بیمار پُرسی کرنیوالا جنت کے پھلوں میں رہتا ہے

صحت اور بیماری بیمار پُرسی کرنیوالا جنت کے پھلوں میں رہتا ہے
فلاح دین ودنیامنحصرہے تندرستی پر
غرض سَونعمتوں کی ایک نعمتی تندرستی ہے
تمام تعریفیں خالق کائنات ،مالک ِارض وسماوات کے لئے جوتمام جہانوں کاپالنے والاہے ۔بے حددرودوسلام سرورکائنات ،فخرموجودات نبی آخرالزمان حضرت محمدمصطفیﷺکی ذات بابرکات پرجوتمام جہانوں کے لئے باعثِ رحمت ہیں ۔خالق کائنات کے اشرف المخلوقات انسان پر بے شمار انعام واکرام ہیں ۔اﷲ پاک نے انسان کوبے شمارنعمتوں سے نوازاہے ۔خالق کائنات کی ان بے شمارنعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت تندرستی یعنی صحت بھی ہے ۔اسی لئے کہتے ہیں کہ تندرستی ہزارنعمت ہے ۔تندرستی انسان کے لئے اﷲ رب العزت کی طرف سے ایک ایسی نعمت عظمیٰ ہے جس کااحساس انسان کواس وقت ہوتاہے ۔جب یہ عظیم نعمت انسان سے وقتی طورپرچھن جاتی ہے اورانسان کسی نہ کسی بیماری (آزمائش، امتحان)میں مبتلاہوجاتاہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔’’اورجب میں بیمارہوں تووہی مجھے شفاء دیتاہے ‘‘۔(سورۃ الشعراء آیت ۸۰)
قدرِصحت مریض سے پوچھو
تندرستی ہزارنعمت ہے

بیماری کوبھی بُرانہیں سمجھناچاہیے کیونکہ بیماری یاتوانسان کے گناہوں کاکفارہ یابلندی درجات کاذریعہ بن جاتی ہے ۔ لیکن یادرہے تندرستی ایک عظیم نعمت ہے جس سے اشرف المخلوقات انسان غفلت میں ہیں ۔مخلوق خدامیں چندخوش نصیب انسان ایسے ہیں جواﷲ رب العالمین کے احکامات کی بجاآوری ،حضورعلیہ الصلوٰۃ والسّلام کی اطاعت بجالاکرخالق کائنات کی بارگاہ میں حضورسجدہ ریزہوتے ہیں ۔بہت ہی کم افرادایسے ہیں جنہیں اﷲ پاک نے تندرستی کی عظیم نعمت سے نوازاہے اوروہ اﷲ پاک کی بارگاہ میں سجدہ شکربجالاتے ہیں ۔ میرے آقاﷺ کافرمان ِ خوشبودارہے ــ’’دوایسی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اکثرلوگ دھوکے میں ہیں وہ (دونوں) صحت اورفراغت ہیں ‘‘۔(بخاری شریف)

صحت مند انسان صحت کی قدر نہیں کرتالیکن جب وقتی طورپریہ انسان سے جداہوتی ہے تب انسان کواحساس ہوتاہے ۔کیونکہ آنکھوں جیسی عظیم نعمت کی قدروقیمت اندھے کوہے جوکائنات کے شاہکارنظام کودیکھ نہیں سکتا۔کان کی قدروقیمت بہرے کوہے جوسننے کی طاقت سے محروم ہے ۔زبان کی قدروقیمت گونگے کوہے جوبولنے سے محروم ہے ۔پاؤں کی قدروقیمت لنگڑے کوہے جوچلنے سے محروم ہے ۔ہاتھ کی قدروقیمت اس کوہے جوہاتھوں سے محروم ہے ۔اسی طرح صحت کی قدروقیمت کاانسان کوتب پتاچلتاہے جب وہ بیمارہوتاہے ۔جن لوگوں کے پاس رب تعالیٰ کی تمام نعمتیں موجود ہیں ان میں بہت ہی کم افرادسجدہ تشکربجالاتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ارشادفرماتاہے ۔’’قَلِیْلًامَّاتَشْکُرُوْنَ‘‘’’بہت ہی کم شکرکرتے ہو‘‘۔حالانکہ شکراداکرنے سے نعمتوں میں اضافہ ہوتاہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے’’اگرتم میراشکرکروگے تومیں تمہیں اوردوں گااوراگرناشکری کروتومیرا عذاب سخت ہے ‘‘۔(سورۃ ابراہیم آیت۷ )

