’’تنزانیہ‘‘ میں گزرے چند دن

’’متحدہ جمہوریہ تنزانیہ‘‘ مشرقی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے جو برطانیہ سے آزادی کے بعد اپریل 1964 میں معرض وجود میں آیا۔ ہمیں اسلامک ہیلپ کے فلاحی کاموں کے سلسلے میں وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے قافلے میں پیر سلطان فیاض الحسن سروری قادری، پیر سلطان نیاز الحسن سروری قادری، علامہ قاری ظہور احمد سیفی اور مولانا محمد عامر شامل تھے۔ تنزانیہ کے شہر’’ دارالسلام‘‘ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی احباب کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پہنچے۔ یہاں کی مقامی آبادی سیاہ فام لوگوں پر مشتمل ہے البتہ خاصی تعداد میں اردو بولنے والے ایشیائی باشندے بھی موجود ہیں جن کے آبا ء و اجداد تقریبا ڈیڑھ صدی قبل ہجرت کر کے یہاں روزگار کے سلسلے میں آئے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں عربی لوگوں کی بھی کافی آبادی ہے۔ اس ملک کی تقریبا نصف آبادی مسلمان اور نصف عیسائی مذاہب پر مشتمل ہے۔ یہاں کے باشندوں میں مذہبی حوالے سے رواداری پائی جاتی ہے۔ مسجدوں میں پانچ وقت کی لاؤڈسپیکر پر اذانیں ہوتی ہیں اور کسی دوسرے مذہب کو اس پر اعتراض بھی نہیں۔ ہم نے نماز جمعہ دار السلام میں ادا کی جہاں پیر سلطان فیاض الحسن سروری قادری نے فکر انگیز خطاب کیا اور قاری ظہور احمد سیفی نے خطبہ و امامت کے فرائض سرانجام دئے۔ اسی رات اس مسجد کی انتظامیہ نے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ پیر سلطان فیاض الحسن قادری کی صدارت میں معراج النبیﷺ کے حوالے سے خصوصی پروگرام ترتیب دیا ہوا تھا جس میں ہمیں خصوصی طور پر شرکت اور خطاب کی دعوت دی گئی۔ ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کی یہ چوتھی نسل ہے لیکن ابھی تک ان لوگوں میں اپنے مذہب، ثقافت اور روایات سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لوگ دین سے بہت محبت کرنیوالے ہیں اور روائتی مہمان نوازی کا جذ بہ قابل تحسین ہے۔

اگلے دن دارالسلام سے چار سو میل دور ’’پنگانی‘‘ ڈسٹرکٹ میں گئے۔ پچاس میل کا راستہ کچا اور غیر ہموارتھا ۔گاڑی میں ہچکولے اور بل کھاتے کھاتے آخر رات کے دوسرے پہر ہم وہاں پہنچ گئے۔ یہ علاقہ سرسبزو شاداب ہے۔ ناریل اور انناس کے درختوں کے تا حد نظر جھنڈ نظر آتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ باغات سرکاری ملکیت میں ہیں جبکہ باقی بڑے بڑے جاگیر داروں کے ہیں۔ مقامی آبادی حد درجہ غریب اور خط غربت کی آخری لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ لکڑی کی شاخوں سے تنی ہوئی مٹی کی کمزور دیواریں اور انناس اور ناریل کی چھالوں سے بنی چھتوں پر مشتمل یہ جھونپڑی نما گھر ان لوگوں کی رہائش گاہیں ہیں۔ دو فیصد کے قریب گھر اینٹ سے بنے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں چند گھروں میں مطالعاتی جائزہ کے طور پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک چھونپڑی نما گھر میں پانچ سے ساتھ افراد کا کنبہ رہ رہا ہے جن کے پاس کھانے کے برتن تک ناکافی ہیں ۔ بارش کی صورت میں یہ گھر جل تھل ہو جاتے ہیں لیکن یہ لوگ اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکمرانوں کو زرا بھر اپنے ملک کے ان باشندوں کو بہتر اور معیاری طرز زندگی دینے کا احساس نہیں ۔ سننے میں آیا ہے کہ وہاں کی اشرافیہ بھی بد عنوانی میں تیسر ی د نیاکے کسی ملک سے کم نہیں۔یہ لوگ بھی تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے حالات سے سمجھوتہ کیے کسمپرسی کے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں اپنے حقوق سے آگاہی ہے اور نہ ان کے حصول کے لئے جد و جہد کا جذبہ۔

