عورت

حقوق زن

قرآن کریم کی نظر میں مرد و زن دونوں اشرف المخلوقات اور اس کے نمائندے ہیں اور دونوں کو مساوی درجہ کا عزت و احترام حاصل ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبروں کو بھیجا گیا ہے یا آسمانی کتابوں کو نازل کیا گیا ہے تو مرد و زن دونوں کے لئے، اگر "یاایھا الذین آمنوا" کا الہی اعزاز ہے تو دونوں کے لئے اور اگر انسان کی پیدائش کا مقصد کمالات کو پہنچنا ہے تو اس میں بھی دونوں شامل ہیں، اور دونوں کے لئے فضیلتوں اور کمالات کی راہ مساوی ہے، اسلام آج ہی نہیں بلکہ شروع سے ہی خواتین کی عزت و شرف کا حامی رہا ہے، 1400 سال قبل جب حجاز میں عورت سخت ترین ظلم و ناانصافی کا سامنا کررہی تھی، اور اس جاہلیت کے دور میں کوئی اسے انسان ماننے کے لئے تیار نہیں تھا، یہ اسلام ہے کہ جس نے اعلان کردیا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ مگر افسوس ہے کہ اسلامی تعلیمات سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ابھی بھی یہاں ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق پائمال کئے جاتے ہیں، اور ان پر ظلم و تشدد جاری ہے، ہم یہاں عورتوں کے غصب شدہ حقوق میں سے بعض حقوق بیان کرتے ہیں۔

بیٹیوں کو حق حیات سے محروم کیوں کیا جارہا ہے ؟
بیٹی کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے، ماں باپ اگر دیندار بھی ہوں پھر بھی انہیں ایک سے زیادہ بیٹی پسند نہیں ہے اور دوسری یا تیسری بیٹی کی ولادت ان کے لئے بہت ہی ناگوار ہے لہذا اسی لئے بھارت میں دختر کشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، بچوں کو زہریلی دوائیوں کے ذریعے ماں کے پیٹ ہی میں مار دیا جاتا ہے، اور اس طرح سے جدید جاہلیت سے قدیم جاہلیت کی یاد پھر تازہ ہورہی ہے، اور قرآنی آیات ابھی بھی اپنا مصداق ظاہر کررہی ہے، جو ڈاکٹر صاحبان یہ کام انجام دے رہے ہیں یا جن والدین کے کہنے یا رشتہ داروں کے کہنے پر یہ کام انجام دیا جارہا ہے، سبھی یاد رکھیں کہ قرآن مجید کی نظر میں یہ لوگ قاتل ہیں اور انکی سزا بھی قاتل کی سزا ہے۔

حق انتخاب سے محروم.....:
ہمارے معاشرے میں اس بات کا مشاہدہ ہورہا ہے کہ باپ اپنی بیٹی کو اعتماد میں لئے بغیر اور اسکے ساتھ صلاح و مشورہ کئے بغیر اس کی شادی کا فیصلہ کرلیتا ہے، حالانکہ شریعت نے باپ کو بیٹی پر ولایت (سرپرستی) دی ہے لیکن یہ سرپرستی تشریکی ہے یعنی یہ ایسی ولایت و سرپرستی ہے کہ جس میں بیٹی کی رضا مندی بھی ضروری ہے، باپ، بیٹی کی رضا مندی حاصل کئے بغیر اسکا رشتہ طے نہیں کرسکتا ہے اور اسی طرح بیٹی بھی باپ کی رضامندی کے بغیر خود رشتہ طے نہیں کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ شادی میں ایک اہم مسئلہ ”ہم کفو“ کا ہے، یعنی لڑکا اور لڑکی عمر، تقویٰ، تعلیم اور خاندان کے اعتبار سے ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہ ہوں، تاکہ آئندہ کی زندگی میں ہم آہنگی رہے، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مہر حیثیت کے اعتبار سے ہونا چاہیئے، اور ادا بھی ہونا چاہیئے، اب اگر عقد کے وقت ادا نہ ہوسکے، تو شوہر کے لئے ضروری ہے کہ بیوی کو اس بات پر راضی کرلے کہ اپنی مالی پوزیشن بہتر ہوتے ہی اسے ادا کرے گا۔

