ميں کوئی دوسری سورۃ نہیں پڑھوں گا

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام على سید الأنبیاء والمرسلین
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمان الرحیم

حضرت سیدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا، وہ فرماتے ہیں کہ ایک اَنصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد قباء میں ان کی امامت کیا کرتے تھے، وہ جب بھی کوئی سورۃ (سورة فاتحہ کے بعد) شروع کرتے تو پہلے ''قل ہو اللہ أحد''پڑھتے یہاں تک کہ جب وہ اس سے فارغ ہوتے پھر اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت تلاوت کرتے، ہر رکعت میں ان کا یہی عمل تھا۔ ان کے اصحاب نے ان سے کہا: پہلے آپ یہ سورۃ پڑھتے ہیں اور صرف اسی کو کافی خیال نہیں کرتے بلکہ (اس کے ساتھ) دوسری سورۃ بھی ضرور تلاوت کرتے ہیں، یا تو آپ یہ سورۃ تلاوت فرمائیں یا پھر اسے چھوڑ دیں اور کوئی دوسری سورۃ تلاوت کریں۔ انہوں نے کہا: میں اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا، اگر تمہیں پسند ہو کہ اسی طرح میں تمہاری امامت کروں تب تو میں کروں گا اور اگر تمہیں ناپسند ہو تو میں چھوڑ دوں۔ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ ان میں سب سے افضل ہیں اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اُن کی امامت کرے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآئہ وسلم کو اس معاملہ کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے فلاں! تمہارے ساتھی جس طرح کہتے ہیں اس طرح کرنے میں تمہیں کیا رکاوٹ ہے؟ اورہر رکعت میں اس سورۃ کو ضروری قرار دینے کا سبب کیا ہے؟" تو انہوں نے عرض کی:بے شک میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمہاری اس سورۃ سے محبت تمہیں داخلِ جنت کرے گی۔"(صحيح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب الجمع بین الصورتین في الرکعۃ)

اے کسے باشد!ان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تو دیکھو جنہوں نے ایک ایسا کام کیا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ترک فرمایا اور وہ فعل نہ کیا۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قائم رکھا بلکہ اس کے سبب انہیں دخول جنت کی خوش خبری سنائی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ''فتح الباری'' میں فرمایا: اشارہ کیا گیا کہ ان کا یہ فعل ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل پر اضافہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں جنت کی بشارت دینا ان کے فعل پر راضی ہونے کی دلیل ہے۔ ابن منیر سے ان کا قول نقل کیا کہ''مقاصدِ فعل (کام کی نیت اور ارادے)حكم تبدیل کر دیتے ہیں کیونکہ اگر وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مثال کے طور پر یہ عرض کرتے کہ اس سورۃ کے اِعادہ پر اُبھارنے والی چیز یہ ہے کہ انہیں اس سورۃ کے علاوہ کچھ یاد ہی نہیں تو بہت ممکن تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اس سورۃ کے علاوہ (دوسری سورتیں)یاد کرنے کا حکم دیتے لیکن انہوں نے اس سے محبت کو وجہ بنایا تو ان کے ارادہ کی صحت ظاہر ہوگئی تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے درست قرار دے دیا۔

ان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنے مخالفین کے ساتھ معاملے اور میلاد شریف کے انعقاد میں ہمارا اور منکرین میلاد کا حال کس قدر مشابہ ہے۔ وہ میلاد شریف جس پر ہمیں صرف نبی معظَّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نے ابھارا جو کہ زمین اور آسمانوں میں معظّم ہیں اور جن کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں گمراہی، کفر اور ظلمات سے بچایا۔ تو اگر چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میلاد(اس خاص انداز پر) نہیں منایا اور یہ فعل (اس خاص انداز پر) نہیں کیا تو تحقیق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ فعل بھی نہیں کیا جو اُن صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا پھر بعد میں اس فعل پر اقرار فرمایا اور جس چیز نے انہیں اس فعل پر ابھارا تھا، اس پر جنت کی بشارت دی تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر فضل وجُود فرمائے اور ان نبی عظیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہماری محبت کے سبب ہمیں داخل جنت فرمائے، بے شک وہ جواد و کریم ہے۔ ہاں یہ جگہ ہے کہ منکرین اپنے غیظ میں مر جائیں۔
Hasnain Shoukat
About the Author: Hasnain Shoukat Read More Articles by Hasnain Shoukat: 12 Articles with 25018 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.