اینکر پرسن

اینکر پرسن کو کسی زمانے میں ’میز بان‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن آج کل ’میزبان‘ کا لفظ بہت تیزی سے رو بہ زوال ہے اور اس لفظ پر دقیانوسی ہوجانے کاخطرہ منڈلا رہا ہے۔ جس طرح چیزیں نئی، پرانی ہوتی ہیں، ایسے ہی الفاظ بھی نئے، پرانے ہوتے ہیں۔ لوگ نئی چیزوں کی طرح نئے الفاظ کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس لئے آج کل ہر کوئی ’اینکر پرسن ‘کا لفظ استعمال کرنا چاہتا ہے اور ’ میزبان‘ لگتا ہے کہ میزبانی کر کر کے تھے چکا ہے۔’ اینکر ‘ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’ لنگر ‘ کے ہیں۔ تحقیق سے شاید ثابت ہو کہ یہ ’لنگر‘ ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ کیوں کہ ’ ایڈمرل‘ کا لفظ ’ امیر البحر‘ کی بدلی شکل ہے۔ یہ جہاز یا کشتی کو کسی ایک جگہ روکنے کے کام آتا ہے۔اردو میں محاورہ ہے’ لنگر انداز ہونا‘ یعنی آنا اور دوسرا محاورہ ہے ’لنگراٹھانا‘ جس کا مطلب سفر شروع کرنا ہے۔یہ لنگر کسی چیز سے اڑ جانے کا رجحان رکھتا ہے اور کسی چیز کو روک لیتا ہے۔ اینکر پرسن کا کام بھی چونکہ یہی ہوتا ہے ، وہ بحث کو روکتا اور چلاتا ہے۔ تو اس لئے اسے بھی اینکر پرسن کہا جاتا ہے۔ اور یہ کہ وہ ایک، دو یا زیادہ لوگوں کو ’لے کے بیٹھتا ‘ہے اس لئے بھی اسے اینکر پرسن کہا جاتا ہے۔

آج کا زمانہ اپنی تبدیلی اور تیزی کے لحاظ سے ماضی میں اپنی مثال نہیں رکھتا۔ اور آنے والا زمانہ اس کو بھی پچھاڑ دے گا کیوں کہ نوشتہ دیوار یہی ہے۔ہر اندازِ زندگی میں اس قدر تیزی ہے کہ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ کون سی چیز کتنے عر صے تک اپنا وجود برقرار رکھے گی یا محو ہو جائے گی۔وقت کے سمندر میں خاموش سونامی برپا ہے جس کا شور سوچنے والے سن سکتے ہیں اور سوچ سے عاری اس شور کو سننے کے ذمہ دار نہیں۔ سوچ کا تعلق ویسے تو کسی عمر یا زمانے کے ساتھ ملزوم نہیں لیکن اکثر اس کے سوتے جوانی کا چالیسواں ہونے کے بعد ہی پھوٹتے ہیں، کیوں کہ اس سے پہلے انسان کے سینے میں ارمانوں کے طوفان برپا ہوتے ہیں اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جب یہ طوفان تھمتے ہیں ، ذہن کی تنہائی فروغ پاتی ہے، اور تنہائی کی محفل میں خیالات کی انجمن آرائی ہوتی ہے تو ’نرجسِ فکر ‘ محوِ رقص ہوتی ہے۔

اسی نئی سوچ اور فکر کا اظہار آج کل کے ٹی وی چینل کر رہے ہیں۔ ان چینلوں کی جان ان کے اینکر پرسن ہیں جو اپنی شخصی صلاحیتوں کی بدولت ان چیلنز کو لوگوں میں پسندیدہ اور مقبول بنا دیتے ہیں۔

