اجتماعی کوششیں اور ہمارا الیکٹرونک میڈیا

دورِحاضر میں تنقید ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے ،سسٹم پر تنقید،قانون پر تنقید ،سیاست اور سیاستدانوں پر تنقید غرضیکہ کوئی شے ایسی نہیں ہے کہ جس پر ہم تنقید کے تیر چلاتے ہوئے نظر نہ آ رہے ہوں ہم تنقید برائے تنقید کر رہے ہوں یا تنقید برائے اصلاح رواں دور میں تو اسکو بس تنقید ہی سمجھا جاتا ہے فرض کر لیں اگر کسی بھی شعبے پر تنقید برائے اصلاح بھی کی جائے تو اسکو حملہ سمجھا جاتا ہے۔جبکہ تنقید وضاحت ہے،فصاحت ہے ،ترجمانی ہے،تجزیہ ہے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کرنا بھی تنقیدی فن ہے،اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی تنقیدی اوصاف کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

آج کل الیکٹرنک میڈیا ہمارے معاشرے کا سب سے اہم شعبہ ہے خصوصاً نیوز کا شعبہ جو بڑی توجہ اور خصوع اور خشوع سے دیکھا جاتا ہے میڈیا کے اس شعبہ نے ہمارے معاشرے میں حالاتِ حاضرہ ،سیاسی اور کسی حد تک قانونی شعور تو پیدا کیا ہے لیکن کئی جگہوں پراسے تنقید کا بھی سامنا ہے اور جو تنقید کے اوصاف سے واقف نہیں ہیں انھوں نے کچھ چینلز کے تبصروں کو اپنے اوپر حملہ سمجھا اور اُن چینلز کو اب عروج سے زوال کا سامنا ہے ۔چینلز کو کیا دکھانا ہے کیا نہیں دکھانا یہ اب بھی نہ تو الیکٹرونک میڈیا کو پتہ ہے نہ پیمپرا کو،ہمارے نزدیک ایان علی کی جیل واک ،ایان علی کے گردن پر ٹیٹو کا نشان،ایان علی کا میک اپ پرخرچہ،ایان علی کی ڈریسنگ کو دکھانا،ایان علی کی کتاب وغیرہ، کیا ہمارے ملک کا اہم مسئلہ ہے؟بریکنگ نیوز ملتان میں ایک بیل بھاگ گیا ۔ کرکٹرسرفراز کا شادی کے بندھن میں بندھ جانا تو خبر ہو سکتی ہے لیکن بوتیک میں سرفراز کا شیروانی کا ناپ دینا اور شیروانی کا کریم کلر کا ہونا کیا اس ملک کے ایشوز میں شامل ہو سکتے ہیں ؟اور کئی ایسی خبروں کا دکھانا جو کہ ہمارے ملک کے ایشوز نہیں ہیں اُنکی فہرست لمبی ہے ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ ہمارا الیکٹرونک میڈیا ملک کے ایشوز پر بات نہیں کرتا لیکن ان نان ایشوز کے بجائے بہت سی خبریں ایسی بھی ہیں جنھیں الیکٹرنک میڈیا نشر نہیں کرتا ہے جو خالصتاً ملکی ایشو ز ہیں ، ملتان میں ایک شخص نے پریس کلب کے سامنے خود سوزی کی کوشش کی کیونکہ اسے ریلوے حکام نے بحال نہیں کیا، اس خبر کے بار بار نشر ہوتے ہی میرے ذہن میں پاکستان اسٹیل کے ملازمین آئے جنھوں نے پچھلے دنوں کراچی پریس کلب پر کئی ماہ سے تنخواہ نہ ملنے اور افسران کی سات سال سے تنخواہ میں اضافہ نہ ہونے کے خلاف مظاہرہ کیا ۔ اس سے قبل انھوں نے کئی مظاہرے کئے لیکن میڈیا نے اُسے کوئی کوریج نہیں دی حد تو یہ ہے کہ ایک tickerتک نہیں چلایا،پاکستان اسٹیل پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتا ہے ریلوے کے ایک ملازم کے لئے میڈیا حرکت میں آ گیا ،ایان علی ،سرفراز بھی فرد واحد ہیں میڈیا کے نزدیک یہ فرد واحدین ملکی ایشوز ہونگے لیکن پاکستان اسٹیل کے ہزاروں ملازمین اور ان سے جڑے خاندان و احباب کی تعداد لاکھوں میں بنتی ہے جو میڈیا کے نزدیک کوئی ملکی ایشو نہیں ہے تو کیا میڈیا ون مین شو پر یقین رکھتا ہے ؟آخر میڈیا کے سامنے اجتماعیت کی اہمیت کیوں نہیں ہے؟ کیا ہمارا آزاد میڈیا اجتماعی جدوجہد کو بر سر اقتدار افراد کے کہنے پر نظرانداز کرتا ہے ؟جو تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر عمل پیراہیں۔

پھر تو میڈیا کو اپنے آپ کو آزاد میڈیا کہنے کا کوئی حق نہیں۔لیکن پھر میں یہ سوچتا ہوں کہ ایان علی کی ڈریسنگ،ایان کے گردن پر ٹیٹو کے نشان کو،یا سرفراز کی کریم کلر کی شیروانی کی خبروں کو بطور انٹر ٹینمنٹ ناظرین پسند کرتے ہوں گے اس لئے یہ دکھانا الیکٹرونک میڈیاکیلئے ضروری ہے ،لیکن اسٹیل مل کے ھزاروں ملازمین اُنکے بچوں کا مستقبل ناظرین کے لئے بھی ضروری ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا کے بزنس منیجر شائد ضروری نہ سمجھتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سنسنی خیزی،پُر تشدد،جارحانہ مزاج ہمارے معاشرے کی ضرورت کے لحاظ سے میڈیا پُر امن مظاہروں کو اس لیے اہمیت دینے سے اجتناب برت رہا ہو کہ یہ کچھ کرتے تو نہیں تودکھانے کا کیا فائدہ۔ یہاں پر میں الیکٹرنک میڈیا کو یہ احساس دلوانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیں اپنے معاشرے کو موجودہ حالات کی نسبت تبدیل کرنا ہے تو پُر امن احتجاج کو زیادہ اہمیت اور پُر تشدد احتجاج پر سزا کیلئے آواز بلند کرنا ہوگی۔ میری اس تنقید کو تنقید برائے تنقید سمجھیں یا تنقید برائے اصلاح،لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اپنے میعار کو بہتر بنائیں اور عوام میں پُر امن اجتماعی کاوشوں کو فروغ دینے کا شعور اجاگر کریں اسلامی تاریخوں کا مطالعہ کیا جائے تو اجتماعی جدوجہد کا سبق دیتی ہوئی نظر آتی ہیں ، مُکا کسی سرخ یا سبز کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ طاقت کی علامت ہے پانچوں اُنگلیاں اکھٹا ہو جائیں تو مُکا بنتا ہے اور مُکا اجتماعیت کی علامت ہے کئی صحافیوں کو قتل کر دیا گیا اُن پر تشدد کیا گیا کئی اداروں سے صحافیوں اور ملازمین کو نکالا گیا لیکن صحافت بھی تقسیم کا شکار ہے اس لحاظ سے تو میڈیا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اجتماعی کوششوں کا ساتھ دیں کسی بھی ایسے ایشو زکو قطعاً نظر انداز نہ کریں جس سے لاکھوں افراد کسمپرسی کی جانب دھکیلے جا رہے ہوں۔
تحریر:شیخ محمد ہاشم۔ اسٹیل ٹاون بن قاسم کراچی
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91287 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More