تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہی ہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

از عثمان احمد
19 Jun 201

تحریر: غلام مصطفے ٰ ظہیرامن پوری


آٹھ رکعت نمازِ ترایح ہی سنت ہے، جیسا کہ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں : ” یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور کسی ایک روایت سے بھی ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں تہجد اور تراویح الگ الگ پڑھی ہوں ۔” (العرف الشذی: ۱۶۶/۱)

جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (م۱۳۴۶ھ) لکھتے ہیں : “ابنِ ہمام (نے) آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے، سو یہ قول قابل طعن نہیں “۔(براھین فاطعہ: ۱۸)

مزید لکھتے ہیں : ” سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں ۔(براھین فاطعہ:۱۹۵)” جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی (۱۳۶۲-۱۲۸۰ ھ) کہتے ہیں : “بیماروں کو تو کہ دیتا ہوں کہ تراویح آٹھ پڑھو، مگر تندرستوں کو نہیں کہتا۔
(الکلام الحسن: ۸۹/۲)

” جناب عبد الشکور فاروقی لکھنوی دیوبندی (م ۱۳۸۱ھ) لکھتے ہیں : “اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابنِ عباس سے بیس رکعت بھی۔” (علم الفقہ از عبد الشکور دیوبندی: ۱۹۸)

یہی بات امامِ احناف ابنِ ہمام حنفی(فتح القدیر: ۴۶۸/۱) ، امام عینی حنفی(عمدۃ القاری: ۱۷۷/۷)، امام ابنِ نجیم حنفی(البحر الرائق: ۶۶/۲)، ابنِ عابدین شامی حنفی(ردالمحتار: : ۵۲۱/۱) ، ابوالحسن شرنیلانی حنفی(مرافی الفلاح: ۲۲۴) ، طحطاوی حنفی(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المحتار: ۵۲۱/۱: ۱۸)وغیرہ ہم نے پیش کی ہے۔

حنفی ودیوبندی “علماء وفقہاء” کے آٹھ رکعت مسنون تراویح کے فیصلے کے بعد اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آٹھ رکعت نمازِ تراویح کے سنت ہونے پر دلائل ذکر کرتے ہیں:

دلیل نمبر: 1

ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ رمضان المبار ک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز (تراویح ) کی کیا کیفیت ہوتی تھی؟تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو تا یا غیر رمضان ، گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔

(صحیح بخاری۱۵۴/۱،ح:۱۱۴۷، ح: ۲۰۱۳ صحیح مسلم ۲۵۴/۱: ۷۳۸).

جمہور علماء ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے آٹھ رکعت تراویح ثابت کرتے ہیں ، جیسا کہ امام ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی (م ۶۵۶ھ) لکھتے ہیں:

ثمّ اختلف فی المختار من عدد القیام ۔۔۔۔۔ وقال کثیر من أھل العلم : احدی عشرۃ رکعۃ ، أخذا بحدیث عائشۃ المتقدّم۔

پھر قیام کے عددِ مختار میں اختلاف کیا گیا ہے، کثیر علمائے کرام نے کہا ہے کہ یہ گیارہ رکعت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی اس حدیث سے دلیل لیتے ہوئے جو گزر چکی ہے”۔

(المفھم لمااشکل من تلخیص کتاب مسلم : ۳۸۹/۲ـ ۳۹۰)

اس حدیث کی شرح میں جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں:

ھذا الرّوایۃ روایۃ الصّحیحین ، وفی الصّحاح صلاۃ تراویحۃ علیہ السّلام ثمانی رکعات وفی السّنن الکبریٰ وغیرہ بسند ضعیف من جانب أبی شیبۃ، فانّہ ضعیف اتّفاقاً، عشرون رکعۃ، الآن انّما ھو سنّۃ خلفاء الرّاشدین، ویکون مرفوعاً حکماًوان لم نجد اسنادہ قویّاً۔

یہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے اور صحیح احادیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِتراویح آٹھ رکعت ثابت ہے اور سنن کبریٰ میں بیس رکعتوں والی روایت ضعیف سند کے ساتھ ابوشیبہ سے آئی ہے، جوکہ باتفاق ضعیف ہے اور بیس رکعتیں خلفائے راشدین کی سنت ہے اور مرفوع کے حکم میں ہے ، اگرچہ اس کی قوی سند ہمیں نہیں ملی۔

(العرف الشذی: ۱۰۱/۱)

دیکھے! شاہ صاحب کس طرح آٹھ رکعت تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم میں ثابت کر رہے ہیں اور ساتھ ہی حنفی مذہب کی کمزوری ومعذوری میں پیش کررہے ہیں کہ ہم بیس رکعت تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قوی سند کے ساتھ نہیں پاسکے ، آپ خود اندازہ فرمائیں کہ ایک مسئلہ جو قوی سند کے ساتھ ثابت بھی نہ ہو، پھر صحیح بخاری وصحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف بھی ہو، اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟

ہم کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین سے کسی وضع (من گھڑت ) روایت سے بھی بیس رکعت نمازِ تراویح پڑھنا ثابت نہیں ہے، لہٰذا بیس رکعت تراویح کو خلفائے راشدین کی سنت قرار دینا صریح غلطی ہے۔

جناب انور شاہ کاشمیری دیوبندی کے علاوہ متعدد حنفی فقہا ء نے بھی اس حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنہا کو آٹھ رکعت تراویح کی دلیل بنایا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ نمازِ تراویح اور تہجد میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں ۔ (تفصیل کیلئے دیکھیں فیض الباری: ۴۲۰/۲ وغیرہ)
دلیل نمبر: 2

سید نا جابر بن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

صلّٰی بنا رسول اللہ صَلّٰی اللہ علیہ وسلَم فی شھر رمضان ثمان رکعات و‍أوتر۔

“اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ماہِ رمضان میں آٹھ رکعت نمازِ تراویح اور وتر پڑھائے۔”

(مسند ابی یعلیٰ: ۳۲۶/۲، المعجم الصغیر للطبرانی: ۱۹۰/۱، فتح الباری : ۱۲/۳، وسندہ حسن)

اس روایت کے راوی عیسیٰ بن جاریہ، جمہورمحد ثین کے نزدیک”موثق، حسن الحدیث “ہیں ۔اس حدیث کو امام ابن خذیمہ (۱۰۷۰) اور امام ابن حبان (۲۴۰۹)ؒ نے” صحیح” کہا ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : واسنادہ وسط” اس کی سنداچھی ہے۔” (میزان الا عتدال : ۳۱۱/۳)

امام عینی حنفی (عمد ۃ القاری۷ /۱۷۷) اور دیگر فقہا ء نے اس حدیث کو آٹھ رکعت نمازِ تراویح پر دلیل بنا یا ہے۔

دلیل نمبر: 3

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، اے اللہ کے رسول! آج رات مجھ سے ایک کام ہوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کیا اے اُبی؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میرے گھر کی عورتوں نے مجھے کہا ہم قرآن ِ کریم پڑھی ہوئی نہیں ، اس لیے ہم آپ کے ساتھ نمازپڑھیں گی:

فصلّیت بھن ثمان رکعات، ثمّ أوترت، فکانت سنّۃ الرّضا، ولم یقل شیئاٍ۔

“میں نے انہیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں، پھر وتر پڑھائے، اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی اظہار فرمایا اور کچھ نہیں کہا۔”

(مسند ابی یعلیٰ: ۳۶۲/۲، زوائد مسند الامام احمد : ۱۱۵/۵ ،المعجم الا وسط للطبرانی ۱۴۱/۴، قیام اللیل للمروزی: ۲۱۷، وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۲۵۵۰) نے “صحیح” کہا ہے، حافط ہیثمی نے اس کی سند کو”حسن ” کہا ہے (مجمع الزوائد:۷۴۲)
دلیل نمبر: 4

