ںظم و ضبط

مجھ میں اور جاوید چودھری میں کیا فرق ہے؟ آپ میں سے کئی لوگ شائد ہنس رہے ہوں ۔ اردو کا مشہور محاورہ "کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگو تیلی" شائد ایسی ہی کسی صورتحال پر کہا جاتا ہے۔ مگر آپ ہنسی کے علاوہ تھوڑا غور کریں تو عزت، دولت، شہرت، ناموری، صلاحیتیں ، تعلقات، اور مداحوں کی بڑی تعداد جیسے فرق کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جاوید چودھری اور مجھ میں مختلف ہیں۔ میری ناقص رائے میں سب سے بڑا اور واضح فرق وہ عمدہ نظم و ضبط ہے جو ایک کٹھن تربیت سے گزرنے کے بعد وجود میں آیا ہے۔

ایک بات جو میں نے مشہور و معروف لوگوں کے بارے میں غور وفکر کرنے کے بعد محسوس کی وہ یہ ہے کہ کسی بھی پیشے میں کامیابی کے لیے آپ کو ایک مخصوص نظم و ضبط کو اپنانا پڑتا ہے، ورنہ آپ کی کامیابی کے امکانات روزانہ کی بنیادوں پر معدوم ہوتے جاتے ہیں۔ کوئی بھی اداکار، کھلاڑی، لکھاری، صحافی، سیاست دان، مبلغ، استاد، یا کسی کمپنی کا عام کارکن اگر اپنی تربیت ومشق کے لیے ایک مخصوص نظم و ضبط کا پابند نہیں ہوتا تو وہ رفتہ رفتہ پسِ منظر میں چلا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر باسکٹ بال کے مشہور ِ زمانہ کھلاڑی کوبے برائنٹ (Kobe Bryant)کے بارے میں اس کی ٹیم کے ٹرینر نے لکھا ہے کہ وہ ٹیم کے باقی کھلاڑیوں سے کئی گھنٹے پہلے ٹریننگ کے لیے آجاتا ہے اور پھر اپنی مخصوص مشقوں پر کام کرنے کے بعد دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ معمول کی مشقیں بھی سر انجام دیتا ہے۔ میری ناقص رائے میں یہی وہ پیش بندی ، تربیت اور کچھ مزید سر انجام دینے کی خواہش ہوتی ہے جو ایک عام پیشہ ور کھلاڑی سے ایک تاریخی کھلاڑی کو ممتاز کرتی ہے۔

ایک لکھاری کو بھی اسی طرح کے نظم و ضبط کی پابندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کم از کم ایک صفحہ روزانہ لکھنے کی مشق کسی بھی عام لکھنے والے کو ایک بہتر لکھاری میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اردو کے مشہور کالم نگار جاوید چودھری لکھتے ہیں کہ اگر آپ ایک اچھا کالم نگار بننا چاہتے ہیں تو روزانہ ایک کالم کسی بھی ایک چیز کے بارے میں لکھیں اور پھر اس پر مستقل مزاجی سے قائم رہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو ایک چائے کے کپ کے بارے میں لکھنا ہو تو آپ سوچیں کہ یہ کپ کس چیز سے بنا ہے، اس طرح کے کپ کس مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں، کون انہیں خریدتا ہے، کون انہیں بیچتا ہے، دنیا میں ایسے کپ کون کون سے ممالک میں بنتے اور استعمال ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس نوعیت کے مختلف سوالات کے جوابات اگر آپ دیں گے تو ایک نہایت ہی کارآمد کالم لکھا جا سکتا ہے۔ ہم تو ویسے بھی بہت خوش نصیب ہیں کہ موجودہ دور میں تیز رفتار انٹرنیٹ اور ورلڈ وائیڈ ویب جیسی سہولیات موجود ہیں ، جس سے آپ کو اپنی تحقیق میں بہت مدد مل سکتی ہے، ورنہ پرانے دور میں آپ کو کئی اخبار و جرائد اور کتب کھنگالنی پڑتیں اور پھر بھی آپ کی تحقیق شائد نامکمل رہ جاتی۔

تو دوستوں اور ساتھیوں کسی بھی پیشہ میں ترقی اور قدرومنزلت پانے کے لیے لازم ہے کہ آپ خود کو ایک نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھالیں۔ میں پچھلے سال کی شروعات میں اپنے اردو کے سفرنامے پر کام کر رہا تھا جو میری سہل انگاری اور سست روی کے باعث مسلسل تعطل کا شکار تھا۔ اگلی تحریر میں ، میں کوشش کروں گا کہ آپ کو یہ بتا سکوں کہ کیسے میں نے اس مشکل پر قابو پانے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا اور پھر اس طریقہ کار پر مسلسل عمل کرنے کے لیے میں نے کیا تراکیب استعما ل کیں۔ اگلی تحریر میں ،میں آپ کو ذاتی اور مشہور زندگیوں سے کچھ ایسی مثالیں پیش کر سکوں جو آپ کو ایک مخصوص نظم و ضبط میں ڈھالنے کے لیے مددگار ثابت ہو سکیں۔ تب تک کے لیے خداحافظ اور اللہ نگہبان۔
آپ مجھ سے میری ای میل یا میرے بلاگ پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔
Saad Anwar
About the Author: Saad Anwar Read More Articles by Saad Anwar: 3 Articles with 2966 views There is not much to tell, except I have a nose to breathe and a pair of eyes to see. A head to think and heart to love. Love for everyone with malice.. View More