ٹی وی کے چینلز بڑھنے اور جگہ جگہ کیبل بچھ جانے سے اینکر پرسنز کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ملک اہم ترین لوگ سیاست دان ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اہم ترین عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ اور سیاست دانوں کے اوپر ہوتے ہیں اینکر پرسن۔آج کے سیاست دانوں کو اینکر پرسنوں سے بنا کر رکھنی چاہئے کیوں کہ یہ اینکر پرسن قسمت لکھنے والے فرشتے ہیں جو کسی کا کچھ بھی بنا یا بگاڑ سکتے ہیں۔سیاست دان اپنی انتخابی مہم پر جتنا خرچ کرتے ہیں اس سے دس گنا کم ان اینکر پرسنوں پر خرچ کر کے دس گنا زیادہ بہتر نتائج لئے جا سکتے ہیں۔ میرا مطلب کسی منفی بات کی طرف نہیں بلکہ اس طرف ہے کہ ان لوگوں کو میرٹ کے مطابق ایوارڈ اور انعامات دینے سے ہے۔ ان کی عوام خدمات کو سراہا جانا چاہئے۔ وہ عوام کے لئے مینارِ نور ہیں کہ پورے ملک کا ایسا انڈیکس پیش کرتے ہیں کہ گھر بیٹھے بٹھائے ناظرین کو ہر بات کی اچھائی اور برائی سمجھ آجاتی ہے۔اینکر پرسنوں کے مطالبات اور ضروریات کو مدِ نظر رکھناحکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ ورنہ ایسا ہو سکتا کہ کسی اور طرف کی پریشانی اور غصہ حکومت پر کڑی تنقید کی شکل میں نکلے اور حکومت کی نیک نامی بدنامی میں بدل جائے۔ اگر یہ اینکر قلبی اور جیبی طور پر مطمئن ہوں کہ تو ان کو بھی ہر طرف ہرا ہرا ہی نظر آئے گا جیسا کہ حکومتی نمائندوں کو اکثر آیا کرتا ہے۔ اگر یہ لوگ زیادہ تنگ ہو گئے تو وہ خود ملک کی اپوزیشن کا رول ادا کرنا شروع کر دیں گے۔ اور حکومت کوبدنام کرنے کے لئے اپوزیشن کو اپنے چینلز پر زیادہ وقت دے کر حکومت کا ستیاناس بھی کر سکتے ہیں۔ لوگ عام طور پر ان اینکروں کو غیر جانبدار سمجھتے ہیں اور ان کی رائے کا بڑا احترام کرتے ہیں ۔ اور اگر وہ حکومت کے مقابل آجاتے ہیں تو حکومت پر کڑی آزمائش آ جائے گی۔اینکر پرسنوں سے بنا کر رکھنے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ حکومت کے ثناء خوانی ہی شروع کر دیں اس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا جس سے حکومت اور اینکر دونوں فارغ ہو جائیں گے۔بنا کر رکھنے کا مطلب ہے کہ تنقید کی جائے لیکن ہاتھ’ہولا‘ رکھا جائے۔ حکومت کی برائی بیان کر کے تھوڑا سا اس کی مجبوری بھی بیان کر دی جائے۔
اینکر پرسنوں کے لئے اپنی غیر جانب داری برقرار رکھنا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ بھی انسان ہی ہیں اس لئے انسانی مجبوریاں ان کے حصے میں بھی آئی ہیں۔انسان کھانے پینے سے لے کر سیاسی لیڈروں تک اپنا انتخاب اور پسند ناپسند رکھتا ہے۔وہ کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کو بھی پسند یا نا پسند کرتا ہے۔ آخر اس کاخاندان بھی ہوتا ہے، انہوں نے بھی کسی نہ کسی طرف ووٹ ڈالنا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ اینکر پرسن کوئی پتھر کا بنا مجسمہ تو نہیں ہوتا۔ اس کے بھی احساسات ، جانبداری اور مجبوری ہوتی ہے۔ یہ جانبداری اس کی سب سے بڑی دشمن ہے۔وہ جانبداری رکھ سکتا ہے لیکن اس کا اظہار اس کے کیریئر کی سب سے بڑی غلطی ہو گی۔ اس کی تمام تر دانش اور مہارت اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کتنا غیرجانب دار ہے۔

اینکر پرسنز کے لئے پڑھا لکھا ہونا کافی نہیں ، وہ اپنے موضوعِ بحث سے بھی اچھی طرح واقف ہو۔ اس کا علم ہر شعبہ زندگی کی بنیادی معلومات سے لے کر موجودہ ترقی تک پھیلا ہوا ہو۔ خاص طور پر تاریخ اور سیاست کا علم تو اس کی فنگر ٹپس پر ہونا ضروری ہے۔بات بات پر اسے حال سے ماضی اور ماضی سے حال میں آ نا پڑتا ہے۔ اس لئے اس کو معلومات بہت زیادہ اور درست ہونی ضروری ہیں۔ہمارے ملک میں سیاسی استحکام کم ہے اور لوگوں کی بلا وجہ سیاست دانوں کی طرف دلچسپی ایسی ہی ہے جیسی کہ تماشا کرنے والوں کی طرف بچوں کہ ہوتی ہے۔جبکہ نہ تو تماشے سے کچھ نکلتا ہے اور نہ ان سیاست دانوں کی باتوں سے ۔کچھ نکلنا ہے تو کام سے نکلنا ہے جو ہو نہیں رہا اور سیاست دان کرنے کا موڈ نہیں رکھتے۔ بات کرنے کا حق اس سیاست دان کو ہونا چاہئے جس نے کچھ کام کیا ہو ، زبانی جمع خرچ کرنے والوں کی چھٹی کرا دینی چاہئے۔لیکن ہم چونکہ ذہنی طور پر بچے ہیں اس لئے تماشا ہمارا ذہن اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