:صحابئ رسول سید نا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیا ن فرماتے ہیں

أمر عمربن الخطّاب أبی ّ بن کعب وتمیماٍ الدّاریّ أن یقوما للّناس باحدی عشرۃ رکعۃ

“سید نا عمر خطاب رضی اللہ عنہ نے سید نا ابی بن کعب اور سید نا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نمازِ تراویح (مع وتر) پڑھا یا کریں۔ “

( موطا امام مالک:۱۳۸،شرح معانی الآ ثار للطحاوی: ۲۹۳/۱، السنن الکبری للبھیقی: ۴۹۶/۲، مشکاۃ المصابیح:۱/۴۰۷، وسندہ صحیح)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم صحیح بخاری و صحیح مسلم والی حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے موافق ہے، سید نا امیر المئومنین، شہید ِ محراب کا حکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے عین مطابق ہے، اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں آٹھ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا اور اس سے بیس رکعت تراویح کے قائلین و عاملین کا رد ہوتا ہے اور ان کا یہ قول کہ وہ بیس رکعت نمازِ تراویح اس لیے پڑھتے ہیں کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیس پڑھی تھیں ، یہ بات سید نا عمر رضی اللہ عنہ پر بہتان اور سراسر جھوٹ ہے، کسی وضعی(من گھڑت) روایت سے بھی سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت تراویح پڑھنا ثابت نہیں ہے۔

ثابت ہوا کہ عہد ِ فاروقی میں آٹھ رکعت تراویح پر صحابہ کرام کا اجماع تھا۔
دلیل نمبر: 5

سید نا سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

انّ عمر جمع النّاس علی أبیّ وتییم، فکانا یصلّیان احدی عشرۃ رکعۃ۔

” سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سید نا ابی بن کعب اور سید نا تمیم داری رضی اللہ عنہ پر جمع کردیا ، وہ دونوں گیارہ رکعت نمازِ تراویح پڑھاتے تھے۔”

(مصنف ابن ابی شیبۃ:۳۹۲-۳۹۱/۲، تاریخ المدینۃ للامام عمر بن شیبہ: ۷۱۳/۲ وسندۃ صحیح)
دلیل نمبر: 6

سید نا سا ئب بن یزید رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں:

کنّا نقوم فی زمان عمر بن الخطّاب باحدی عشرۃ رکعۃ۔۔۔۔۔

” ہم (صحابہ) سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعت (نمازِ تراویح ) پڑھتے تھے۔”

(سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی للفتاوی للسیو طی: ۳۴۹/۱، حاشیۃ آثار السنن للنیسوی: ۲۵۰ وسندہ صحیح)

علامہ سبکی لکھتے ہیں:

اسنادۂفی غایۃ الصّحّۃ

۔ “اس کی سندا انتہا درجہ کی صحیح ہے۔”

( شرح المنھاج بحوالہ الحاوی للفتاوی: ۳۵۰/۱)

مذکور ہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت نمازِ تراویح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سید نا ابی بن کعب وسید نا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو وتر سمیت گیارہ رکعت نمازِ تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل و تکمیل میں گیارہ رکعت نمازِ تراویح پرھائی اور صحابہ کرام نے پڑھی۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !

بیس رکعت تراویح کے دلائل کا جائزہ

اب ہم ان لوگوں کے دلائل کا علمی وتحقیقی ، مختصر، مگر جامع جائزہ پیش کرتے ہیں جو بیس رکعت نمازِ تراویح کو “سنتِ مؤکدہ” کہتے ہیں ۔
دلیل نمبر: 1

سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبار ک میں بیس رکعتیں اور وتر پڑ ھا کرتے تھے ۔

(مصنف ابن بی شیبۃ: ۲۹۴/۲، السنن الکبری للبیھقی: ۴۹۶/۲، المعجم الکبیر للطبرانی: ۳۹۳/۱۱ ، وغیرہ ہم)
تبصرہ:

