بندہِ خاکی کی فطرت

زندگی کی افایت مادیت میں نہیں روحانیت میں ہے خالق نے اپنے بندے کو فطرت پہ پیدا کیا ہے۔ جو شے فطری تقاضوں کے خلاف ہے وہ انسان کی بھلائی کے لیے نہیں ہوسکتی۔بندئے اور رب کے درمیان تعلق خالق اور مخلوق والا ہے۔ انسان کی جبلت میں ہے کہ وہ گھاٹا کا سوداگر ہے اور ایک بات یہ بھی کہ بُرائی میں انسان کے لیے کشش ہے۔خالق نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اُس کی تربیت کے لیے لاتعداد انبیاء ورُسل بھیجے ۔ مقصد واضع تھا کہ انسان کو عقلِ سلیم سے نواز گیا ہے اور اِسی وجہ سے انسان کو حیوانوں پہ برتری حاصل ہے۔جب بندئے نے اپنے انسان ہونے کا بھرم ہی نہیں رکھنا تو پھر اُس کا مقصدِ حیات تو کچھ بھی نہیں رہتا ہے۔انبیاء اکرام ؑ نے اپنی اپنی بساط جو کہ رب نے عطا کی ہوئی تھی اُس کے مطابق اپنا مشن جاری رکھا اور انسان کو توحید کی لگن پیدا کرنے کے لیے بہت ہی زیادہ تگ وتاز کی۔ مصیبتیں جھیلیں،زخم کھائے۔چونکہ نبیؑ کا ایک ایک عمل رب کی عطا سے ہوتا ہے اِس لیے انسانی معاشرئے کو ارتقاء کے سفر میں رب نے گامزن رکھا۔آدمؑ سے شروع ہونا والا انسان کا سفرصدیوں سے جاری ہے۔ بے شمار لوگ پیدا ہوئے اور و فات بھی پاء گئے۔ کئی تہذیبوں نے جنم لیا اور پھر زمانے کی گرداب تلے مٹ گئیں حضرت ابراہیم ؑ، حضرتِ اسماعیلؑ نے توحید کے پرچم کو خالق کی عطا سے تھامے رکھا۔حضرت موسیؑ، حضرت داودؑ، حضرت عیسیؑ سمیت کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر معبوث کیے گئے۔پیغمبر بنانے کے لیے رب پاک کاا پنا ہی طریقہ کار تھا جس کے لیے صرف اﷲ پاک کو ہی پتہ تھا کہ کس کس کی نامزدگی ہوگی۔ اﷲ پاک اپنی ربوبیت کے رنگ بندئے کے ذریعے دکھاتا رہا اور یوں کہانی نبی پاکﷺ پر آکر ختم ہوگی۔ دعوت دین کا سلسلہ اختتام کو پہنچا۔نبی پاکﷺ کو تمام انبیا ء اکرام کا سردار مقرر فرمادیا گیااب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تو نبی پاکﷺ بھی عام نبیوںؑ جیسے تھے تو پھر نبی پاکﷺ کو تمام انبیاء کا سردار کیوں بنایا گیا۔اور پھر نبی پاکﷺ کو رحمت عالمﷺ بھی بنایا گیا۔ اِس لیے کہ نبی پاکﷺکی بطور آخری پیغمبر تشریف آوری اِس بات کی دلالت ہے کہ اِن جیسا نہ تو کوئی ہے اور نہ ہی کوئی آیا ہے اور نہ ہی کبھی آئے گا۔ گویا سارئے زمانوں کی مخلوق میں سے آپ ﷺکو سب سے اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمایا گیا ۔آپ ﷺ کو آخری کتاب قرانِ مجید سے نوازا گیا۔آپﷺ کو معراج کا سفر نصیب ہوا آپﷺ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء اکرامؑ کی امامت فرمائی۔چالیس سال کی عمر مبارک میں آپﷺ کو نبوت سے نواز گیا ۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ عرب کے بدو پوری دنیا کے مہذب ترین انسان بن گے۔صدیوں تک ایک دوسرئے سے لڑنے جھگڑنے والے آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔چشمِ عالم نے پھر یہ بھی دیکھا کہ بلال حبشیؓ ، غلام ہونے کے باوجودکیسا رتبہ پاگیا۔ اویس کرنی ؓسلمان فارسیؓ جیسے خدمت گزاروں کو بلند ترین مراتب سے نوازا گیا۔ یہ ساری تمھہید اِس لیے باندھی گئی کہ نبوت کے سلسلے کے شروع ہونے سے لے کر نبوت کے سلسلے کے ختم ہونے تک کہیں بھی مادیت کی پذیرائی نظر نہیں آتی۔مادیت کا حصول بُرا نہیں لیکن حد سے تجاوز کرنا ،احسن قدم نہیں۔ مادہ پرستی کی وجہ سے لالچ، جھوٹ، انا پرستی نے بہت نشو نماء پائی لیکن وہ سبق جو انبیاء اکرام ؑ نے دیا تھا اُس کو بھلادیا گیا۔ نتیجتاًسچائی کو چھوٹی جگہ ملی۔اِس کا مطلب یہ نہیں کہ سچ کم تر ہے ایسا نہیں ہے۔ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہی نکلتا ہے کہ افادیت رب کی اطاعت میں ہے۔رو حانیت میں ہے۔روپے کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے لیکن جائز طریقے سے۔ جائز کا مطلب یہ ہے کہ جس سے کسی کو نقصان نہ ہو۔نبی پاکﷺ کی ظاہری حیات کے تریسٹھ برس اِس بات کے گواہ ہیں کہ کبھی بھی مادیت کی ترغیب نہیں فرمائی۔ ہمیشہ زور اﷲ پاک کی خوشنودی پر ہی رہا اور مسلمان جانتا ہے کہ اﷲ پاک کی کوشنودی کیسے حاصل ہوتی ہے۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 381899 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More