کتابوں سے کیا ملتا ہے!

ہر انسان کی زندگی میں کتاب کی بڑی اہمیت ہے ۔۔۔کچھ لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔۔۔اکثریت مادی ضروریات کی تکمیل میں سرگرداں ہیں۔۔۔کسی سے کوئی بات سن لی یا کہیں کسی اشتہاری بورڈ پر پڑھ لی ۔۔۔تو وہ یاد رہ جاتی ہے۔۔۔آج کل اشتہارات کی بھرمار ہے ۔۔۔اور ہم لوگ اشتھارات کی زبا ن بولنے لگے ہیں۔۔۔جیسے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔۔۔کیوں کہ اپنا ہے۔۔۔نام ہی کافی ہے۔۔۔ماں خوب جانتی ہے۔۔۔طرح طرح کہ اشتہارات اپنی زندگیوں میں بھر پور رنگ جما رہے ہیں۔۔۔

اگر آپ کتابوں کی دکان پر کسی مخصوص کتاب کی خریداری کیلئے گئے ہیں تو بہت اچھی بات ہے ۔۔۔اگر آپ کسی نامور مصنف ، شاعر یا افسانہ نگار کہ نام سے کتاب کہ متمنی ہیں تو بھی ٹھیک ہے۔۔۔لیکن آپ صرف کتاب خریدنے چلے گئے ہیں۔۔۔تو آپکو کم و پیش پندرہ یا تیس کتابوں کی ورق گردانی کرنا پڑے گی۔۔۔پھر شائد آپ کسی کتاب کی خریداری پر اطمنان کا سانس لے سکیں۔۔۔بعض اوقات ایسابھی ہوا ہے کہ کتاب کا سرورق ٹائٹل یا نام آپ کو متاثر کئے بنا رہے پاتا۔۔۔آپ بغیر کسی ورق گردانی کہ اس کتاب کو خرید لیتے ہیں۔۔ اکثر کتابیں اپنے نام کی بدولت بہت مشہور ہوئیں۔۔۔۔فرحت عباس شاہ صاحب کی آلگا جنگل درو دیوار سے اور شام کہ بعد ۔۔۔جناب منیر نیازی صاحب کی سفید دن کی ہوا۔۔۔مستنصر حسین تارڑ صاحب کی قربتِ مرگ میں محبت، حاصل گھاٹ۔۔۔مظہر السلام صاحب کی مردہ پھولوں کی سمنفی۔۔۔پروین شاکر صاحبہ کی خوشبو۔۔۔رحیم گل صاحب کی جنت کی تلاش۔۔۔(ایک طویل فہرست مرتب دی جاسکتی ہے ایسی کتابوں کی)۔۔۔ اس طرح سے بے تحاشہ کتابیں ہیں جو اپنے نام سے ہی پڑھنے والے کی توجہ حاصل کر لیتی ہیں۔۔۔یقینا پڑھنے والے میں بھی کوئی خصوصی صلاحیت قدرت نے رکھی ہوتی ہے۔۔۔جس سے وہ اپنی من چاہی تحریر تک پہنچ جاتا ہے ۔۔۔آج کہ اس سماجی ذرائع ابلاغ ( سوشل میڈیا)کہ اس دور میں بھی مطالعے کا شوق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔۔۔جو آخبار کی شہہ سرخیاں تو انٹر نیٹ پر پڑھ سکتے ہیں مگر تفصیلات یا اداریوں کیلئے اخبار ہی اٹھاتے ہیں۔۔۔اس طرح کتابوں سے محبت کرنے والے آج بھی ویسے ہی ہیں۔۔۔جس طرح اچھے لوگوں کی صحبت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ۔۔۔اسی طرح کتابوں کہ لمس سے بھی بہت کچھ ملتا ہے ۔۔۔

آج کتابیں بہت ہیں ۔۔۔بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔۔۔ہر موضوع کو زیرِ بحث لایا جارہا ہے۔۔۔مگر بہتری کہ بجائے بگاڑ پیدا ہوا جا رہا ہے۔۔۔معاشرے نے اپنی روش بدل لی ہے ۔۔۔جہاں سے تبدیلی آیا کرتی تھی ۔۔۔وہ کھڑکیاں وہ دروازے اب نہیں بنتے۔۔۔ان کھڑکیوں اور دروازوں سے چھن چھن کر آنے والی تبدیلی اب بغیر کسی روک ٹوک کہ چلی آرہی ہے۔۔۔ہم لوگ ہمارا معاشرہ شرم و حیاء سے عاری ہوا جارہا۔۔۔جس سے جیسے چاہو بات کرو۔۔۔چھوٹا اب چھوٹا رہنے کو تیار ہی نہیں ہے۔۔۔بڑے کی کیا بات کریں۔۔۔کتابیں آج بھی پڑھی جا رہی ہیں۔۔۔مگر کتابوں سے بہت پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے آراستہ و لیس لوگ تو تیار ہو رہے ہیں ۔۔۔معیشت دنیا کا سب سے گھمبیر مسلۂ ہے سب اسے سدھارنے پر جتے ہیں۔۔۔معاشرہ اس معیشت کہ چکر میں چکرا رہا ہے۔۔۔بھوکا فاقے کررہا ہے اور فاقہ ذدہ لقمہ اجل بن رہا ہے۔۔۔اس معیشت کی بھینٹ نہ جانے کتنے ماں باپ اپنے معصوم بچوں کو ابدی نیند سلا چکے اور اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دوہنا پڑے۔۔۔بھوک و فاقہ ہمیشہ سے ہے مگر بے حسی ایسی نہیں تھی۔۔۔روز بہ روز انسانیت اپنی قدر و منزلت کھوتی جارہی ہے۔۔۔لوگوں کا حجوم ہے ۔۔۔جو صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی بولی سمجھی جائے ۔۔۔اور اسی کی بولی بولی جائے ۔۔۔کتابوں سے محبت کیجئے ۔۔۔کم سے کم اپنے آس پاس جو کتابیں ہیں ان پر گاہے بگاہے کپڑے سے گرد جھاڑئے ۔۔۔یہ آپ کو دعائیں دینگیی۔۔۔کتابیں زندہ ہوتی ہیں ۔۔۔کبھی تنہائی میں ان سے باتیں کیجئے۔۔۔ان میں جو راز پوشیدہ ہیں ۔۔۔لکھنے والے کہ جو راز پوشیدہ ہیں۔۔۔وہ کھول کھول کربتائینگی۔۔۔

نیشنل بک فاؤ نڈیشن ایسا ادارہ ہے جو یوں سمجھ لیجئے کہ وہ کتابیں مفت بانٹ رہا ہے۔۔۔سال کہ آخر میں ایک بہت بڑابین الاقوامی سطح کا کتابوں کا میلہ کراچی میں منعقد ہوتا ہے۔۔۔اس کہ علاوہ کتابوں کہ چھوٹے چھوٹے بازار لگائے جاتے ہیں۔۔۔معاشرے میں بہتری لانی ہے تو کتابوں سے جڑنا ہوگا۔۔۔ہمیں تب ہی پتہ چل سکے گا کہ کتابوں سے ہمیں کیا ملا۔۔۔
Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 526 Articles with 406245 views Take good care of others who live near you specially... View More