قرآن کریم کے تدریجی نزول کی حکمتیں

اﷲ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر اپنی معجز ( آسمانی کتابوں میں سے سب سے آخری) کتاب نازل کرکے اسے عزت بخشی، تاکہ یہ اس کے لیے دستور حیات اس کے مسائل کا حل اس کی بیماریوں اور امراض کے لیے شفا بخش مرہم اور اس امت کو مقدس ترین پیغامات خداوندی کے تحمل کے لیے چننے اور منتخب کرنے پر عظمت اورافتخار کی علامت ہو، جہاں اﷲ نے سب سے افضل کتاب نازل کرکے ان کو عزت بخشی اور مخلوقات میں سے سب سے معزز ہستی محمد ﷺ کے ساتھ انہیں وابستہ کرکے ممتاز مقام عطا کیا،وہیں پر قرآن کے نزول کے ساتھ ہی پیغامات سماویہ کی لڑی مکمل ہوئی، اوراس نور نے پوری کائنات پرضو افشانی کی، عالم پر اس کی روشنی چمک اٹھی اور اﷲ کی ہدایت مخلوق تک جاپہنچی اور یہ نزول امین السماء جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے ہوا، جو اسے لے کر آپ ﷺکے قلب مبارک پر اترتے تاکہ آپ علیہ السلام کو پیغام خدا وندی پہنچا دیں اور اسی کے متعلق اﷲ جل جلالہ کا فرمان ہے:( اس کو امانت دار فرشتہ اتار لایا ہے آپ کے قلب پر ،صاف عربی زبان میں، تاکہ آپ منجملہ ڈرانے والوں کے ہوں)۔

قرآن کریم کے دو نزول ہیں : لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف( یکبارگی) شب قدر میں نازل ہونا۔ آسمان دنیا سے زمین کی طرف تیئس سال کے عرصہ میں ( کچھ کچھ) بتدریج نازل ہونا۔ پہلی مرتبہ اس کا نزول زمانہ کی تمام راتوں میں سب سے مبارک رات میں ہوا، (جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے) اس رات میں پورا قرآن آسمان دنیا میں (بیت العزۃ) کی طرف نازل کیا گیا جس پر مندرجہ ذیل متعدد نصوص قرآنیہ دلالت کرتی ہیں:اور قسم ہے اس واضح کتاب کی کہ ہم نے اس کو ( لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر) ایک برکت والی رات (یعنی شب قدر) میں اتارا ہے ہم آگاہ کرنے والے تھے۔(سورۃ دخان)․

اﷲ جل شانہ کا فرمان ہے: بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے( شوق بڑھانے کے لیے فرمایا) اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے؟۔(سورۂ قدر)۔

اﷲ تعالی کا قول ہے: ماہ رمضان ہے جس میں قرآن مجید بھیجا گیا ہے جس کا ( ایک) وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لیے ( ذریعہ) ہدایت ہے اور (دوسرا وصف) واضح الدلالت ہے منجملہ ان کتب کے جو کہ ( ذریعہ) ہدایت ( بھی) ہیں ، اور ( حق وباطل میں) فیصلہ کرنے والی ہیں۔(سورۂ بقرہ)۔

یہ تینوں آیات دلالت کرتی ہیں کہ قرآن ایک ہی رات میں نازل ہوا جسے مبارک سے متصف کیا جاتا ہے اور جسے شب قدر کہا جاتا ہے اور یہ ماہِ رمضان کی راتوں میں سے ایک رات ہے اور اس نزول کا اول ہونا متعین ہو جاتا ہے ،جو آسمان دنیا میں موجود بیت العزۃ کی طرف ہوا، کیوں کہ اگر اس سے نزول ثانی جو کہ آپ علیہ السلام پر ہو ا مراد ہو تو یہ نزول ایک ہی رات اور ایک ہی ماہ میں ہونا ٹھیک نہیں ہو گا کیوں کہ آپ ﷺپرقرآن ایک طویل عرصہ میں نازل ہوا اور وہ بعثت نبوی کی تئیس سالہ مدت ہے نیز رمضان کے علاوہ بھی بلکہ تمام مہینوں میں نازل ہوا، تو ثابت ہو گیا کہ اس سے مراد( نزول) اوّلی ہے اور احادیث صحیحہ (بھی) اس کی تائید کرتی ہیں مثلاً:
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: ’’ قرآن کو ذکر ( لوح محفوظ) سے علیحدہ کرکے آسمانِ دنیا میں موجود بیت العزۃ میں رکھا گیا ۔ چناں چہ جبرئیل امین اسے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل کرتے رہے‘‘۔(رواہ الحاکم)
اور حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے: ’’ قرآن کو یکبار گی آسمان دنیا کی طرف نازل کیا گیا، اور وہ نزولِ آیات کے وقوع کے زمانوں کے ساتھ ملا ہوا تھا اور اﷲ اسے اپنے رسول پرتھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرتے رہے‘‘۔(رواہ الحاکم والبیھقی)
اوان ہی سے منقول ہے : ( قرآن کو ماہِ رمضان میں شب قدر میں یکبارگی آسمانِ دنیا کی طرف نازل کیا گیا، پھر بتدریج اس کا نزول ہوا‘‘۔(رواہ الطبرانی)