یہ جھوٹی روایت ہے، اس کی سند میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان راوی “متروک الحدیث” اور “کذاب” ہے، جمہورنے اس کی ” تضعیف” کر رکھی ہے۔

امام زیلعی حنفی لکھتے ہیں:

وھو معلو ل بأبی شیبۃ ابراہیم بن عثمان ، جدّ الامام أبی بکر بن أبی شیبۃ، وھو متّفق علیٰ ضعفۃ، الیّنۃ ابن عدیّ فی الکامل ، ثمّ مخالف للحدیث الصّحیح عن أبی سلمۃ بن عبد الرّحمٰن أنّہ سأل عائشۃ: کیف کانت صلاٰ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ؟ قالت : ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی ٰ احدیٰ عشرۃ رکعۃ۔۔۔۔۔

” یہ روایت ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی کی وجہ سے معلول (ضعیف) ہے ، جو کہ امام ابوبکر بن ابی شیبہ کے دادا ہیں ، ان کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، امام ابن عدی نے بھی الکامل میں ان کو کمزور قرار دیا ہے ، پھر یہ اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، جس میں ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کے بارے میں سوال کیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔۔۔۔۔”

(نصب الرایۃ للزیلعی: ۱۵۳/۲)

ا)جناب انور شاہ کشمیری دیو بندی لکھتے ہیں:

أما النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم فصحّ عنہ ثمان رکعات وأ مّا عشرون رکعۃ فھو عنہ علیہ السّلام بسند ضعیف وعلی ضعفہ اتّفاق۔

” آٹھ رکعات نمازِ تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہیں اور جو بیس رکعت کی روایت ہے ، وہ ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ “(العرف الشذی: ۱۶۶/۱)

بالا تفاق” ضعیف ” راوی کی روایت وہی پیش کرسکتا ہے جو خود اس کی طرح بالا تفاق ” ضعیف ” ہو۔

ب) جناب عبد الشکور فاروقی دیوبندی نے بھی اس کو ” ضعیف ” قرار دیا ہے۔ ( علم الفقۃ : ص ۱۹۸)

ج)ابن ِ عابدین شامی حنفی (م ۱۲۵۲) لکھتے ہیں:

فضعیف بأبی شیبۃ، متّفق علی ضعفہ مع مخالفۃ للصّحیح۔ ”

یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس میں راوی ابو شیبہ (ابراہیم بن عثمان) بالاتفاق ضعیف ہے ، ساتھ ساتھ یہ حدیث ( صحیح بخاری و صحیح مسلم کی) صحیح (حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنہا) کے بھی خلاف ہے۔ “(منحۃ الخالق: ۶۶/۲)

یہی بات امام ابنِ ہمام حنفی(فتح القدیر : ۴۶۸/۱) امام عینی حنفی (عمدۃ القاری : ۱۲۸/۱۱) نے بھی کہی ہے۔ علامہ سیوطی (۹۱۱-۸۴۹ھ)لکھتے ہیں : ھذا الحدیث ضعیف جدّ ا، لاتقوم بہ حجّۃ۔ ” یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے، اس سے حجت ودلیل قائم نہیں ہوسکتی ۔” (المصابیح فی صلاۃ التراویح : ۱۷)

تنبیہ: امام بریلویت احمد یار رخان گجراتی ( ۱۳۹۱-۱۳۲۴ھ)اپنی کتاب ” جاء الحق (۲۴۳/۲)” میں ” نمازِ جنازہ میں الحمد شریف تلاوت نہ کرو” کی بحث میں امامِ ترمذی ؒ سے نقل کرتے ہیں:

” ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ منکر ِ حدیث ہے۔”

لیکن اپنی اسی کتاب ( ۴۴۷/۱) کے ضمیمہ میں مندرج رسالہ لمعات المصابیح علی رکعات التراویح میں اس کی حدیث کو بطور ِ حجت پیش کرتے ہیں ، دراصل انصاف کو ان سے شکایت ہے کہ وہ اس کا ساتھ نہیں دیتے ، ایسے بدیانت اور جاہل ، بلکہ اجہل لوگوں سے خیر کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے جو اس طرح کی واہی تباہی مچاتے ہیں ؟

