مستقبل خطرے میں،بچاؤ کیسے ممکن ہو؟

تعلیم ایک ایسا زیور ہے جسے نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی چوری کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس زیور کے مالک اسے جسے چاہیں دے سکتے ہیں۔ یہ ایک لازوال دولت ہے جو خرچ کرنے سے کبھی نہیں گھٹتی۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی پسماندگی کا شکار ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث کے مطابق : ــ’’علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ لیکن آج کے دور میں چین جانا تو دور کی بات ، اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی علم حاصل کرنے کا راستہ دشواری سے بھر پور ہے۔ غریب آدمی دو وقت کی روٹی سے بمشکل اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھرے یا پھر اپنے بچوں کواپنا پیٹ کاٹ کے تعلیم دلوائے۔ کچھ صاحبِ حیثیت لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ تو کر دیتے ہیں مگر اسکا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نا انصافی ہی انکا مقدر بنتی ہے۔اور اس ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں جاگیردارانہ نظام رائج ہے ۔کچھ نا اہل جاگیردار اور وڈیرے ہرطرح سے تعلیم کو اپنی میراث سمجھتے ہیں اور انہی کی وجہ سے حقداروں کا حق مارا جاتا ہے۔ ملک کے اعلیٰ عہدوں پہ یہی جاگیردار اور انکی بگڑی اولادیں نسل در نسل براجمان رہتی ہیں۔ اس سے ملک میں پڑھے لکھے افراد کے لیے روزگار کے مواقع اور کم ہو جاتے ہیں۔ ان سب حالات میں طلبہ کو علم حاصل کرنے میں نہایت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

طلبہ کی رہنمائی اور مشاورت کے لئے تعلیمی اداروں میں کوئی مناسب کار کردگی سامنے نہیں آتی۔ ہمارے ملک میں میٹرک پاس طلبہ کی کوئی وقعت نہیں۔ صرف میٹرک پاس طلبہ کو ملازمتیں نہیں دی جاتیں۔ اسی لئے طلبہ کم از کم گریجویشن کرنا لازمی سمجھتے ہیں تا کہ ملازمت کے حصول میں آسانی ہو۔لیکن اسکے ساتھ ہی جب وہ معاشرے میں پڑھے لکھے افراد کو بے روزگار اور نوکری کے حصول کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہوا دیکھتے ہیں تو حوصلہ شکنی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان کم ہو جاتا ہے۔

بعض طلبہ گھر میں عدم توجہ کا شکار رہتے ہیں جسکی وجہ سے انکی ذہنی سطح کا معیار نہایت کم ہو جاتا ہے۔پھر وہ بات بات پہ چڑ چڑاہٹ ضاہر کرتے ہیں اور بہت جلد احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گھر میں توجہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ باہر کے ماحول میں دل لگی کا سامان تلاش کرتے ہیں جسکی وجہ سے بہت سے نوجوان بچے اور بچیاں غلط صحبت اختیار کر لیتے ہیں۔اور یہی غلط صحبت سکولوں، کالجوں اور کو چنگ سینٹرز سے غیر حاضری کا سبب بنتی ہے۔ طلبہ اپنے والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک کے تعلیمی اداروں کا کہہ کر گھر سے نکلتے ہیں لکن درحقیقت وہ سارا وقت سیر سپاٹوں میں گزار کر گھر کی طرف تشریف لے جاتے ہیں۔ لاپرواہ والدین یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ انکے بچے تعلیم حاصل کر کے آ رہے ہیں۔ اگر غلطی سے کبھی کسی والدین کو اپنے بچے کی کر توتوں کے بارے میں کہیں سے بھنک لگ جائے اور وہ اپنے بچوں کو کچھ روک ٹوک کریں تو بچے اپنے والدین سے باغی ہو جاتے ہیں اورایک عجیب سی جنونی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ اس حد تک اپنے جنون کے غلام ہو چکے ہوتے ہیں کہ ا نہیں نہ تو ماں باپ کی تمیز رہتی ہے اور نہ کسی چھوٹے بڑے کی ۔ ایسے بچے اکثر منشیات کی بری لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی کڑی بھی انہی سب باتوں سے جڑی ہے۔

اگر طلبہ کو ابتدأ سے ہی صحیح تعلیمی معیار اور نمائندگی فراہم کی جائے تو معاشرہ کئے بڑے بڑے جرائم اور برائیوں سے بچ سکتا ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ اور گھروں میں والدین کو چاہئیے کہ ہر بچے کو برا بر اور خصوصی توجہ دیں جس سے انکے رویے اور ذہن دونوں ٹھنڈے رہیں اور انکے دماغ ہر طرح کے ذہنی انتشار سے پاک رہیں۔ جب کسی بیج کو صحیح طرح بویا جائے اور اسے بروقت پوری توجہ سے کھاد، پانی اور جراثیم کش ادویات فراہم کی جائیں تو اسکا درخت طاقتور اور ثمردار پروان چڑھتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر طلبہ کو ابتدأ سے ہی معیاری تعلیم اور توجہ فراہم کی جائے تو ایسے بچے معاشرے میں بہت ترقی کریں گے اور اپنی محنت سے ملک و قوم کا نام روشن کریں گے۔
Hafiza Hamnah
About the Author: Hafiza Hamnah Read More Articles by Hafiza Hamnah: 10 Articles with 8944 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.