یہ ساری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسجدوں کی حالت بھی گھروں کی طرح ناگفتہ بہ ہے۔ یہاں پر مذکورہ فلاہی ادارے کی طرف سے تیس مساجد زیر تعمیر ہیں۔ کچھ مکمل ہو چکی ہیں ۔ ہم نے ظہر اور عصر کی نماز یں مقامی لوگوں کے ساتھ ادا کیں اور دو مساجد کا افتتاح کیا۔ وہاں خالص شہد کی پیداوار بھی کافی ہے۔ اسلامک ہیلپ نے کچھ لوگوں کو شہد بنانے کیلئے لکڑی کے ڈبے اور دیگر لوازمات بھی دیے ہیں تاکہ مستقل بنیادوں پر ان کے روزگار کا سلسلہ چلتا رہے۔ وہاں پانی کی بھی شدید قلت ہے۔ لوگ دور دراز سے پانی بھر کے لاتے ہیں۔ زمین میں پانی تو موجود ہے لیکن اسے نکالنے کیلئے مقامی آبادی کے پاس وسائل نہیں جبکہ حکومت احساس ذمہ داری سے عاری ہے۔ اسلامک ہیلپ کی طرف سے وہاں پر لگائے گئے چند کنووں کا بھی ہم نے دورہ کیا جہاں سے دستی پمپ کے ذریعہ لوگ پانی کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور معاونین کو دلی دعائیں دیتے ہیں۔ ان منصوبہ جات کی انتظامیہ میں رضاکارانہ طور پر فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک عیسائی عورت’’ مس عینی ‘‘بھی ہے جو انسانی خدمت کے جذبے کے ساتھ دن رات محنت کرتی نظر آتی ہے۔ اگر وہاں کی حکومت احساس کرے تو بہترین تورازم پوئنٹس اور ھوٹل بنا کر اس علاقے کو ترقی دے کر لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرسکتی ہے لیکن انہیں اپنے محلات کی زیب و آرائش اور لوٹی ہوئی دولت کو سنبھالنے سے ہی فرصت نہیں۔ لوگوں کی غربت سے فائدہ اٹھا کر کئی فلاحی ادارے ان مسلمانوں کی مدد کی آڑھ میں ان کے مذہب کو بھی تبدیل کروا رہے ہیں یا انہیں بد عقیدہ بنا رہے ہیں جو کہ ایک المیہ سے کم نہیں۔

یہاں سے واپسی پر ایک دن آرام کرکے ہم نے اگلے دن اسلامک ہیلپ کے دارالسلام میں قائم’’ قرطبہ گرلز ہائی سکول ‘‘ کا دورہ کیا ۔ یہ ایک خوبصورت تین منزلہ وسیع و عریض عمارت ہے جو کئی کمروں ، وسیع لان اور بڑے بڑے ہالوں پر مشتمل ہے۔ اس سکول میں عصری نصاب کے ساتھ ساتھ بنیادی اسلامی تعلیمات بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اس سکول میں تین سو بچیوں کی گنجائش موجود ہے۔ اس سکول کی ہیڈ ٹیچر اور مینیجر نے ہمیں پروجیکٹر کی مدد سے جملہ پہلووں کے حوالے سے بریفنگ دی جو انتہائی متاثر کن تھی۔ ہم نے کلاسوں میں جا کر بچیوں اور اساتذہ سے بھی ملاقات کی اور احوال پوچھے۔ اگلے دن ہم نے دارالسلام سے چالیس میل دور دیہاتی علاقے میں یتیم بچوں اور بچیوں کیلئے قائم ’’ ایکو ولج‘‘ کا دورہ کیا۔ یہ تیس ایکڑ پر مشتمل وسیع رقبہ پر اسلامک ہیلپ کاایک منفرد منصوبہ ہے جس میں ابھی تک دو گھر بنے ہیں ۔ ایک گھر میں پانچ کمرے ہیں جن میں دس یتیم بچیاں، ایک ان کی (منہ بولی) ماں اور ایک منتظمہ رہتی ہیں۔ بچوں کی تعلیم ، رہائش اور خوراک کی جملہ سہولیات میسر ہیں ۔ ’’ایکو ولج ‘‘ میں فش پاؤنڈ، جانوروں کا فارم اور مرغی خانہ بھی قائم ہے۔ اس سارے پراجیکٹ کی مینیجر امریکہ سے آئی ہوئی ’’علیشہ‘‘ نامی تیس سال کی ایک عیسائی عورت ہے جو انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ رضاکارانہ طور پر یہ خدمات سرانجام دیتی ہے۔ وہاں کا موسم قدرے خوشگوار تھا جوکہ پاکستان سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ لوگوں کی محبتون کے جذبات ہم کبھی نہ بھلا سکیں گے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ زمین کے ہر حصے میں قدرت کی عنایات میں تو کوئی کمی نہیں البتہ حکمرانوں کی بدعنوانیاں اور غیر ذمہ دارانہ رویے عوام کیلئے زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ دوسری طرف عوام کا حالات سے سمجھوتہ اور اپنے حقوق سے عدم آگہی بھی حکمرانوں کو کھل کر عیاشیوں کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219058 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More