نظم و ضبط : ایک کیس اسٹڈی

پچھلی تحریر میں، میں نے نظم و ضبط کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی تھی، کہ کیسے ایک عام شخص اپنی صلاحیتوں کو نظم و ضبط کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے عام لوگو ں سے ممتاز ہو سکتا ہے۔ اُس قسط میں ، میں نے اپنی ذاتی زندگی کا ایک مسئلہ بھی پیش کیا تھا اور یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ اگلی قسط میں اس مسئلے کو کامیابی سے حل کرنے کے لیے جو کوششیں میں نے کیں آپ کو بتاؤں گا تاکہ مجھ جیسے کئی لکھنے والوں کی مدد ہو سکے۔

جیسا کہ میں نے پچھلی قسط میں ذکر کیا تھا کہ میں ایک سفرنامہ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا، جو تقریباَ ایک سال سے تعطل کا شکار تھا۔ کتاب کا پہلا باب لکھنے کے بعد سے میں ایک ایسے جمود کا شکار تھا جو بہت تکلیف دہ تھا۔ یہ کوئی تخلیقی جمود نہیں تھا ، جو اکثر لکھنے والوں کو درپیش ہوتا ہے۔ یہ جمود سستی و کاہلی اور سہل انگاری پر مبنی ایک بیماری تھی جو مجھ پر بہت برے طریقے سے حاوی تھی۔ اگر یہ تخلیقی جمود ہوتا تو شائد میں اتنی ذہنی اذیت محسوس نہیں کرتا کیونکہ اس صورت میں میرے پاس ایک اصلی بہانہ موجود ہوتا ، کہ میں کسی کہانی، ناول، یا کسی دوسری تحریر کے ایسے مقام پر پھنس گیا ہوں، جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت مجھے سجھائی نہیں دے رہی۔ مگر چونکہ ایک سفر کے تمام تر واقعات وقوع پذیر ہوچکے ہوتے ہیں اور ایک لکھاری کو صرف انہیں بہتر طریقے سے تحریر کرنا ہوتا ہے تو اس صورت میں لکھنے والے کو تخلیقی لحاظ سے زیادہ مشکل پیش نہیں آنی چاہیئے۔ پڑھنے والوں سے معذرت کہ مجھے اتنی لمبی تمہید باندھنی پڑی، تو کہانی کو مختصر کرتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں کہ کیسے میں نے اپنی اِس مشکل پر قابو پایا۔

جب یہ واضح ہو گیا کہ سفرنامہ تحریر کرنے میں درپیش سب سے بڑی رکاوٹ نظم و ضبط کی کمی ہے تو پھر اس کے سدِ باب کے لیے جو اقدامات کیے گئے وہ نیچے ذیل میں واضح کیے گئے ہیں۔

میرے لکھنے کے بہترین اوقات کیا ہیں؟
کیونکہ میں ایک نوکری پیشہ فرد ہوں اور میرے فار غ اوقات عموماَ شام اور رات کے ہوتے ہیں ، اس لیے میں نے طے کر لیا کہ مجھے رات سونے سے پہلے کم از کم ایک صفحہ روزانہ لکھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ اب یہ سب جانتے ہیں کہ طے کرنا ایک الگ بات ہے اور اس پر مستقل مزاجی سے عمل درآمد ایک دوسری بات ہے۔ کسی بھی عادت کو اپنے معمولات کا حصہ بنانے کےلیے آپ کوبہت سی رکاوٹیں عبور کرنی پڑتیں ہیں، مجھے بھی کچھ رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں میں نے انہیں کیسے جانچا اور کیسے انہیں عبور کیا۔

رکاوٹوں کا اندراج
کئی دنوں تک میں اپنے معمولات کا نہایت خاموشی اور بغیر کسی تنقیدی نگاہ کے جائزہ لیتا رہا۔ اس جائزے کے دوران میں نے خود اپنی ذات کو کسی تنقید اور کسی شرمندگی دلانے والے رویے سے الگ رکھا۔ مثال کے طور پر میں نے محسوس کیا کہ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں کئی گھنٹے (کم از کم دوگھنٹے اور زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے )مسلسل مشہور سوشل میڈیا فیس بک کا استعما ل کر رہا تھا۔ دوسری عادت فلم بینی کی تھی، جس میں بھی کم از کم دوگھنٹے لگتے تھے۔ایک اور عادت جو روزانہ تو نہیں ہوتی تھی، مگر ہفتے میں دو تین بار میں مشہورِ زمانہ گیمز کال آن ڈیوٹی، ٹی ایف 2، اور ٹام کلینسی گھوسٹ ریکون فینٹمز کھیلا کرتا تھا۔ یوں میرے رات کے اوقات عموماَ انہی مشاغل میں گزر جایا کرتے تھے۔

نوٹ : میں نے صرف ان عادات کا ذکر کیا ہے جو میری ذاتی زندگی میں طے کیے گئے مقاصد کے حصول میں فائدہ مند تو تھیں، مگر ان عوامل کی زیادتی سے باقی مقاصد پر ضرب لگ رہی تھی ۔ ذاتی زندگی میں مقاصد طے کرنے کی اہمیت کو کسی اور تحریر میں زیرِ بحث لایا جائے گا۔

وجوہات
دن کے 12 سے 14 گھنٹے نوکری پر گزارنے کے بعد عموماَ کسی بھی شخص کا دل یہ نہیں کرتا کہ وہ کوئی مشکل کام سرانجام دے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ دن بھر سخت کام سر انجام دینے کے بعد کوئی ایسا آسان کام کیا جائے جو ذہنی تھکن اور جسمانی تھکاوٹ کو دور کرسکے۔

