نمائندہ اجلاس امت

بسم ا ﷲ الرحمن ا لرحیم

دہلی میں منعقدہ دو روزہ نمائندہ اجلاس امت اپنی نوعیت کا پہلا ،اوربھا رت میں رہنے والی امت مسلمہ کا نمائندہ اجلاس تھا جس کی کامیابی داعیان اجلاس کے خلوص کا ثبوت ہے ۔اجلاس کا مقصد موجودہ شدید حالات میں جو مسلم دشمنی سے آگے بڑھ کر اسلام دشمنی تک پہنچ چکے ہیں بھارتی امت مسلمہ کو ترجیحات کے تعین کے ساتھ ایک نقشہ راہ Road Mapفراہم کرنا تھا جس پر چل کر دین اور دنیا دونوں کی فلاح و صلاح حاصل کی جا سکے ۔ جس طرح داعیان اجلاس ،کم و بیش ،ہر مسلک اور ہر مکتب فکر کے نمائندہ تھے اسی طرح شرکائے اجلاس میں بھی بھارت کے ہر خطے ،مسلمانوں کے ہر طبقے اور ہر مسلک کی نمائندگی کا لحاظ رکھا گیا تھا ۔

اختلاف رائے انسانی فطرت کا خاصہ ہے لہذا اسلام جہاں آزادی فکر کا حامل ہے اور اختلاف رائے کا حق دیتا ہے وہیں اختلاف کے آداب اور حدود بھی متعین کرتا ہے تاکہ معاشرے میں انارکی نہ پھیلنے پائے ۔دہلی کے نمائندہ اجلاس امت میں آزادی رائے، ا ختلاف رائے ، آداب اختلاف کی پاسداری اور ایک مشترک لائحہ عمل Common Minimum Programmeپر اتفاق کی پرخلوص اسپرٹ شروع سے آخر تک نمایاں اور حاوی رہی ۔ شرکا ے اجلاس نے حیرت انگیز خوشی کے ساتھ یہ بات محسوس کی کہ منافقین کی مداخلت سے پروگرام محفوظ رہا جو بلا شبہ داعیان اجلاس کے خلوص اور تائید غیبی کا مظہر ہے۔

اجلاس کا MOTTO اعتصام با اﷲ کے ساتھ افتراق سے دور رہنے کا قرآنی حکم( ) اور یہ قول رسول ﷺتھا کہ جو امور مسلمین سے باخبر رہنے کی کوشش اوراسے ٹھیک کرنے کی فکر نہ کرے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے ۔(رواہ طبرانی) اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بر سر اقتدار طبقہ ،ایک محترم داعی جلسہ کے لفظوں میں ، طاقت کے نشے میں چور ہے ۔ ارباب سیاست چاہتے ہیں کہ ہمارا اپنا اجتماعی وجود قائم نہ رہے ۔ کچھ با صلاحیت مسلمان بے نتیجہ سیاسی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں اور بس۔ صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ تقسیم وطن سے لے کر آج تک ملک کی دوسری بڑی آبادی پر مشتمل مسلمانوں کی حصہ داری اکثریت کے دعویداروں کو نہ پہلے تسلیم تھی نہ آج قبول ہے ۔ جب تک دیانت داری کے ساتھ ا س سچ کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ،مسلمانوں کو انصاف نہیں مل سکے گا ۔ لفظوں کے الٹ پھیر سے تقدیریں نہیں بدلا کرتیں ۔ ہمیں تو فطرت کے اس انقلابی اصول پر عمل کرنا ہوگا کہ
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے !

ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کہ آخر کس چیز نے ہمیں اس مؤمنانہ فراست سے محروم کر دیا کہ جس کے حوالے سے ہمیں آگاہ کیا گیا تھا کہ مؤمن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاسکتا (قول رسول ﷺ)مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ایک ہی سوراخ سے سو سو بار ڈسے جاتے ہیں ۔آج ہم مسلسل پسپائی کی حالت میں پہنچ چکے ہیں ۔ آخر ایک ہزار سالہ پیش قدمی مسلسل پسپائی میں کیوں اور کس طرح بدل گئی ؟ اسی نازک سوال کا کوئی معقول اور واضح جواب ہمیں بہر قیمت اور وقت رہے ،تلاش کر لینا ہے ۔ مسلم کش فسادات کے ذریعے بلکہ اٹالی اور بسہڑا کے یکطرفہ مسلم کش کاروائیوں کے ذریعے ۔۔اسلام مکت بھارت۔۔کا تصور غیر مسلموں کے ذہنوں میں پروسا جا رہا ہے ۔ دن بدن مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وزن بنانے کے نصب ا لعین پر تمام ارباب سیا ست متفق ہیں ۔ ایسے میں ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ۔۔باہم متحد ہوں ،اور در پیش مسائل اور چیلنجز کا سنجیدہ اور گہرا تجزیہ کریں ۔ اس کے عواقب و نتائج سے ملت کے صائب ا لرائے افراد Opinion Makers کو با خبر کریں ۔باہم تعاون اور اشتراک و عمل کی فضا کو پروان چڑھانے کی تدبیریں اختیار کریں ۔ تاکہ امت ایک دینی وقار کے ساتھ ملک میں جی سکے اور اپنی عظمت رفتہ کی بازیافت کی سمت پیش رفت کر سکے ۔ ۔!

اور الحمد ﷲ اس دوروزہ نمائندہ اجلاس امت کے اختتام پرمکمل اتفاق رائے کے ساتھ طے پایا کہ ۔۔موجودہ حالات میں پورے ایمانی حوصلے کے ساتھ دین پر استقامت اختیار کی جائے ۔ بھارت کے تمام مسلمان حالات کا صبر و ہمت کے ساتھ مقابلہ کریں اور کسی بھی قیمت پر مشرکانہ رسوم مثلاً یوگا ،سوریہ نمسکار ،اور وندے ماترم وغیرہ کو قبول نہ کریں اور ملک کے تمام محروم و مظلوم طبقات کے درمیا ن باہمی تال میل پیدا کر کے ہر طرح کے ظلم اور استحصال کے خلاف مشترکہ مہم چلانے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔دعوت دین اور اصلاح امت کے امور میں ایک دوسرے سے باہم تعاون کریں اور نظام تزکیہ و تربیت کے اداروں سے استفادہ اور تعاون کے ذریعے اس نظام کو مضبوط کریں ۔ جماعتوں تنظیموں اور اداروں اور تمام مسلکی دائروں سے اوپر اٹھ کر ایمانی قوت اور امتی فکر کا مظاہرہ کریں ۔ اور مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارموں با لخصوص مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ تعاون و اشتراک کا رویہ اختیار کریں ۔ نمائندہ اجلاس امت کے اس اجلاس نے با لا تفا ق طے کیا کہ اگر مشرکانہ رسوم مثلاً یوگا ،سوریہ نمسکار اور وندے ماترم وغیرہ کو مسلمانوں پر با لجبر تھوپنے کی کوشش کی گئی تو مسلمان من حیث ا لا مت اسے انشا اﷲ ہر گز قبول نہیں کریں گے اور اس کے خلاف تحریک چلائیں گے ۔ (ختم)
Aalim Naqvi
About the Author: Aalim Naqvi Read More Articles by Aalim Naqvi: 4 Articles with 4616 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.