ہمار ے اینکر پرسنز بہت قابلِ احترام ہیں۔ بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں اور اکثر اپنی غیر جانبداری بھی برقرار رکھ لیتے ہیں۔ لیکن بعض ایسے ہیں کہ جن کے الفاظ اور انداز ان کی جانبداری کا تاثر دے دیتے ہیں۔
کسی شخص کے لئے گنجاہ ہونا اس کی شخصیت پر برے اثرات تو نہیں ڈالتا لیکن اس شخصیت کے کچھ اندرونی اور بیرونی پہلوؤں کی طرف اشارہ ضرور کرتا ہے۔جیسا کہ سفید بالوں سے متعلق کہا جاتا تھا کہ دھوپ میں سفید نہیں کئے گئے بلکہ ا س سفیدی میں زندگی کے تجربات شامل ہیں،اسی طرح گنجے پن سے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ سر گھساگھسا کے گنجا نہیں کیا بلکہ اس گنجے پن کے پیچھے کئی سالوں کی مغز ماری شامل ہے۔مغز کو مارتے مارتے سر سے بال جھڑ گئے ہیں اور یہ گنجا پن اس کی رسید ہے کہ اب مغز مر گیا ہے اور اس کی راکھ سے دانائی نے جنم لیا ہے۔اینکر پرسن کے لئے گنجا ہونا اس کے بڑے فائدے کی بات ہے۔ کہ ایک تو اسے دانشور سمجھا جاتا ہے اور دوسرا اسے روشن خیال ہونے میں بھی بالوں کی سیاہی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

اینکر شپ سوچ کی ادا کاری ہے۔اس میں چہرہے اور زبان کا میکسیمم استعمال ہوتا ہے۔ چہرہ شخصیت میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چہرہ ذہن کا عکاس ہوتا ہے۔ اس کا پر کشش ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارے کچھ اینکر پرسن ایسے چہرے رکھتے ہیں کہ جنہیں دیکھنے کو دل کرتا ہے لیکن کئی چہرے نظر کو دور ہی سے دفع کر رہے ہوتے ہیں۔چہرے کے بعد زبان کا اتار ، چڑھاؤ اینکر پرسن کی بڑی خصوصیت ہے۔ بعض اینکر پرسن اپنے مہمانوں کی زبان کے آگے دب جاتے ہیں اور بعض اپنے مہمان سے کافی زیادہ بول جاتے ہیں ۔ یہ دونوں باتیں ان کے لئے نا مناسب ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ ایک مہمان کے ساتھ اینکر پرسن کو بڑی آسانی ہوتی ہے اور زیادہ مہمانوں کے جھرمٹ میں اینکر پرس ’قابو‘ آیا ہوتا ہے اور مہمان اس کے گھر کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے چکے ہوتے ہیں اور وہ بچارہ یا بچاری ان کو چپ کراتے کراتے خود چپ ہو جاتا ہے یا جاتی ہے۔یہ سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان آپس میں ایسے لڑتے ہیں جیسے اصیل مرغ مقابلہ کر رہے ہوں۔ سب کچھ فری سٹائل ہو جاتا ہے۔ بس گالی گلوچ نہیں ہوتی۔ اتنا ضبط رکھنا بھی بڑی بات ہے۔یہاں اینکر پرسن ایک ریفری کا رول ادا کرتا نظر آتا ہے۔

ہمارے اینکر پرسن دو طرح کا لباس پہنتے ہیں ایک شلوار قمیض اور دوسرا پینٹ شرٹ۔ لیکن زبان وہ ایک ہی یعنی اردو بولتے ہیں۔ان کی زبان تلفظ کی کم ہی غلطیاں رکھتی ہے لیکن ان کے پاس اشعار کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ خاص طور پر خواتیں اینکر تو اشعار کا بالکل استعمال نہیں کرتیں۔