قارئین کرام! بعض الناس کی یہ کل کائنا ت تھی جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے، نہ معلوم اس کے باوجود ان لوگو ں کو بیس رکعات نمازِ تراویح کو” سنتِ مؤ کدہ” کہتے ہوئے شرم کیوں نہیں آتی؟
دلیل نمبر: 2

سید نا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبار ک میں ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام کو چوبیس رکعتیں پڑھائیں اور تین رکعات وتر پڑھے۔ ( تاریخ جر جان لابی قاسم حمزۃ بن یوسف السھی المتوفی۷۶۷، من الھجریۃ: ص ۲۷۵)
تبصرہ:

یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے، اس میں دوراوی عمر بن یارون البلخی اور محمد بن حمید الرازی ” متروک وکذاب” ، نیز ایک غیر معروف راوی بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بیس تراویح کے سنتِ مؤ کدہ ہونے کا راگ الا پنے والے اس چوبیس والی حدیث کو کس منہ سے پیش کرتے ہیں ؟
دلیل نمبر: 3

سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رمضان میں رات کو لوگوں کو نماز پڑ ھا یا کریں ، آپ نے فرما یا ، لوگ دن میں روزہ رکھتے ہیں ، لیکن اچھی طرح قراء ت نہیں کرسکتے، اگر تم رات کو ان پر قرآن پڑ ھا کرو تو اچھا ہو، سید نا ابی بن کعب نے عرض کی ، اے امیر المؤمین ! پہلے ایسا نہیں ہوا تو آپ نے فرما یا، مجھے بھی معلوم ہے، تاہم یہ ایک اچھی چیز ہے، چنا نچہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات پڑ ھائیں ۔ (کنز العمال : ۴۰۹۸)
تبصرہ:

” کنز العمال” میں اس کی سند مذکور نہیں ، دین سند کا نام ہے ، بے سند روایات وہی پیش کرتے ہیں ، جن کی اپنی کوئی” سند ” نہ ہو۔
دلیل نمبر: 4

عن الحسن أنّ عمر بن الخطّاب رضی اللہ عنہ جمع النّاس علی أبیّبن کعب، فکان یصلّی لھم عشر ین رکعۃ“

حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر اکٹھا کیا ، وہ انہیں بیس رکعات پڑ ھاتے تھے ۔”

(سنن ابی داؤد ، سیر اعلام النبلاء: ۴۰۰/۱۰، جامع المسانید والسنن للحافظ ابن کثیر : ۵۵/۱)
تبصرہ:

عشر ین رکعۃ کے الفاظ دیو بندی تحریف ہے، محمود الحسن دیوبندی(۱۲۶۸-۱۳۳۹ھ) نے یہ تحریف کی ہے، عشر ین لیلۃ” بیس راتیں ” کی بجائے عشر ین رکعۃ ” بیس رکعتیں ” کر دیا ہے۔ جبکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخہ میں عشرین رکعۃ نہیں ہے، تمام نسخوں میں عشرین لیلۃ ہی ہے، حال ہی میں محمد عوامہ کی تحقیق سے جو سنن ابی داؤد کا نسخہ چھپا ہے، جس میں سات آٹھ نسخوں کو سامنے رکھا گیا ہے، اس میں بھی عشر ین لیلۃ ہی ہے، محمد عوامہ لکھتے ہیں : من الأ صول کلّھا۔

” سارے کے سارے بنیادی نسخوں میں یہی الفاظ ہیں ۔” (سنن ابی داؤد بتحقیق محمد عوامہ : (۲۵۶/۲)

