اغواء کی کہانی ۔ تعاقب

اغواء کی کہانی ، ڈاکٹر مطیع اللہ شاہ کی زبانی تعاقب

سردیوں کی مختصر "مازدیگر"پر شام کے سائے اورڈوبتے سورج کی سرمئی کرنیں فارم ہا ؤس کی بیرونی دیوار پر پڑ رہی تھیں ۔میں فارم کی بیرونی دیوار سے ٹیک لگائے اس منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔کہ ذہن میں ایک خیال بجلی کی سی تیزی سے لپکا کیا اس گھر ۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے فوراً جھٹک دیا۔ مجھے اب سردی محسو س ہو نے لگی تھی۔

سیکورٹی لائیٹس کو آ ن کرتے ہوئے پولٹری فارم کا ایک چکر لگایا اور یہ دیکھ کر مجھے پریشانی سے ہونے لگی کہ گذ شتہ ایک ہفتے سے غائب پولٹری فارم کے کرایہ دار ابھی تک واپس کیوں نہیں آئے؟ اس وسیع و عریض احاطے میں کوئی چوکیدار بھی تو موجود نہ تھا۔ اپنی گاڑی میں بیٹھنے کیلئے دروازہ کھولا ہی تھا کہ فارم کے کرایہ داروں میں اسے ایک مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا۔میں نے اُس سے اُنکی پولٹری فارم پر غیر موجودگی اور گذشتہ تین ماہ سے بجلی بل اور کرایہ عدم ادائیگی پر بات کی تو وہ دوسرے دن حساب کتاب صاف کرنے کا وعدہ کر کے پولٹری فارم کی جنوبی عقبی دیوار پھلانگ کر چلا گیا۔

شا ید اسے کچھ "ضروری کا م"درپیش تھا ۔میں اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا کہ بجلی آ نے پر سیکورٹی لائیٹس چیک کر کے چھا ؤنی اپنے گھر چلا جاؤں جہاں پر روز اِس وقت بیوی بچے میرے انتظار میں ہوتے۔ یہ گذ شتہ ایک سال سے میر ا معمول تھا ۔ مجھے گاڑی میں بیٹھے ہوئے 15/20منٹ ہی ہوئے تھے کہ احاطہ کا مرکزی دروازہ دوبا رہ کھلا ۔میں نے گاڑی کے عقبی شیشے سے چار افراد کو اندر آ تے دیکھا۔وہ گاڑی کو نظر انداز کر کے آ گے گھر/فارم کی جانب جانے لگے کہ ان میں ایک کی نگاہ مجھ پر پڑی تو اُس نے اشارہ کر کے دوسروں کو آ گے جانے سے روک دیا۔چا بیاں گاڑی میں چھوڑ میں با ہر نکل آ یا ۔حسب عادت گر مجو شی سے ملا اور اُنکی آ مد کا مقصد پو چھا ۔وہ میرا پولٹری فارم کرایہ پر حاصل کر نا چاہتے تھے۔میں نے معذرت کی کہ میں اس سلسلے میں پہلے ہی معاہدہ کر چکا ہوں ۔انھوں نے اضا فی کرایہ کا لالچ دیا ۔میں نے انکار کیا کہ یہ میرے مزاج کے مطابق نہیں ۔وہ میرا پو لٹری فارم دیکھنے پر اصرار کر نے لگے ۔تاریکی کے سائے گہرے ہونے لگے تھے ۔ایک وسیع وعریض رقبہ جس کے ارد گرد آ ٹھ فٹ اونچی چار دیواری اور بھول بھلیوں جیسی تعمیرات، میں کچھ سوچے بغیر فارم دکھا نے چل پڑا۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا کرایہ پر پولٹری فارم حاصل کر نے کیلئے افراد کی آ مد و رفت ایک معمول کی با ت تھی ۔لیکن اس وقت اور چار اجنبی چہرے ۔۔۔۔میں صورتحال کا ادراک نہ کر سکا۔پولٹری اور فارمنگ پر واجبی سے گفتگوکرتے ہوئے دو افراد غیر محسو س طریقے سے مجھے ایک زیر تعمیر کمرے کے قریب لے آ ئے جبکہ دوسرے دو فارم دیکھنے یا نگرانی کرنے پولٹری شیڈ ز کی جانب چلے گئے ۔یہ سارے نوجوان اورقو ی جسہ تھے۔ ہماری گفتگو جا ری تھی کہ ان میں سے ایک نے اچا نک میرے گریبان میں ہاتھ ڈال کر دونوں کالرز کو قریب کرتے ہوئے میرے کلے پر دیاؤ ڈالنا شروع کر دیا ۔میں صورتحال کو بھانپ گیا۔میں نے انھیں بیٹھ کر بات کر نے کا کہا ۔ابھی اتناہی کہہ پایا تھا کہ دوسرے نے پھرتی سے میر ے جسم کے نازک حصے کو اپنی گرفت میں لیکر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ۔میں نیم بے ہو ش سا ہو گیا ۔مجھے یہ تک پتہ نہ چل سکا کہ کب کس نے اور کیسے اٹھایا لیکن جب اوسان بحال ہوئے تو میں فرش پر پڑاتھا۔ میرے ہاتھ ،پا ؤں ،سینے اور گلے پر ایک دبا ؤ تھا۔
وہ سب مجھے قابو کر چکے تھے ۔اپنے بچا ؤ کیلئے میں نے اونچی آواز سے چیخیں لگانی شروع کیں تو میرے سر اور منہ پر گھو نسوں کی بارش شروع کر دی گئی۔ایک نے میرے گلے پر اپنا گھٹنا رکھ کر اتنا دبا ؤ بڑھایاکہ مجھے سانس بند ہوتی محسوس ہوئی ۔کچھ سوچتے ہوئے میں نے مزاحمت چھوڑ دی۔ ایک نے اپنی جیب سے سرنج نکلی اور ایک ماہر ڈاکٹر کی طرح میرے بائیں ہاتھ کی رگوں میں دوا اتار دی۔میری آنکھوں کے سامنے اند ھیرسا ا چھانے لگا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی

پس پردہ: اس دن کچھ سرگرمیاں ایسی بھی تھیں جومیں تو نہ دیکھ سکا تھا ۔لیکن مجھ سے تعلق رکھنے والوں نے جو کچھ بتا یا اس سے منظر کچھ اس طرح ترتیب پاتا ہے کہ ایک ایمبو لنس جس پر پشاور کے ایک معروف علا قہ کے میڈیکل سنٹر کا نام تحریر تھا ۔کچھ افراد لیے پنڈی روڈ سے منگل بی بی روڈ کی جانب مڑی تھا نہ صدر کی اپنی نئی عمارت میں منتقلی اور حفا ظتی وجوہ کی وجہ سے روڈ ٹریفک کیلئے بند تھی ۔چنا نچہ ایمبو لنس واپس مڑی اور پنڈی روڈ سے ایک دوسرے راستے سے داخلہ کی کوشش کی جو ایک بڑے میدان سے ہو کر میرے فارم ہا ؤس کی جنوب مغربی سمت آ ملتا تھا۔اس میدان میں علاقہ کے نوجوان کثیر تعداد میں کھیل کود میں مصرف تھے ۔گاڑی گزرنے کا راستہ نہ پا کر چار افراد گاڑی سے اتر کر پیدل میرے گھر کی جا نب چل دیے۔جبکہ گاڑی واپس منگل بی بی روڈ جا کر روڈ کھلنے کا انتظار کر نے لگی ۔

ساڑھے سات بجے روڈ کھلنے پرایمبو لنس میرے گھر کے احاطہ میں داخل ہوئی اور 10/15منٹ کے بعد اپنا "شکار "لیکر منزل کی جانب چل دی۔ایک "راہ نما" گھرکا مین گیٹ اندر سے بند کر کے عقبی دیوار سے گود گیا ۔

یہ "راہ نما "شام 5بجے سے رات 8بجے تک ان اجنبیوں کو ہدایت دینے اور راہ نمائی کر نے آ س پا س موجود رہا۔

لوڈ شیڈ نگ اور سردی کے باعث لوگ گھروں کے اندر تھے لہذا کوئی بھی صورت حال کا ادراک نہ کرسکا۔دوسری جانب جب میں وقت مقررہ پر گھر نہ پہنچا تو موبائل پر مجھ سے رابطہ کی کوشش کی گئی۔جو کہ مسلسل بندجا رہا تھا ۔وقت گزرنے ساتھ ساتھ تشوش میں اضا فہ ہوا تو ہر اس جگہ میری تلا ش کی گئی کہ جہاں میں جا سکتا تھا ۔جب کہیں سے کوئی اطلا ع نہ ملی تو کچھ عزیز رات ساڑھے آ ٹھ بجے مجھے ڈھونڈنے فارم ہا ؤس آ ئے ۔دیوار کو د کر اند ر داخل ہوئے ۔میری گاڑی موجود تھی اور چابی سوئچ میں لگی ہوئی تھی۔لیکن میں اُن کو کہیں نہ مل سکا۔پڑوسیوں سے معلومات کی لا حاصل کوشش کے بعد رات 9:30پر تھانہ متعلقہ میں میری گمشدگی /اغوا کی باقا عدہ رپورٹ درج کردی گئی ۔رات 10بجے مختلف چینلز پر اس ٹکر"سابقہ یونین نا ظم ڈاکٹر مطیع اللہ شاہ کو اپنے فارم ہا ؤس سے اغواکر لیا گیا" کہ ساتھ ہی اس طویل کہانی کا آ غازہو گیا کہ جو 12جولائی کی رات اپنے اختتام کو پہنچی۔(جاری)
Muhammad Tauseef Paracha
About the Author: Muhammad Tauseef Paracha Read More Articles by Muhammad Tauseef Paracha: 16 Articles with 17261 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.