ان تینوں روایتوں کو علامہ سیوطیؒ نے اپنی کتاب ’’ الإتقان فی علوم القرآن‘‘ میں ذکر کیا ہے او رکہا ہے کہ یہ تمام صحیح روایات ہیں ، اسی طرح علامہ سیوطی نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ عطیہ بن اسود نے اُن سے سؤال کیا کہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد ﴿شھر رمضان الذي أنزل فیہ القرآن﴾ اور اس کے فرمان ﴿إنا أنرلنٰہ في لیلۃ القدر﴾ نے میرے دل میں شک ڈال دیا ہے اس لیے کہ قرآن تو شوال، ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم، صفر، ربیع الاول کے مہینوں میں ( بھی) نازل کیا گیا ہے توحضرت ابن عباس ؓنے فرمایا: اسے رمضان المبارک میں شبِ قدر میں یکبارگی نازل کیا گیا، پھر اسے قسطوں میں (مختلف مواقع میں) آرام آرام سے دنوں اور مہینوں میں نازل کیا گیا۔

مواقع النجوم اور رِسلاً سے مراد یہ ہے کہ: اسے متفرق طور پر تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا گیا، بعض حصہ بعض کے بعد آیا آہستگی اورآرام کے ساتھ۔ علامہ قرطبی رنے قرآن کے لوح محفوظ سے بیت العزۃ کی طرف ( جو آسمان دنیا میں ہے ) مکمل نازل ہونے پر علما کا اجماع نقل کیا ہے، قرآن کریم کے اس نزول کی حکمت شاید قرآن اور جس ہستی پر قرآن نازل ہوا ہے اس کی عظمت شان کو واضح کرنا مقصود ہے کہ ساتوں آسمانوں کے باسیوں کو یہ بتائے ’’ کہ یہ آخری کتاب ہے جو آخری نبی پر بہترین امت کے لیے ہم نے اسے ان کے قریب کر لیا ہے تاکہ ہم اس کتاب کو ان پر نازل کریں‘‘

علامہ سیوطی فرماتے ہیں: اگر حکمتِ الہٰیہ اس کتاب کے لوگوں تک تھوڑا تھوڑا کرکے احوالِ حوادث کے مطابق پہنچنے کا تقاضہ نہ کرتی تو اسے پہلے نازل کی گئی کتابوں کی طرح ایک ہی مرتبہ اتار دیا جاتا، لیکن اﷲ نے اس کے اور پہلی کتب سماویہ کے ( درمیان فرق کر دیا اور اس کے نزول کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ Œ کامل نزول پھر منزل علیہ ( محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) کے اعزازواکرام کی بناء پر متفرق طور پر نزول۔(الإتقان42)

اور دوسری مرتبہ اس کا نزول آسمان دنیا سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر تئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے ہوا اور یہ مدت بعثت نبوی سے لے کر آپ علیہ السلام کی وفات تک ہے اور اس نزول اور اس کے متفرق طور پر نازل ہونے پر دلیل سورۂ اسراء میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
( اور قرآن میں ہم نے جابجا فصل رکھا، تاکہ آپ اس کو لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کرپڑھیں اور ہم نے اس کو تدریجاً اتارا‘‘

اور اﷲ تعالی کا فرمان سورہ فرقان میں ہے : ’’ اور کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان ( پیغمبر) پر یہ قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل کیا گیا، (جواب یہ ہے کہ) اس طرح (تدریجاً) اس لیے ( ہم نے نازل کیا) ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے سے آپ کے دل کو قوی رکھیں اور ( اسی لیے) ہم نے اس کو بہت ٹھہر ٹھہر کر اُتارا ہے‘‘۔

روایات میں آتا ہے کہ یہود اور مشرکین نے قرآن کے متفرق طور پر نازل ہونے کی وجہ سے آپ علیہ ا لسلام کا مذاق اڑایا اور مطالبہ کیا کہ ایک ہی مرتبہ پورا نازل کیا جائے، (یہاں تک کہ) یہود نے آپ علیہ السلام سے کہا: اے ابوالقاسم ! اس قرآن کو ایک ہی مرتبہ کیوں نازل نہیں کیا گیا جیسا کہ موسی ( علیہ السلام) پر تورات کو نازل کیا گیا؟ تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یہ دو آیتیں نازل کیں۔ یہاں اﷲ تعالیٰ نے کتب سماویہ کے ایک ہی مرتبہ پورے نازل ہونے کے اس دعوے میں ان کی تکذیب نہیں کی، بلکہ انہیں قرآن کے متفرق طور پر نازل ہونے کی حکمت کے بیان کے ساتھ جواب دیا اور اگر آسمانی صیحفوں کا نزول متفرق طور پر ہوتا جیسا کہ قرآن کا ہوا تو اﷲ تعالی جواب میں ان کی تکذیب فرماتے اور اعلان کرتے کہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے نازل کرنا اﷲ کی پہلے انبیاء پر نازل کیے گئے صحیفوں میں ( بھی عادت رہی ہے) جیسے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر رد کیا جب انہوں نے آپ علیہ السلام پر طنز اور اعتراض کیا اور کہا ( ’’ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ ( ہماری طرح) کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے‘‘؟) تو اﷲ نے انہیں جواب میں فرمایا: ( ’’ اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔‘‘(مناھل العرفان:46)

قرآن کریم کے قسط وار نازل ہونے کی بڑی بڑی حکمتیں اور متعدد سر بستہ راز ہیں، جنہیں اہل علم جانتے ہیں اور اہل جہل ان سے نابلد ہیں ، ہم ان کا خلاصہ اور نچوڑ درج ذیل الفاظ میں کرسکتے ہیں:

