پولیس کلچر میں تبدیلی کا اغاز

کسی بھی ملک کی ترقی کا باعث اور جرائم کی شرح میں کمی اس ملک کے شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔اگر اس وقت ہم ترقی یافتہ ممالک کے جرائم کا تقابلی جائزہ لیں تو ترقی یافتہ ممالک میں جرائم کی شرح فیصد ہمارے ترقی پذیر ممالک سے قدرے کم ہے جس کی بنیادی وجہ تعلیم اور بہترین تربیت ہے ۔ان ممالک کے شہریوں نے خود کو مہذب بنانے کی ہمہ قسم کوشش کی ہوئی ہے اور قانون کی پاسداری پر یقین ہی ان ممالک کی ترقی کی مظہر ہے ،آجسعودی عرب ، برطانیہ،امریکہ،فرانس،روس،چین اور متحدہ عرب امارات میں معاشی ترقی ،جرائم کی کمی یہ سب قانون کی پابندی کے باعث ہیں ان ممالک کے شہری قانون کی پاسداری اور بجآوری پر مکمل یقین رکھتے ہیں ۔لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوا ہے اس کی وجہ عدالتی نظام اور پولیس نظام ہی بہترین مثالیں ہیں جن کی بدولت یہ سب ممکن ہوا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کا جدید نظام اور ملازمین کو ہر قسم کی بنیادی سہولیات میسر ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دور جدید کی تمام ٹیکنالوجی میسر ہے ۔ان ممالک میں ان ان سہولیات کی بدولت شہریوں کے لئے انصاف کا حصول آسان بنادیا گیا ہے جس سے ہر مہذب شہری مطمئن ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں اپنے آپ کو مہذب طریقے سے بروئے کار لاتا ہے ۔جبکہ اس کے برعکس وطن عزیز کی صورت حال ہے ۔ہمارے پاس ایک مکمل اسلامی نظام میسر ہوتے ہوئے بھی ہم اپنا نظام بہتر نہیں کرسکے۔پولیس کی ابتدا ء سیدنا عمرؓ کے دور خلافت میں ہوئی تھی ۔یہ دور دنیا کی تاریخ کا عدل وانصاف کے حوالے سے مشہور دور گزرا ۔پولیس کے محکمہ کی ابتدا کے بعد خلافت راشدہ کے آنے والے ادوار میں سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ نے اپنے اپنے وقت میں اس محکمے کو جدید اور منظم بنانے کے لئے کافی تبدیلیاں بھی کیں۔لیکن افسوس ایک اسلامی مملکت میں آج ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کرپشن ِجھوٹ کی اس دلدل میں پہنچ چکے ہیں کہ اپنی تاریخ سے کچھ حاصل ہی نہیں کرنا چاہ رہے۔پاکستان کو بنے پینسٹھ سال سے زائد عرصہ میں محکمہ پولیس کو بطور سیاسی غلام بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اگر کبھی بعض اوقات ایسے ایماندار افسران یا اصلاح کرنے والے کچھ لوگ ٓئے بھی لیکن ان کے اصلاحی نظام پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی بس وقت کے ساتھ ہی پھر وہی راگ جمہوریت دہرایا گیا۔