خواتیں اینکرز کے لئے ابھی تک کوئی مقامی لفظ وضع نہیں ہو سکا ۔یہ بات اس لئے کرنی پڑی ہے کہ ہماری زبان مذکر موئنث کا فرق رکھتی ہے۔ اور عوامی بول چال میں لوگ خود ہی نئے الفاظ گھڑ لیتے ہیں جیسے سموسہ سے سموسی۔ہمیں بھی بات کرتے ہوئے بار بار خاتون یا خواتین اینکر ہی کہنا پڑے گا۔ہو سکتا ہے کہ جب یہ لفظ گلیوں میں جائے تو اسے بھی موئنث کا لاحقہ مل جائے ۔ وہ ممکنہ لاحقہ ’نی‘ ہو گا۔ اور پھر خاتون کے لئے ’اینکرنی‘ کا لفظ عام استعمال ہو گا۔اس ایجاد کو آتے آتے ہو سکتا ہے کافی سال لگ جائیں لیکن ہم نے تو ابھی اس تحریر کو مکمل کرنا ہے۔ ہم خواتین اینکرز سے پیشگی معذرت کے ساتھ ’اینکرنی‘ کا لفظ استعمال کریں گے۔ یہ لفظ بس عام نہیں ہے ویسے اس کے اندر برائی کوئی نہیں ہے۔ دیکھیں نا یہ لفظ ’شیرنی‘ کے کتنا قریب ہے۔ اور ایک اینکرنی کو شیرنی ہی ہونا چاہیے۔اسے بڑے بڑے مگر مچھوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔وہ ایک مشرقی انداز کی شرمیلی سے شوئی موئی بن کر اپنا کام ہرگز نہیں کر سکے گی۔

ہماری اینکرنیوں کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے۔ سب سے پہلی بات کہ ان کو ہر روز ڈھیٹ قسم کے سیاستدانوں سے ’ آڈھا‘ لگانا پڑتا ہے۔ یہ سیاست دان تو شیطان کو ورغلا جانے والے ہیں ان بچاری شرمیلی ، گھبریلی، مرمری دیویوں کے قابو کیسے آسکتے ہیں۔ ان کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا واسطہ اکثر مردوں سے ہی پڑتا ہے۔ جبکہ ذہنی طور پر وہ عورتوں سے بات کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں۔ ان کا ایک مسئلہ زبان کا ہے کہ مردوں کی ساتھ زبان کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا پڑتا ہے اور کئی ایک احساسات کے لئے مناسب الفاظ کا انتخاب ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔

ہماری اینکرنیوں نے مغرب کی تقلید میں اپنی زلفوں کو آزادی کی ہواؤں میں سانس لینے کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے کہ یہ ان کا پیدائشی حق ہے کہ وہ لہراتی پھریں۔ ابھی وہ زلفیں سر سے اتر کر شانوں تک ہی آئی ہیں اور ’اڑجانے ‘کے لئے پر پرزے نکال رہی ہیں۔جب زلفیں اڑنے لگیں گی تو سر کا بوجھ خود بخود ہلکا ہو جائے گا ۔ پھر مغربی انداز کی ’بے بی کٹ‘ کا زمانہ آ جائے گا اور مشرقیت جو کہ پہلے ہی دم توڑ رہی ہے آخری ہچکی لے کر خاموش ہو جائے گی۔اور مغربیت سرِ عام اور لبِ بام آ جائے گی۔یہ توبہ شکن چہرے، ان پر بلا کا میک اپ، اس پر زلفوں کے ناگن، اس پر جنبشِ ابرو۔ سیاسی بحثیں سنتے سنتے جب ان پر کیمرہ فوکس ہوتا ہے تو سارا کچھ بھول جاتا ہے کہ بات کیا ہو رہی تھی۔ دل چاہتا ہے کہ کیمرہ یہیں رہے لیکن یہ منظر تو اس لئے دکھایا گیا ہے کہ سیاسی ماحول کی بوریت میں شائستگی کا تڑکا لگایا جائے۔اور یہ کہ مہنگی چیزیں زیادہ اور عام نہیں ملتیں۔ ہماری انکرنیاں ابھی زلفوں کی آزادی کے جشن منانے میں مصروف ہیں اور زلفوں کے نت نئے ماڈل لئے سکرین پر آنا ان کا معمول ہے۔ ان کے سٹائل منفرد ہیں کسی کا سٹائل یہ ہے کہ بالوں کو دونوں شانوں پر سے گزار کر آگے منت پذیر کر دیا جائے، بعض کا انداز یہ ہے کہ ایک بھاری لٹ ایک شانے سے آگے کو اور ایک بھاری لٹ پیچھے ۔ جیسے ایک فوج میدان میں دشمن سے برسرِ پیکار ہو اور دوسری دَم لے کر آنے کی تیاری کر رہی ہو۔ پھر ان زلفوں میں کنڈل یعنی ’کرو‘ ڈالنا بھی بہت ضروری ہے۔ بعض اینکرنیاں اس بات کا خیال نہیں رکھتیں لیکن وہ کئی اور باتوں کا خیال ضرور رکھتی ہیں۔ مثلاً کپڑوں کے نت نئے ڈیزائن۔ ایسے لگتا ہے کہ اینکرنیوں کے لئے ایک لباس میں دوبار سکرین پر آنا ایسے ہی منع ہے جیسے سورج کو مغرب سے نکلنا منع ہے۔ان ارضی پریوں کے جتنے انداز و لباس ہیں اتنے تو شاید فردوسی حوروں کے بھی نہ ہوں۔ اگر ایسا ہو گیا تو قیامت آ جائے گی، زمین پھٹ جائے گی، آسمان گر جائے گااور آتش فشاں پھٹ جائیں گے۔یہی تو باتیں ہیں جن کا مردوں کو پتہ ہی نہیں۔ بڑے پڑھے لکھے بنے پھرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ان اینکرنیوں کے درمیان ایک سرد جنگ پورے زوروں پر ہے۔ اور جس کسی نے اس میں مداخلت کی جسارت کی اس کی خیر نہیں۔

لو! جب کوئی مغربی چینل آن کیا جاتا ہے اور وہاں ’نیکراور شرٹ‘ پہنے کوئی اینکرنی اپنے مہمانوں سے محوِ گفتگو ہوتی ہے تو ہمیں اپنے مشرقی اینکرنیاں ’ موہنجوداڑو اور ہڑپہ‘ لگنے لگتی ہیں۔ہم اتنے پس ماندہ علاقوں میں اور ملکوں میں رہ رہے ہیں اور دنیا کی ترقی کہاں تک پہنچ گئی ہے۔ ہم نے کیا خاک ترقی کرنی ہے۔ ہم تو ماضی کے اندھیروں سے نکل ہی نہیں سکے۔ ترقی تو ان روشن خیال لوگوں کے پاس آتی ہے تو اتنے کھلے دل والے ہوتے ہیں کہ کسی سے کچھ نہیں چھپاتے۔

بعض پروگراموں میں ایک اینکر یا اینکرنی کے ساتھ دو ، تین مہمان ہوتے ہیں، اور بعض میں دو اینکر اور ایک تجزیہ کار ہوتا ہے۔ ان میں سے پہلی قسم کے پروگرام زیادہ دلچسپی سے دیکھے جاتے ہیں کیوں کہ ان میں سیاسی پہلوانوں کے سیاسی دنگل دیکھنے کا ملتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے پروگراموں میں اینکروں اور تجزیہ کاروں کی جانب داری واضح ہوجانے سے پروگرام میں اتنی جازبیت نہیں رہتی۔بعض میں صرف دو لوگ ہوتے ہیں اور خود سے سوال اور خود ہی جواب دئے جاتے ہیں۔ ایسا پروگرام بھی ناظرین میں زیادہ مقبول نہیں ہوتا، کیوں کہ ناظرین بھی تماشا پسند ہوتے ہیں جدھر تماشا زیادہ ہو ادھر کو جاتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ہر قسم کے پروگرام دیکھتے ہیں اور کچھ صرف اپنی پسند کے۔