مشرکین کی تکالیف کے سامنے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو مضبوط کرنا اور اطمینان دلانا۔
وحی کے نزول کے وقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مہربانی اورنرمی برتنا۔
أحکام سماویہ کی قانون سازی میں بتدریج آگے بڑھنا۔
قرآن کریم کے یاد کرنے اور سمجھنے کو مسلمانوں پر آسان کرنا۔
حادثات وواقعات کے ساتھ چلنا اور ان کے اوقات ہی میں ان پر متنبہ اور آگاہ کرنا۔
قرآن کریم کے سر چشمہ اور اس کے حکیم اور قابل ستائش ہستی کی طرف سے نازل ہونے کو بتانا۔

آئیے! ان چند حکمتوں کی جن کاہم نے ابھی خلاصہ ذکر کیا ہے تفصیل بیان کرتے ہیں۔ پہلی حکمت( آپ علیہ السلام کے قلب مبارک کو مضبوط کرنا) ، آیت کریمہ میں مشرکین کے رد کے ذیل میں اس حکمت کو بیان کیا گیا ہے جب انہوں نے قرآن کے ایک ہی دفعہ پورا نازل ہونے کا مطالبہ کیا جیسا کہ گزشتہ آسمانی کتابیں نازل کی گئیں تھیں تو اﷲ نے ان کا جواب دیا اور فرمایا: (کذلک نثبت بہ فؤادک ورتلناہ ترتیلاً) اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل کو مضبوط کرنا اﷲ کی طرف سے خصوصی حمایت وتوجہ اور آپ کے دشمنوں کے آپ کو جُھٹلانے اور آپ علیہ السلام اور آپ کے ماننے والوں کو سخت تکلیف دینے والوں کے سامنے ، اپنے پیغمبر کی تائید تھی۔جب بھی مصیبتیں اور تکالیف پیش آتیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تسلی، دعوت کے راستے میں آگے بڑھنے میں آپ کی ہمت کو ابھارنے اور آپ کے قلب مبارک کو مضبوط کرنے کے لیے آیات کریمہ نازل کی جاتیں۔لہٰذا اﷲ تعالی نے اس کے ذریعے آپ کی نگرانی اور حفاظت فرمائی، جو آپ کے مصائب اور دکھوں کوہلکا کرے، چنانچہ جب بھی تکلیف آپ پر سخت ہو جاتی تو آیات آپ علیہ السلام کی تسلی اور جو (غم) آپ کو لاحق ہوتا اس کو ہلکا کرنے کے لیے نازل ہو جاتیں۔اور یہ تسلی کبھی رسولوں اور نبیوں کے واقعات کو ذکر کرکے دی جاتی تاکہ آپ ان کے صبر اور مجاہدے میں ان کی پیروی کریں،جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ، ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے صبر کیا ،ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی‘‘ اور اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’تو آپ صبر کیجئے جیسے ہمت والے پیغمبروں نے کیا‘‘ اور اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اور آپ اپنے رب کی تجویز پر صبر سے بیٹھے رہیئے کہ آپ ہمار ی حفاظت میں ہیں‘‘۔اور باری تعالیٰ نے انبیاء علیھم السلام کے واقعات کو بیان کرنے کی حکمت بیان فرمائی ہے، چناں چہ ارشاد پاک ہے :’’ اور پیغمبروں کے قصوں میں سے ہم یہ سارے قصے آپ سے بیان کرتے ہیں جن کے ذریعے سے ہم آپ کے دل کو تقویت دیتے ہیں اور ان قصوں میں آپ کے پاس ایسا مضمون پہنچا ہے جو خود بھی راست ہے اور مسلمانوں کے لیے نصیحت ہے اور یاددہانی ہے‘‘ اور تسلی کبھی مدد کے وعدہ اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تائید سے دی گئی، جیسا کہ اﷲ کا ارشاد ہے ( اور اﷲ آپ کو ایسا غلبہ دے گا جس میں عزت ہی عزت ہو) اور اسی طرح فرمایا: ( اور ہمارے خاص بندوں وپیغمبروں کے لیے ہمارا یہ قول پہلے ہی سے مقرر ہو چکا ہے کہ بے شک وہی غالب کئے جاویں گے اور ( ہمارا تو قاعدہ ہے کہ ) ہمارا ہی لشکر غالب رہتا ہے‘‘) اور کبھی تسلی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کی شکست اور ہارنے کی خبر دے کر ہوتی ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے: ( عنقریب ( ان کی) یہ جماعت شکست کھاوے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے‘‘) اور ان کافرمان ہے: (’’ آپ ان کفر کرنے والوں سے فرما دیجئے کہ عنقریب تم ( مسلمانوں کے ہاتھ سے) مغلوب کئے جاؤ گے اور ( آخرت میں)جہنم کی طرف جمع کرکے لیجائے جاؤ گے اور وہ ( جہنم) ہے برا ٹھکانہ‘‘ اس کے علاوہ بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو تسلی دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کے طریقوں کے مختلف انداز ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نزول وحی کے متجدد ہونے اور جبرئیل امین علیہ السلام کا ان واضح آیات کو جن میں آپ علیہ السلام کے لیے تسلی، مدد، حمایت اور تائید کا ذکر ہے لے کر بار بار اترنے میں آپ علیہ السلام کی مضبوطیٔ قلب کے لیے دعوت کے تسلسل اور پیغام الہٰی کی تبلیغ کو جاری رکھنے کے واسطے بہت بڑا اثر تھا، کیوں کہ اﷲ تعالی ان کے ساتھ ہے اور کیا وہ شخص ناکامی اور اضمحلال محسوس کرسکتا ہے جس کا اﷲ کے لطف وکرم نے احاطہ کیا ہو اور اس کی ذات ان کی نگہداشت کرتی ہو؟

