رب سے یہی استدعا تھی کہ جب مجھے بابا کے دفن مبارک سے پہلے اُن کی بخشش کی بشارت دی جائے تو میں بابا کے فراق پر صبر کرنے کی کوشش کروں گی۔تو اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسی بیٹی کی آرزو قبول کی، جس کو اپنے بابا اپنے روح سے زیادہ عزیز تھے۔اور اسی رات پڑوس کی رشتہ دار خاتون کو خواب میں بابا کی بخشش کی بشارت دی گئی(اس کے بعد بھی بابا کی بخشش کی بشارت دیگر لوگوں کو خوابوں میں ہوئی ہے۔اور خود مجھے بھی، حتیٰ کہ ایک خاتون نے ایک خوبصورت مسجد بھی بابا کے نام پر خواب میں دیکھی تھی۔ لیکن پہلی رات کا خواب میرے لئے دونوں جہانوں کا سرمایہ ہے اور میں نے رب کو چیلنج کیا تھا کہ جب آپ نے بیٹی کی محبت پر بخشش کی بشارت دی ہے تو اب آپ اپنا وعدہ پورا کر ے اور میرے با با مبارک کو دفن مبارک سے پہلے بخشش سے نوازے کیونکہ میرے بابانے آپ کے فرمان کے مطابق اپنی بیٹی سے اتنی محبت کی کہ کائنات میں کوئی اور ہستی نہیں کرسکتی ہے۔اسی لئے خدا اور خدا کے رسولؐ کے بعد مجھ پر زندگی میں اپنے بابا کا بہت بڑا احسان ہے جس نے مجھے زندگی کے ہر پہلو کا تعین کرکے ایک باشعور بیٹی بنا کر دنیا کے ولولہ خیز امتحانوں سے ٹکراؤ کا سبق دیا ہے) جوکہ وہی رات بابا کے گھر پر تھی کیونکہ بابا کا روح مبارک عشاء کے بعد جنت کو پرواز کرگیا تھا۔
انَّالِلّٰہِ وَ انَّا اَلَیْہِ رَاجِعُوْن ہ

اور اُن کا جنازہ مبارک ظہر کے بعد ادا کرنا تھا۔تو ساری رات بابا کا دیدار کرکے فراق کے زخموں سے کھیلتی رہی لیکن بخشش کی بشارت سُن کر خوشی کی انتہا نہ رہی اور فراق کے زخموں کو خود ہی مندمل ہونے کی تلقین کرتی رہی۔ لیکن اس کے باوجود اب تک فراق کے زخموں سے دل چورچور اور چھلنی ہے۔اور ان زخموں پر صرف اور صرف ایک دوا بار آور ہوسکتی ہے۔کہ ملک ریاض صاحب کی مسجد کا نام مسجد ’’شاکر اﷲ خان‘‘ رکھا جائے باقی خدا کی مرضی اور ملک ریاض صاحب کی مرضی۔

یہ بڑی پُر مسرت بات ہے کہ دُنیا کی تیسری بڑی مسجد بن رہی ہے اور وہ بھی پاکستان کی سرزمین پر پھر اس مقدس مسجد کی تعمیر کا سہرا ایک محب وطن پاکستانی کے سر جاتا ہے۔جب کہ ایک پاکستانی بیٹی اپنے بابا کا نام پیش کرکے خدا کی دی ہوئی بشارت پہنچاتی ہے۔جو کہ مدینہ کے بعد پاکستان ایسا وطن ہے جو کلمہ کے نام پر بنا ہے۔تو جو پہلی مسجد مکہ معظمہ میں تعمیر کی گئی جو کہ بیت اﷲ کے نام سے دنیا بھر میں یاد کی جاتی ہے دوسری مدینہ منورہ میں جو مسجد نبویؐ کے نام سے مشہور ہے اور جو مدینہ کے بعد پاکستان ہی ایساملک ہے جو کلمہ کے نام پر وجود میں آیا ہے۔ تو تیسری مسجد پر پاکستان کا حق بنتا ہے۔ جب کہ پاکستانی کو اﷲ تعالیٰ نے یہ استطاعت دی ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر دنیا کی تیسری بڑی مسجد تعمیر کرسکیں۔ میں ملک ریاض صاحب کو ان کے رب ،اپنے رب اور ساری کائنات کے رب کی یہ بشارت و نوید دے رہی ہوں کہ دنیا کی تیسری بڑی مسجد کا نام عظیم بندۂِ خدا ’’شاکراﷲ خان‘‘ رکھ کر اپنے رب کی (بشارت میں چھپے ہوئے) فرمان کی اطاعت کریں تا کہ ان کا رب ان سے راضی ہوکر ان کو اور مزید اچھے اور بڑے کاموں کی استطاعت دیں۔ آمین