عشر ین رکعۃ کے الفاظ محرف ہونے پر ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ (السنن الکبری: ۴۹۸/۶)نے یہی روایت امام ابوداؤد رحمہ اللہ کی سند سے ذکر کی ہے اور اس میں عشر ین لیلۃ کے الفاظ ہیں ۔ یہی الفاظ حنفی فقہا ء اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کرتے رہے ہیں ۔ رہا مسئلہ” سیر اعلام النبلاء” اور ” جامع المسانیدو والسنن” میں عشر ین رکعۃ کے الفاظ کا پا یا جا نا تو یہ ناسخین کی غلطی ہے، کیونکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخے میں یہ الفاظ نہیں ہیں ، یہاں تک کہ امام عینی حنفی (۸۵۵ھ) نے ” شرح أبی داؤد (۳۴۳/۵) میں عشرین لیلۃ کے الفاظ ذکر کر کیے ہیں ، نسخوں کا اختلا ف ذکر نہیں کیا ،ا گر رکعۃ کے الفاظ کسی نسخے میں ہوتے تو امام عینی حنفی ضرور بالضر ور نقل کرتے ، اسی لیے غالی حنفی نیموی (م۱۳۲۲ھ) نے بھی اس کو بیس رکعت تراویح کی دلیلوں میں ذکر نہیں کیا ہے۔

۲۔ اگر مقلدین کی بات کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ روایت ان کی دلیل نہیں بن سکتی ، جیسا کہ خلیل احمد سہار نپوری دیوبندی صاحب (۱۳۴۶-۱۲۶۹ھ) لکھتے ہیں کہ ایک عبارت بعض نسخوں میں ہوا اور بعض میں نہ ہو تو وہ مشکوک ہوتی ہے۔ ( بزل المجھود : ۴۷۱/۴، بیروت)

لہذا اس دیو بندی اصول سے بھی یہ روایت مشکوک ہوئی۔
تنبیہ:

امام بریلوت احمد یار خان نعیمی گجراتی (۱۳۹۱-۱۳۲۴ھ) نے عشر ین لیلۃ کے الفاظ ذکر کیے ہیں ۔ ( جاء الحق” : ۹۵/۶ بحث” قنوتِ نازلہ پڑھنا منع ہے”)

جناب سر فراز خان صفدر دیوبندی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : ” جب عام اور متداول نسخوں میں یہ عبارت نہیں تو شاذ اور غیر مطبوعہ نسخوں کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے؟” ( خزائن السنن : ۹۷/۲)

مقلدین کے اصول کے مطابق اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں ۔

۔ امام زیلعی حنفی ( م ۷۶۲ھ) اور امام عینی حنفی لکھتے ہیں:

لم ید رک عمر بن الخطّاب ۔ ”

اس روایت کے راوی امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر بن خطاب کا زمانہ نہیں پا یا”

( نصب الرایۃ : ۱۲۶/۲، شرح ابی داؤد از عینی حنفی: ۳۴۳/۵)

لہذا یہ روایت ” منقطع” ہوئی ، کیا شریعت ” منقطع” روایات کا نام ہے؟

۴۔ امام عینی حنفی نے اس کو ” ضعیف ” قرار دیا ہے۔ ( شرح سنن ابی داؤد از عینی حنفی : ۳۴۳/۵)

۵۔ اس روایت کو حافظ رحمہ اللہ نے بھی ” ضعیف ” کہا ہے۔ ( خلاصۃ الا حکام للنووی: ۵۶۵/۱)

۶۔ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا گیارہ رکعت تراویح بمع وتر کا حکم دینا ثابت ہے۔

( موطا امام مالک : ۱۳۸، السنن الکبری للبھقی: ۴۹۶/۲، شرح معانی الآثار للطحاوی : ۲۹۳/۱، معرفۃ السنن والآ ثار للبیھقی : ۴۲/۴ ،فضائل الاوقات للبیھقی: ۲۷۴: قیام اللیل للمروزی : ۲۲۰، مشکاۃ المصابیح : ۴۰۷ وسندہ صحیح)