دوسری حکمت نزول کے وقت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نرمی برتنا ہے۔ اور یہ قرآن کی شان وشوکت اور رعب کے سبب تھا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ( ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں ( مراد قرآن مجید ہے)۔ پس قرآن (واقعی) اﷲ کا معجز کلام ہے ۔

وہ جس کا جلال ،وقار اور رعب وشان ہے اور یہ وہ کتاب ہے، اگر اسے پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ اس کی ہیبت اور جلال کی وجہ سے پھٹ جاتا اور ریزہ ریزہ ہو جاتا جیسا کہ فرمانِ الہٰی ہے( اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو (اے مخاطب) تو اس کو دیکھتا کہ خوفِ خدا سے دب جاتا اور پھٹ جاتا)‘‘ تو پھر کیا حال ہو گا آپ علیہ السلام کے نرم دل کا ؟ کیا ان کے لیے تمام قرآن کو وصول کرنا بغیر تاثر کے، اضطراب کے اور قرآن کے رعب وجلال کے ممکن ہے؟

سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نزول قرآن کے وقت کی حالت اور جو وہ قرآن کے اثر کی وجہ سے خوف اور گھبراہٹ محسوس کرتے اس کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ آپ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : اور میں نے سخت سردی کے دن میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے ( ایسی سردی میں بھی) جب وحی کا سلسلہ ختم ہو جاتا تو آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابور ہو چکی ہوتی تھی‘‘ اور یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی کی شدت اور بوجھ کی بناء پر ہوتا تھا۔

تیسری حکمت:’’ أحکام کی قانون سازی میں بتدریج آگے بڑھنا‘‘ اور یہ حکمت ایک ظاہری اور یقینی بات ہے، اس لیے کہ قرآن کریم انسانیت اور بالخصوص عربوں کو حکمت کے ساتھ لے کر چلا، چناں چہ انہیں شرک سے چُھڑایا اور ان کے دلوں کو ایمان کی روشنی کے ذریعے زندہ کیا اور ان کے سینوں میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت، دوبارہ اٹھنے اور یوم جزاء پر ایمان کا بیج بویا، پھر انہیں اس مرحلہ یعنی ایمان کے ستونوں کو مضبوط کرنے کے بعد عبادت کی طرف پھیرا، ہجرت سے پہلے ان سے نماز کا آغاز کروایا، پھر دوسری ہجری میں روزہ اور زکوٰۃ دونوں کو ملادیا، پھرچھٹی ہجری میں حج کے حکم کے ساتھ ( اس مرحلہ کو) مکمل کیا اور اسی طرح موروثی رسم ورواج میں بھی یہی طریقہ اپنایا، پہلے انہیں کبا ئر سے روکا، پھر صغائر سے کچھ نرمی کے ساتھ منع کیا اور شراب ، سود اور جوا وغیرہ جو ان کے دلوں میں جڑیں پکڑ چکے تھے، قرآن نے انتہائی حکمت کے ساتھ آہستہ آہستہ اسے حرام کیا ، اس طرح قرآن کریم کے لیے شروفساد کو بالکل جڑ سے اکھاڑنا ممکن ہوا۔ہم ایک مثال اس دانش مندانہ قانون سازی پر ذکر کرتے ہیں ، جس کے اختیار کرنے میں قرآن کریم کو کامیابی حاصل ہوئی ،اجتماعی بیماریوں کے علاج کرنے میں شراب کی تحریم ہے جوعربوں میں ایک عام اور سنگین بیماری تھی اسے مٹانا اور ختم کرنا اسلام کے لیے کیسے ممکن ہوا؟

قرآن کریم نے اس کی تحریم کا نصاب چار مراحل میں مرتب کیا، جیسا کہ سود کے حرام کرنے میں طریقہ اپنایا گیا۔ پہلے قرآن نے اس سے بالواسطہ نفرت دلائی اور اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اترا: ’’ ومن ثمرات النخیل والأعناب تتخذون منہ سکراًورزقاً حسناً‘‘ اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز اور عمدہ کھانے کی چیزیں بناتے ہو‘‘۔ سو اﷲ نے بتایا کہ اس نے ان دو درختوں ( کھجور اور انگور) سے لوگوں پر انعام کیا کہ وہ ان دونوں سے مُسکر یعنی نشہ آور شراب اور رزق حسن یعنی وہ ماکولات ومشروبات جن سے لوگ نفع پاتے ہیں، حاصل کرتے ہیں۔ اﷲ نے دوسری شیٔ کی مدح بیان کی اور کہا کہ وہ رزق حسن ہے اور پہلے کے بارے میں بتایا کہ وہ سکر ہے یعنی ایسی چیز ہے جو نشہ آور اور انسان کی عقل کو خراب کرنے والی ہے اور اسی تبائن کے بیان سے ہر عقل مند شخص کے سامنے دونوں چیزوں کے درمیان ایک بڑی خلیج ظاہر ہو جاتی ہے۔