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میں شاکراﷲ خان کی بیٹی ہو کر اس بات کا زور لگا رہی ہوں کہ خواہ مخواہ میرے بابا کا نام مسجد کو دیا جائے اگر یہ بشارت مجھے کسی دوسرے بندے کے نام کی دی جاتی توبھی میں اپنا فرض ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرتی۔اور سوفیصد کوشش کرتی کہ یہ پیغام متعلقہ شخص کو پہنچ جائے۔میں یہ ضد بھی نہیں کررہی ہوں کہ فیصلہ میرے حق میں ہو کہ نہ ہولیکن میرے حق میں کیا جائے۔لیکن محترم ملک ریاض صاحب خود سوچ سمجھ کر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرلیں
تقدیر کو گر ڈال دے تدبیر کے سانچے میں
تدبیر بھی یہی نعرہ صبح و شام دے گا

اگر اﷲ کو منظور ہوا تو فیصلہ ضرور میرے حق میں ہوجائے گا۔جیسا کہ مصر کی تخت نشینی کے اہل حضرت یوسف ؑ تھے جو کہ براہ راست پیغمبروں کی اولاد اور پیغمبر تھے جو ایک شایان شان پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ کے پڑپوتے،پیغمبر اسحاق ؑ کے پوتے اور پیغمبر یعقوب ؑ کے بیٹے تھے اور خود ہی پیغمبر اور سرداروں کی اولاد تھے۔تو خود ہی عزیز مصر تخت سے دستبردار ہوکر یوسف ؑ کو تخت نشین کرایا۔جو کہ خدا کی یہی مرضی تھی تو ہوگیا چونکہ اس سے پہلے یوسف ؑ جیل میں تھے اور عزیز مصر کے خریدے ہوے غلام تھے جو کہ خدانے جس بندے کو عزت دینا ہوتی ہے وہ کوئی روک نہیں سکتا اور اﷲ جو عزت کے قابل سمجھتا ہے ان کو خود بخود عزت سے نوازتا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: اﷲ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتاہے ۔ بیشک اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ بہت سخت امتحانوں سے گزر کر تخت شاہی پر بیٹھے۔جو کہ وہ سرداروں کی اولاد ہوکر تخت نشینی کے اہل تھے۔ شکریہ۔

اپنی مسجد کو جو میرے بابا کا نام دے گا
اُن کو بھی رب آسمان میں اک مقام دے گا

نامۂ گُلِ نایاب سے چمن ہوگا پُرتاثیر
واﷲ یہ نامہ، سب سے بڑھ کر کام دے گا

رکھ لے مسجد کو نامہ، شاکر اﷲ خان
حسین و افضل نامہ، خوب انجام دے گا

اقوام تیرے فیصلے کی کرینگے تائید
قیامت تک یہ ثبوت ہر ایک قام دے گا

رب کی منشاء بھی ہے فیصلے کی منتظر
ملک ریاض کب یہ نعرہ سرِ عام دے گا

تقدیر کو گر ڈال دے تدبیر کے سانچے میں
تدبیر بھی یہی نعرہ صبح شام دے گا

تو سُن لے جناب اک یتیم کی آرزوں
رب بھی میرے واسطے اہم پیغام دے گا

مسرور ہوگا دلِ مریم روحِ بابا بھی
تم کو بھی فیصلہ یہ احترام دے گا
فقط
مریم شاکر’’ شمع خیل‘‘ (یوسفزئی) تحریک پاکیزہ یوسفزئی