بیماری سے پہلے تندرستی کوغنیمت جانناچاہیے ۔حضورنبی اکرم ﷺنے حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے فرمایاکہ’’پانچ چیزوں کوپانچ چیزوں کے واقع ہونے سے پہلے غنیمت سمجھناچاہیے ۔بڑھاپے سے پہلے جوانی کو،بیماری سے پہلے صحت کو،مفلسی سے پہلے تونگری کو،مشغولیت سے پہلے فرصت کو،مرنے سے پہلے زندگی کو‘‘۔(غنیۃ الطالبین)

اﷲ رب العالمین کاامت مسلمہ پریہ بہت بڑااحسان ہے کہ وہ ظاہری بیماری جسے ایک عام انسان اپنے لئے مصیبت خیال کرتاہے ۔حقیقت میں وہی ظاہری بیماری کل قیامت کے دن انسان کے لئے راحت وآرام کابڑاذخیرہ بن جائیگی ۔مسلمان کی شان بھی یہی ہے کہ جب مصیبت آئے توصبرکرے اورجب خوشی میسرآئے توشُکربجالائے ۔ سلطان محمودغزنوی کے پاس ایک آدمی ککڑی لیکرحاضرخدمت ہوا۔آپؒ نے وہ ککڑی قبول کرکے پیش کرنے والے کوانعام واکرام سے نوازا۔پھراپنے ہاتھ سے ککڑی کی ایک پھانک کاٹی اورایازکوعطاکردی وہ مزے لے لے کرتمام پھانک کھاگیا۔پھرسلطان نے دوسری پھانک کاٹی اورخودکھانے لگے تووہ کڑوی تھی حتیٰ کہ زبان پررکھنامشکل تھا۔سلطان نے حیرانی سے ایازکی طرف دیکھااورفرمایاایازایسی کڑوی توکیسے کھاگیاکہ تیرے چہرے پرناگواری کے ذرہ بھربھی اثرات نمودارنہیں ہوئے ۔توایازنے عرض کیاکہ حضورککڑی واقعی بہت کڑوی تھی۔منہ میں ڈالی توعقل نے کہا’’تھوک دے‘‘مگرعشق نے کہا’’ایازخبردار!یہ وہی ہاتھ ہیں جن سے روزانہ میٹھی اشیاء کھاتارہاہے ۔اگرایک دن کڑوی چیزمل بھی گئی توکیا تھوک دے گا؟اس لئے کھاگیا‘‘۔مسلمان کی شان بھی یہی ہونے چاہیے کہ جس اﷲ تعالیٰ نے انسان پرلاتعداداحسانات فرمائے اگرکبھی اس کی طرف سے کوئی مصیبت آجائے تواسے خندہ پیشانی سے قبول کرلے ۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آقاﷺ فرماتے ہیں کہ اﷲ پاک فرماتاہے’’ جب میں اپنے بندہ کی آنکھیں لے لوں پھروہ صبرکرے توآنکھوں کے بدلے اسے جنت دوں گا۔(بخاری شریف)

بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے منافع بے شمارہیں اگرچہ آدمی کوبظاہراس سے تکلیف پہنچتی ہے مگرحقیقتاًراحت وآرام کاایک بہت بڑاذخیرہ ہاتھ آتاہے یہ ظاہری بیماری جس کوآدمی بیماری سمجھتاہے حقیقت میں روحانی بیماریوں کاایک بڑازبردست علاج ہے حقیقی بیماری امراض روحانیہ ہیں کہ یہ البتہ بہت خوف کی چیزہے اوراسی کومرض مہلک سمجھناچاہیے بہت موٹی سی بات ہے جوہرشخص جانتاہے کہ کوئی کتناہی غافل ہومگرجب مرض میں مبتلا ہوتاہے توکس قدرخداکویادکرتااورتوبہ استغفاکرتاہے اوریہ بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ تکلیف کابھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا۔