دوسرا مرحلہ: بلاواسطہ دو چیزوں کے درمیان عملی ملاپ کے ذریعے نفرت دلائی گئی: ایک چیز جس میں معمولی دنیوی فائدہ ہے اور ایک شیٔ جس میں جسم ، صحت اور عقل کا بہت بڑا نقصان ہے اور اس میں ان عظیم نقصانات کے ساتھ ساتھ مزید انسان کا گناہ کبیرہ میں پڑ کر ہلاک ہونا ہے، اﷲ کے اس ارشاد کو غور سے سینئے! ( لوگ آپ سے شراب اورقمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں۔ آپ فرمادیجئے کہ ان دونوں ( کے استعمال) میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کو ( بعضے) فائدے بھی ہیں اور ( وہ) گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔آیت میں منافع سے مراد: وہ مادی منافع ہیں جو عرب لوگ شراب فروشی اور اس کی تجارت سے حاصل کرتے تھے اور تجارت نفع بخش رہتی جیسا کہ وہ قمار اور جوء ے کے ذریعے نفع کماتے، اور قرآن نے اس آیت میں شرا ب اور جوئے کوجمع کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جوئے میں نفع صرف مادی اور دنیوی تھا کہ بعض جوئے باز اس سے نفع پاتے اور یہی بات شراب میں بھی تھی۔علامہ قرطبی رحمہ اﷲ نے اپنی تفسیر میں اﷲ کے ارشاد: ( ومنافع للناس) کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کیا ہے کہ ’’ شراب میں تجارت کا نفع تھا، اس لیے کہ وہ لوگ شراب کو شام سے سستے داموں لے کر آتے اور پھر حجاز میں اسے نفع کے ساتھ بیچتے‘‘ اور یہ قول شراب کے نفع کے بارے میں سب سے صحیح ہے۔اور ان دو چیزوں کے درمیان موازنہ سے ظاہر ہوا کہ اسلام نے شراب سے اس کے عظیم جسمانی نقصانات بیان کرکے نفرت دلائی، لیکن اسے حرام نہیں کیا۔اس آیت کے سبب نزول کے متعلق منقول ہے: مسلمانوں کی ایک جماعت جس میں عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ بھی تھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اﷲ! ہمیں شراب کے حکم کے بارے میں بتائیے؟ کیوں کہ وہ عقل کو لے جانے والی،مال کو ضائع کرنے والی، جسم کو کمزور ولاغر کرنے والی ہے؟ تو اﷲ نے یہ آیت ( یسئلونک عن الخمر والمیسر…… الخ) نازل کی۔

تیسرا مرحلہ: اﷲ کے فرمان ( اے ایمان والو تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت میں مت جاؤ کہ تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو کہ منہ سے کیا کہتے ہو‘‘ کے نازل ہونے سے شراب حرام ہو گئی، لیکن یہ تحریم جزئی تھی، اﷲ نے ان پر شراب کو صرف نماز کے وقت حرام کردیا، تاکہ وہ نشہ میں مدہوش نہ ہوں اور نماز کے اوقات میں بیدار رہیں، مسلمان رات کو اور نماز کے اوقات کے علاوہ شراب پیتے تھے۔

چوتھا مرحلہ: اس آخری مرحلہ میں جب اﷲ کا ارشاد’’ اے (ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب ،جوا ،بت وغیرہ اورقرعہ اندازی کے تیر یہ سب گندی باتیں اورشیطانی کام ہیں ، سوان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح حاصل ہو۔ شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور اﷲ تعالی کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے، سو اب باز آؤگے؟ نازل ہوا تو یہ تحریم کلی، قطعی اور مانع ہو گئی۔ اس طرح بتدریج شراب مکمل طور پر حرام ہوئی ، اس میں ایک عظیم الشان حکمت تھی جسے اسلام نے ان اجتماعی بیماریوں کے علاج کے لیے اختیار کیا۔

علامہ زرقانی رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب ’’مناہل العرفان‘‘ میں صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے : ’’ اسلام نے ان چیزوں کو جوان کے دلوں میں جڑیں پکڑ چکی تھیں جیسے شراب نوشی انتہائی حکمت کے ساتھ بتدریج حرام کی (جس کے نتیجہ میں ) اسلام کی مراد برآئی ، آخر کار شراب نوشی کے بھوت سے انہیں نجات دلائی ،اسلام اس شان دار پالیسی کے اپنانے میں انتہائی دور اندیش سیدھے راستہ پر گامزن قانون سازی میں کام یاب اور سیاست میں فائدہ مند ثابت ہوا، ان متمدن اور مہذب قوموں کے مقابلہ میں جو اپنی عوام پر شراب کی پابندی میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں اور انہیں شکست کے سخت کڑوے گھونٹ پینا پڑے ہیں امریکا کا شراب پر پابندی کا غیر سنجیدہ انداز زیادہ دور کی بات نہیں۔کیا یہ ( شراب کا حرام کرنا) قوموں کی سیاست اورجماعتوں کے سنوارنے میں اسلام کا معجزہ نہیں!

چوتھی حکمت: ’’ قرآن کریم کے حفظ کرنے، سمجھنے اور اس میں غوروفکر کرنے کو مسلمانوں کے لیے سہل اور آسان بنا دینا ‘‘ ہے۔ عرب امی تھے یعنی پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے متعلق امی ہونے کو اﷲ کے فرمان: ’’ وہی ہے جس نے (عرب کے) ناخواندہ لوگوں میں ان ہی ( کی قوم) میں سے ( یعنی عرب میں سے) ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اﷲ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں) میں محفوظ کر دیا ہے۔اسی طرح آپ علیہ السلام بھی امی تھے، ارشاد پاک ہے: ( الذین یتبعون الرسول النبي الأمي……)’’ جو لوگ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں……‘‘ پس اﷲ کی حکمت متقاضی تھی کہ ان پر اپنی بزرگ وبرترکتاب کو بتدریج نازل کیا جائے، تاکہ مسلمانوں کیلئے اس کا یادکرنا آسان اور سہل ہو کیوں کہ وہ لوگ اپنے حافظہ پر اعتماد کرتے تھے۔ پس ان کے سینے ان کے صحیفے ہو تے تھے، جیسا کہ امت محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں وارد ہوا ہے۔ اور کاتبوں کے کمیاب ہونے کے ساتھ ساتھ کتابت کے آلات بھی انہیں میسر نہ تھے، اگر قرآن ایک ہی مرتبہ اتار دیا جاتا تو وہ اس کے یاد کرنے سے عاجز آجاتے نیز اس میں غوروفکر کرنے اور سمجھنے میں بھی بے بس ہو جاتے۔