امام طحاوی حنفی (۳۲۱-۲۳۹ھ) نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے۔
دلیل نمبر 4

یزید بن رومان کہتے ہیں کہ لوگ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں رمضان میں تیس رکعات پڑ ھا کرتے تھے۔( موطا امام مالک: ۹۷/۱، السنن الکبر ی للبیھقی: ۴۹۴/۲) ۔
تبصرہ:

یہ روایت ” انقطاع” کی وجہ سے ” ضعیف” ہے، کیونکہ راوی یزید بن رومان نے سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہی نہیں پایا ، امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یزید بن رومان لم ید رک عمر بن الخطّاب۔ ” یزید بن رومان نے سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پا یا۔” نصب الرایۃ للز یلعی: (۱۶۳/۲) لہذا یہ روایت ” منقطع” ہوئی ، جبکہ مؤ طا امام مالک میں اس اس “منقطع” روایت سے متصل پہلے ہی”صحیح ومتصل ” سند کے ساتھ ثابت ہے کہ امیر المؤمنین سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت کا حکم دیا تھا۔ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں : ترجیح المسّصل علی المنقطع.

” ضابطہ یہ ہے کہ متصل کو منقظع پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔” (العرف الشذی: ۱۱) ہم کہتے ہیں کہ یہاں بے ضابطگیاں کیوں ؟ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : ” روایتِ مؤ طا مالک منقظع ہے۔”(اشرف الجواب:۱۸۲)

صحیح احادیث کے مقابلہ میں ” منقطع ” روایت سے حجت پکڑنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔
دلیل نمبر: 5

یحیٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑحائے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۹۳/۲)
تبصرہ:

یہ روایت ” منقطع” ہونے کی وجہ سے ” ضعیف ” ہے، نیموی حنفی لکھتے ہیں : یحیی بن سعید لم یدرک عمر۔ ” یحیٰ بن سید الانصاری نے سید نا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ “) التعلیق الحسن از نیموی حنفی: ۲۵۳) ۔
دلیل نمبر: 6

عبد العزیز بن رفیع فرماتے ہیں کہ سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کو مدینہ میں بیس رکعات پڑ ھاتے تھے اور وتر تین رکعات۔ ( مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۹۳/۲)
تبصرہ:

یہ رویات بھی ” انقطاع” کی وجہ سے ” ضعیف” ہے، نیموی حنفی لکھتے ہیں:

عبد العزیز بن رفیع لم ید رک أ بیّ بن کعب۔ ” عبد العزیز بن رفیع نے سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو نہیں پا یا۔ ” (التعلیق الحسن : ۲۵۳)
دلیل نمبر: 7

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں رمضان میں بیس رکعتیں پڑ ھتے تھے۔( مسند علی بن الجعد : ۲۷۲۵، السنن الکبری للبیھقی: ۴۹۶/۲، وسندہ صحیح)
تبصرہ:

یہ بیس رکعتیں پڑھنے والے لوگ صحابہ کرام کے علاوہ اور لوگ تھے ، کیونکہ صحابی رسول سید نا سائب بن یزید خود فرما تے ہیں : کنا (أی الصّحابۃ) نقوم فی عھد عمر بن الخظّاب با حدٰ ی عشرۃ رکعۃ۔۔۔” ہم (صحابہ) سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات (نمازِ تراویح بمع وتر) پڑھتے ۔” (حاشیۃ آثار السنن : ۲۵، وسندہ صحیح)

صحابہ کرام کے علاوہ دوسرے لوگوں کا عمل حجت نہیں ، یہ کہا ں ہے کہ یہ نامعلوم لوگ بیس کو سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑ ھتے تھے ، اگر کوئی آٹھ کو سنت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بارہ کو زائد نفل سمجھ کر پڑ ھے تو صحیح ہے، یہ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔

جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (م ۱۳۴۶ھ) لکھتے ہیں : ” ابنِ ہمام (نے ) آٹھ رکعات کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے ، سو یہ قول قابل طعن کے نہیں ۔” ( براھین قاطعۃ : ۱۸)