اینکر شپ کے فوائد بھی بڑے اور نقصانات بھی بڑے ہوسکتے ہیں۔ان کے تعلقات ملک کے ان بڑے بڑے لوگوں سے بغیر کسی خرچے اور زیادہ کوشش کے استوار ہو جاتے ہیں جن کے ساتھ اس پیشے میں نہ ہونے کی صورت میں شاید بلکہ یقینا ممکن نہ ہوتے۔ ان تعلقات سے وہ بوقتِ ضرورت مدد بھی لے سکتے ہیں۔ اور ان سے کوئی خاص رعایت بھی لے سکتے ہیں۔اور ان کا نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ پارٹی بنا لیں یا ان کو کوئی پارٹی سمجھ کر ان کو رستے سے ہٹانے کے لئے ان کی جان کا درپے ہو جائے۔جیسے ان کے خوش گوار تعلقات سود مند ہو سکتے ہیں ایسے ہی ان کی حق گوئی یا جانب داری ان کے لئے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔اور بعض اوقات ان کی نوکری کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔ یہ اس شعبے یا پیشے کے مسائل ہیں جو کہ رہنے ہی رہنے ہیں۔

اینکر شپ کا مستقبل بہت روشن ہے۔ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ مذید شائستگی پیدا ہو رہی ہے۔ ویسے تو تبدیلی ہر وقت آرہی ہو تی ہے۔ لیکن پچھلے دس پندرہ سالوں میں تو انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ بات کرنے کے انداز بھی بہتری کی طرف چل رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں یہ پیشہ بہت ترقی کرے گا اور زیادہ قابل لوگ اس پیشے سے منسلک ہوں گے۔اس وقت بھی یہ پیشہ بہت اچھے انداز سے چل رہا ہے۔

ہنگامی حالات اینکر پرسنوں کی اہمیت دوبالا کرتے ہیں۔ ان حالات میں کسی اینکر پرسن کی ناصرف شخصی قابلیت بلکہ جانبداری بھی سامنے آتی ہے۔ اس کے سوالات اس کی ذہنیت کے عکاس ہوتے ہیں۔اس کی طرفداری اس بات سے بھی منکشف ہوتی ہے کہ وہ کس مہمان کو مدعو کر کے کون سے سوالات کے جوابات کس انداز سے سنتا ہے۔وہ کس طرح اپنے مہمان کو ایکسپوز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بہت سی باتیں ان کی ذہنی سوچ کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن یہ اس کی مہارت ہے کہ وہ اپنے اندر کو ظاہر کے غلاف میں لپیٹے رکھے۔ ہنگامی حالات اکثر آتے رہتے ہیں خاص طور پر ہمارے ملک، جہاں ایک ہنگامے پے موقوف ہے گھر کی رونق، میں کوئی نہ کوئی بحران آیا ہی رہتاہے۔ اس لئے یہاں کے اینکر پرسن کی ذمہ داریاں باقی دنیا کے ہم پیشہ لوگوں سے زیادہ ہیں۔یہاں کا اینکر پرسن ملک کے کسی بھی اور شخص سے زیادہ ملک کی خدمت کر سکتا ہے۔ وہ اگر ملک کے مفاد اور عوام کی اصلاح اور فلاح کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دے دے تو اس جیسا خدمت گزار آج کے دور میں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔
کچھ اینکروں نے اپنے پروگرام اپنے نام کے ساتھ منسلک کر دیئے ہیں۔اس سے ، ہمارے خیال میں، بہتر ہے کہ ان کے پروگرام کا نام کسی ادبی اور اخلاقی اصطلاح کے ساتھ ہو۔اور یہ کہ ہر اینکر اپنا ایک سلاگن یا ماٹو بھی رکھے اور اس پروگرام کے آغاز اور اختتام پر اسے بجایا اور سنایا جائے۔اس سے بھی دیکھنے اور سننے والوں کی رہنمائی اور بہتری ہو گی۔

ملک کی صحافت کا مستقبل بہت روشن ہے باقی شعبوں کی روشنی بھی لگتا ہے ادھر ہی آ گئی ہے۔ان لوگوں کا نتخاب بھی بہت دیکھ بھال کے کیا جاتا ہے۔ کہ آواز اور شکل دونوں میں ان کو بہتر کارکردگی دکھانی ہے۔ مارے ٹی چینلز بہت اچھے اچھے چہرے سکرین پر لانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جس سے ملک کا بہت خوبصورت امپیکٹ بیرونی دنیا پر جانے کا مکان ہے۔کم از کم ملک کے اپنے لوگ تو اپنی ذہنی پریشانیوں میں افاقہ محسوس کریں گے۔ملک سے ذہنی پریشانی دور کرنا بھی ایک بہت بڑی خدمت ہے، جو کہ یہ چینلز احسن طور پر ادا کر رہے ہیں۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 286108 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More