پانچویں حکمت:’’ حادثات اور واقعات کے ساتھ چلنا اور ان کے وقوع پذیر ہونے کے زمانے میں ان کی غلطیوں پر آگاہ کرنا ‘‘ اس لیے کہ یہ نفس انسانی میں زیادہ مؤثر اور اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے میں بطور درس عملی زیادہ داعی ہے۔ پس جب بھی کوئی نیا معاملہ پیش آتا تو اس کے موافق قرآن کی آیات اتر جاتیں اور جب بھی اصلاح کی ضرورت ہوتی تو قرآن نازل ہو جاتا جو انہیں بتاتا اور آگاہ کرتا کہ کس چیز سے بچنا مناسب اور کس کام کا طلب کرنا ضروری ہے ، ان کی نشاندہی کرتا اور ان پر متنبہ کرتا۔آپ غزوہ حنین کی مثال لے لیجئے! (اس غزوہ میں مسلمانوں کی کثرت کی وجہ سے) مسلمانوں کے دلوں میں کچھ بڑائی کا خیال آگیا او رجب انہوں نے دیکھا کہ ان کی تعداد مشرکین سے زیادہ ہے توبڑائی والی باتیں کرنے لگے، اس وقت ان میں عُجب پیدا ہوا، انہوں نے کہا : کہ آج ہم قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے نتیجۃً انہوں نے میدان جنگ سے پیٹھ پھیرلی اور شکست وہزیمت سے دو چار ہوئے ،اسی بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے: ’’( تم کو بہت سے مواقع میں غلبہ دیا) اور حنین کے دن بھی جب کہ تم کو اپنے مجمع کی کثرت کی وجہ سے غرور ہو گیا تھا ، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہو گئی پھر (آخر کار) تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے‘‘۔ اگر قرآن ایک ہی مرتبہ پورا نازل ہو جاتا تو اصلاح پر اس کے وقت میں تنبیہ ممکن نہ ہوتی، اس لیے کہ مؤمنین اور ان کے عجب کے متعلق آیات کے نزول کا تصور کیسے ممکن ہو سکتا ہے جبکہ غزوہ یا وہ واقعہ ابھی تک رونما نہ ہوا ہو۔ یہی حال جنگ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کے متعلق بھی ہے کہ ان کے بارے میں بہترین آسمانی نصیحت اتری: ﴿ وماکان لنبي أن یکون لہ أسری حتی یثخن في الأرض…………﴾․ ’’ نبی کی شان کے لائق نہیں ، کہ ان کے قیدی باقی رہیں ( بلکہ قتل کر دیئے جائیں ) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح ( کفار کی) خونریزی نہ کریں‘‘ ۔

چھٹی حکمت: ’’ قرآن کریم کے سرچشمہ اور اس کے حکیم اور قابل ستائش ہستی کی طرف سے نازل ہونے کے متعلق بتانا‘‘ اس جلیل القدر حکمت کے متعلق علامہ محمد عبدالعظیم الزرقانی نے جو عمدہ اور شان دار کلام اپنی کتاب ’’ مناھل العرفان‘‘ میں کیا ہے اس کا نقل کرنا ہمارے لیے انتہائی مناسب ہے ۔ ’’ ( قرآن کے متفرق طور پر نازل ہونے کی حکمت) قرآن کے مأخذ اور اس کا صرف اﷲ تعالی کے کلام ہونے کے متعلق بتاتاہے اور اس کا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور اس کے علاوہ مخلوق میں سے کسی کا کلام ہونا ممکن نہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ : ہم قرآن کریم کو شروع سے آخر تک پڑھتے ہیں ، تو وہ مستحکم ترتیب ، دقیق بناوٹ، قوی أسلوب، مضبوط ربط، اپنی سورتوں، آیتوں اور جملوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ( دلچسپ) ملاپ میں ( نظر آتا) ہے الف سے یاء تک مکمل قرآن میں إعجاز رواں ہے ، گویا کہ وہ ایک ہی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے اس کے اجزاء کے درمیان پھوٹ اور رخنہ ممکن نہیں، گویا وہ یکتا لڑی اور منفرد ہار ہے جو آنکھوں کی بینائی اچک لیتاہے، اس کے حروف اور کلمات منظم اور اس کے جملے اور آیتیں مربوط ہیں اور یہاں ہم پوچھتے ہیں کہ : قرآن کی یہ معجز تالیف کیسے پوری ہوئی؟ اور یہ حیرت انگیر یکسانیت کیوں کر ممکن ہوئی؟ حالاں کہ وہ ایک ساتھ پورا نازل نہیں ہوا، بلکہ بیس سال سے زائد عرصہ میں واقعات اور حوادث کے متفرق ہونے کی وجہ سے علیحدہ علیحدہ اور متفرق طور پر نازل ہوا؟

