ہوش کربے خبر

وسیع و عریض یہ ہال خواتین ، بچوں اور جوانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ، تھا تو یہ شادی ہال مگر آج یہاں ایک سکول و کالج کا سالانہ پروگرام ہوناتھا ۔خواتین ، بچوں اور نوجوانوں کی ظاہری حالت بھی ایسی تھی کہ شادی کی کسی رسم کا شائبہ ہوتا تھا۔ دروازے پر موجود خواتین نے ہمارا اور ہم سے پہلے اور بعد میں آنے والے معزز مہمانان گرامی کا استقبال خوش اخلاقی سے کیا ۔مشرقی اور مغربی لباس کے امتزاج کا شاہکار یہ خواتین اس سکول وکالج میں معلمات کے درجے پر فائز تھیں جو میرے ساتھ جانے والے اس کالج کے طالب علم نے مجھے بتا کر میری آنکھوں کو شرم و حیا ء کی اس سطح پر لانے کی کوشش کرنے لگا جو اساتذہ کے لیے آج بھی میرے دل و دماغ میں پختہ پیوست ہے ۔اس کے پہلے کہ میں اس کوشش میں ناکام ہوتا میں ہال کے اندر داخل ہوا جہاں کا نظارہ میں اس مضمون کی پہلی سطر میں درج کر چکا ہوں ۔بہر حال ،ہال کے اندر داخل ہوتے ہی ایک’’ رہبر‘‘ جو غالباً اسی سکول و کالج کی معلمہ تھی نے ہمیں ایک چمک دمک اور سجے دھجے میز کی طرف جانے کے لیے اشارہ کیا جہاں ہم بیٹھ کررنگا رنگ محفل کی رونق میں گم دنیا و مافیا سے آزاد ہوگئے ۔

دعوت نامہ پر درج پروگرام شروع ہونے کا وقت ہوچکا تھا مگر سٹیج خالی تھا ۔خیر پروگرام لیٹ ہوتے ہوتے گھنٹوں کی طوالت اختیار کر چکا تھا یعنی ٹائم کی وہ پابندی جو جلسے جلوسوں اور شادی بیاہ کی رسومات میں دیکھنے میں بکثرت ملتی تھی وہ پابندی اب اصلاحی اور تربیتی ادارے میں آج دیکھنے کو ملی جب کہ اس وقت کی پابندی کے بارے میں کافی عرصہ سے سنا بھی تھا مگر تجربہ آج ہو گیا ۔جب تک پروگرام ’’باقاعدہ ‘‘شروع نہ ہوا تب تک چھوٹے چھوٹے لاؤڈ سپیکرز سے ایک خاص قسم کا نغمہ مسلسل چلتا رہا جو غالباًاس کالج کا مونوگرام نغمہ تھا ۔گھنٹے سے نان سٹاپ چلنے والا یہ نغمہ جیسے ہی رکا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔اچانک اس مونو گرام نغمے کا بند ہونا اور تالیوں کے شور نے ہمیں بھی موبائیل سے نکلنے پر مجبور کیا اور ہم ایس ایم ایس سروس سے چند ساعتوں کے لیے مستفید نہ ہونے پر مجبور ہوئے ۔موبائیل کی سکرین سے نگاہ اٹھا کر جب سٹیج پر دیکھا تو مونو گرام نغمے کا رکنا اور تالیوں کا جوش سے بجنے کی وجہ معلوم ہوئی جو یہ تھی کہ سٹیج سیکرٹری نے مائیک سنبھال لیا تھا ۔کچھ آنکھوں اور منہ سے بولنے کے بعد پروگرام کا آغاز کیا گیا تلاوت اور نعت سے پروگرام کا آغاز ہوا جس پر ہال میں موجود خواتین نے اپنے سر کو ڈھانپا اور نعت کے ختم ہونے کے بعد ڈھانپے گئے سر کو دوبارہ ننگا کیا تو دوپٹے کی’’ اہمیت‘‘ کا اندازہ ہوا ، یا شاید آج دوپٹہ اس ڈگر پر پہنچ چکا ہے کہ یہ چند لمحوں کے لیے ہی اپنی مخصوص جگہ (سر ) کی رونق بنتا ہے ۔خیر سٹیج سیکرٹری کی بات نہ سمجھ آنے کی ایک وجہ اس ماہ جبین کا منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنا تھا جو بیشتر والدین کو سمجھ نہیں آرہا تھا جس کا ثبوت والدین کی پروگرام میں توجہ بتلا رہی تھی ۔