اس وقت وطن عزیز میں سب سے زیادہ مقبول پولیس پنجاب پولیس ہے ۔جس کے ہر قسم کے ریکارڈ دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔پنجاب پولیس کا ہر سپاہی کبھی کبھی خود کو علاقے کا مجسٹریٹ سمجھتا ہے جس کی بنیادی وجہ پولیس میں سیاسی وڈیروں کا کردار ہے۔خیر اب حکومت پنجاب ، پولیس محکمہ میں تبدیلی کے لئے کچھ توانائی برائے کار لارہی ہے۔پچھلے دنوں حکومت پنجاب کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب پولیس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے تین سالہ منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کردیا گیا ہے اور اس کا اغاز اب لاہور سے شروع ہوچکا ہے۔لاہور کے کچھ تھانوں میں ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم شروع ہوچکا ہے۔ اس رپورٹ کے تحت اس وقت پولیس کلچر میں تبدیلی کا اغاز لاہور سے ہوچکا ہے اور امید کافی ہے کہ بہت جلد اس کا دائرہ کار پورے پنجاب تک پھیل جائے گا۔اب لاہور کے شہری اپنی شکایت ایس ایم ایس کے ذریعے کراسکتے ہیں ۔یہ ایس ایم ایس 8330 پر اپنی شکایت لکھ کر بھیجا جاسکتا ہے جس کے بعد افسران خود درخواست گزار سے رابطہ کریں گے۔او پی ایس روم میں 15میں تمام موصول ہونے والی کالز کو مکمل طور پر مانیٹر کیا جاتا ہے اور اسے متعلقہ ایمرجنسی پر پولیس کو بھیجا جاتا ہے۔اس وقت پولیس کاروائی کو مانیٹر کرنے کے لئے او پی ایس روم کو اپ گریڈ کر کے ماڈل ٹاون اور لوئر مال لاہور کے تھانوں میں نافذ کردیا گیا ہے۔اس کے علاوہ(UAN#905.906.111)اور کمپلینٹ منیجمنٹ سسٹم کے تحت کالرز کا ریکارڈ محفوظ کیا جارہا ہے ۔ابتدائی طور پر اس سے لاہور کے شہری بھرپور استفادہ حاصل کرسکیں گے لیکن یہ2016 کے وسط تک اس کا دائرہ کار پورے پنجاب تک پہنچانے کے لئے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ پولیس کا سابقہ روایتی نظام بالکل بری طرح ناکام ہوچکا ہے ۔پولیس کی انتظامی،تفتیشی اورآپریشنل صلاحیتوں کو بڑھانے اور ان میں اصلاحات کرنے کے لئے تین سال کے عرصے میں تبدیلی ممکن ہوگی ۔رپورٹ میں موجودہ وردی کی تبدیلی کا بھی اشارہ دیا گیا ہے تاکہ عوام کے سامنے پولیس کا گرنے والا گراف اونچا ہوسکے۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محکمانہ غفلت رکھنے والے پولیس افسران سمیت وہ تمام ملازمین جو ۰۲ سال سے زائد سروس کرچکے ہیں اور ان کا ریکارڈ کچھ بہتر نہیں ہے تو انہیں ملازمت سے فارغ کردیا جائیگا۔محکمے کو ناہل اور کرپٹ عناصر سے صاف کرنے کے لئے سول سروس ایکٹ1974کی دفعہ 12 کو بحال کیا جارہا ہے۔تھانوں میں محرر المعروفــــ منشی کی آسامی کو ختم کرکے ریکارڈ منیجمنٹ کا الگ شعبہ قائم کیے جانے کی تبدیلی متوقع ہے جس سے عام آدمی کی شکایت ایک ریکارڈ کی صورت میں موجود رہے گی اور اس کی شکایت اعلیٰ افسران تک باآسانی پہنچائی جاسکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق آئی جی آفس میں خودکار مانیٹرنگ سسٹم کے تحت تمام تھانوں کی مانیٹرنگ کی جائے گی۔اس سلسلے میں100سے زائد اسٹیشن آفیسز بھرتی کیئے جارہے ہیں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مہارت رکھتے ہونگے۔اس کے علاوہ پولیس میں انسداد دہشت گردی کیلئے1500سے زائد گریجویٹ اہلکار بھرتی کئے جائیں گے جبکہ500 اہلکار بھرتی کئے جاچکے ہیں۔تمام چیک پوسٹز اور پولیس اسٹیشنز کو سمارٹ فون دئے جائیں گے جن میں اینڈرائڈ کی لیٹسٹ ٹیکنالوجی ایپلیکشن کا استعمال کیا جائے گا بلکہ کچھ اسٹیشنز کو سمارٹ موبائل فون دئے جاچکے ہیں ۔اس کے علاوہ معمولی اورخاندانی تنازعات کو حل کرنے کے لئے مصالحت کے ادارے کو قانونی شکل دئے جانے کا امکان ہے جس کے لئے پولیس آرڈرز اور پولیس رولز میں بھی تبدیلی متوقع ہے۔

اس وقت سب سے زیادہ جرائم کی شرح دیہاتی علاقوں میں ہے جہاں پر تعلیم کی کمی اور غربت اور بیروزگاری زیادہ ہے۔بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ جو قلیل تعداد میں ہے وہ بھی بیروزگاری کی وجہ سے ایسے غلط راستوں کا انتخاب کرلیتا ہے جو انہیں سنگین اور گھناونے جرائم میں لے کر جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم وجہ تھانوں پر ٹاوٹس ،جاگیردار ،سیاسی وڈیرے اپنا اثر رسوخ قائم کئے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے پولیس بلیک میل ہوکر رہ گئی ہے حالانکہ یہی وڈیرے جرائم پیشہ افراد کی بھی سرپرستی کرتے ہیں ۔پولیس نے ان سیاسی وڈیروں کی بدولت جرائم پیشہ افراد کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہوتی ہے ۔اس وقت جو اہم تبدیلی کرنے کے ضرورت ہے تھانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے ساتھ عام آدمی کی رسائی کو تھانوں تک آسان بنایا جائے۔دیہاتی علاقوں اور چوکیوں پر گشت بڑھایا جائے ۔اعلی تعلیم یافتہ نوجوان اور صحت مند پولیس اہلکار بھرتی کئے جائیں ۔ضلعی پولیس افسران کو چاہیے کہ وہ ہفتہ وار اپنے متعلقہ تھانوں کی حدود میں کھلی کچہری کرے ۔پولیس اسٹیشنز میں سیاسی ٹاوٹس اور ساتھ میں نام نہاد بلیک میلرز صحافیوں کا داخلہ ممنوع کرے جو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ پولیس کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40643 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.