مزید لکھتے ہیں : ” سنتِ مؤ کدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں ۔” ( براھین قاطعہ: ۱۹۵)
دلیل نمبر: 8

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح اور وتر پڑ ھا کرتے تھے۔ ( معرفۃ السفن والآثار للبیھقی: ۴۲/۴)
تبصرہ:

یہ روایت ” شاذ” ہے، امام مالک ،ا امام یحیٰ بن سعید القظان اور امام الدراوردی وغیر ہم رحمہ اللہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس میں ” شذوذ” ہے ، اگر چہ خالد بن مخلد ” ثقہ” راوی ہے، لیکن کبار ثقات کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اس کی روایت قبول نہ ہوگی ، اسی روایت میں کبار ثقافت گیارہ رکعات بیان کررہے ہیں ۔
دلیل نمبر: 9

ابو عبد الرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ سید نا علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قراء کو بلا یا اور ان کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑ ھائیں ، سید نا علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ ( السنن الکبری للبیھقی:۴۹۶/۲)
تبصرہ:

( ا) یہ روایت ” ضعیف” ہے، اس کی سند میں حماد بن شعیب راوی ” ضعیف” ہے، اس کو امام یحیٰ بن معین ، امام ابوززرعہ ، امام نسائی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” ضعیف ” کہا ہے۔

ب) دوسری وجہ ضعیف یہ ہے کہ عطاء بن السائب ” مختلط” راوی ہے ، حماد بن شعیب ان لوگوں میں سے نہیں ، جنہوں نے اس سے قبل الا ختالط سنا ہے۔
دلیل نمبر: 10

ابو الحسناء سے رویات ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترایح، یعننی بیس رکعات تراویح پڑ ھا یا کرے۔( مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۹۳/۲)
تبصرہ:

اس روایت کی سند ” ضعیف” ہے، اس کی سند مین ابو الحسنا ء راوی ” مجہول” ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لایُعرف۔ ” یہ غیر معروف راوی ہے۔” ( میزان الاعتدال : ۵۱۵/۴)۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں غیر معروف راویوں کی روایات کا مکلّف نہیں ٹھہرایا ۔
دلیل نمبر: 11

اعمش کہتے ہیں کہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔” ( مختصر قیام اللیل للمروزی : ۱۵۷)
تبصرہ

اس کی سند ” ضعیف ” ہے ، عمدۃ القاری( ۱۲۸/۱۱) میں یہ حفص بن غیاث عن الأ عمش کے طریق سے ہے ، جبکہ حفص بن غیاث اور اعمش دونوں زبردست” مدلس” ہیں اور ” عن ” سے بیا ن کررہے ہیں ، لہٰذا سند” ضعیف” ہے۔

باقی امام عطاء امام ابن ابی ملیکہ ، امام سوید بن غفلہ وغیر ہم کا بیس رکعت پڑھنا بعض الناس کو مفید نہیں ، وہ یہ بتائیں کہ وہ امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں یا امام عطاء بن ابی رباح وغیرہ کے ؟ اور اس بات کو کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ بیس رکعت کو سنتِ مؤکدہ سمجھ کر پڑ ھتے تھے۔

آل تقلید پر لازم ہے کہ وہ باسندِ صحیح اپنےامام ابوحنیفہ سے بیس رکعت تراویح کا جواز یا سنتِ مؤکدہ ہونا ثابت کریں ، ورنہ مانیں کہ وہ اندھی تقلید میں سر گرداں ہیں ۔

الحاصل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے بیس رکعت نمازِ تراویح پڑ ھنا قطعاًثابت نہیں ہے، سنت صرف آٹھ رکعات ہیں ۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حق سمجھنے والا اور اس پر ڈٹ جانے والا بنائے۔ آمین!

زیادہ سے زیادہ شئیر کیجیے اور دعوت دین میں ہمارا ساتھ دیں
 
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 410885 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.