دَ پلار دُعا
دَ پلار دعا بره انسان خېژوی
زمکې نه ئې پورته په آسمان خېژوی
زهٔ دَ بابا په دعاګانو رنګ یم
ما بامُراد په ھر مېدان خېژوی
دَ رب عجیب مصلحتونه دی دا
دَ قدرت نخښې شان په شان خېژوی
په چا ازمېښت کښې ازمائش راولی
څوک ازمائش باندې کامران خېژوی
چاته انجام د ګناھونو ورکړی
څوک فتحیاب په امتحان خېژوی
کله ماښام په چا سبا کړی مدام
څوک دَ خپل نیت په ګوریستان خېژوی
څوک دَ زوال په سلسلو کړی ورګډ
څوک ښه کامیاب په ھربحران خېژوی
کله تقدیر په صحراګانو سر کړی
بیا روزمره ئې په بیابان خېژوی
کله چمن کښې پسرلی راولی
ښایسته ښایسته په کښې ګلان خېژوی
کله آدم دَ ھر انسان کړی بابا
کله حوا مور عظیم الشان خېژوی
کله کړی نور دَ ابراھیمؑ په برخه
فرزندِ نوحؑ کله کنعان خېژوی
یا اسماعیلؑ په ځائې دُنبه شی حلال
کله عیسٰی اوچت په امان خېژوی
کله یعقوبؑ چې دَ کلونو ژاړی
یوسفؑ په مصر کښې سلطان خېژوی
کله فرعون کره موسیٰ لویه وی
دا پېش ګوۍ په دغه شان خېژوی
چې پېغمبر شی پېغمبر نه پېدا
ھغه بادشاه بیا سلېمانؑ خېژوی
کله اخلاص دَ خپل خلیل ته ګوری
آتش کده په ګلستان خېژوی
کله نمرود چې په یو ماشی وژنی
دغه ذلت ئې نمایاں خېژوی
کله شیداد نه معطل کړی جنت
د وحدانیت دغه نشان خېژوی
کله فرعون په سمندر کښې غرق کړی
دعوه د رب صرف د رحمان خېژوی
څوک کړی عیسیٰ ابنِ مریم پېغمبر
دے معجزې دے ترجمان خېژوی
څوک کړی یتیم دَ پېدائش نه مخکښې
بیا ئې پېغمبر شایانِِ شان خېژوی
کله مکه کښې محمدﷺ کړی زېږون
بیا ئې نبی آخر زمان خېژوی
کله مکې نه په ھجرت راووځی
کله علم دَ پاک سبحان خېژوی
کله تیرې دَ کفر تکې تورې
کله رڼا دَ دین روښان خېژوی
کله عمر کله صدیق کړی پېدا
دواړه دَ وخت خلیفه ګان خېژوی
څوک دَ علی په مرتبه فائز کړی
څوک ذوالنورین لکه عثمان خېژوی
کله کړی کار د ابوجھل تمام
معاذ معوذ دواڼه غازیان خېژوی
یا خاتمه کړی په وبا دَ لھب
دا پېش ګوئی اے دَ قرآن خېژوی
په چا دَ دین غلبه کوی په کفر
بیا ئې سېف ا ﷲ دَ دین پاسبان خېژوی
کله یزید په یزیدیت کړی حساب
حسن حسین څوک سرداران خېژوی
ابلیس کوو چې په صدیو عبادت
ګورئی قدرت ته چې ئې شېطان خېژوی
څوک په نصیب موردَ کنعان جوړه کړی
څوک حاجره خه پُر ایمان خېژوی
څوک کړی د لوط په کور کښې ھم بې علم
څوک آسیه چې دَ دین شان خېژوی
څوک په کردار اُمِّ جمیل جوړه کړی
څوک خدېجهؓ اولُاایمان خېژوی
څوک عائشهؓ کړی دَ رسول ﷺ ترجمان
مور دَ اُ مّت ئې خه شایان خېژوی
څوک دَ حسنؓ په کور کښې خور دَ یزید
څوک حبیبه لور دَ سفیان خېژوی
کله دُنیا کښې ھر خواھش کړی پوره
کله خواھش ھر یو ارمان خېژوی
کله حسرت کړی دَ بابا دَ دیدن
یا خان لالا نوم درخشان خېژوی
کله فراق شی پرھرونه تازه
کله پرې زېر ے دَ ایمان خېژوی
کله تکمیل دَ مشن زړهٔ کړی خوشال
کله یادونه په ھجران خېژوی
په چا تمام کړی ھر مقام دَ مینې
رب خپل حکمت دا په جھان خېژوی
کله یوسفؑ اؤ دَ یعقوبؑ دَ مینې
مثال په مونږه ښهٔ عیان خېژوی
په دې حکمت به څه منشاء وی دَ رب
چې خپل بابا مې دِل و جان خېژوی
کله ازمېښت کښې پاکیزه راولی
بیا ئې سرخرو په ھر مېدان خېژوی
کله ازمېښت کښې آزمائش کړی شروع
شکر د ے خدایه چې ئې کامران خېژوی
شکر دے خدایه چې ئې کامران خېژوی
شکر دے خدایه چې ئې کامران خېژوی
شکر دے خدایه چې ئې کامران خېژوی
شکر دے خدایه چې ئې کامران خېژوی


لیک:
پاکیزه یوسفزئی مټه
ضلع سوات پښتونخوا

نوٹ: اگر آرٹیکل میں کسی قسم کی غلطی ہو یا کسی کو ناگوار گزرے تو معافی کی طلب گار ہوں۔

اگر کسی کوآرٹیکل میں ہسٹری یا کسی جملے پہ اعتراض ہویا وضاحت چا ہتا ہوتو اسی نمبر پر رابطہ کر کے اپنی شکایت دور کر سکتا ہےہے0971197-0346 لیکن اگر کسی غلط بندے نے بغیر کسی کام کے کال کی تو ان کا نمبر اسی وقت نادرہ، انٹیلیجنس اور آرمی کو دیا جائے گا۔
Pakiza Yousuf Zai
About the Author: Pakiza Yousuf Zai Read More Articles by Pakiza Yousuf Zai: 21 Articles with 46145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.