نفقہ فراہم نہ کرنا:
بیوی کے لئے مناسب گھر، لباس اور کھانا فراہم کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے، آج ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانوں میں اس عورت پر شوہر کے علاوہ بہت سے حاکم ہوتے ہیں، ان حالات اور ان مشترکہ خاندانوں میں عورت کا سکون متاثر اور اسکے حقوق سلب ہوتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم نے عقد کو سکون کا ذریعہ قرار دیا ہے، "وَمِن آیٰاتِہ اَن جَعَل اَزواجاً لِتسکنوا الیھا، وَجَعل بَینکم مَودة۔۔۔ قرآن کریم کے اس ارشاد کے مطابق شادی کا مقصد زوجین کے لئے سکون اور محبت فراہم کرنا ہے لہذا اس قرآنی طرز کی زندگی کے لئے مقدمات فراہم کرنا لازمی و ضروری ہے۔

کام کا دباو:
شریعت کا دستور ہے کہ بیوی کو تمکین کے علاوہ دوسرے کاموں پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، اس لئے فقہی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ بیوی بچہ کو دودھ دینے کے لئے شوہر سے اجرت لے سکتی ہے۔، حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (ص) کی مشترکہ زندگی کو دیکھئے، یہاں گھریلو کام تقسیم شدہ ہیں، جس طرح حضرت علی (ع) اسلام کے بیرونی محاذوں میں آگے آگے تھے، اسی طرح گھریلو امور میں بھی ایک فعال مرد تھے، اور حضرت زہرا (ص) کی مدد کرتے تھے، اس سلسلے میں روایات میں ملتا ہے کہ حضرت علی (ع) گھر میں چولھا جلاتے تھے، پانی لاتے تھے اور گھر میں جاڑو دیتے تھے، اسی طرح حضرت زہرا (ص) چکی پیستی تھیں، آٹا گوندھتی تھیں، اور روٹی وغیرہ بناتی تھیں، ہمارے معاشرے میں خواتین کی مدد کرنا تو دور کی بات ان سے سخت اور دشور کام کرائے جاتے ہیں، اس سلسلے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر عورتیں خود اپنی اصل ذمہ داری کے علاوہ دوسرے کام انجام دیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر انہیں مجبور کیا جائے تو اس صورت میں حرام ہے۔

میراث سے محرومی:
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین۔۔۔
اللہ تعالیٰ آپکو حکم دیتا ہے کہ اپنے اولاد میں سے لڑکے کو لڑکی سے دو گنی میراث دی جائے، یعنی اگر والدین کی پراپرٹی تین لاکھ روپے ہیں تو لڑکے کو دو لاکھ اور لڑکی کی ایک لاکھ میراث بنتی ہے، قرآن کریم کے اس واضح حکم کے بعد بھی آج کل خواتین اپنے والدین اور شوہروں کی میراث سے محروم کی جاتی ہیں، والدین کے مرنے کے بعد پوری ملکیت بڑے بیٹے یا دوسرے بیٹوں کے قبضے میں آجاتی ہے، بہن بیچاری اس پراپرٹی پر دعویٰ کرنے میں اول تو شرم محسوس کرتی ہے، اس سے اپنے حق کی وصولی کے لئے مختلف عدالتوں، دیوان خانوں اور پنچایتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں، پھر زور زبردستی یا بزرگوں کی مداخلت کے بعد اگر اسے کچھ میراث مل بھی جاتی ہے تو قانونی اعتبار سے اسکی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی یعنی اسکے برادران اسکے لئے کسی ایسی زمین کا انتخاب کرتے ہیں جو بنجر ہو یا سڑک سے دور ہو وغیرہ، شریعت کو ہمارا مزاج معلوم ہی ہے لہذا شارع نے پہلے ہی بیٹے کو بیٹی سے دوگنی میراث دی ہے، لیکن ہم لوگ پھر بھی اسے اسکا اپنا حصہ بھی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں، واضح رہے کہ بیٹی کو زمین، مکان، صحن، درخت، دکان، گاڑی یا گھر میں موجودہ دیگر چیزوں سے میراث ملنا چاہیئے، نہ صرف بعض اشیاء میں سے۔
mohd aqueel
About the Author: mohd aqueel Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.