حضرت عامرالرامؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے بیماریوں کاذکرفرمایااورفرمایاکہ مومن جب بیمارہوپھراچھاہوجائے اس کی بیماری گناہوں سے کفارہ ہوجاتی ہے اورآئندہ کے لئے نصیحت اورمنافق جب بیمارہواورپھراچھاہواس کی مثال اونٹ کی ہے کہ مالک نے اُسے باندھاپھرکھول دیا تونہ اُسے یہ معلوم کہ کیوں باندھانہ یہ کہ کیوں کھولا۔ایک شخص نے عرض کیا’’یارسول اﷲﷺ!بیماری کیاچیزہے ؟میں توکبھی بیمارنہ ہوا‘‘۔ ’’فرمایاہمارے پاس سے اٹھ جاکہ توہم میں سے نہیں‘‘۔(ابوداؤد)حضرت عثمان غنی ؓ کاارشادہے۔’’جس شخص کودوسال تک کوئی تکلیف نہ پہنچے وہ سمجھ لے کہ اس کاخدااس سے ناراض ہے‘‘۔

حضرت ابوہریرہؓ وابوسعیدؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا ’’ مسلمان کوجوتکلیف وہم وحزن واذیت وغم پہنچے یہاں تک کہ کانٹاجواس کولگتاہے اﷲ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹادیتاہے ‘‘۔(بخاری شریف،مسلم شریف)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایاکہ مسلمان کے مسلمان پرچھ حق ہیں ۔عرض کیاگیایارسول اﷲﷺ!وہ کون کونسے ہیں توفرمایا’’جب تواُسے ملے توسلام کرے،جب وہ تیری دعوت کرے توقبول کرے،جب وہ تجھ سے خیرخواہی چاہے تواس سے خیرخواہی کر،جب چھینک لے کرالحمدﷲ کہے تواس کاجواب دے یعنی یرحمک اﷲ کہے،جب بیمارہوجائے تواُس کی بیمارپُرسی کر،جب وہ مرجائے تواُس کے جنازہ کے ساتھ جائے۔(مسلم شریف،مشکوٰۃ)

حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت کہ ہے اﷲ کے محبوبﷺنے ہمیں بیمارکی مزاج پُرسی ،جنازوں کے ساتھ جانے ،چھینکنے والے کے لئے ’’یرحمک اللّٰہ ‘‘ کہنے، قسم کھانے والے کی قسم پوری کرنے ،مظلوم کی امدادکرنے،دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے اورسلام کوعام کرنے کاحکم دیا۔(بخاری،مسلم)حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول ﷺفرمایا’’بیشک قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ارشادفرمائے گا:’’اے ابن آدم! میں بیمارہواتونے میری بیمارپُرسی نہ کی ’’۔بندہ عرض کرے گا’’اے میرے رب میں تیری بیمارپُرسی کیسے کرتاتوُتورب العالمین ہے ‘‘(یعنی خداکیسے بیمارہوسکتاہے کہ اس کی عیادت کی جائے)ارشادہوگا:’’کیاتجھے نہیں معلوم کہ میرافلاں بندہ بیمارہوااوراس کی تونے بیمارپُرسی نہ کی کیاتونہیں جانتاکہ اگراس کی بیمارپُرسی کوجاتاتومجھے اس کے پاس پاتا۔اے ابنِ آدم!میں نے تجھ سے کھاناطلب کیاتونے نہ دیا‘‘بندہ عرض کرے گا’’اے میرے پروردگارمیں تجھے کس طرح کھانادیتاتوتورب العالمین ہے‘‘ ۔’’ارشادہوگاکیاتجھے نہیں معلوم کی میرے فلاں بندہ نے تجھ سے کھامانگااورتونے نہ دیاکیاتجھے نہیں معلوم کہ اگرتونے دیاہوتاتواسکو(یعنی اس کے ثواب کو)میرے پاس پاتا۔اے ابنِ آدم میں نے تجھ سے پانی طلب کیاتونے نہ دیا‘‘۔بندہ عرض کرے گا’’اے میرے پروردگارمیں تجھے کیسے پانی دیتاتوُتورب العالمین ہے ارشادہوگامیرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگاتونے اسے نہ پلایااگر پلایاہوتاتومیرے یہاں پاتا‘‘۔(مسلم شریف)