ورزش، لکھنے کی مشق، عبادت، خاندان کے ساتھ گفت وشنید یا ایسے کسی بھی فائدہ مند کام کو سر انجام دینے میں ہم عموماَ "آج نہیں کل " کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اسے انگریزی میں “procrastination” کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا لفظی ترجمہ تو "ملتوی کرنا" یا "تاخیر " ہے لیکن میری رائے میں اس کے لیے سہل انگاری کا لفظ نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے، اسی لیے میں اس تحریر میں اسے سہل انگاری ہی لکھوں گا ۔ اردو لغت میں لفظ"سہل انگاری" کے آگے "غفلت، لاپرواہی، اور تساہل" درج ہیں ۔ میری رائے میں یہ لفظ مجھے درپیش مسئلے کی فقط ایک ہی لفظ میں نہایت ہی عمدہ تعریف کرتا ہے۔

رکاوٹوں کا علاج
رکاوٹوں کے تعین کے بعد اگلا مرحلہ ان کے مناسب علاج کا تھا جس کے لیے میں نے مندرجہ ذیل طریقے استعمال کیے۔

دوستوں کی مدد
میں نے سب سے پہلے اپنے دوستوں کے حلقے میں اس کتاب کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ میں اگلے تین مہینوں میں اسے مکمل کروں گا۔ میں نے اپنے دوستوں کو کہا کہ میں انہیں روزانہ کی بنیادوں پر لکھاہوا مواد پڑھنے بھیجوں گا اور کسی بھی ناغے کی صورت میں انہیں آئس کریم کی شاندار دعوت دوں گا۔ دو شاندار ترغیبوں (ایک نیا سفرنامہ پڑھنا یا آئس کریم کھانا) کی موجودگی میں میرے دوستوں کی میری اس کوشش میں دلچسپی مجھ سے زیادہ بڑھ گئی۔
اس عمل کے دوبڑے فائدے ہوئے:
1۔ میں سہل انگاری سے بچنے پر مجبور ہو گیا، کیونکہ مجھے دوستوں کی تنقید اور آئس کریم پر اٹھنے والے اخراجات سے بچنے کے لیے روزانہ لکھنا پڑا۔
2۔ مجھے اپنے لکھے ہوئے مواد پر ایک تنقیدی جائزہ روزانہ کی بنیادوں پر ملنے لگا۔

طے شدہ اہداف کی تکمیل پر خود کو من پسند چیزوں سے نوازنا
نا لکھنے کی صورت میں دوستوں کی تنقید اور اخراجات میں اضافے کے علاوہ بھی کچھ ایسا کرنا ضروری تھا جس سے مجھے مسلسل لکھنے کی ترغیب ملے۔ اس صورتحال کے لیے میں نے خود سے طے کیا کہ ہر سات (7) صفحات لکھنے پر میں ایک فلم یا ایک گھنٹہ فیس بک یا پھر ایک گھنٹا آن لائن گیمز استعمال کرنے کا حق پا سکوں گا۔

ذہنی رکاوٹیں
دل نا چاہنا، بوریت، یا تھکن جیسی ذہنی رکاوٹوں کے لیے خود کو یہ باور کروانا پڑتا ہے کہ جس اہم کام سے ہم بچنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ہمارے لیے کیوں ضروری ہے۔ میرے کیس میں درج ذیل وجوہات بہت کارآمد ثابت ہوئیں۔
1۔ لکھنا میرے لیے باعث ِ خوشی ہے اور جائز خوشی کا حصول میری زندگی کے طے کردہ مقاصد میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔
2۔ میرے دوست اور خاندان کے افراد میرے لکھے ہوئے لفظوں کو پسند کرتے ہیں اور لطف اٹھاتے ہیں۔
3۔ ایک کامیاب لکھاری کی حیثیت سے خود کو منوانے کے لیے اس کتاب کی تکمیل اور پھر اشاعت بہت ضروری ہے۔
4۔ میں یہ سفر نامہ لکھنے کے بعد اسے کسی مشہور و معروف پبلشر کی وساطت سے کتابی شکل میں یا پھر کسی اخبار یا ماہنامہ میں قسط وار چھپوا سکتا ہوں ۔

نتیجہ
تین مہینے ختم ہونے سے پہلے میں اپنے سفر نامے کو مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یوں جو کام پچھلے ایک سال سے تعطل کا شکار تھا، ایک طے شدہ نظم و ضبط کی بدولت صرف تین مہینوں کی قلیل مدت میں مکمل ہو گیا۔ کتاب کی اشاعت لاہور کے ایک مشہور پبلشر سانجھ پبلیکیشنز کے تحت کی جارہی ہے اور یہ سفرنامہ اگلے مہینے چھپ کر بازار میں دستیاب ہو گا۔ انشاء اللہ ۔

حرفِ آخر
دوستوں ! ہم میں ہر کوئی شہرت، دولت، کامیابی کا حصول چاہتا ہےلیکن اس کامیابی کو پانے کے لیے جس محنت ، لگن اور نظم ضبط کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس کی اہمیت سے غافل رہتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی "اتحاد، تنظیم، یقینِ محکم " کی صورت میں ہمیں جو نصیحت کی ہے اس میں کسی بھی کارِ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کی حکمت پوشیدہ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ میری اس تحریر سے پڑھنے والوں کو فائدہ ہو گا۔ اگر آپ اس بات میں کسی چیز کا اضافہ کرنا چاہیں تو نیچے کمنٹ کر کے اپنی رائے کا اظہار کریں۔

مجھ سے رابطے کے لیے
[email protected]
Saad Anwar
About the Author: Saad Anwar Read More Articles by Saad Anwar: 3 Articles with 2967 views There is not much to tell, except I have a nose to breathe and a pair of eyes to see. A head to think and heart to love. Love for everyone with malice.. View More