پنجاب میں اساتذہ پر نئی تعلیمی پالیسی کی تلوار برسنے کے لئے تیار

موجودہ حکومت شعبہءِ تعلیم میں گوناگوں تبدیلیوں کے حوالے سے بہت مشہورہے حالاں کہ اس حکومت کے اربابِ اختیارکاتعلق شُعبہ تعلیم سے بالکل نہیں ہے۔ اُن کی سوچ تجارت سے شروع ہوتی ہے اورتجارت پر ہی ختم۔ لیکن کمال ہے کہ جتنازورتعلیم کے شعبہ کودرست کرنے پرلگایاجارہاہےاتناکسی اورشعبہ کی اصلاح پرہرگِزنہیں لگایاجارہا۔ حالاں کہ اصلاح وبہتری کی گنجائش تو ہروقت ہرشعبہ میں رہتی ہے۔ پاکستان میں بجلی وتوانائی کے مسائل، امن وامان کی صورت حال، عدل وانصاف کی نایابی،روزگارکی کمی ،رشوت، ملاوٹ،چوری اور ڈکیتی وغیرہ بہت سے مسائل ہیں جن کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ محکمہءِتعلیم کے علاوہ پولیس،صحت،زراعت،عدلیہ،ریوینیو،انتظامیہ اورواپڈاوغیرہ تمام محکمہ جات میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

نظامِ تعلیم ونصابِ تعلیم ہی کے ذریعے قوموں کی ترجیحات طے کی جاتی ہیں اورمنزلِ مقصود حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی جاتی ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے اس بارے میں کہاتھا:
شیخ مرحوم کاقول اب مجھے یاد آتاہے دِل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے

لیکن ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران اسی نظامِ تعلیم پہ وارکرکے اپنے پاوء ں پرکلہاڑی ماررہے ہیں۔ شعبہءِ تعلیم میں بھی ساری توجہ ابتدائی سطح پرمرکوز ہے کیوں کہ یہی باقی تمام درجات کی بنیاد ہے۔ نئی تعلیم پالیسی 2015ء بھی سرکاری سکولوں تک ہی محدودہے۔ کالجز اوریونیورسٹیزپراس کااطلاق نہیں ہوگاکیوں کہ کالجز اوریونیورسٹیز میں تو ہرطرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں اوروہاں اصلاح کی گنجائش نہیں ہے۔ نہ ہی اس طرح کی اصلاحات کسی اور شعبہ میں کی جانے کی اُمید کی جاسکتی ہے کیوں کہ وہاں اُستاد نہیں ہوتے۔

مشہورمقولہ ہے: نزلہ بَرعُضو ضعیف۔ (جب بھی نزلہ گرتا ہے توعُضوِ ضعیف پر ہی گرتا ہے)۔ بھلااس مقولہ کے مصداق ابتدائی درجہ کے اساتذہ سے زیادہ اور کون ہوسکتے ہیں؟یہی وجہ ہے کہ جتنادبائو ابتدائی درجہ پرہے، اس کی مثال کسی اوردرجہ پرپیش نہیں کی جاسکتی۔ پنجاب میں نفاذ کے لئے تیارنئی تعلیمی پالیسی 2015ء بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی 2015ء عنقریب نافذکر دی جائے گی۔ اس تعلیمی پالیسی میں جہاں ایک طرف سرکاری سکولوں کے اساتذہ کااستحصال کیاگیاہے وہیں اسلام دشمنی کے نئے ریکارڈبھی قائم کئے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نئی تعلیمی پالیسی میں اساتذہ کوپرائویٹ مِلوں اورکارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کوحاصل شُدہ مُراعات سے بھی محروم کردیاگیاہے۔ نئی پالیسی میں 18کلومیٹر سے کم فاصلے پرتعینات اساتذہ کوکنوینس الاوئنس سےمحروم کردیاگیاہے اور60 فی صدسے کم نمبر حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کوفیل شُمارکیاجائے گااورجس اُستادیااُستانی کارزلٹ 95 فی صد سے کم ہوگا ،اُس کی اور اُس کے ہیڈ ٹیچر کی سالانہ انکریمنٹ روک لی جائے گی۔ اس کے علاوہ اتوار کی چھٹی کی تنخواہ بھی کاٹ لی جائے گی حالاں کہ پاکستان بھر میں پرائویٹ مِلوں اورکارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کواتوار کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ ہوسکتاہے اس پالیسی کے روحِ رواں اربابِ اقتدار کی مِلوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیاجاتاہو؟
پتا نہیں کیوں اربابِ اقتدار بے چارے اُستاد کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟ کیا اُنہوں نے کسی اُستاد سے کچھ نہیں سیکھا؟ وہ کیوں کر قوم کے مُحسنوں کوبدنام کرنے پرتُلے ہوئے ہیں؟ کیاقوم کے مُحسن اسی سلوک کے مستحق ہیں؟ (ویسے ہماری تاریخ تو ہمیں بتاتی ہے کہ قوم کے محسنوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا سُلوک ہی کیاجاتاہے)