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہواتوحضوراکرمﷺکوبخارتھا۔میں نے اپنے ہاتھوں سے جسم اقدس کوچھواتوعرض کیا’’یارسول اﷲﷺآپ کوتوبہت تیزبخارہے ؟‘‘اﷲ کے محبوبﷺنے فرمایا’’ہاں!مجھے اس قدربخارہوتاہے جتناتم میں دوشخصوں کوہوتاہے‘‘۔میں نے عرض کیا’’پھرتوآپ کوثواب بھی دوگناہوگا‘‘۔آپﷺنے فرمایا!’’ہاں‘‘۔پھرارشادفرمایا’’جس کسی بھی مسلمان کوبیماری کی تکلیف پہنچتی ہے تواﷲ تعالیٰ اس کے گناہوں کواس طرح گرادیتاہے ۔جیسے (موسم خزاں میں)درخت کے پتے جھڑتے ہیں‘‘۔ (بخاری شریف،مسلم شریف ،مشکوۃ )

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا’’قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کواﷲ تعالیٰ ثواب واجرعطافرمائے گا۔تووہ لوگ جن پردنیامیں کوئی بیماری یاتکلیف نہیں آئی تھی ۔تمناکریں گے کہ (کاش)ان کے چمڑے قینچیوں سے کاٹ دیے جاتے‘‘ ۔(ترمذی شریف)

حالت بیماری میں انسان کوچاہیے کہ ہروقت اﷲ رب العالمین کی حمدوثناء ،نبی کریمﷺپردرودوسلام اوراستغفارکرتارہے ۔بیماری کی حالت میں واویلاکی بجائے صبرکرناچاہیے ۔امام قرطبی فرماتے ہیں’’ کہ جب انسان بیماری کی حالت میں(کراہنا)ہائے وائے کرتاہے فرشتے اُسے بھی لکھ دیتے ہیں ۔اس لئے ہائے وائے کی بجائے ذکرواذکارکرتے رہناچاہئے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتاکہ اس کے پاس ایک محافظ تیارنہ بیٹھاہو‘‘۔(سورۃ ق آیت۱۸)اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتاہے کہ انسان جوبھی گفتگوکرتاہے کراماًکاتبین(فرشتے)اُسے لکھ لیتے ہیں۔حضرت شدادبن اوسؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲﷺکوفرماتے ہوئے سناکہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے ’’جب میں اپنے ایمانداربندے کوکسی بلامیں مبتلاکروں اوروہ اس ابتلاپربھی میری حمدکرے تووہ اپنے بسترسے گناہوں سے ایساپاک ہوکراُٹھے گاجیساکہ آج ہی اس کی ماں نے اُس کوجنااوراﷲ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتاہے کہ میں نے اپنے بندے کوقیدکیااورمصیبت میں ڈالا اس کے لئے ویساہی عمل جاری رکھوجیساکہ صحت میں تھا۔(احمد،مشکوۃ )حضرت ابوموسیٰ اشعریؓسے مروی ہے کہ حضورﷺنے فرمایا’’مریض کی بیمارپُرسی کرو،بھوکے کوکھاناکھلاؤ، اورقیدی کوآزادکرادو‘‘۔(بخاری شریف)حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے فرمایا’’جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی بیمارپُرسی کرتا ہے تووہ خرفۃ الجنۃ جنت کے پھلوں میں رہتاہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹتاعرض کیاگیایارسولﷺ!خرفۃ الجنۃ سے کیامرادہے ؟آپﷺنے فرمایاجنت کے پھل‘‘۔(مسلم شریف)

حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے آقائے دوجہاں سرورکون ومکاںﷺکویہ فرماتے ہوئے سنا’’جومسلمان بھی صبح کے وقت کسی مسلمان کی بیمارپُرسی کرتاہے ستر70ہزارفرشتے شام تک اس کے لئے دعاکرتے رہتے ہیں اوراگروہ شام کے وقت اس کی بیمارپرسی کرے توستر 70ہزارفرشتے صبح تک اس کے لئے دعاکرتے رہتے ہیں اورجنت میں اس کے لئے چنے ہوئے پھل (باغ)ہوں گے‘‘۔(ترمذی شریف)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکاحضورﷺ کی خدمت کیاکرتاتھاوہ بیمارپڑگیاتوحضورﷺ اس کی بیمارپُرسی کے لئے تشریف لے گئے حضورﷺ اس کے سرہانے بیٹھے اوراس سے فرمایا’’اسلام قبول کرلو‘‘اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھاجواس کے پاس ہی تھا اس نے کہا۔ابوالقاسمﷺ کاحکم مانو۔تووہ لڑکااسلام لے آیاحضورﷺ باہرتشریف لائے توآپﷺ فرمارہے تھے ’’تمام تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اس کوآگ سے نجات عطافرمائی‘‘۔(بخاری شریف)حضرت ابوسعیدخدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا ’’جب تم کسی مریض کے پاس جاؤتواس کی درازی عمرکے متعلق گفتگوکروتمہاری بات اگرچہ تقدیرکوتونہیں پھیرتی مگرمریض کادل خوش ہوجاتاہے ‘‘۔ (ترمذی،ابن ماجہ)حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا’’جوشخص مریض کی عیادت کرتاہے وہ دریائے رحمت میں ہوتاہے اورجب وہ عیادت کنندہ مریض کے پاس بیٹھتاہے تو(گویارحمت الٰہی کے )دریامیں غوطہ زن ہوتاہے‘‘ ۔(مالک،احمد،مشکوٰۃ)

بیمار کے پاس بہت زیادہ دیرتک نہیں بیٹھناچاہیے کیونکہ اس سے اہل خانہ یاخودہی بیمار کے اکتاجانے کااندیشہ ہوتاہے ۔بیمارکے پاس سنجیدگی سے بیٹھناچاہیے شوروغل سے پرہیزکرناچاہیے ۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بیمارکے پاس تیمارداری کرتے ہوئے تھوڑی دیربیٹھنااورشورنہ کرنا(رسول اﷲﷺ)کی سنت ہے ۔(مشکوۃ شریف)حضرت سعیدبن مسیب ؓ سے ایک مرسل روایت ہے کہ افضل عیادت وہ ہے جس میں مریض کے پاس سے جلداٹھ آئے ۔(مشکوٰۃ عن البیہقی)امیرالمومنین سیدناحضرت فاروق اعظم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا ’’جس وقت تم مریض کے پاس جاؤتواس سے کہوکہ تمہارے لئے دعاکرے کہ اس کی دعافرشتوں کی دعاجیسی ہے ‘‘۔(ابن ماجہ)

ام المومنین سیدتناحضرت عائشۃ الصدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ جس وقت ہم میں سے کوئی بیمارہوتاتوتاجدارِانبیاء ﷺاس بیمارپراپنادایاں دست انور پھیرتے اورفرماتے ’’اَذْھِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لَاشِفَاءَ اِلَّاشِفَاءُ کَ شِفَاءً لَّایُغَادَرُسَقَمًا‘‘۔’’اے پرودگارعالم !بیماری کودورفرمادے اورشفاء عطافرماکیونکہ توہی شفاء عطافرمانے والاہے تیری شفاء کے سواشفاء نہیں ایسی شفاء جوبیماری نہ چھوڑے‘‘۔(بخاری شریف،مسلم شریف)

اﷲ رب العالمین سے دعاہے کہ روئے زمین پرجتنے مسلمان بیمارہیں گھروں میں ،ہپستالوں میں زیرعلاج یاجہاں کہیں بھی ہیں اﷲ پاک سب کوشفائے کاملہ عطاکرے اورہم سب کوبیمارِمدینہ بنائے ۔مالک کائنات ہماری تمام خطاؤں کومعاف فرمائے ۔ہمارے گھربار،کاروبار،جان ومال اوررزق حلال میں برکت عطافرمائے ۔ملک ِ پاکستان کوخوشحالی عطافرمائے ۔ہم سب کاخاتمہ ایمان پرفرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ
Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 273876 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.