جواب یہ ہے کہ ہم یہاں اعجاز کے رازوں میں سے ایک نیا راز دیکھتے ہیں اور ربوبیت کی نشانیوں میں سے ایک نادر نشانی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور قرآن کے ماخذ اور جزا وسزا کے مالک اور اکیلے اﷲ کے کلام ہونے پر روشن دلیل پڑھتے ہیں : ( اگر یہ اﷲ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بکثرت تفاوت پاتے) اور اگر یہ بات نہیں تو خدارا مجھے بتائیے کہ آپ میں اتنی سکت ہے؟ یا تمام مخلوق میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب لے کر آجائے جو (باہمی) ربط وتعلق میں مضبوط، آراستگی اور ترتیب میں قوی، ابتداء اور اختتام میں متناسب ہو: نیز وہ تألیف میں ایسے خارجی عوامل واسباب کے ماتحت وپابند ہو جو انسان کی قدرت سے باہر ہوتے ہیں اور وہ زمانہ کے واقعات اور حوادث ہیں ، جن کے مطابق اس کتاب کا ہر جز نازل ہوتا اور ان کے متعلق بتاتا ہے او ران کے یکے بعد دیگرے اسباب اور پے در پے دواعی وعوامل کی خبر دیتا ہے، باجود اس اختلاف کے جوان عوامل کے درمیان اور اس تغایر کے جواُن اسباب کے درمیان پایا جاتا ہے، نیز باوجود اس کتاب کی تالیف کے وقفے اور قرآن ہی کے اجزاء کی مدت کے بیس سال سے زیادہ طویل ہونے کے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انفصال زمانی اور ان دواعی کے درمیان وہ قابل توجہ اختلاف عام طور پر رخنہ اور پھوٹ کو مستلزم ہوتے ہیں اور یہ دونوں اس کلام کے اجزاء کے درمیان کوئی ربط واتصال کا راستہ نہیں چھوڑتے۔ قرآن کریم نے اس پہلو سے بھی عادت کو توڑ ڈالا، جدا جدا ، قسطوں میں نازل ہوتا رہا لیکن اس کی تکمیل ایک مضبوط ومربوط کلام کی صورت میں ہوئی، کیا یہ روشن دلیل نہیں ہے کہ یہ قوتوں اور قدرتوں کے پیدا کرنے والے، اسباب کے مالک،مخلوق وکائنات کے منتظم، زمین وآسمان کے محافظ، ماضی ومستقبل پر علم رکھنے والے اور زمانہ اور اس میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر ذات کا کلام ہے؟

یہ بھی سمجھ لیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر جب کوئی ایک آیت یا چند آیتیں نازل ہوتیں تو آپ علیہ السلام فرماتے کہ ’’ اسے فلاں سورت میں فلاں مقام پر رکھ دو‘‘ اور وہ انسان تھے طبعی طور پر وہ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ ایام کیا لے کر آتے ہیں ؟ اور وہ نہیں جانتے تھے کہ زمانہ مستقبل میں کیا ہو گا؟ کیا حوادث وواقعات رونما ہوں گے؟ چہ جائیکہ انہیں ان واقعات کے متعلق کہ اﷲ کیانازل کرے گا ،اس کا علم ہو اور اسی طرح ایک لمبی عمر گزر گئی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اسی حالت پر رہے جبرئیل امین علیہ السلام ان کے پاس قرآن تھوڑا تھوڑا لاتے رہے، حتی کہ اس لمبی عمر کے بعد پورا قرآن مکمل وتمام ہوا اور وہ منظوم ومربوط، متناسب اور ملا ہوا اور اس میں تھوڑا سا بھی رخنہ اور تفاوت نہ تھا، بلکہ اس نے تمام مخلوق کو اپنی ہم آہنگی، یکسانیت اورتال میل کی وجہ سے عاجز کر دیا: ’’ یہ (قرآن) ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں ( دلائل سے) محکم کی گئی ہیں ، پھر ( اس کے ساتھ ) صاف صاف ( بھی) بیان کی گئی ہیں( وہ کتاب ایسی ہے کہ ) ایک حکیم باخبر( یعنی اﷲ تعالیٰ ) کی طرف سے(ہے)‘‘ جب آپ سمجھ لو گے کہ اس طرح کی ترتیب ویکسانیت کی کوشش رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام میں اور نہ ہی فصیح وبلیغ لوگوں کے کلام میں اس اسلوب وانداز پر جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے یا اس اسلوب کے قریب ہونا ہر گز ممکن نہیں ہے ، تو آپ پر اس اعجاز کا راز منکشف ہو جائے گا ،مثال کے طور پر آپ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقوال کو لے لیجئے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے مختلف مواقع میں متبائن اسباب کی وجہ سے طویل عرصہ میں صادر ہوئے اور جو اپنی شان وشوکت، فصاحت ، نکھار اور بلندی میں ہونے کے باوجود کیا آپ اور پوری انسانیت مل کر اتنی استطاعت رکھتی ہے کہ اس ٹکڑوں میں بٹے ہوئے کلام اور بیان کو اس میں نقصان وزیادتی اور تصرف کے بغیر ایک ایسی کتاب میں مرتب کرسکیں جو تسہیل اور ہم آہنگی سے آراستہ ہو؟ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ایسا ہونا ممکن ہے۔ اور جو اس کا ارادہ کرے گا تویقیناً ایک لایعنی اور عبث کام کرے گا اور لوگوں کے لیے پیوندزدہ لباس اور ایسا من گھڑت کلام لائے گا جو باہم ربط ویکسانیت میں معیوب اور وحدت وتسہیل میں ناپید اور کانوں اور ذہنوں پر ناگوار ہو گا۔تو معلوم ہوا کہ قرآن پاک کا قسط وار نازل ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ تنہا اﷲ کا کلام ہے۔ اور وہ جلیل القدر حکمت ہے جو قرآن کے منبع کے بارے میں مخلوق کی صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے !! ’’آپ کہہ دیجئے کہ اس (قرآن) کو تو اس ذات نے اتارا ہے جس کو سب چھپی باتوں کی خواہ وہ آسمانوں میں ہوں یا زمین میں خبر ہے، واقعی اﷲ تعالیٰ غفور رحیم ہے‘‘۔