تقریب کا آغاز تو کافی دیر سے ہو چکا تھا اب سٹیج سیکرٹری مائیک کے سامنے کھڑی بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ ساتھ سکول و کالج کی کارکردگی والدین کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی او روالدین بھی دیکھا دیکھی اور سنا سنی تالیوں پر تالیاں بجا رہے تھے۔ ان تالیوں کی گونج میں سٹیج سیکرٹری نے پروگرام کو آگے بڑھایا اور ایک ٹیبلو کے لیے ننھے ننھے بچوں کو سٹیج پر دعوت دی گئی۔جیسے ہی یہ بچے جو تعداد میں آٹھ تھے الگ الگ لباس میں سٹیج پر آئے ۔ہر بچے کا لباس ایسا تھا جو کسی خاص علاقے کی نمائندگی کر رہا تھا مگر مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں میں ایک بچی کو کاسٹیوم (سوئمنگ کا لباس) پہنا کر سٹیج پر لایا گیا ۔ وہ بچی جب سٹیج پر آئی تو تالیاں بجانے والے والدین ، اسے دیکھنے والے بھی والدین اور اس کے لباس اور نمود و نمائش پر فخر کرنے والے بھی والدین ۔ اس ٹیبلو پر میری غیرت بھی بس اتنی سی تھی کہ چند لمحوں کے لیے میں نے نظریں جھکا لیں ،ٹانگوں میں غیرت ہوتی تو یقینا میں اس محفل سے اٹھ جاتا جب کہ ہاتھوں اور بازوؤں میں تو غیرت کب کی سلب ہو چکی ہے ۔

اس کے بعد یہ تعلیمی پروگرام جو اب تعلیمی شو کم سٹیج شو زیادہ لگ رہا تھا آگے سے آگے بڑھتا گیا۔ میرے سمیت کسی کو بھی ظہر کی اذان کی نہ آواز آئی اور نہ ہی کسی نے سننے کی کوشش کی ۔ ذہن ابھی کاسٹیوم والی بچی کی وجہ سے منتشر تھا کہ ایک اور المیہ میری سوئی ہوئی غیرت کو جگانے کے لیے وقوع ہوا۔ اس بار کاسٹیوم میں ملبوس چار پانچ سالہ بچی سٹیج پر نہیں تھی بل کہ ایک نوجوان لڑکی جو غالباً انٹر میڈیٹ لیول کی طالبہ تھی سٹیج پر رقصاں تھی، کسی انڈین فلم کا بے ہودہ اور بے ہنگم سا گانا ہال میں گونج رہا تھا ۔تالیوں ، سیٹیوں اور ہوٹنگ کے شور کے درمیان وہ نوجوان لڑکی سٹیج پر رقصاں تھی ۔مجھے ایسے لگا کہ جیسے یہ چند گھنٹے سالوں پر محیط ہوچکے ہیں اور وہ بچی جو کاسٹیوم میں سٹیج پر آئی اب نوجوانی کی صورت میں سٹیج پر رقصاں ہے لیکن اس سے آگے کا خیال آتے ہی ذہن میں گھمبیر سا بھونچال وقوع ہواجس کو جھٹلانا اس وقت میری مجبوری تھی اور خاموشی میں مجھے اپنی سلامتی نظر آئی مگر یہ میرا خام خیال ہی ہے جو آگ آج میرے آس پاس لگی ہوئی ہے وہ ایک دن مجھے بھی جھلسا دے گی وہ آگ میری مجبوری بھی نہیں دیکھے گی اور نہ میری سلامتی سے اسے کوئی سروکار ہوگا ۔

گو کہ تعلیمی یہ پروگرام ختم ہوئے کافی وقت گزر چکا ہے مگر میرا ذہن اب بھی ایک گھمبیر سی کش مکش میں ہے ۔ کش مکش بھی ایسی کہ نہ حل ہوتی ہے اور نہ ہی ذہن سے اوجھل ہوتی ہے کسی سے ذکر کرنے سے بھی ڈرتا ہوں کہ مجھے ان دلائل سے ڈر لگتا ہے کہ جو برائی کو بھی نیکی اور برے کو بھی اچھے میں گرداننے کے لیے دئیے جاتے ہیں مگر ذہن پر بھی منتشر ہے۔تعلیمی اداروں کے بارے میں سوچتا ہوں جوکہ تعلیم کا منبع سمجھے جاتے ہیں ،طالب علم کی شخصیت میں نکھار کا باعث ہوتے ہیں ، طالب علم کواچھے اور برے میں تمیز کرناسکھاتے ہیں ، طالب علم کی مستقبل کی عادات و اطوار کا باعث بنتے ہیں مگر کون سے تعلیمی ادارے ؟ایسے جیسے ہمارے تعلیمی ادارے طالب علم کو تعلیم دے رہے ہیں یہ تو نہ ہی طالب علم کی شخصیت میں نکھار کا باعث ہیں تو نہ ہی طالب علم کو اچھے او ربرے میں تمیز کرنا سکھا رہے ہیں اور نہ ہی طالب علم کی مستقبل کی زندگی میں اچھی عادات و اطوار کا باعث بن رہے ہیں پھر اس بے راہ روی کا شکار نوجوان نسل سے گلہ کیوں کیا جارہا ہے کیوں انھیں دھتکارا جا رہا ہے کیوں ان کے اقدامات کوسیاسی و معاشرتی مفادات حاصل کرنے کے لیے ڈھال بنایا جارہا ہے ۔جب تربیت ہی ایسی کی گئی ہو تو نتیجہ وہی نکلے گا جو آج ہمیں جلسوں میں یا کسی پروگرام میں نظر آتا ہے ۔اس بے راہ روی کی آگ کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا ورنہ ٹہنیاں کاٹنے سے افادہ شاید ہو مگر کب تک ؟یہ سب نے سوچنا ہو گا اور سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا ورنہ وہ آگ جس سے ہم اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں ہمیں بھی جھلسا دے گی ۔۔۔
 
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78190 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.