اس نئی پالیسی کادوسراپہلوتوانتہائی بھیانک اورتاریک ہے۔ نظریاتی جماعت کے دعویدارحکمرانوں کی طرف سے پچھلے کئی سالوں سے نصابِ تعلیم میں اسلام ونظریہ پاکستان کے خلاف کی گئی تبدیلیاں ابھی قوم کوہضم نہیں ہوئی تھیں کہ اب نئی تعلیمی پالیسی میں اسلام دُشمنی کے نئے ریکارڈقائم کردئے گئے ہیں۔ نئی پالیسی کے مطابق جماعت پنجم اورہشتم کے امتحانات بورڈ کے تحت ہوں گے۔ ان امتحانات میں صرف پانچ مضامین (انگریزی،اُردو، ریاضی،سائنس اوراسلامیات)کے پرچے لئے جائیں گے۔ عربی زبان اورمطالعہ پاکستان کواس نئی پالیسی میں سرے سے ہی امتحان سے آوئٹ کردیاگیاہےاور کہاگیاہے کہ ان مضامین کاامتحان سکول خود لیں گے۔ اس طرح آدھاتیترآدھابٹیرقسم کےامتحانات منعقدکروائے جائیں گے۔ یادرہے کہ سیشن 2009ء سے ہی پنجاب کے سرکاری سکولوں میں عربی زبان کی تدریس کو نظراندازکردیاگیاتھا اورآپشنل مضمون کے طورپراس کاامتحان پنجاب ایگزامینیشن کے زیرِانتظام سیشن 2013ء تک ہوتارہا حتٰی کہ سیشن 2014ء اور2015ء کے امتحانات میں اس مضمون کے ساتھ ساتھ مطالعہ پاکستان کوبھی شریف انقلاب کی بھینٹ چڑھادیاگیا اوران دونوں مضامین کا امتحان پنجاب ایگزامینیشن نے لینے سے انکارکردیا۔ نئی تعلیمی پالیسی میں باقاعدہ ان دونوں مضامین کوامتحان سےفارغ کردیاگیا ہے۔واضح رہے موجودہ حکومت کی نئے قائم ہونے والےہائرسیکنڈری سکولوں میں جاری 9 مضامین کی پالیسی میں عرَبی اور مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ اسلامیات کوبھی ختم کردیاگیاہے جونظریہ پاکستان کی محافظ جماعت کی طرف سے اسلام اورپاکستان سے"بھرپورمحبت" کااظھارہے یا"بدترین نفرت" کا؟

کیا تعلیمی شعبہ کی بہتری کے لئے پیش کی گئی پالیسی کے بعض نکات، مثلًا اٹھارہ کلومیٹر سے کم فاصلہ پر تعیناتی کی صورت میں کنوینس الاوئنس اور اتوار کی چھٹی کی تنخواہ کی کٹوتی، دوسرے محکموں پرلاگو کرنے سے حالات بہتر سے بہترین نہیں ہوجائیں گے؟ اور کیاحکمران طبقہ اوراُن کےوزراء اورمشیران اوربیوروکریٹس اپنی تنخواہوں میں اس طرح کی تبدیلیاں پسندکریں گے؟ اس کاجواب یقینًا نہیں میں ہے تو دوسروں کے لئے ایسی چیز کیوں پسندکی جائے جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "تم میں سے کوئی شخص (مجھ پر) ایمان نہیں لاسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیزپسند نہ کرے جواپنے لئے کرتاہے"۔ اس حدیث کی روشنی میں ارباب اختیار کو اس نئی تعلیمی پالیسی پر ضرور نظرثانی کرنی چاہئے۔

کیانظریہ پاکستان اب قصہءِ پارینہ بن چُکاہے؟ کیا آئینِ پاکستان میں اسلام کی مقدس عرَبی زبان کی حفاظت اورپاکستانی تھذیب وثقافت کی ترویج کے لئے حکومتِ پاکستان کوپابندنہیں کیا گیا؟ حکومتِ پنجاب کی طرف سے نصابِ تعلیم اورنظامِ تعلیم میں کی گئیتمام اصلاحات ملک وقوم اوراسلام وپاکستان کے مفاد کے خلاف ہی کیوں بنتی ہیں؟ کیاہم ایک آزاد وخود مختار ملک کے باشندے ہیں؟

ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے بعد ہمیں دوٹوک فیصلہ کرناچاہئے کہ ہماراکعبہ مکہ مکرمہ ہے یاواشنگٹن اورنیویارک؟ بقول شاعرِ مشرق مفکر اِسلام جناب ڈاکٹرعلامہ اقبال ؒ:
دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سراسَرموم ہویاسنگ ہوجا
 
Akbar Ali Javed
About the Author: Akbar Ali Javed Read More Articles by Akbar Ali Javed: 21 Articles with 54361 views I am proud to be a Muslim... View More