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن کو کیسے حاصل کیا؟نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن کو امین الوحی جبرئیل علیہ السلام کے توسط سے حاصل کیا اور جبرئیل علیہ السلام نے اسے رب العزت( جل جلالہ) سے حاصل کیا اور جبرئیل امین علیہ السلام کا اﷲ کے کلام کو پہنچانے اور اسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف وحی کرنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہ تھا۔پس اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب کو اپنے آخری نبی(محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) پر امین الوحی جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے نازل کیا، اور جبرئیل علیہ السلام نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کی تعلیم دی ، رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اپنی امت تک پہنچایا اور اﷲ نے جبرئیل کے متعلق فرمایا کہ وہ وحی کے متعلق امین ہے اور اسے (رسول علیہ السلام تک ) پہنچاتا ہے جیسا کہ اس نے اﷲ سے سنا ہے :’’واقعی یہ قرآن (اﷲ کا) کلام ہے۔ ایک معزز فرشتہ ( یعنی جبرئیل علیہ السلام) کالا یا ہوا۔جو قوت والا ہے( اور) مالکِ عرش کے نزدیک ذی رتبہ ہے( اور) وہاں ( یعنی آسمانوں میں ) اس کا کہنا ماناجاتا ہے‘‘۔ اﷲ نے یہ بھی فرمایا: ’’ اس کو امانتدار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ کے قلب پر صاف عربی زبان میں تاکہ آپ بھی ( منجملہ) ڈرانے والوں کے ہوں‘‘۔ بہر حال قرآن کی حقیقت یہ ہے کہ وہ رب العالمین کا نازل کردہ کلام ہے ، جیسا کہ اﷲ کا فرمان ہے’’ اور آپ کو بالیقین ایک بڑی حکمت والے ،علم والے کی جانب سے قرآن دیاجارہا ہے ‘‘ ۔آپ علیہ السلام نزول قرآن کے وقت بہت سختی برداشت کرتے ،اپنے آپ کو قرآن کے یاد کرنے کے لیے مشقت میں ڈالتے اور جبرئیل علیہ السلام جب ان پر قرآن پڑھتے تو وہ ان کے ساتھ ساتھ دہراتے رہتے تاکہ بھول نہ جائیں یا اس میں سے کچھ ضائع نہ ہو جائے،تو اﷲ نے انہیں جبرئیل علیہ السلام کے پڑھنے کے وقت خاموش رہنے اور غور سے سننے کا حکم دیا اور انہیں اطمینان دلایا کہ وہ اس قرآن کو آپ کے سینے میں خود ہی محفوظ کر دیں گے ،آپ اس بارے میں جلدی نہ کریں اور اپنے نفس کو اس کے وصول کرنے میں مشقت میں نہ ڈالیں : ’’اور قرآن ( پڑھنے) میں قبل اس کے کہ آپ پر اس کی وحی پوری نازل ہو چکے، عجلت نہ کیا کیجئے اور آپ یہ دعا کیجئے کہ اے میرے رب میرا علم بڑھا دیجئے‘‘ اور رہا یہ کہ اﷲ نے آپ علیہ السلام کو یاد کروانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی، تو اس کے متعلق اﷲ کا ارشاد ہے:’’ (اور) اے پیغمبر آپ(قبل وحی کے ختم ہو چکنے کے) قرآن پر اپنی زبان نہ ہلایا کیجئے تاکہ آپ اس کو جلدی جلدی لیں ( کیوں کہ) ہمارے ذمہ ہے ( آپ کے قلب میں ) اس کا جمع کر دینا (اور آپ کی زبان سے) اس کا پڑھوا دینا۔ ( اگریہ ہمارے ذمہ ہے) تو جب ہم اس کو پڑھنے لگا کریں ( یعنی ہمارا فرشتہ پڑھنے لگا کرے) تو آپ اس کے تابع ہو جایا کیجیئے پھر اس کا بیان کرادینا(بھی) ہمارا ذمہ ہے‘‘۔ اور جبرئیل علیہ السلام ماہ ِ رمضان میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دور کرتے، پس جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آتے اور ان سے قرآن سنتے، تو رسول علیہ السلام ان کے سامنے قرآن سنتے اور وہ سناتے اور (پھر) جبرئیل علیہ السلام پڑھتے تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سنتے اور اسی طرح جبرئیل علیہ السلام ہر رمضان میں جو قرآن میں سے نازل ہوچکا ہوتا ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کے ساتھ اس کا دور کرتے اور آپ علیہ السلام کی وفات سے پہلے جبرئیل علیہ السلام رمضان میں دو مرتبہ (خلافِ معمول) آئے اور آپ علیہ السلام سے قرآن کا دور ومذاکرہ کیا، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام نے جبرئیل کے ( اس مرتبہ) دوبار نازل ہونے کی وجہ سے اپنے انتقال کے قریب آنے کومحسوس کر لیا تھا اور عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا:’’ جبرئیل مجھ پررمضان میں اترتے اور ایک مرتبہ مجھ سے قرآن کا دور کرتے اور اس سال وہ دو مرتبہ آئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ میرے انتقال کا وقت قریب آچکا ہے‘‘۔اور یہی ہوا اور اسی سال آپ علیہ السلام اپنے رب کے جوارِ رحمت کی طرف کوچ کر گئے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔
صلیٰ اﷲ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814931 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More